اب چھوڑ بھی دے تلخیِ حالات کا رونا
افتخار راغبؔ
اب چھوڑ بھی دے تلخیِ حالات کا رونا
جب اُس کی حمایت ہے تو کس بات کا رونا
…
اب بھی ہے وہی تیرے تغافل کی کہانی
اب بھی ہے وہی شدّتِ جذبات کا رونا
…
ڈر ہے کہ بکھر جائے نہ آنکھوں میں سفیدی
اچھا نہیں اتنا بھی روایات کا رونا
…
دیکھو بھی کہ ہے کون مرے مدِ مقابل
کیا جشن کسی فتح کا، کیا مات کا رونا
…
یعنی ہے وہی دل وہی دلبر وہی عادت
یعنی ہے سلامت وہی دن رات کا رونا
…
ہو جائے جو راضی وہ کسی طرح بھی مجھ سے
ماضی کا کوئی غم ہو نہ خدشات کا رونا
…
ہوگی کبھی تخفیف محبت میں نہ راغبؔ
ہوگا نہ کبھی ختم شکایات کا رونا
تبصرے بند ہیں۔