اب چھوڑ بھی دے تلخیِ حالات کا رونا

افتخار راغبؔ

اب چھوڑ بھی دے تلخیِ حالات کا رونا

جب اُس کی حمایت ہے تو کس بات کا رونا

اب بھی ہے وہی تیرے تغافل کی کہانی

اب بھی ہے وہی شدّتِ جذبات کا رونا

 ڈر ہے کہ بکھر جائے نہ آنکھوں میں سفیدی

اچھا نہیں اتنا بھی روایات کا رونا

 دیکھو بھی کہ ہے کون مرے مدِ مقابل

کیا جشن کسی فتح کا، کیا مات کا رونا

یعنی ہے وہی دل وہی دلبر وہی عادت

یعنی ہے سلامت وہی دن رات کا رونا

ہو جائے جو راضی وہ کسی طرح بھی مجھ سے

ماضی کا کوئی غم ہو نہ خدشات کا رونا

ہوگی کبھی تخفیف محبت میں نہ راغبؔ

ہوگا نہ کبھی ختم شکایات کا رونا

تبصرے بند ہیں۔