ابرار مجیب کا افسانوی مجموعہ’ رات کا منظر نامہ‘

( رشکم بہ چشم خود کے جمال تو دیدہ است)

’رات کا منظر نامہ‘ گو اپنے صوری اظہار میں ایک افسانوی مجموعہ ہے مگر اپنی معنوی تعبیر میں ایسے اسرار اور مفاہیم کو محیط ہے جو کبھی پردے سے باہر نہیں آتے بلکہ ایسی ان دیکھی وادیوں میں قیام پزیر ہوتے ہیں جہاں ’بے خبری‘ اور ’ مستوری‘ ہی ان کا مقدر ہوتی ہے۔ اس ’بے خبری‘ کو ’ خبر‘ سے بدل دینا اور اس’ مستوری ‘کے استتار کو’ اظہار‘ بنا دینا ہی فن افسانہ نگاری ہے۔ گویا افسانہ نگار ی کا عمل ایک نادید منطقے کو ’دیدنی ‘بنا دینے کا عمل ہے۔’دیدنی‘ کو دیدنی بنا دینے والے افسانہ نگار معیار کو کو نہیں چھوپاتے اور اگر کسی شورش کے زور پران کا نام لیا بھی گیا تو بھی ا ن کی شہرت کو دوام حاصل نہیں ہوتا۔ نادید منطقے کو جب دیدنی بنایا جاتا ہے تب افسانے کا وجود ہوتا ہے۔ ابرار مجیب ایک کامیاب افسانہ نگار اس لئے ہیں کہ انہوں نے ہمارے دیکھے ہوئے مناظر ہمیں نہیں دکھائے بلکہ وہ کچھ دکھایا ہے جسے ہم نے نہیں دیکھا تھا ۔یہ منظر نامے کسی نادیدہ منطقے میں ٹھہرے ہوئے تھے مگر انہوں نے جب اس ’نادیدہ ‘کو’ مثل دیدہ ‘ بنادیا تب یہ ’نادیدہ حقیقت‘ اپنے استتار سے نکل کر اظہار میں آئی اور ہم نے اسے افسانے کے نام سے موسوم کیا۔
’رات کا منظرنامہ‘وہ نادید منطقہ ہے جہاں تمام منظر نامے ان دیکھی وادیوں میں بے دیکھے ‘ بے سنے ‘بے سنائے اور ان کہی حالت میں نہ جانے کب سے موجود تھے ‘ ابرار مجیب کی تخلیقی فعلیت کے اثر سے جب اپنے استتار سے باہرنکل آئے تب ہمیں معلوم ہوا کہ ابرار مجیب ترقی پسند ی ‘ جدید یت اور مابعد جدید کے زمانی تناظر سے آگے ایسے پیرہن میں ملبوس ہیں جو ہر آ ن ہمیں تازہ کاری کا احساس کراتے ہیں۔ منطقہ نادید میں لامحدود روایات ’ حکایات ‘ حسن و قبح کے جلوے‘ جمال و جلال کے اشاریے‘ معلوم اور لامعلو م ارادے اور افعال کے نشاطیے ‘ اداسی کے المیے اور ماضی حال اور مستقبل کے زمانے سب کچھ موجود ہیں۔ان میں ابرار مجیب نے انہیں حقائق پر مرکوز کیا ہے جو ان کے داخلی اور اندرونی علائق سے تعلق رکھتے ہیں ۔ مطلب یہ ہوا کہ وہی چیزیں اس خزانے سے کشید کی گئی ہیں جو ان کے تخلیق عمل کے مناسب آئی ہیں۔ ان میں کوئی ایک موضوع ایسا نہیں ہے جو اس سلسلہ عمل کا صد فی صد احاطہ کرلے بلکہ اس تخلیقی تناظر میں نادید منطقہ کے وہ احوال و خواص بھی اظہار کی فعلیت سے ہم رشتہ ہوتے چلے جاتے ہیں جو اپنے لئے کسی دیدور کے انتظار میں ہوں۔ یعنی یہ دو مطالبات جب وجود پالیتے ہیں توکامیاب افسانہ نگاری وجود میں آتی ہے۔ ایک جانب نرگس کی بے نوری دوری جانب کوئی دیدہ ور جو اس کو پہچان لے۔
ابرار مجیب کی افسانوی یافت فکر و عمل کی پیچیدگی‘ حیات عالم کے وسیع تر مفاد کی تلاش‘ لامعلوم سے حیرانی ‘ معلوم کی پاس داری اور سماجی اور تاریخی تشکیل کے عجائب پر محیط ہے۔ اور یہ احاطہ ایک ساتھ ایسے تہذیبی مناظر کی نشاندہی کرتا ہے جو اپنے حدود میں قابل قدر ہے۔ یہ تخلیقی عجائب خانہ ہی وہ گنج گرانمایہ ہے جہاں سے وقتاً فوقتاً افسانے کے تشکیل شدہ پیکر خود بخود معرض اظہار میں آتے ہیں مگر ’استتار سے اظہار‘ تک کی مسافت جو تخلیقی بھی ہے اور وجدانی بھی ایک ایسی غیر اختیاری توثیقی جوہر بن کر اس تخلیقی مواد کو معرض اظہار میں لانے میں معاون بنتی ہے اور یہ خود افسانہ نگار کے شعوری عمل کے ساتھ ایک متوازی خط پر دوری بنائے رکھتی ہے اور افسانہ نگار کو اس کا احساس ہونے نہیں دیتی۔ اسی لئے حقیقت یہ ہے کہ یہاں پہنچ کر افسانہ نگار بلکہ معیاری افسانہ نگار بے قابو ہو جاتا ہے اور کہانی جدھر لے چلتی ہے اس کو مڑنا پڑتا ہے ؂
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب پر
شاید کہ افسانہ نگار کو یا د بھی نہیں ہوتا کہ وہ کون ہے اور کہاں جا رہا ہے؟ یہ افسانہ نگاری کی وہ اعلی ٰ تخلیقیِ شق ہے جوعموماً ناپید ہے مگر یہ کہ ’ گاہے گاہے‘ ۔ اسی تخلیقی شق نے منٹو اور بیدی کو منٹو اور بیدی بنایا۔ اسی نے قرۃالعین حیدر کو قرۃالعین بنا یا اور اسی طرح تمام کامیاب افسانہ نگاروں کو کامیاب بنایا۔ یہ تخلیقی شق یا کیف یا کشش اپنے عمل میں صد فی صد آزاد بھی نہیں ہوتی بلکہ اس کا انحصارافسانہ نگار کی اس تخلیقی تشکیل پر ہے جو افسانے کو ’ استتار سے اظہار‘ کی طرف لانے میں معاون بنتی ہے۔ اس تخلیقی کیف میں افسانہ نگار کا ذاتی رجحان ہی سب سے زیادہ اثر پزیری دکھا تا ہے۔ تو گویا یہ عمل تخلیق کا وہ پہلوہے جو کئی اعتبار سے سب سے زیادہ تابناک ہے اس لئے کہ اسی کے ذریعہ افسانہ میں معیار اور قدر کا غیر اختیاری عمل انجام پاتا ہے۔ یہ گویا افسانہ نگار کی جانب سے ایک شعوری اشاریہ ہے جو افسانے کو فنی تخلیق کے جوہرعطا کرتا ہے۔ اس گفتگو سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ افسانوی تخلیق میں افسانہ نگار اپنے بنیادی رجحانات ہی کے ذریعہ موضوع کشید کرتا ہے اور اس کے بغیر وہ موضوع کشید نہیں کر سکتا۔ اس طرح ہم نے دیکھا کہ معیار اور قدر کا انحصار دوباتوں میں قائم ہے ۔ ایک تو کسی تخلیق کے خود اپنے تخلیقی اظہار کی ارادت اور دوسرے اس افسانہ نگار کی وہ وجدانی کیفیت جو افسانے کو نادید ارادوں سے باہر نکلنے میں معین ہو۔
ابرار مجیب کے یہاں بھی تخلیق کے یہ حوالے کسی برتر صورت حال سے دوچار ہیں۔ ایک صورت تو ان کے یہاں فکر و عمل کی پیچیدگی ہے جو موضوعات کی ایسی تعمیر میں معین ہے جو اپنے صوری اظہار میں تو کسی ایک ہی سمت کی طرف چلتے ہوں مگر اپنے معنوی اظہار میں مختلف الجہات ہوں۔ اس طرح کوئی موضوع جب معرض اظہار میں آئے تو وہ خود اپنے معیار پر اترنے کے ساتھ ساتھ ایسے دوسرے تخلیقی اجرام کی طرف بھی رجوع کرتا ہو جو اس کے موضوع کے دائرے میں براہ راست نہ آتے ہوں۔ یہ افسانوی تخلیق کا وہ حسین التباس ہے جو عام طور پر مفقود ہے اور جسے عرف عام میں ہمارے ناقدین تہداریت سے موسوم کرتے ہیں۔۔ مگر یہ تخلیقی التباس تہداریت سے ان معنوں میں محتلف ہے کہ اس میں کسی افسانہ کی اپنی تخلیقی حیثیت اسی طرح قائم رہتی ہے جس طرح اسے قائم رہنا چاہیے اور اس قیام کے ساتھ ساتھ اسے ان اشاروں کو بھی محیط ہو نا ہوتا ہے جو اس کی اپنی فنی تحدید اور حصار سے باہر ہوں۔ ابرار مجیب کے یہاں اس سلسلے کی دو باتیں بہت اہم ہیں ۔ ایک تو وہ کائنات پر غور و فکر کے نتیجے میں حد درجہ حیرانی کے شکار ہیں ۔ پوری کائنات نے اگر انہیں کچھ عطا کیا ہے تو وہ تحیر ہے اور تحیر کے بعد پھر تحیر ہے۔ یہ حیرانی کسی صورت کم نہیں ہوتی ۔ اسی لئے ان کے ہاں تقریباً ہر افسانے میں ’ اندھیرا‘ ’ خوف ناک اندھیرا‘ ’ اندھا کنواں‘ ’لامتناہی کنواں‘ جیسے الفاط کا استعمال کثرت سے ملتا ہے ۔ ابرار مجیب اس کائنات کو دیکھ کر حیران بھی ہیں اور مبہوت بھی ۔ یہ حیرانی اور ہیبت ہی دانش وری کی وہ پیاس ہے جس نے انہیں تڑپا کر رکھ دیا ہے۔ گرچہ ضمناً ان کے تقیرباً تمام افسانوں میں اس عظیم لامتاہی اندھیرے کا ذکر ملتا ہے مگر کچھ افسانے اسی موضوع کو بیان کرتے ہیں ۔ ایسے افسانوں میں ’بارش‘ ’موت‘ ’بازیافت‘ ’پچھواڑے کا نالا‘ کا شمار ہوگا ۔ اگر psycho -linguistic analysis کے زاوے سے دیکھا جائے تو ‘بارش‘ کا لفظ بھی ان کے یہاں بکثرت سے استعمال ہوا ہے اور اس کی کی وجہ بھی ان کے یہاں وہی تحیر ہے۔ تجربہ ہے کہ کائنات پر غور و فکر کرنے والوں کے لئے بارش کا منظر وجود کی ایسی آگہی پیش کرتا ہے جو فطرت کے جمال میں کہیں نہ کہیں شعور کی موجودگی کا احساس دلاتا ہے جب کہ تحیر اس آگہی کو کسی شعور ی احساس کی طرف چلنے سے دور رکھنا چاہتا ہے مگر وہ بارش سے پیدا ہونے اثرات کو روک بھی نہیں سکتا۔ اس طرح بارش کا حواس پر چھا جانا ایک بدیہی امر ہے۔
دوسر ا بڑا عمل ان کے یہاں وہ تاریخی شعور ہے جس میں انہیں کائنات کی طرح یکسانیت نظر آتی ہے اوروہ اس مسئلے میں مسلسل الجھن کا شکار نظر آتے ہیں کہ’ تاریخ ‘ کیوں ہے اور تاریخ میں اتنی یکسانیت کیوں ہے۔ تاریخیت کے حوالے سے جو کہانیاں ان کے ہیاں نمایاں ہیں ان میں ’ پشپ گرام کا اتہاس‘ ’رات کا منظر نامہ ۱‘ اور ’ رات کا منظر نا مہ ۲ ‘ قابل ذکر ہیں۔ یہاں پرمثال کے لئے ابرار مجیب کا افسانہ ’ پشپ گرام کا اتہاس‘ لے لیجئے جس میں افسانے کی ایک تو خود اپنی فضا ہے جس میں افسانہ اپنی افسانوی روش پر قائم ہے اور اسی کے ساتھ پورا افسانہ اپنی جزیات کے ساتھ ان تخلیقی اشاروں کو بھی محیط ہے جو راست طور پر اس کے تخلیقی دائرے میں شامل نہیں ہیں ۔ مگر ایک گہری جمالیاتی کیفیت کے ساتھ افسانے سے پرے موجود ہیں۔ اس طرح قاری دونوں طرح کے احوال ومقامات سے استفادہ کرتا ہے اور افسانے کے حدود کا پابند نہیں رہتا ۔ وہ ایک کہانی نہیں پڑھ رہا ہوتاہے بلکہ ایک کہانی کے ساتھ اس کے ذہن میں کئی متوازی کہانیاں اور ان کہانیوں کا تمثیلی انجام ‘ ان کا موضوع کے ساتھ بعد اور ان کی پیکریت کا طلسم سب کچھ ساتھ ساتھ چلنے لگتا ہے۔ ’ پشپ گرام کا اتہاس‘ میں گرچہ واضح تحلیقی اشارے بھی موجود ہیں مگر اسی ساتھ اس کہانی کی جزیات میں ایسی بے شمار چیزیں موجود ہیں جو قاری کے ذہن کو بہ یک وقت کئی سمتوں میں مشغول رکھتی ہیں اور اسے ’ پشپ گرام کا اتہاس‘ کے متوازی سطح پر ایک سے زیادہ کہانیوں کو مرتب کرتے ہوئے آگے بڑھنے کے لئے مجبور کرتی ہیں۔ یہ کہانی گرچہ واضح طور پر dalit discourse کی کہانی ہے جس میں ہمیں Vedic civilization کی تعمیر و تہذیب کا تخلیقی پس منظر اپنی جزیات کے ساتھ دکھائی دیتا ہے ۔ vedic civilization کی تعمیر و تہذیب کو پیش کرنے کے لئے ابرار مجیب نے جو جمالیاتی محاکمے پیش کئے ہیں وہ انتہائی گراں قدر اور ایک دوسرے سے متجاوز ہیں۔ ان کی جزیات میں فن افسانہ نگاری کا تکنیکی عمل بہت واضح اور اثر پزیر ہے۔ پورا افسانہ ’یک منظری‘ ہونے کے باوجود چہار سو چھا جانے والا انداز اختیار کر گیا ہے ۔ یعنی ایک منظر کئی مناظرکو سمیٹتا ہوا آگے بڑھتا ہے۔ پشپ گرام ایک نو وارد جوڑے کا آکر پناہ لینا‘ پھر ودیارتھی مہندر شرون کو پئے در پئے خواب آنا ‘ پھر گاؤں کی فضا کا خراب ہونا ‘ یہ سب واقعات پئے در پئے اس عضویاتی طریقہ کار سے پیش کئے گئے ہیں کہ کہانی کا حسن دوبالا ہوگیا ہے:

’’ پشپ گرام میں جیون ویدک ریت کے مطابق گذارنے کا رواج تھا۔ زندگی کے پہلے پچیس
سال ودیارتھی ‘ پچیس سے پچاس گرہستھ ‘ یعنی شادی بیاہ کر کے خوانگی زندگی‘ پچاس سے پچہتر سال
وام پرت یعنی دنیا میں ادھرادھر گھومنا اور موکچھکے لئے علم حاصل کرنا اور پچہتر سے سو سال سنیاس
یعنی تر ک دنیا۔‘‘ ( ……….. ’ پشپ گرام کاتہاس‘)

ایک تیسرا موضوع ابرار مجیب کے یہاں مرور مسلسل بھی ہے۔ یعنی جو کچھ ہو رہا ہے اسے بس ریکارڈ میں لے آنا۔ ایسے افسانے حالات حاضرہ سے ضرور گذرتے ہیں ۔ یہاں بھی وہ تاریخیت جھلکتی ہے جو واقعات عالم کی زمانی ترتیب میں ظاہر ہوتی ہے۔ ایسے افسانوں میں ’ابال‘ سب سے اہم ہے۔ اس ضمن میں دوسرے افسانے ’ ڈارون ‘ بندر اور ارتقا‘ ’ اسٹوی‘ ’پردھان منتری کی آمد‘ اور ’نیل کنٹھ کی واپسی‘ ہیں۔
’بارش‘ میں حیرانی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ کائنات پر غور کرنے والوں کے لئے بارش ایک ایسا منظر نامہ ہے جو ان کی حیرانی کو تھوڑی دیر کے لئے کم کر دیتا ہے۔ جیسے سوچے سوچتے کسی چیز پر جیسے مہر لگ جائے۔ بارش کا یہ منظرنامہ ہمارے تحیر کو ہمیں واپس لوٹا دیتا ہے۔ بارش کے وقت کائنات کی کسی دوسرے منظر میں آدمی مشغول نہیں ہوسکتا۔ دوسرے لفظوں میں اس کہانی میں انسان کا عجز بھی بولتا نظر آتا ہے۔’موت‘ میں ابرار مجیب کا تحیر ہمیں ایک ’ اجل گریز تہذیب‘ کی طرف لے چلتا ہے جہاں انسان زندگی کا سفر موت سے گریز کرتا ہوا اوراس کی حقیقت کو بغیر سمجھے ہوئے طئے کرتا ہے۔ وہ اس موت کی حقیقت کو نہیں سمجھ سکتا ۔ اس طرح موت کے ذکر سے یہ نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ جب موت سامنے ہے تو کسی چیز کی اہمیت کیا ہے؟ غرض موت پر غور و فکر بھی ابرار مجیب کے یہاں شدًت کے ساتھ موجود ہے۔ یہ احساس اس افسانے کے مطالعے سے قوی تر ہوتا ہے کہ کہ ہم اپنی تمام تر مادی قوتوں کے ساتھ ایک ’اجل گریز تہذیب ‘ میں جی رہے ہیں۔ موت کے سلسلے میں یہی وہ تخلیقی فکر ہے جو کسی ایسے حل کی متلاشی ہے جو انسان کو اس بے چینی اور اضطراب سے نکال سکے۔ افسانہ ’موت‘ اسی تلاش کا کلیہ ہے۔’بازیافت‘ بھی ہمیں اسی حیرت ناکی کی طرف لے چلتا ہے۔ اس افسانے کامرکزی کردار بھی اسی طرح کائنات کے اسرار میں گم ہے جس طرح ان کے دوسرے افسانوں میں گم رہتا ہے۔ اس گم شدگی میں اسے کوئی نشان راہ نہیں ملتا بلکہ وہ اسی عجز اور جبر میں اپنی زندگی کا اعتبار تلاش کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے مگر اس سے باہر نہیں آپاتا ۔اسی ضمن میں ابرار مجب کا ایک افسانہ ’ پچھواڑے کا نالا ‘ بھی ہے۔ پچھواڑے کا نالا میں زندگی کی یکسانیت کو تخکیقی اکائی بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ افسانے میں بیٹا باپ کے انتقال کے بعد اسی طرح ڈیوٹی پر لگ جاتا ہے جس طرح ا س کا باپ کارخانے میں لگا ہوا تھا۔ اسی طرح کا بوٹ ‘ اسی طرح کا یونیفارم ‘ اور وہی صبح و شام کا سلسلہ……. ابرار مجیب ا اس یکسانیت سے اکتاہٹ کا شکار ہیں۔ اسی معمولات کے ساتھ ساتھ مکان کے پچھواڑے میں جو نالا ہے اس کے بہنے کی آواز میں بھی یکسانیت ہے۔ یہ یکسانیت لازمی طور پر بے معنویت کی طرف لے چلتی ہے اس لئے زندگی کا کچھ خاص حاصل سامنے نہیں رہتا۔ ہر چیز یہاں آکر بے معنی ہوجاتی ہے:

’’ اچانک مجھے احساس ہوتا ہے کہ ہم کتنے بے بس ہیں ۔کتنے بے اختیار ہیں کے ہم اہنی مرضی سے
کچھ نہیں کر سکتے۔ہم چیختے ہیں چلاتے ہیں۔ہماری آوازوں کی بازگشت ہمارے کانوں تک ہی
محدود رہتی ہے ۔ہمارے احتجاج کا اس کائنات اس نظام ہر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ہم جتنا چلائیں مگر
ہوگا وہی اور ہوا بہی وہی …‘‘
(افسانہ ’ پچھوارے کا نالا‘ : ارار مجیب)

ابرار مجیب کی جو کہانیاں تاریخیت سے تعلق رکھتی ہیں ا ن میں ’ پشپ گرام کا اتہاس‘ ’رات کامنظر نامہ ۲‘ ’ رات کا منظر نامہ ۱‘ قابل ذکر ہیں۔ تاریخیت کے حوالے سے زندگی کودیکھنا بھی اتنا ہی مشکل ہے جتنا بغیر تاریخ کے ……… تاریخی حوالوں کے ذریعہ ہم سمجھ پاتے ہیں کہ خیر و شر کا تصادم کتنا حیران کن ہے؟ ایک قوت کہیں پہلے سے موجود ہوتی ہے پھر دوسری قوت اس پرغالب آنا چاہتی ہے اور اس طرح دونوں قنتوں میں ٹکراؤ پیدا ہوتا ہے اور اسی طرح زندگی کا سفر رواں دواں رہتا ہے۔ افسانہ نگار یہ جاننا چاہتا ہے کہ خیر و شر میں ازلی ٹکراؤ کیوں ہے؟ کیا اس کا سبب انسان کی ازلی جبلت اور اس کے قول و عمل کی جدلیات ہے؟ کیا انسان کسی ظاہری قوت کے دباؤ میں ہے؟ اورایسا کرنا اس کی فطرت ہے؟ اگر یہ رصادم اس ک فطرت ہے تو اس کا حل کیا ہے؟ کیا یہ تصادم فطرت کا کھیل ہے؟ یہ سارے سوالات ان افسانوں سے نکلتے ہیں ۔
’رات کا منظر نامہ ۱‘ ہمارے سامنے ہندوستان کی تاریخی کشمکش کا کا منظر نامہ پیش کرتا ہے۔ قدیم ہندوستان کے تاریخی پس منظر کے کوائف سے بات شروع ہوتی ہے‘ پھر وسطٰی کا ہندوستان اور اس کے بعد جدید ہندوستان کی تاریخ ترتیب وار بیان کی گئی ہے۔ مگرسب کا انجام وہی حیرت ہے۔ اور اس پورے سلسلے کو ابرار مجیب ایک لامتناہی ازلی سلسلہ تصور کرتے ہیں جو اسی طرح ہمیشہ جاری رہے گا۔ افسانے میں بیانیہ تکنیک کا استعمال ہوا ہے اور فلسفہ غاب آنے کی وجہ سے کہانی پن پیدا نہیں ہوسکا ہے۔
ابرار مجیب کی جو کہانیاں ’ مروری زاویہ‘ کی کہانیاں ہیں یعنی ایسی کہانیاں جن میں گذرتے ہوئے زمانے کو پیش کیا گیا ہے اور اس مرور کو کائنات عالم کی تقدیر سمجھ لیا گیا ہے ‘ ان میں ’ابال‘ بہت ہی کامیاب ہے۔ یہاں پر یہ ا شارہ ہے کہ انسانی کائنات می یں جو تسلسل ہے وہ مادی کائنات سے مختلف کیوں ہے؟کائناتی نظام تو گردش اور دائروں کا نظام ہے مگر یہاں سونا‘ جاگنا‘ آفس جانا‘ گھر واپس آنا اور اس طرح کے تمام معمولات کیوں ہیں؟اور پھر ان معمولات میں خلاف معمول واقعات کا وقوع پزیر ہونا کیا ہے؟پھر اس’ اندھیرے ‘ میں جس کی طرف ا ن کے اکثر افسانے راجع ہیں انسانی مصنوعات کی حقیقت کیا ہے؟ ’ ڈارون ‘ بندر اور ارتقا‘ ایک مسلسل بدلتی ہوئی سماجی تصویر ہمارے پیش کرتی ہے جس میں ا نسانی اغراض ‘ فریب اور اس کی عیاری دکھائی دیتی ہے۔ اس افسانے میں شیخ جمّن جو ایک سیاسی لیڈر ہیں انہیں اپنی بیٹی کی شادی ایک ہندو لیڈر کے لڑکے سے کرنی پڑتی ہے اور اس کو قومی یکجہتی کا نام دیا جاتا ہے۔ شیخ جمن جس غربت سے اٹھے ہیں اور جس ماحول سے آئے ہیں یہ بھی قابل دید ہے۔ ’اسٹوری‘ میں ہمیں یہ احساس ہوتا ہے کہ افسانہ نگار افسانہ نگار ہمارے سامنے سماج کے ایسے طبقات کے ایسے پوشیدہ اسالیب کو ہمارے لاتا ہے جو پردہ ء غیب میں ہیں۔ افسانہ نگار انہیں افسانہ نگار نے انہیں جامعہ شہود عطا کیا ہے۔ اصلاً اس کہانی میں media کا وہ گھناؤنا چہرہ دکھا یا گیا ہے جو ہمارے سامنے کبھی نہیں آتا۔ خبروں کی تشکیل کا پس منظر ایسی تجارت بن گئی ہے جس نے صحیح اور غلط کی تمیز کو ختم کردیا ہے۔نتیجہ یہ ہے کہ جو کچھ ہمیں media دکھا رہا ہے وہ حقیقت نہیں ہے ۔ کہانی کی پیش کش اور واقعات کی ترتیب بہت موزوں ہے۔
’ پردھان منتری کی آمد‘ بھی ایک کامیاب افسانہ ہے جس میں دوسرے درجے کے ہندوستانی مسلم معاشرے کی عکاسی کی گئی ہے۔ اس کہانی میں ایک أوارہ کتا بھی ہے جو شروع سے کہانی میں ساتھ ساتھ رہتا ہے اور ہرطرف سے دھکے کھاتا رہتا ہے ۔ اخیر میں جب پردھان منتری کا پروگرام ختم ہوتا ہے تو میدان میں ایک جگہ زمین پر پڑی ہوئی پردھان منتری کی تصویر پر ٹانگ اٹھا کر پیشاب کرنے لگتا ہے۔ کہانی یہاں آکر ختم ہوجاتی ہے۔ کہانی کی جزویات میں کتے کی آمدنے دلچپی میں اضافہ کر دیا ہے۔ ’ نیل کنٹھ کی واپسی‘ خوانگی زندگی کے اسرار بیان کرتی ہے جس میں شوہر اور بیوی کے درمیان روز جھگڑا ہوتا ہے اور یہ اختلاف انتشار پر آکرختم ہوتا ہے۔ شوہر ذہنی مریض ہو جا تا ہے اور بیویاس کوچھوڑ کر بھاگ جاتی ہے۔ اس طرح اس کہانی میں انسانی نفسیات کی پیچیدگی دکھائی گئی ہے جو دلچسپی سے پر ہے۔ ’ نیل کنٹھ ‘ کو علامت کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔
ابرار مجیب کے افسانوں کے مطالعے کے بعد ہم اس نتیکے تک پہنچے ہیں کہ انہوں نے اپنی افسانہ نگاری کے ذریعہ اردو ایسے نشانات اور بیان کے ایسے رموزہمارے سامنے لانے کی کوشش کی ہے جو فی الواقعہ منظر ‘ اسرار اور وقوعات کے جہات سے اس کائنات کو بھر پور دیکھنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے سب سے زیادہ جس موضوع کو برتنے کی کوشش ہے وہ کائنات کے لامتناہی اسرار ہیں جو ان کے وجود میں بسے ہوئے ہیں۔ یہ واقعہ ہے کہ کسی فن کار کی عظمت کو سمجھنے کے لئے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اوّلاً کائنات اس فن کار کی نگاہ میں کیا ہے؟ اور وہ کائنات کے اسرار کی طرف متوجہ ہے یا نہیں؟اس کے بعد وہ فن کار انسان ‘ سماج اور تاریخ کو کس نظر سے دیکھتا ہے؟ او ر خود جینے کا عمل اس کے سامنے کیا ہے؟ خود میں نے محسوس کیا ہے کہ جو فن کا ر بھی عام سطح س ے تھوڑا بھی اوپر اتھا اس کے یہاں کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی طورپر کائنات کی تفہیم تو دور کی چیز ہے اس کے اندر کائنات پر حیرانی کا عمل ضرور ملتا ہے۔ اردو میں اگر یہ چیز سب سے زیادہ کسی کے یہاں پائی گئی ہے تو وہ قررۃ العین حیدر ہیں۔ اس کے بعد یہ اسٹائل کہیں کہیں حیات اللہ انصاری‘ قاضی عبد الستار ‘ انتظار حسین‘ اقبال متین‘ بانو قدسیہ‘ شکیلہ اختر‘ سہیل عظیم آبادی ‘ شفیع مشہدی‘ شمیم افزاء قمر اور شمیم صادقہ کے یہاں پایا جاتا ہے۔ یہی وہ حیرانی جو انسانیت کو ’اجل گریز تہذیب ‘ ( death avoidant culture ) میں زندگی بسر کرنے سے منع کرتی ہے اور اس کے اندر غیرمحسوس طریقے پر موت کی یاد پیدا کرتی ہے۔ ابرار مجیب کی افسانہ نگاری کا سواد اعظم اسی تمثیل پر قائم ہے۔

تبصرے بند ہیں۔