بابری مسجد کے مجرموں کو سزا کب ملے گی؟

عبدالعزیز

 بابری مسجد کے مقدمہ کے فیصلہ کے بارے میں مسلمانوں کا کہنا ہے کہ عدالت کا جو بھی فیصلہ ہوگا اسے وہ قبول کریں گے۔ میرے خیال سے مسلمانوں کو یہ کہنے کے بجائے یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ اگر ان مجرموں کے حق میں فیصلہ ہوتا ہے جو تاریخی مسجد گراکر یہ کہہ رہے ہیں کہ رام مندر وہیں بنے گا جہاں بابری مسجد تھی تو مسلمان مجبوراً برداشت کریں گے یا صبر و تحمل سے کام لیں گے۔ وجہ یہ ہے کہ جن لوگوںنے مسجد کی عمارت منہدم کی وہ آج 25 سال گزر جانے کے باوجود اپنے کالے کرتوت پرنہ شرمندہ ہیں اور انہ اظہارِ معذرت کر رہے ہیں بلکہ ڈھٹائی اور ہٹ دھرمی کے ساتھ کہہ رہے ہیں کہ مندر وہیں بنے گا جہاں بابری مسجد تھی تو اس کا مطلب تو یہ ہے کہ وہ فیصلہ آنے سے پہلے یہ کہہ رہے ہیں کہ چاہے جو بھی فیصلہ ہو مندر وہیں بنائیں گے جہاں بابری مسجد کی عمارت تھی جسے انھوں نے دن کی روشنی میں دنیا کی آنکھوں کے سامنے ڈھا دیا۔ اگر ایسے لوگوں کے ہاتھ میں وہ جگہ سونپی جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مجرموں کی منہ مانگی مراد پوری ہوتی ہے اور جب مجرم اپنی خواہش کے مطابق اپنی بات منوا لیتے ہیں تو یہ بات ملک میں آسان ہوجائے گی کہ آئین شکنی کرنے والے جہاں اور جب چاہیں گے وہ اپنا ارادہ خواہ غلط ہو یا صحیح، قانون کے دائرہ میں آتا ہو یا قانون کے خلاف اسے ہر طرح سے پورا کرکے رہیں گے۔ یہ ایک ایسی چیز ہوگی جو ملک کے ماحول کو سازگار بنانے کے بجائے ملک کے ماحول کو فساد انگیز بنانے کے ہم معنی ہوگا۔ جس ملک میں قانون شکن لوگ اپنی خواہش پوری کرلیتے ہیں اور قانون بے بس ہوتا ہے وہاں قانون کی حکمرانی ہر گز نہیں ہوسکتی۔ وہاں جنگل راج ہوگا۔

 بابری مسجد کے انہدام کے بعد ایل کے ایڈوانی نے جو سب سے بڑے مجرم تھے کہاکہ 6دسمبر ان کی زندگی کا سب سے غمزدہ دن ہے۔ اٹل بہاری واجپئی نے جو اس وقت سنگھ پریوار کے سب سے بڑا چہرہ سمجھے جاتے تھے کہاکہ بابری مسجد کا انہدام افسوسناک اور غمناک ہے اور یہ کام بہت غلط ہوا۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا۔ 25سال گزر جانے کے بعد جو لوگ مجرم تھے وہ اپنے مجرمانہ فعل کی سزا سے بچے ہوئے ہیں۔ سپریم کورٹ نے اعلان کیا تھا کہ پہلے بابری مسجد کے ملزمین کا ٹرائل ہوگا یعنی ان پر مقدمہ کی سماعت ہوگی مگر دیکھا یہ جارہا ہے کہ سنگھ پریوار کی خواہش کے مطابق مسجد / مندر کے تنازعہ کے مقدمہ کی شنوائی ہونے جارہی ہے جس کی ابتدا بھی ہوچکی ہے اور آئندہ 8فروری تک سماعت ملتوی کردی گئی ہے۔ جو لوگ بابری مسجد کے دشمن یا مجرم ہیں انھوںنے فی الحال ایسا ماحول بنایا ہے کہ ان کی بات سنی جائے اور انھیں بابری مسجد کی جگہ تحفہ میں دی جائے تاکہ پورے ملک کا ماحول بد سے بدتر ہوجائے اور 2019ء میں سنگھ پریوار کے قبیلہ کے سردار اور سرغنہ نریندر مودی لوک سبھا کا الیکشن جیت کر پھر وزیر اعظم کی کرسی پر براجمان ہوجائیں اور ملک کا برا دن پھر شروع ہوجائے۔

سنی وقف بورڈکی طرف سے مسجد کی وکالت کرتے ہوئے کپیل سِبّل نے ججوں سے درخواست کی کہ مقدمہ کی سماعت میں جلدی نہ کی جائے کیونکہ ملک کا ماحول سازگار نہیں ہے۔ انتہائی خراب کردیا گیا ہے اور 2019ء کا سال جب تک ختم نہیں ہوتا فرقہ پرست اس ماحول کو باقی رکھیں گے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے اس کو یہ کہہ کر مسترد کردیاکہ باہر جو کچھ ہورہا ہے اس سے ان کو کوئی مطلب نہیں، حالانکہ سپریم کورٹ نے کلیان سنگھ (وزیر اعلیٰ یوپی) سے جو حلف نامہ لیا تھا کہ بابری مسجد کے پاس کسی کو پھٹکنے نہیں دیا جائے گا، کلیان سنگھ نے اس کا ذرا بھی خیال نہیں کیا۔ سپریم کورٹ انھیں محض ایک دو گھنٹے کی سزا سناکر چھوڑ دیا جبکہ کلیان سنگھ، ایل کے ایڈوانی، مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی، نرسمہاراؤ کی طرح وہ بھی بڑے مجرموں میں سے ہیں۔ آج ان کو سزا کے بجائے جزادی گئی اور وہ راجستھان کے گورنر ہیں۔ ایسے بہت سے کام مودی حکومت کر رہی ہے کہ جو مجرم، قاتل یا لٹیرے ہیںان کو تحفہ، تمغہ، منسٹری اور گورنری دی جارہی ہے۔ مودی اور ان کی پارٹی کیلئے یہی اچھے دن ہیں اور سب کیلئے برے دن ہیں۔ نہ جانے کب تک یہ برا دن رہے گا؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔