ائے محب صادق! یہ ہمارے حبیب محمدﷺ ہیں!

مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی

ویسے تو سیرت نبوی ﷺ پرخیرون القرون سے ہی نہ جانی کتنی کتابیں لکھی گئی، جمالِ محبت، عکسِ محمدی، حیاتِ محمدی ﷺکی جامعیت اور اس خصوصیت کو بتلانے کے لئے نہ جانے کتنے مصنفوں نے اپنے قلمِ اشہب کو اس میدانِ سیرت سر کرنے کرنے کے لئے چلایا، شاید کہ دنیا میں جتنا کچھ حضرت محمد ﷺ کی سیرت مبارکہ پر لکھاگیا ہے کسی شخصیت پر اسقدر لکھاگیا ہو، عربی، فارسی، اردو اور دنیا کی رائج الوقت زبانوں میں محبان محمدﷺ نے آپ کی تعریف وتوصیف اور آپ ﷺ کے اوصاف وخصائص اور آپ ﷺ کی حیات طیبہ کے ایک ایک گوشہ کو موضوع بحث بنا کر اس میں علم وعمل کے ہیرے موتی تلاش کرنے کی کوششیں کی، انہیں ہی سیرت نگاروں میں جنہوں نے اپنی جامع اور لاجواب اور لاثانی سیرت نبوی پر کتاب لکھ محبت ِ محمدی ﷺ کا شاید حق ادا کرنے کی کوتگ ودوکی جو کہ ہر مومن صادق کے لئے اپنی اخروی نجات کا سب سے بڑا اور سب سے کامل وثوق ذریعہ ہے، عالم عرب کے مشہور عالم دین ابو بکر جابر الجزائری ہیں جو اہل علم طبقہ سیرت کے علاوہ اپنی گوں گوں اور نوع بنوع منظم ومربوط اور مفید کتابوں کے ذریعہ مشہور ومعروف ہیں ، واقعۃ ان کی کتاب سیرت نبوی پر اس لائق اور قابل ہے کہ ہر شخص اس کو اپنے آنکھوں کو سرمہ بنائے اور اس کے مطالعہ سے جمال محمدی اور حیات محمدی کو اپنے دل ونگاہ میں سجائے اور بسائے، انہوں نے یہ کتاب ’’ھذا الحبیب محمد ﷺ یامحب‘‘بزبان عربی لکھی ہے اور سیرت نگاری کا پورا حق ادا کر دیا، یہ کتاب اپنے ان خصائص اور امتیازات کی وجہ سے اس قابل ہے اس کو بار بار زیر مطالعہ لایا جائے اور ہر وقت اور ہر دم اس کی ورق گردانی کی جائے، سیرت نبوی پر جب آدمی اس کتاب کو پڑھتا ہے تو وہ وقتیہ طور مدینہ کی آب وفضا میں اپنے آپ کو پاتا ہے، وہ حضور ﷺ اکرم ﷺ کے ساتھ ہر اس جگہ موجود ہے جہاں آپ تشریف فرماہیں ۔

وہ دانائے سبل، ختم رسل، مولائے کل جس نے

غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادی سینا

نگاہ ِعشق ومستی میں وہی اول وہی آخر

وہی یسین، وہی طہ، وہی فرقان وہی قرآں

اس کتاب کے چند ایک خصائص یہ ہیں :

 مصنف کتاب نے عام سیرت نگاروں سے ہٹ کر سیرت کے ایک واقعہ کو نقل کرنے کے بعد اس کے ذریعے سے حاصل ہونے پند وموعظت کو مختصرا نقل کئے جاتے ہیں ، جس سے سیرت نبوی کا اصلاحی اور قابل عمل پہلوواضح ہوجاتا ہے اور عمل کی دعوت دیتا ہے۔

مثلا حضرت محمد ﷺ پر وحی کی نازل ہونے کی شکلوں کوبیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

۱۔نیند اچھے اور سچے خواب : حضوراکرم ﷺ پر وحی کی ابتداء اسی طریق پر ہوئی اور یہ سلسلہ تقریبا چھ ما ہ تک چلتا رہا، اسی کو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :حضور اکرم ﷺ پر وحی کی ابتداء نیک اور سچے خوابوں کے ذریعے ہوئی جب آنحضرت ﷺ کوئی خواب دیکھتے تو وہ مثل صبح کی سفیدی کی وقوع پذیر ہوتا۔

۲۔دل میں امور کا القاء :حضور اکرم ﷺ کے اس ارشاد میں اس کی جانب اشارہ ہے ’’ روح القدس نے میری دل میں اس بات کو ڈالا‘‘’’إن روح القدس نفث فی روعی‘‘

۳۔ گھنٹی کی آواز کی شکل میں وحی نازل ہوتی جو سخت تر اورمشقت کن ہوتی۔

۴۔کبھی فرشتہ نبی اکرمﷺ کے پاس آدمی کی صورت میں رونماہوتااور مطلوبہ وحی کو آپ کے پاس پیش کرتا، وحی کے نزول کی یہ شکل سب سے سہل اور آسان ہوتی۔او ر حضرت جبرئیل علیہ السلام حضرت دحیہ کلبی کی شکل میں تشریف لاتے۔

۵۔براہِ راست آپ ﷺ سے اللہ عزوجل در پردہ مخاطب ہوتے جیسا کہ معراج کے موقع سے ہوا۔

مصنف کتاب وحی کے نزول کی ان شکلوں کی وضاحت اس سے حاصل ہونے والے نتائج واسباق کاتذکرہ فرماتے ہیں :

۱۔اس سے حضور اکرم ؎ ﷺ پر وحی کے نزول کا ثبوت ہوتا ہے۔

۲۔حضور اکرم ﷺ پر نازل ہونے والی وحی کی شکلوں کا علم ہوتا ہے۔

۳۔یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے سچے خواب وحی کا ایک حصہ ہیں ۔

۴۔قضاء وقدر پر ایمان رکھنے والے بندے کی حرص وہوس کی مذمت۔

۵۔اور یہ بتلانا بھی مقصود ہے کہ جو اللہ کے یہاں ہے وہ تو بس اس کی طاعت کے ذریعہ ہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔

۶۔دحیہ بن کلبی صحابی کی شرافت وفضیلت کا بھی ثبوت ہوتا ہے کہ حضرت جبرئیل ان کی شکل وصورت میں تشریف لاتے تھے۔

  صاحب کتاب ہر چیز کو نکات کی شکل میں نمبروار ذکرکرتے ہیں جس سے ان امور کا یاد رکھنا اور محفوظ رکھنا آسان ہوجاتاہے اور سیرت محمدی کے بہت سارے مخفی پہلو واضح اور روشن ہوجاتے ہیں ۔

مثلا صاحب کتاب غزوہ بدر کے آثار ونتائج کا مختلف عناوین کی شکل میں اپنے البیلے اور اچھوتے انداز میں یوں ذکر فرماتے ہیں :

۱۔  ابو وداعۃ کا فدیہ : ابو وداعہ سہمی یہ اسیران بدر میں شامل تھا، جب نبی کریم ﷺ  اس کو اسیران میں دیکھا یا اس کے متعلق سنا تو فداہ ابی وأمی نے فرمایا : مکہ میں اس کا ایک نہایت ہوشیار، عقل مند تاجر، باثروت لڑکا ہے گویا وہ یہیں ہے اور وہ اپنے باپ کی اسارت سے رہائی کے لئے مال لے کر آرہا ہے، جب قریش نے یوں کہا: تم لوگ اپنے اقرباء کی رہائی کے لئے فدیہ کی ادائیگی میں عجلت اور جلد بازی کام نہ لو ورنہ محمد ﷺ اور اس کے اصحاب تمہارے مال کو تمہارے ہی خلاف استعمال کریں گے، مطلب بن ابی وداعۃ نے کہا: تم نے ٹھیک کہا کہ: اس سلسلے میں عجلت۔نہ کریں ، یہ راتوں رات وہاں سے نکل کر مدینہ آگیا اوراپنے والد کو چار ہزار درہم کے عوض رہائی دلائی، حضور اکرم ﷺ کی پیشن گوئی سچ ثابت ہوئی۔

۲۔  مکرز بن حفص سہیل بن عمرو کے فدیہ کے سلسلے میں مدینہ آیا، اس کو مالک بن دخشم۔ جو بنی سالم بن عوف انصاری کے بھائی تھے۔ نے گرفتار کیا، سہیل بن عمرو کے فدیہ کے سلسلے میں مکرز نے ان سے بات چیت کی تو کہاکہ : سہیل کے فدیہ کے سلسلے میں ہمیں مال دو، ان سے مکرز نے کہا: مجھے اس کی جگہ قید کرلو، اور اس کو رہاکردو وہ اپنا فدیہ تمہارے پاس بھیج دیا، چنانچہ انہوں نے سہیل کو چھوڑ دیا اور مکرز کو اس کی جگہ قید کرلیا، سہیل ایک ذی علم شخص تھا۔اوپر کے ہونٹ کا پھٹا ہوا اور یہ شخص مقرر تھا۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے اللہ کے رسول !اے اللہ کے رسول ! مجھے چھوڑ دیں میں سہیل بن عمرو کے دانت اکھاڑ دو کہ وہ پھرآپ کے سامنے لچھے دار تقریر کرتے ہوئے حاضر نہ ہو، رسول اللہ نے فرمایا: میں اس کا مثلہ نہیں کروں گا ؛ ورنہ تو اللہ عزوجل میرا مثلہ کریں گے گرچہ میں نبی ہو، ہوسکتاہے کہ اس کو ایسے مقام ملے جس میں تم اس کی مذمت نہ کر سکو۔

۳۔ابو العاص بن ربیع یہ نبی کریم ﷺکے دامادہیں ، یہ حضرت زینب بنت محمد کے شوہر ہیں جن کا نکاح عمرو بن عاص سے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے اصرار پر نبی اکرم ﷺ نے آپ کی بعثت سے پہلے فرمادیا تھا، حضور اکرم  ﷺ کے نبوت سے سرفراز کئے جانے کے بعد خدیجہ اور ان کی تمام لڑکیاں بشمول حضرت زینب مسلمان ہوئیں ، ابو العاص شرک پر قائم رہے، اور بدر میں مشرکین کے ساتھ معرکہ میں شریک ہوئے اور قیدی بنالئے گئے، حضرت زینب نے ان کے فدیہ کے لئے وہ ہار بھیجا جس کو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو نکاح سے موقع سے عنایت کیا تھا، حضور اکرم ﷺ کی نظر اس ہار پر پڑی تو آپ ﷺ پر رقت طاری ہوگئی اور فرمایا: اگر تم چاہو تو زینب کے قیدی کو رہائی دے دواور اس کا مال بھی واپس کردو، چنانچہ صحابہ نے یوں ہی کیا۔اس واقعہ سے حضرت محمد ﷺ سے صحابہ کی محبت وشیفتگی وطاعت کا اظہار اور نبی کریم کے پاکیزہ اور بلند وبرتر بشری جذبات کا اظہار ہوتاہے۔ (ہذا الحبیب محمد رسول اللہ یا محب :۱۸۷-۱۸۸)۔

 تیسری خصوصیت یہ ہے کہ صاحب کتاب نے اس سیرت کے موضوع پر اس کتاب کو موقع ومحل کے لحاظ اور واقعہ کے پس منظر کے پیش نظر نقشوں سے مزین کیا ہے۔

چوتھی خصوصیت یہ ہے کہ واقعات کو سن وار ذکراولا تفصیل سے ذکر کرتے ہیں اور پھر آخیر میں نکات اور فہرست کی شکل میں اس سال میں پیش آنے والے واقعات کو بیان کرتے ہیں ۔

مثلا سن دو ہجری کے اہم واقعات کو نکات کی شکل میں یوں بیان کرتے ہیں :

–   نبی کریم ﷺ کے رضاعی بھائی عثمان بن مظعون کی وفات، ان کی تدفین جنت البقیع میں عمل میں آئی، حضور ﷺ نے اپنے دست مبارک سے ا ن کی قبر پر پتھر رکھا، اور فرمایا: ’’اس سے میرے بھائی کی قبر کا علم ہوگا‘‘ ان کی وفات ذی الحجہ میں ہوئی۔

–  تحویل قبل کا واقعہ یعنی بیت المقدس سے کعبۃ اللہ کی رخ کر کے نماز کی ادائیگی کا حکم۔

–   رمضان شریف کے روزں کی فرضیت اور عاشورۃ کے روزں کا نسخ۔

–    ۔عید کی نماز کی مشروعیت اور صدقہ فطر کا وجوب۔

–     رقیہ بنت الرسول کی وفات۔

–  خلیفہ راشد حضرت عثمان بن عفان کا حضرت رقیہ کے انتقال کے بعد ام کلثوم سے نکاح۔

–     زینب بنت رسول اللہﷺ کا مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرنا۔

–  ابی العاص بن ربیع کااسلام قبولِ اسلام اور ان کی اہلیہ زینب کا حضور اکرم ﷺ کے پاس واپسی۔

–    حضرت علی رضی اللہ عنہ کا حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے نکاح۔

–    حضور اکرم ﷺ نے پہلی نمازعیداور قربانی اسی سال میں دی۔

(ھذا الحبیب محمد رسول اللہ یامحب :۱۹۵)

 مختلف مواقع سے عربی اشعار واقعہ کی مناسبت سے پیش کرتے ہیں جس سے واقعہ کی چاشنی اور لذت میں مزید اضافہ ہوجاتاہے۔

 اس کتاب کی سب سے بڑی خوبی اور فضیلت اور امتیازیہ ہے کہ یہ حب نبوی میں ڈوب کر لکھی گئی ہے، مصنف کی عربی عبارت سے ان کا عشق نبوی جھلکتا ہے، انہوں نے جو عناوین قائم کئے اور اس کے نہایت نظم وترتیب کے ساتھ حضور اکرم ﷺ کے خصائص وامتیازات کا ذکر کیاہے بجائے یہ ترتیب اورتنسیق ہی ان کے حب نبوی میں ڈوب کر اس کتاب کے لکھنے پر دلالت کرتی ہے، انہوں نے نہایت غائر نظر سے واقعات اور قصص کو جمع کر کے اس کو ایسی جامع اور مانع ترتیب دی کہ سیرت نبوی وہ گوشہ بالکل واضح اور دوٹوک ہوجاتا ہے۔

حشر میں حب نبی ہی کام آیا جلیل

طاعتیں آئیں نہ زہد آیا نہ تقوی آیا

مثلا انہوں نے حضور اکرم ﷺ کے خصائص کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا ہے :

ہمارے حبیب محمد ﷺ کو اللہ عزوجل نے جن خصائص سے نوازا آپ ﷺ کمال ذاتی اور روحانی کی وجہ سے وہ کوئی بھی فرد بشر اس سے متصف نہیں ہوسکتا۔

۱۔آپ ﷺ خاتم النبیین ہیں ، ، جو شخص آپ ﷺ کے بعد نبوت کا دعوی کریں جیسے مسلیمہ بن کذاب وغیرہ اگر توبہ کرتے ہیں ٹھیک تو ورنہ یہ واجب القتل ہیں ۔

۲۔وحی کا سلسلہ بھی آپ ﷺ پر ختم کیا گیا۔۳۔آپ ﷺ کی آنکھیں سوتی ہیں دل نہیں سوتا۔۴آپ ﷺ کے لئے اللہ عزوجل نے چار سے زیادہ نکاح جائز رکھے۔۵۔خصوصا آپ کے لے صوم وصال کی اجازت۔۶۔آپﷺ کا اور آپﷺ کی آل کا صدقہ کھانے کی ممانعت ۷۔آپﷺ کے لئے تہجد کا وجوب ۸۔آپ کی وراثت تقسیم نہیں ہوتی ۹۔ہبۃ النکاح آپ ﷺ کی خصوصیات میں شامل ہے ۱۰۔آپ ﷺ کے وصال کے بعد آپﷺ کی ازواج مطہرات سے نکاح کی ممانعت۔

آپ ﷺ کے شمائل واخلاق کابڑا حصہ مختلف خوبصور ت عناوین کے تحت ذکر کیا ہے، حضور ﷺ کے شمائل واخلاق کے تحت ان مختلف عناوین میں آپ ﷺ کے اخلاقی گوشوں کو نمایاں اور ظاہر کیا ہے، کرم محمدی، حلم محمدی، عفو محمدی، شجاعت محمدی، صبر محمدی، عدل محمدی، زہد محمدی، حیاء محمدی، رحمت محمدی، وفاء محمدی ایسے بے شمار عناوین کے آپ ﷺ کی حیات کے مختلف واقعات کے ذریعے آپ کے شمائل وعادات پر روشنی ڈالی ہے۔

چنانچہ ’’عفو محمدی‘‘ کے تحت فرماتے ہیں کہ :

’’عفو کہتے ہیں ناحق براسلوک کرنے والے سے قدرت کے باوجود مواخذہ نہ کرنا، یہ بلند ترین عادت وخصلت ہے، اور یہ نہایت ہی حسین وخوبصورت صفت ہے، اللہ عزوجل نے اپنے رسول کو اپنے سورہ اعراف کے اس ارشاد میں اس کا حکم کیاہے ’’خذ العفو وامر بالعرف واعرض عن الجاہلین‘‘ (الأعراف:۱۹۹) معافی تلافی کو اختیار کریں ، بھلائی کا حکم کریں اورجاہلوں سے اعراض کریں ،حضرت جبرائیل علیہ السلام سے اس آیت کے مفہوم کے متعلق پوچھاگیاتو انہوں نے فرمایا : میں اس حوالے سے اللہ عزوجل سے جو جاننے والا حکمت والا ہے دریافت کرلیتاہو، پھر وہ آپ ﷺ کے پاس آئے اور فرمایا: اے محمدﷺ! اللہ عزوجل یہ حکم دیتا ہے کہ آپ جو آپ سے قطع تعلق کرتا ہے آپ سے اس سے رشتہ جوڑیں ،اور جو آپ کو محروم کرے اس کو دیں اور جو آپ پر ظلم کرے اس کو معاف کردیں ، حضور اکرم ﷺ نے اپنے رب کے حکم کو بجالایا، چنانچہ آپ ﷺ ان تین عادات اور خصلات کے سلسلے میں نمونہ اور قدوۃ تھے، رشتہ توڑنے والے سے رشتہ جوڑـتے، محروم کو عطا کرتے، ظلم کرنے والے کومعاف کرتے، نیچے کی دیگرمثالیں اس کے لئے شاہدِ عدل ہیں ۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ : حضور اکرم ﷺ کو جب دو چیزوں کے درمیان اختیار دیا جاتا، اگر اس میں کوئی گناہ نہ ہوتا تو آسان کو اختیار فرماتے، اگر وہ چیز گناہ میں شامل ہوتی تو آپ اس سے بہت دور رہتے اور رسول اللہ ﷺ نے اپنی ذات کے لئے کبھی انتقام نہیں لیا الا یہ کہ اللہ عزوجل کی حرمت کو پامال کیا جائے تو اللہ عزوجل کے لئے اس سے انتقام لیتے۔

 ایک غزوہ کے موقع سے غورث بن الحارث آپ ﷺ کے قتل کے درپے ہوا اور رسول اللہﷺ تنہا ایک درخت کے نیچے لیٹے ہوئے تھے، دیگر اصحاب بھی آرام فرمارہے تھے، حضور اکرم ﷺ نے بیداری کے بعد دیکھا غورث بن الحارث اپنے ہاتھ میں تلوار سونتے ہوئے کھڑا ہے، وہ کہنے لگا: تم کو مجھ سے کون بچائے گا، رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ، تلوار اس کے ہاتھ سے گرپڑی، حضور اکرم ﷺ نے اس تلوار کو لیا، اور فرمایا: تم کو مجھ سے کون بچائے گا؟ غورث نے کہا: تم ہی بہتر معاف کرنے والے ہو، آپ نے اس کوچھوڑدیا اور معاف کردیاوہ اپنی قوم کے پاس واپس آیا اور کہنے لگا: میں لوگوں میں بہتر شخص کے پاس سے آیاہو،اس طرح نبی کریم کا عفو ودرگذر کا برتاؤ تھا۔

 جب نبی کریم ﷺ فتح مکہ کے دن مسجد حرام میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ قریشی حضرات سر جھکائے فاتح نبی کریم ﷺ کے فیصلے کا انتظار کر رہے ہیں ، تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے قریشیو! تمہاراکیا گمان ہے کہ میں تمہارے ساتھ کیسا معاملہ کروں گا؟ انہوں نے کہا : آپ تو شریف بھائی اور شریف بھائی کے بیٹے ہیں ، تو آپ ﷺ نے فرمایا: جاؤ تم آزاد ہو، آپ ﷺ نے ان سب کو جنہوں نے آپ کے اور آپ کے اصحاب کے خلاف اس سازشیں رچی تھیں اور جرائم کئے تھے کہ احصاء اور شمار سے باہر، اس کے باوجود حضور اکرم ﷺ نے ان کو معاف کردیا،نہ ان کو مارا اور نہ قتل کیا۔

 لبید بن عاصم یہودی نے آپ پر جادو کردیا، آپ ﷺ کو اس کا علم وحی کے ذریعہ سے ہوگیا تو آپ ﷺ نے اس کو معاف کردیا، اس کا مواخذہ نہ فرمایا ؛ بلکہ یہ بھی ثابت نہیں ہے کہ آپ ﷺ اس پر ملامت کیا ہو یا اس پر عتاب کیا ہو، مواخذہ اور انتقام تو دور کا رہا، ۔

آپ ﷺ کے تبوک سے مدینہ واپسی کے درمیان منافقین نے آپ کے قتل کی سازش کی، ان کی سازش اور منصوبہ کی آپ ﷺ کو اطلاع دی گئی، تو آپ ﷺ نے ان کو معاف فرمادیا، اور فرمایاکہ: کہیں یہ نہ کہاجانے لگے کہ محمد اپنے ساتھیوں کا قتل کرتے ہیں ۔ (ہذا الحبیب محمد رسول اللہ ﷺ أیہا المحب:۴۳۰)

  آخر کتاب ایک امتی پر اپنے نبی کے تئیں جو حقوق لازم ہیں اس کا بالتفصیل واقعات کی روشنی میں ذکر کیا ہے۔ جن میں اس طرح کے عناوین شامل کتاب ہیں ، آپ ﷺ پر ایمان، آپ ﷺ سے محبت، آپ ﷺ کی اطاعت، آپ کی اقتداء وپیروی، آپ کی توقیر وتعظیم، آپ کے اہل بیت سے محبت، آپ ﷺ پر درود شریف کا بھیجناوغیرہ :

آپ سے محبت کے عنوان کے تحت فرماتے ہیں کہ :

’’آپ ﷺ کی محبت کا وجوب وثبوت کتاب وسنت دونوں سے ہے، اللہ عزوجل کا ارشاد گرامی ہے :

’’قُلْ إِن کَانَ آبَاؤُکُمْ وَأَبْنَآؤُکُمْ وَإِخْوَانُکُمْ وَأَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوہَا وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَہَا وَمَسَاکِنُ تَرْضَوْنَہَا أَحَبَّ إِلَیْْکُم مِّنَ اللّہِ وَرَسُولِہِ وَجِہَادٍ فِیْ سَبِیْلِہِ فَتَرَبَّصُواْ حَتَّی یَأْتِیَ اللّہُ بِأَمْرِہِ وَاللّہُ لاَ یَہْدِیْ الْقَوْمَ الْفَاسِقِیْن‘‘(التوبۃ : ۲۴)(ترجمہ :آپ کہہ دیجئے کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے لڑکے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے کنبے قبیلے اور تمہارے کمائے ہوئے مال اور وہ تجارت جس کی کمی سے تم ڈرتے ہو اور وہ حویلیاں جنہیں تم پسند کرتے ہو اگر یہ تمہیں اللہ سے اور اس کے رسول سے اور اس کی راہ کے جہاد سے بھی زیادہ عزیز ہیں ، تو تم انتظار کرو کہ اللہ  تعالی اپنا عذاب لے آئے اللہ  تعالی فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا )۔اس آیت سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حضور اکرم ﷺ سے محبت کرنا واجب ہے، چونکہ اس آیت کریمہ میں جو اللہ اور اس کے رسول کی محبت پراہل وعیال اور مال کی محبت کو ترجیح دے تو اس کے سلسلے میں تہدید اور دھمکی وارد ہوئی ہے۔ اور صحیح حدیث میں نبی کریم کا یہ بھی ارشاد گرامی ہے کہ : ’’ تم میں کوئی شخص اس وقت تک مومن کامل نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کے یہاں اس کے والد اور اولاد سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں ‘‘

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب یہ حدیث مبارکہ سنی تو رسول اللہ ﷺ سے فرمانے لگے : آپ میرے لئے ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں سوائے میرے اپنے نفس کے تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا یہاں تک کہ میں اس کے یہاں اس کے نفس سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں ‘‘

حضور سے محبت کا مطلب یہ ہے کہ حضورﷺ کے محبوبات ومرغوبات کو بندوں کی محبوبات ومرغوبات پر ترجیح دے۔

حضور اکرم ﷺ کی محبت کے عملی پہلو : یہ ہیں کہ آپ ﷺ کی اطاعت اور آپﷺ کی اقتداء کی جائے اور آپ ﷺ جو کچھ تعلیمات لے کر آئے ہیں اس سے محبت کی جائے، آپ کے دین اور آپ ﷺ پر ایمان لانے والوں ، اہل بیت اور صحابہ وتابعین کی نصرت کی جائے۔

آپ ﷺ کے ذکر اور آپ کی شمائل واخلاق کے تذکرہ، آپ ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کی قبر مبارک پر ٹھہرنے کے وقت، آپ ﷺ کی مسجد میں بیٹھنے اور نماز کی ادائیگی میں آپ ﷺ کی توقیر وعظمت کو ملحوظ رکھاجائے، یعنی آواز پست کی جائے، آنکھوں کو نیچا کیا جائے۔ آپ ﷺ کی محبت کی علامتوں میں یہ شامل ہے کہ آپ ﷺ کا کثرت سے ذکر کیا جائے، چونکہ جو شخص کسی سے محبت کرتا ہے تو اس کابہت تذکرہ کرتا ہے، آپ سے ملاقات اور آپ ﷺ کے روضہ پر حاضری کا شوق اس کو دامن گیر ہو، چونکہ ہر محب صادق اپنے حبیب سے ملاقات کا شوق رکھتا ہے۔

محمد کی محبت دین حق کی شرط اوہے

اس میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نامکمل ہے

یہ اور اس طرح کے دیگر خصائص کی وجہ سے اس کتاب کو دیگر سیرت نبوی پر لکھی جانی والوں کتابوں پر خصوص حاصل ہے۔

بہر حال یہ کتاب اپنی ترتیب اور سیرت نبوی میں اپنی اچھوتی طرزِنگارش اور جدید طرز تحریر اور واقعات کو ترتیب دینے کے نئے طریقے اور دیگر تنظیم وتریتب کے حوالے سے رعایت کئے ہوئے امور کی وجہ سے دیگر سیرت نبوی پر لکھی جانے والی کتابوں پر فوقیت رکھتی ہے، ساتھ ہی ساتھ اس کتاب کو یہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ یہ کتاب عشق نبوی میں ڈوب کر لکھی گئی ہے، اس کتاب کے نام سے لے کر اس کے تمام مشتملات مصنف کے نبی کریم ﷺ کے ساتھ عشق ومحبت اور آپ ﷺ کی ذات سے خصوصی لگاؤ اور وابستگی پر دلالت کرتے ہیں ۔

تبصرے بند ہیں۔