جدید مہجری مرثیہ تاریخی و تہذیبی تناظر میں

اردو شاعری میں ہمیشہ سے ہجرو فراق کا انفرادی اور اجتماعی تصور اہم رہاہے ۔ہجر کا مسئلہ جتنا مادیاتی ہے اتنا ہی روحانیت کا متحمل بھی ہے ۔تاریخ کائنات کی پہلی ہجرت آدم کا جنت سے زمین پر آنا ہے اور پھر فراق جنت اور ہجر جناب حوا میں حضرت آدم کی آہ و زاریاں مرثیہ کے اولین نقوش ہیں ۔چونکہ انسان ایک ایساحیوان ناطق ہے جو اپنے شعور کی روشنی میں اور فطری جبلت کی بنا پر مسلسل ہر سطح پر ارتقاء کا خواہشمند ہے لہذا اس خواہش کی تکمیل کے لئے اسے ہر طرح کی کیفیات سے دوچار ہونا لازمی ہے ۔یہی ارتقا کا تدریجی عمل انسان کی طبیعت اورنفسیات پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے اور ’’کچھ پانے کے لئے کچھ کھونے ‘‘ کے فلسفہ کے پیش نظر مختلف حالات اور ماحول میں انسان کو جد و جہد کی بنیا د پر ہرلمحہ نئی صورت حال کا سامنا کرنا ضروری ہوجاتاہے ۔’’ کچھ کھونے ‘‘ کے اسی خارجی عمل کو ہم ہجر سے تعبیر کرتے ہیں مگر روحانی ہجرت اس مہاجرت سے بالکل مختلف کیفیات کی حامل ہوتی ہے اور اس ہجرت میں مادیاتی المناکیوں کا گذر تک نہیں ہوتا۔صوفیائے کرام کی اصطلاح میں موت کو وصال سے تعبیر کیا جاتاہے ۔یہ وصال بذات خود ایک وسیع معنی میں استعمال ہوتاہے ۔جہاں ایک طرف اس جہان فانی سے انسان کی روح عالم بقاء یعنی وحدت الوجود کی جانب ہجرت کرتی ہے وہیں اس اصطلاح میں اپنے وطن اصلی کی طرف بازگشت کا مفہوم بھی موجود ہے ۔
ہمارے اجتماعی لاشعور میں کئی تاریخی ہجرتوں کی یاد کبھی مندمل نہ ہونے والے زخم کی صورت میں موجود ہے۔کہیں یہ عمل اختیاری صورت میں موجودہے کہیں اس عمل کی کیفیت اضطراری ہے ،کسی بھی ہجرت کا اپنا الگ تاریخی پس منظر اور نفسیاتی انفرادیت ہوتی ہے ۔موجودہ صدی کی اہم اجباری ہجرتوں اور آمری و استعماری نظام کی سفاک طاقتوں کے مظالم کی بنیاد پر ہونے والی مظلومانہ جلاوطنیوں میں عالی پیمانے پر جو اہمیت اور توجہ مسئلۂ فلسطین کو دی گئی اتنی اہمیت معاصر عالمی ادب اور سماجی اداروں نے کسی دوسرے مسئلے کو نہیں دی ۔موجودہ صدی میں ہونے والی تازہ ہجرتوں اور معاصر جلا وطنیوں کا مسئلہ اب بڑی حد تک ماند پڑنے لگا ہے ۔نئی نسل اب المیۂ تقسیم ہند و پاک کے مطالعاتی و سماعتی تجربے سے ہٹ کر جدید در پیش مسائل کے تناظر میں ہونے والی ہجرتوں اور عصری جلاوطنیوں کے مشاہداتی تجربوں پر غور کرنا چاہتی ہے ۔ہندوستان سے ہجرت کے بعد پاکستان جانے والی نسل اب تقریبا حالت نزع میں ہے لیکن انکی نسلوں کو آج بھی اس طرح مورد طنز و تشنیع قرار دیا جاتا ہے کہ جیسے وہ ہجرت کا جبری عمل اختیار کرکے کسی گناہ کبیرہ کے مرتکب ہوئے ہوں ۔اس جبر ہجرت کے کرب سے پاکستان کا انسان ابھر بھی نہیں پایا تھا کہ غیر سنجیدہ و متعصبانہ سماجی و تہذیبی مسائل اور جلا وطنی کے بعد اچانک مقامی رویوں میں آئی جارحانہ تبدیلی کی بنا پر مغرب کی سمت ہونے والی ہجرتوں کا جو نفسیاتی خمیازہ مہاجروں کی نسلوں کو بھگتنا پڑا ہے اسکی اپنی ایک الگ درد افزا داستان ہے ۔دہری سیاست اور داخلی انتشار کے نتیجہ میں المیۂ تقسیم ہند کے بعد کی دوسری بڑی اور اہم تقسیم بنگلہ دیش کی صورت میں سامنے آئی ۔جلاوطنی و مہاجرت کے پس منظر میں برقی تبدیلیاں رونما ہورہی تھیں اور عالمی سیاست و معاشرت کا منظر نامہ بھی تیزی کے ساتھ متغیر ہورہا تھا ۔ان تمام تغیرات کی بنا پر پیدا شدہ مسائل سے جہاں اقدارحیات اور تہذیبی و معاشرتی قدریں متاثر ہورہی تھیں وہیں فنکار بھی ان مسائل و آلام کے جارحانہ عمل کے رد عمل سے خود کوباز نہ رکھ سکا کیونکہ اس مقامی جارحیت و تہذیبی سفاکیت کا شکار تخلیق کاروں کا بڑا طبقہ بھی ہورہا تھا ۔ ادب میں اس اثر انگیزی کی بنیاد پر تخلیق ہونے والے ادب کے بنیادی رجحانات پر روشنی ڈالتے ہوئے عبادت بریلوی لکھتے ہیں ’’ادب میں نئے رجحانات بدلتے ہوئے حالات اور انکے نتیجہ میں نئے نئے خیالات اور نظریات کے زیر اثر پیدا ہوتے ہیں ۔جب معیاروں میں تبدیلی ہوتی ہے ،اقدار نئی صورتیں اختیار کرتی ہیں تو ادب بھی ان سے متاثر ہوتاہے ‘‘۔(1)حالات کی تبدیلی کا یہ اثر دیر پا اور ذہن و روح کو جھلسا دینے والا تھا۔سیاسی ،معاشرتی اور تہذیبی رویوں میں بدلاؤ محسوس ہوا تو ادب میں بھی نئے نظریات اور جدید سیاست و معاشرت کے لحاظ سے ہئیت و موضوعات میں تبدیلیاں ہونے رونما ہونے لگیں ۔
1947 کے بعد تقسیم کے المناک واقعہ نے ہندوستانی لسانیات ،تہذیب ومعاشرت کے ساتھ ہر زبان کے ادب کو بھی متاثر کیا۔ جغرافیائی لحاظ سے یہ تقسیم دو ممالک کی سیاسی سطح پر اپنے حقوق کے انحفاظ کے لئے زمینی تقسیم نہیں تھی بلکہ اس تقسیمی المیہ نے دونوں طرف کے افراد کے ذہنوں ،انکے افکارو خیالات اور تہذیب و ادب کو بھی تقسیم کردیا تھا ۔عرصۂ دراز تک تخلیق کار ذہنی و تخلیقی سطح پر متذبذب رہے کہ آخر انہیں فکری سطح پر کس نوعیت کا ادب تخلیق کرنا ہے اور انکی سوچ کے بنیادی مبادات کیا ہوں ؟کیا اپنی موروثی تہذیب و ثقافت سے بغاوت کی جائے اور جدید ماحول میں نئی وراثتوں کی بنیاد رکھی جائے ۔یہی وہ وقت تھا کہ جب ادیب متذبذب اور کشمکش کے شکار فقط ہندوستانی اور پاکستانی ہوکر رہ گئے ۔افکار میں سیاسی و تہذیبی تبدیلیاں رونما ہونے لگیں اور ادب ایک ایسی را ہ پر چل نکلا جہاں عصبیت اور منافرت کے کانٹوں کے سوا کچھ نہیں تھا ۔یہ روح فرسا اور ادب مخالف ہوا بہت دنوں تک نہ بہ سکی ۔بہت جلد فنکاروں کو اپنی آفاقی ذمہ داریوں کا احساس ہو گیا ۔فنکار ایک بار پھر متفکرانہ اور خالص انسانی مسائل کی بازیافت کے ساتھ عوام الناس کے سودو زیاں کے بارے میں سوچنے لگا ۔
مہجری ادب میں غز ل کو بڑی اہمیت حاصل ہے ،مہاجرت کے مسائل ،انسانیت سوز مظالم کی داستان ،مسلکی اختلافات اور مذہبی منافرت کے مباحث جس تاثر پذیری کے ساتھ غزل میں بیان ہوئے ہیں اس اثر انگیزی کے ساتھ دوسری اصناف شاعری میں موجود نہیں ہیں۔ مرثیہ میں براہ راست مادیاتی مہاجرت کے المناک مسائل کا بیا ن تو اس سطح پر نہیں ہو سکا جس سطح پر دوسری اصناف میں ہوا ہے مگر مرثیہ میں نظم کئے ہوئے مباحث کا دوسری اصناف میں بیان کئے ہوئے مسائل و مباحث سے انفرادیت یہ ہے کہ دوسری اصناف میں معاصر مہاجرت کا بیان کسی تاریخی تناظرسے انضمام و ہم آہنگی کی بنیاد وں پر نہیں ہوا اور انہ ایسے مضامین غزل کے مزاج سے مطابقت رکھتے تھے لہذا براہ راست جن مسائل و المیات کا بیان تاریخی و مذہبی تناظر میں ممکن نہیں تھاایسے مسائل و مباحث اور ذہنی انتشاریت کے منظر و پس منظر کے بیانیہ کے لئے شعراء نے علامت سازی کا تاریخی عمل شرو ع کیا جس کی بنیاد پر اردو ادب میں نئے موضوعات اور جدید علامات کا ایک وسیع سلسلہ سامنے آیا۔ مرثیہ کی مخصوص فضا میں ان حالات کا توضیحی جائزہ مشکل تھا مگر مرثیہ کی فضا کے پس منظر میں ہر طرف اشاراتی کیفیت میں اس اندوہ کی مکمل امیجری بنتی دکھائی دیتی ہے ۔جہاں ہر انسان اپنے غم کا مداوا تلاش کرنے کی کوشش میں تھا وہاں ہجرت کی کربناکی اور مہاجر ہونے کے احساس کو تاریخ کے ان واقعات کی بنیاد پر کم کیا جارہا تھا جہاں وطن بدر لوگ اور ہجرت پر مجبور افراد ہر محاذ پر انکے غم کا مداوا اور مہاجرت کے خمیازوں کی مثال بن کر روبرو تھے ۔تاریخ ایسے ماحول میں صرف کردار وں کی عکاسی نہیں کرتی بلکہ کرداروں کو مجسم شکل میں قاری اور فنکار کے ذہن میں ڈھال دیتی ہے ۔
تقسیم کے بعد دونوں ملکوں میں شدید سیاسی انتشاریت ،تہذیبی تغیر کے مسائل ،اقتصادیاتی بحران ،لسانیات اور قومیات کے بکھیڑے ،یاسیت و قنوطیت کی مضبوطی سے جمی ہوئی پرتیں ،عدل و قضاوت کی اکھڑتی ہوئی سانسیں عوام الناس کے لئے عجیب سے ماحول کی تخلیق کررہی تھیں جہاں ببانگ دہل ہر شعبۂ حیات میں امن و سلامتی کے سیاسی اعلانات ہوتے رہے مگر صورت حال حقیقت واقعہ سے بالکل مختلف تھی ۔دونوں طرف کے لوگ سلامتی و امن کا ڈھنڈورا پیٹتے رہے لیکن جنگ کا تندور پوری تب و تاب کے ساتھ شعلے اگلتا رہا ۔محبتوں کے راگ الاپے جاتے رہے لیکن نفرتوں کے جال ذہنوں سے ہٹائے نہ جاسکے ۔مسلکی منافرت کے ساتھ نسلی تعصب کا بازار اپنے شباب پر رہا ۔ہندو مسلمان اور سکھ جلاوطنی کے عذاب میں اس طرح گرفتار ہوئے کہ ابھی تک اسکے نقوش ذہنوں سے دھندلا ئے نہ جاسکے۔اس پس منظر کو بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد ذاکر رقمطراز ہیں ’’ فرقہ وارانہ تعصب او ر کشت وخون کے جو مظاہرے ان دنوں دیکھنے میں آئے مہذب دنیا کی تاریخ میں اسکی مثال شاید ہی ہو۔ ‘‘ (2)
ادیب جو نفسیاتی لحاظ سے بڑا حسا س ہوتا ہے اس سیاسی،تہذیبی و سماجی تبدیلی کو ذہنی طور پر برداشت نہ کرسکا ۔مرثیہ نگار چونکہ ایک مخصوص فضا میں اپنے مافی الضمیر کو بیان کرنے پر مجبور ہوتا ہے لہذا مرثیوں میں وہ سیاسی کشمکش اورتہذیبی انتشاریت پوری وضاحت کے ساتھ شامل نہ ہوسکی اور جہاں ان مسائل کو موضوعاتی پیرائے میں ڈھالنے کی سعی کی گئی وہاں مرثیہ ’’ رثائیت ‘‘ کی حدودسے خارج ہوتا گیااس تبدیلی نے مرثیہ کی داخلی و موضوعاتی ساخت کو تو متاثر کیاہی مگر اس عمل کے زیادہ گہرے اثرات مرثیہ کی ہئیت پر مرتب ہوئے ۔ ادب کی دوسرے اصناف سخن میں اس پر فریب نظام کی کھل کر مخالفت ہوئی اور ادب نے ان منافرانہ ذہنوں کی زہریلی سوچ کی بخیہ ادھیڑ کر رکھدی ۔یہی وجہ ہے کہ جہاں غزل میں اشاریت اور علامت کا نیا منظر نامہ تیار ہوا وہیں مرثیہ میں بھی لفظوں کے استعمال کی کیفیت میں بڑی تبدیلی رونما ہوئی ۔اس سلسلے میں محمد حسن کا بیان قابل مطالعہ ہے ’’ آزادی کے بعد بھی مرثیہ کی دل شکستگی کا یہ دور ختم نہیں ہوا ،ہندوستان تقسیم ہوا ،آزاد ہوا لیکن اسکی یکجائی اور تہذیبی سالمیت واپس نہیں لوٹی اسی لئے ہندوستا ن اور پاکستان میں مرثیے کی مراجعت ہوئی کہ اس مراجعت میں بہت سی ہم عصر درد مندیاں بھی چھپی ہوئی تھیں ‘‘۔(3)مرثیہ میں مراجعت کا یہ دور سیاسی ،تہذیبی اور ثقافتی انتشاریت کا دور تھا۔معاصرانہ درد مندیوں کے ذیل میں کچھ ایسے مسائل بھی نظم کئے جانے لگے جو مرثیہ کی مقدس فضا کو مجروح کررہے تھے ۔کچھ مرثیہ نگار سیاست کی بازیگری کے دام میں اس قدر الجھے کہ انہیں یہ بھی خیال نہ رہا کہ مرثیہ کے دامن میں سیاسی مسائل کے بیان کی کتنی گنجائش ہے ۔یہی وہ دور تھا کہ جب مرثیہ کی فضا میں زہر گھولنے کی کوشش کی گئی ۔مسلکی عصبیت ،تقسیم کا ذہنی دباؤ ،اور پھر سیاسی نشیب و فراز کے ساتھ دونوں ممالک میں ہونے والی جنگوں کے مسائل بھی مرثیہ میں نظم کئے جانے لگے ۔گویا کہ اب مرثیہ سیاسی رزمگاہوں کا ترجمان بھی بن گیا تھا ۔مرثیہ کی یہ افسوس ناک فضا تا دیر تو قائم نہیں رہی مگر یہ مختصر عرصہ مرثیہ کے لئے نا مناسب رہا ۔
ہجرت کے انفرادی و اجتماعی تجربات سے قدیم مرثیہ نگار بھی روبرو ہوئے لیکن انکے مراثی میں اس تجربہ کی وہ حسیت نظر نہیں آتی جو معاصر جدید مرثیہ نگاروں کے یہاں موجود ہے۔میرو سودا جیسے مرثیہ کے اہم شاعر بھی ہجرت کے بعد لکھنؤ آئے مگر انکے مراثی میں ہجرت کی کوئی بنیادی یا سرسری کرب انگیزی نظر نہیں آتی جبکہ انکی غزلیہ شاعری میں ہجرت کے امکانات اور مسائل پر مباحث موجود ہیں۔اسکادوسرا اہم سبب یہ بھی رہا کہ مدت دراز تک مرثیہ پر طرح طرح کے الزامات عائد ہوتے رہے ۔ہئیت اور اسلوب میں اتنی وسعت پیدا نہیں ہوسکی تھی جو اس قدر پچیدہ اور حساس موضوعات کا احاطہ کرسکے ۔اسی لئے سودا نے مرثیہ میں کئی اہم تجربوں کی بنیاد رکھی اور فکر انگیز مضامین نظم کرنے کی کوشش کی جسکی بنیاد پر مستقبل میں آنے والی نسل کے لئے نئے امکانات اور موضوعات میں وسعت پیدا ہوئی ۔
لسانیات پر ہجرت کے اثرات:۔اردو زبان کی نشو و نما کی تاریخ کے مطالعہ کے بعد معلوم ہوتاہے کہ ہماری زبان کی نمو اور ارتقاء میں ہجرت کا ناقابل فراموش کردار رہاہے ۔ ہندوستان پر محمود غزنوی کے حملے کے ساتھ ہی فارسی زبان و تہذیب نے ہندوستانی سر زمین پر ایک خوش آئند مستقبل کی امید میں قدم رکھا تویہاں کا موجودہ لسانیاتی اور تہذیبی ڈھانچہ فاتح کی تہذیب کے زیر اثر تیزی کے ساتھ متغیر ہونے لگا۔اسکے بعد مغلوں کی تہذیب و ثقافت نے ہندوستان کی ہزاروں سال پرانی تہذیب و ثقاقت اور لسانیات سے مصالحاتی و روادارانہ عمل کے ساتھ مستقبل میں ایک نئی تہذیب اور نئی زبان کا خمیر تیار کرنا شروع کیا۔خصوصا شمالی ہند سے دکن کی سمت مسلمانوں کی ہجرت نے جہاں تہذیبی و معاشرتی ڈھانچے کو متاثر کیا وہیں نئے لسانیاتی کنیڈے بھی تیار کئے ،اورنگ زیب کے دکن پر حملے کے بعد امراء و سلاطین نے مرہٹوں کی مقامی تہذیب و ثقافت کو ذاتی مفاد کی خاطر اپنانا شرو ع کیا تو انکا یہ مفاہمتی رویہ انکی تہذیب و معاشرت پر غالب ہو تا چلا گیا ۔مخلوط نظام زندگی نے رواداری و رفاقت کی بنیادوں پر مخلوط تہذیب اور مخلوط زبان کے بیج بونے شروع کئے ۔مغلوں کی سرکاری زبان اگرچہ فارسی تھی اور انکی علاقائی تہذیب بھی یہاں کی تہذیب سے مطابقت نہیں رکھتی تھی مگر زبان و تہذیب کے خمیر میں چند مماثلتوں کی بنا پر نئی تہذیب اور نئی زبا ن کی عمارت تعمیر ہونے لگی ۔مختصر یہ کہ جب دکن سے مراجعت کے بعد یہی افراد دہلی آئے تو اپنے ساتھ ایک نئی زبان اور نئی تہذیب کے نمونے لیکر آئے ۔یہ الگ بات کہ امتداد وقت کے ساتھ دہلی نے زبان و تہذیب کے لئے لحاظ سے دکن سے اپنی انفرادیت کے ایسے پہلو تلاش کئے جنکی بنیاد پر دہلوی لسانیات کو درجۂ اعتبار حاصل ہوا اور یہاں کی تہذیب نے پورے شمالی ہند کی تہذیب کی بنیادو ں کو سجایا اور سنوارا۔دکن کے بعض مرثیہ نگا روں کے یہاں ایرانی تہذیب اور بولیوں کے اثرات موجود ہیں مگر یہ اثرات اتنے واضح نہیں ہیں جیساکہ مقامی تہذیب اور لسانیات کے اثرات انکے مرثیوں میں پائے جاتے ہیں ۔یا پھر یوں کہاجائے کہ مہاجروں نے اپنے سیاسی ،سماجی اور ثقافتی مفادات کی خاطر یہاں کی تہذیب اور زبان کو اہمیت دی جسکی بنیاد پر اس عہد کے ادب پر بھی معاصر تہذیب و زبان کے اثرات مرتب ہوئے ۔
مہاجرت کا مفہوم اور کیفیات:۔ ہجرت کے لغوی معنی نقل مکانی کے ہیں۔ اس لغوی تناظر میں ہجرت کی افہام و تفہیم شاید ممکن نہ ہو اس لئے کہ ہجرت کا تعلق ظاہری اعتبار سے نقل مکانی سے منسوب ہونا ہے مگر ہجرت انسان کے ظاہر سے زیادہ اسکے باطن کو متاثر کرتی ہے لہذا کسی بھی ادب پارے کی تفہیم کے لئے ضروری ہے کہ ہم ہجرت کے ظاہری مرتبہ اثرات کے ساتھ ان اثرات پر بھی غور و فکر کریں جو انسان کے باطن اور اسکے ذہن کے ساتھ اسکی روح کو بھی متاثر کرتے رہے ہیں ۔ہاں یہ حقیقت ہے کہ ظاہری اثرات کی تفہیم و تطبیق آسان ہے لیکن اسکی بہ نسبت ہجرت کے باطنی اور داخلی عوارضات کا مشاہدہ ایک امر دشوار ہے ۔یہ کیفیت بسا اوقات توضیحیت کے ساتھ تخلیقی فن میں بھی آشکار نہیں ہوتی بلکہ اس تاثر پذیری کے عوامل کی معکوسیت اور کبھی کبھی ذہنی انتشاریت کے نتیجہ میں رد عمل کے طور پر ایک متشددانہ کیفیت سامنے آتی ہے جسے ہم احتجاج یا مزاحمت کانام بھی دے سکتے ہیں جبکہ یہ کیفیت احتجاج و مزاحمت سے یکسر اختلافی تاثر رکھتی ہے اور اسکے نتائج بھی تخلیقی سطح پر مختلف ہوتے ہیں ۔
’’تلاش معاش ‘‘ میں ہونے والی ہجرتوں کا پس منظر تقسیم کے بعد ہونے والی ہجرتوں کے جیسا کربناک اور خونی تو نہیں تھا مگر اس ہجرت کا مزاج اور اسکی نفسیات تقسیم کے زیر اثر ہونے والی ہجرتوں سے مختلف تھی۔اس ہجرت میں بھی جبر و اختیار کے مرحلے تھے ،ہجرو فراق کی جاں سوز کیفیات کا سامنا تھا ،دربدری اورخانہ بدوشی کی زندگی تھی ،جسمانی غلامی کے ساتھ ذہنی مزدوری کی روح سوزیت بھی تھی لیکن مہاجر کو اتنا اختیار ضرور تھا کہ وہ واپس اپنے وطن کی طرف لوٹ سکتاہے ۔ہجرت کی اس کیفیت نے ادب کے تخلیقی مزاج میں بڑی دخل اندازی کی اور نئی نسل جس نے تقسیم کے مسائل اور المناکیوں کو محسوس نہیں کیا تھا بھلا وہ ایک غیر محسوس اور لا عملی مسائل کو کیسے اپنا سکتی لہذا اس کا ذہن ہجرت ثانوی یعنی ’’ تلاش معاش ‘‘ کے اسباب و مسائل اور اس تناظر میں ہونے والی ہجرتوں کی درد انگیزیوں کو بیان کرنے میں سکون محسوس ہوا۔
تلاش معاش میں ہونے ولی ہجرتوں کے عوامل میں بھی کئی طرح کے مضمرات تھے ۔اس مہاجرت کا مختلف زاویوں سے تجزیہ کیاجاسکتا ہے مگر افسوس ہے کہ ہمارا تخلیقی ادب نئی ہجرت کے تناظر میں صرف ’’ تلاش معاش‘‘ میں ہونے والی ہجرتوں کے بیانیہ تک سمٹ کر رہ گیا۔ادب میں روحانیت کا دبدبہ کم ہونے لگا اور مادی اسباب و عوامل کی کارفرمائی پر توجہ دی جانے لگی کیونکہ اب کسی بھی ہجرت کا پس منظر روحانیت سے قریب نہیں تھاہاں اس مقام پر تجدد پیدا کرنے کی غرض سے مادیاتی مہاجرت کو روحانی ہجرتوں کے سیاق و سباق سے ملایا جانے لگا جس کے نتیجہ میں مادیاتی عوامل میں روحانیت کے عناصر تلاش کرنے کی ناکام کوشش کی گئی۔ بقول ابوالکلام قاسمی’’ویسے شکم کی آگ کا محرک آجکی ہجرت میں اس حد تک غالب عنصر ہے کہ اس پس منظر کو نظر انداز کرکے ہجرت سے پیدا شدہ مسائل کے ساتھ انصاف کرنا ممکن نہیں‘‘۔(4)اس حقیقت سے انکار نہیں کہ مادی اسباب کی بنیاد پر ہونے والی ہجرتوں سے پیدا شدہ مسائل کے ساتھ ادب میں کئی موضوعاتی اور فکری تغیرات رونما ہوئے لیکن ہم شکم کی آگ میں جھلس کر ان ہجرتوں کو فراموش کربیٹھے جو تلاش معاش کے مقدمات میں ہوتی رہیں اور انکا پس منظر مادیاتی پس منظر میں ہوتے ہوئے بھی روحانیت سے قریب تھا ۔یہ ہجرت ’’ حصول علم ‘‘ کے لئے ہورہی تھی ۔یہ عمل نہ مکمل اضطراری تھا اور نہ پوری طرح اختیاری ۔اس ہجرت کی روحانی عمل کو ادب میں اتنامحسوس نہیں کیا گیا جتنا کہ تلاش معاش کے مادی عمل کو محسوساتی انداز میں بیا ن کیا گیا ہے ۔
ہجرت کے مزاجی اثرات: ہجرت خواہ اجباری ہو یا اختیاری بہر صورت جہاں انسانی ذہن و روح پر اسکے منفی و مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں وہیں انسانی ذہن و تہذیب کو ایک نئی سمت دینے میں بھی ہجرت کا بڑا عملی دخل ہے ۔انسانی تغیر پسند سماج میں ذہن و تہذیب ،معاشرت ،ثقافت اور لسانیات و عمرانیات کے بنیادی اصولوں میں تغیر و تبدل برقی کیفیت کے ساتھ نمودار ہوتا ہے ۔ہر شعبۂ حیات میں نمو اور ارتقا ء کی جلوہ ریزی سے نئی راہیں ہموار ہوتی ہیں ۔انسان کے ساتھ اسکی مکمل تہذیب و ثقافت اور انداز معاشرت ہجرت کرتے ہیں اور انہی بنیادوں پر مستقبل میں ارتقاء اور مسلسل نمو کی گنجائشیں وجود پذیر ہوتی ہیں ۔اس کیفیت کے زیر اثر فقط انسان کا اپنا ذہن اور اسکی اپنی روح متاثر نہیں ہوتی بلکہ اسکے ذہن و روح کی تاثر پذیری کے نتیجہ میں کئی طرح کے خارجی تغیرات معرض وجود میں آتے ہیں ۔کبھی انسان کا باطن علاقائی تہذیب و معاشرت سے ضرورت کے تحت مصالحانہ اثرقبول کرتاہے تو کبھی ماحولیاتی نظام اسکے باطن کو تبدیل کرنے میں معاونت کرتاہے اور کبھی ایک انسان کا باطن پورے ملک کے جغرافیہ کو بدلنے کی صلاحیت کا متحمل ہوتاہے ۔اگر یہ اثر انگیزی اور تاثر پذیری کا الہی نظام نہ ہو تو ہر شعبۂ حیات انجماد کا شکار ہوجائے ۔عالمی سطح پر جتنے عظیم فکری ،تہذیبی اور سماجی انقلابات رونماہوئے اسکے پس پردہ کہیں نہ کہیں مہجری رویے بھی محرک ثابت ہوئے ہیں ۔بعض ہمارے تخلیق کار ہجرت کے مزاج اور اسکے عوامل و کیفیات سے لا علم ’’ تحریری فیشن‘‘ کے زیر اثر ہجرت کے موضوع پر سطحی اندازکی بحث کرتے رہے ہیں۔اس عمل کے پس منظر کے صرف منفی تلازمے تلاش کئے گئے ۔جو کبھی مہاجرت کے مسائل سے روبرو نہیں ہوا اس نے بھی ہجرت کے موضوع پر طبع آزمائی کی کوشش کی اس طرح ہجرت کے بنیادی تقاضوں اور مثبت رویوں کو بھی ٹھیس پہونچی۔یہاں محمد حسن کا بیان بھی قابل غور ہے ’’ ممکن ہے جسے ہم شاعر کا حقیقی اظہار سمجھ رہے ہوں وہ محض روایتی انداز بیان ہو یا محض بولتے ہوئے قافیہ کی آواز‘‘۔(5) جس وقت ادب میں کثرت کے ساتھ مہاجرانہ مسائل کا بیان تاریخی ہجرتوں کے پس منظر میں ہورہا تھا ایسا نہیں ہے کہ وہ تمام مباحث کسی تجربی حسیت کی بنیا پر نقل کئے جارہے تھے ۔مہاجر مرثیہ نگاروں کے یہاں اظہار ذات کے مسائل موجود تھے مگر وہ شعراء جو ہجرت کے مزاج اور کیفیات سے بھی واقف نہیں تھے وہ بھی مہاجرت کی المناکیوں پر تبصرہ آرائی اور سیاسی عوامل کی کارفرمائی پر رائے د ہی کے عمل میں کسی سے پیچھے نہیں رہنا چاہتے تھے ۔یہ اظہار حقیقی اظہار ذات نہیں تھا بلکہ روایتی اور مضمون آفرینی کے فکری عمل میں پسماندگی کے احساس کی بنا پر مقلدانہ کوشش تھی ۔ا س اظہار میں مشاہداتی و مطالعاتی تجربہ کی اہمیت کم سماعتی اور تقلیدی حصار زیادہ تھا۔
مداوائے غم کی صورتیں :۔انسان جسمانی زخموں سے زیادہ اپنی روح اور ذہن کے زخموں کا اندمال چاہتاہے ۔بر وقت صحیح مداوا نہ ہونے کی صورت میں وہ ذہنی ہیجان و ہذیا ن کا شکار ہوجاتاہے ۔روح اس عارضہ کی بنیاد پر بیمار ہوتی ہے تو انسان نفسیاتی مریض بن جاتاہے ۔تنہائی اور وحشت زدگی اسکا مقدر ہوجاتی ہے ۔ان امراض سے محفوظ رہنے کے لئے انسان ان زخموں کے اندمال کی صورت تلاش کرتاہے ۔جس طرح جسم پر لگا ہوا گھاؤ طبیب کی جراحت کا محتاج ہوتاہے اسی طرح ذہن اور روح کی چوٹوں کے لئے بھی روحانی طبیب کی ضرورت ہوتی ہے ۔جسم کا زخم آسانی سے بھر جاتاہے مگر ذہن و روح کے گھاؤ بھرنے کے بعد بھی ہرے معلوم ہوتے ہیں یعنی انکی کسک انسان کے لاشعور میں باقی رہتی ہے اور وقت بہ وقت کسی سانحہ یا حادثہ کے اثرات محسوس کرتے ہی وہ زخم ایک بار پھر ہرے ہونے لگتے ہیں ۔نفسیات اور فطرت کی بنیاد پر انسان روح اور ذہن کے زخموں کا مداوا تاریخی تناظر میں تلاش کرتاہے ۔یعنی وہ حادثات جو اسکی نفسیات پر اثر انداز ہوئے ہیں اگر تاریخ کے دامن میں اس سے بھی کرب انگیز سانحات موجود ہیں تو انسان ان واقعات و حادثات کے پس منظر میں اپنے زخموں کا اندمال تلاش کرلیتاہے ۔اگر یہ حادثات اسکے مذہب کا حصہ ہوں تو انسان جذباتی طور پر ان واقعات کی کیفیت سے با آسانی مانوس ہوجاتاہے ۔
تاریخ کے حافظہ میں یوں تو کئی ہجرتوں کے درد افزا واقعات کی یاد تازہ ہے مگر کچھ واقعات ایسے بھی ہیں جو اسکے حافظہ میں ہمیشہ سر فہرست رہتے ہیں اور مستقبل قریب میں ہونے والی ہر مہاجرت کے اسباب و عوامل کو انہی ہجرتوں کے تناظر میں پیش کیا جاتاہے ۔اسلام کی پہلی ہجرت جناب جعفر طیار نے حکم رسول ؐ کی بنیاد پر حبش کی جانب کی تھی ۔جیسا کہ ہم عرض کرچکے ہیں کہ مہاجر اپنے ساتھ اپنی تہذیب ،انداز معاشرت ،مذہبی و ادبی وراثت بھی لے جاتاہے لہذا جہاں اسکا قیام ہوتاہے اسکی تہذیب و معاشرت میں اگر استحکام و پائیداری ہے تو وہ مقامی افراد کو بھی اپنی طرف متوجہ کرلیتاہے ۔حبش میں اسلامی قوانین و تہذیب کا نفاذ اسی ہجرت کا پس منظر ہے ۔
دوسری ہجرت مکہ سے مدینہ کی جانب رسول اکرم نے کی تھی ۔ظاہر ہے ان دونوں ہجرتوں کا سیاق اپنے ہم وطنوں کے ذریعہ دی جانے والی اذیتوں اور ذہنی کلفتوں پر مبنی ہے ۔تیسری ہجرت حضرت علی نے اپنے دور خلافت میں کوفہ کی جانب کی تھی ۔یہ ہجرت اجباری نہیں اختیاری تھی ۔کیونکہ مدینہ کے افراد مال ودولت کی فراوانی کی بنیا د پر اسلامی فرائض کی انجام دہی میں کوتاہی سے کام لینے لگے تھے ۔نہ اب انہیں علم و فن سے اتنا شغف رہ گیا تھا اور نہ جہاد میں کوئی دلچسپی باقی تھی ۔حضرت علی ؑ نے انہی تمام مسائل کے پیش نظر کوفہ کو دارالخلافہ قرار دیا کیونکہ کوفہ اس وقت تک کوئی عظیم شہر نہ تھا بلکہ مختلف علاقوں سے آنے والے افراد کی آماجگاہ تھی ۔کوفہ شہر سے زیادہ منڈی کی شکل میں تھا لہذا حضرت علی ؑ نے دارالخلافہ کوفہ منتقل کیا تو مختلف علاقوں کے لوگوں سے آپکا سابقہ ہوا ۔اسلامی اصول و قوانین اور تہذیب کی تبلیغ کا بڑا پلیٹ فارم مہیا ہوگیا تھا ۔یعنی ہجرت کے اپنے مختلف عوامل اور اسباب ہوسکتے ہیں بشر طیکہ انسان ان عوامل و اسباب کو پرکھنے میں حساس ہو۔اسلام کی اہم ہجرتوں میں مدینہ سے امام حسین ؑ کی ہجرت ہے جو آپ نے کربلا کی جانب کی تھی ۔اس ہجرت نے اردو ادب کو سب سے زیادہ متاثر کیا ۔جبکہ اس ہجرت کے اسباب و عوامل بڑی حد تک رسول اللہ کی ہجرت سے مشابہ تھے مگر دونوں ہجرتوں کی نفیسات کافی حد تک مختلف ہیں ۔رسول خدا کی ہجرت اپنے ہم وطنوں کی اذیت کی بنا پر وقوع پذیر ہوئی تھی جبکہ وہ لوگ مذہب کے اعتبار سے آپکا عقیدہ نہ رکھتے تھے ۔اس ہجرت کا پس منظر مذہبی اصولوں میں اختلافات اور عقائد سے انحراف بھی تھا ۔اذیت دینے والوں میں رسول کے قوم و قبیلہ کے افراد سر فہرست تھے وہیں امام حسین ؑ کی ہجرت نام نہاد مسلمانوں کی اذیتوں اور عقائد و مذہبی آئین میں ترمیمات کے اختلافات کی بنیاد پر وجود میں آئی ۔نیز اس ہجرت کا ایک بنیادی مقصد سنت رسول اور علم الہی کااحیاء و نفاذ بھی تھا ۔
کربلا میں شہادت امام حسین ؑ کے بعد جس ہجرت نے رثائی ادب کو سب سے زیادہ متاثر کیا وہ جناب زینب کی ہجرت اجباری ہے جو کربلا سے کوفہ ،کوفہ سے دمشق اور دمشق سے شام کی جانب تھی ۔اس ہجرت میں جناب زینب کے ہمراہ خاندان رسول خدا کے علاوہ انصار حسین کی مستورات اور کم سن بچے بھی شامل تھے ۔کربلا سے جب یہ قافلہ ہجرت کے سفر پر نکلا تو اس قافلے کو اس سمت سے گذارا گیا جہاں یزیدی لشکر نے اس قافلے میں شامل مستورات کے ورثاء کو ظلم و ستم کے ساتھ قتل کردیاتھا ۔چہار جانب بے کفن شہیدوں کی لاشیں بکھریں ہوئی تھیں ،ماؤں کی گودیاں ویران ہوچکی تھیں اور دودھ پیتے بچے زمین نینوا پر پائمال ہوچکے تھے۔بہنیں اپنے بھائیوں کے جنازوں پر سر برہنہ گریہ کناں تھیں اور یزیدی فوج کے افسر انکے گریہ کاتمسخر کررہے تھے۔تقسیم ہند کے وقت بھی ہجرت کی یہی تاریخی کیفیت در پیش تھی ۔بے گناہوں کے خون کے سیلاب میں مذہبی و تہذیبی رواداری دم توڑ رہی تھی ۔نو زائیدہ بچوں کو ماؤں کی نگاہوں کے سامنے ذبح کردیا گیا ۔عورتوں کے ساتھ جبرو زیادتی کے ساتھ انکی عصمتوں کو تار تار کردیا گیا ،زیادہ تر مستورات کو مختلف مذاہب کے افراد نے اپنے تسلط میں لے لیا ۔ان تمام مصائب و الام کو برداشت کرکے جب مہاجرذہن ادب کی تخلیق کی طرف متوجہ ہوا تو اسکی روح کے زخموں نے مرہم اور مداوائے غم کی صورت میں کسی تاریخی اور مذہبی مہجری سانحہ کو تلاش کرنا شروع کیا ۔لہذامہاجروں کی روح کے زخموں کا یہ سفر شہیدان کربلا کی ہجرتوں کے دامن میں سمٹتا چلا گیا ۔کیونکہ انسان کو رنج و غم اور مصیبت و آلام میں اگر روحانی سکون کی تلاش ہوتی ہے تو یہ سکون کسی تاریخی و مذہبی واقعہ کی یاد میں بآسانی مل سکتا ہے ۔اسلئے کہ انسان کا مذہب سے جو عقیدتی رشتہ ہوتاہے یہ رشتہ اسکی جسم سے زیادہ اسکی روح کو متاثر کرتاہے ۔ بقول محمد حسن’’اب امام حسین ؑ کی دشت کربلا میں بے بسی محض روایت نہیں تھی بلکہ ایک براہ راست احساس تھی ‘‘۔یہاں اس جملہ کی توسیع کی ضرورت نہیں ہے مگر امام حسین کی دشت کربلا میں مظلومیت کے واقعات کے ضمن میں ہی جناب زینب دیگر افراد کی مہاجرت کی مظلومانہ داستان بھی زخمی احساس کی شکل میں موجود ہے ۔
تاریخ کے اسی عملی امتزاج نے مرثیہ کو معاصر احساسات سے روبرو کیا اور قدیم و جدید واقعات کے تجزیہ کی بنیاد پر مسائل کے احتساب کا ایک نیا رخ سامنے آیا ۔واقعات کی مماثلتوں نے مرثیہ نگار کے لئے موضوعات کی ایک نئی راہ ہموار کی ڈاکٹر محمد حسن لکھتے ہیں ’’ معاصر احسا س اور قدیم تاریخ کے اسی میل جول نے اردو مرثیہ کو غیر معمولی مقبولیت بخشی ۔یہ بات بھی قابل غور ہے کہ مرثیے ی غیر معمولی مقبولیت ایسے ہی عبوری دور میں ہوئی ہے جب تبدیلی کے جبر کو ہمارے مرثیہ نگاروں نے غیر منصفانہ قرار دیا ہے اور اسکے خلاف احتجاج کرنے یا اس تاریخی عمل کو روکنے میں خود کو مجبور سمجھا ہے یہ مجبوری اور معذوری تاریخ میں ایک متبرک متبادل تلاش کرتی ہے اور متبادل کے ذریعے اپنے جذبات کو پوری توانائی دیانت داری اور متبادل و فاداری کے ساتھ vicarious Loyalties سے پیش کرتی ہے ‘‘۔(6)
ادب میں احتجاج اور مزاحمت کے رویے اسی وقت معرض وجود میں آتے ہیں جب فنکار کسی تاریخی عمل کو روکنے سے قاصر ہو۔سماجی و سیاسی جبروتیت اور آمرانہ نظام کے سامنے خود کو بے بس محسوس کرے۔یہی احتجاج و مزاحمت کی دھیمی آنچ آگے چل کر ایک عظیم بغاوت اور انقلابی عمل کا روپ دھار لیتی ہے ۔اس تاریخی جبر کے خلاف عملی بغاوت اور مزاحمتی رویوں کے نقوش مرثیہ میں جا بجا موجود ہیں ۔
حوالہ جات:
1۔ اردو ادب میں جدید رجحانات مشمولہ مقالات اکادمی ادبیات پاکستان 1983
2۔آزادی کے بعد ہندوستانی ادب
3۔اردو ادب کی سماجیاتی تاریخ ص 232
4۔شاعری کی تنقدی ص 311
5۔اردو ادب کی سماجی تاریخ ص 74
6۔اردو ادب کی سماجیاتی تاریخ ’’باب مرثیہ ‘‘ ص 235

 

تبصرے بند ہیں۔