اب کہاں تیری ردائے شب بخیر

افتخار راغبؔ

اب کہاں تیری ردائے شب بخیر

شب کہاں گزرے گی میری اب بخیر

عادتاً بھی مسکرا دیتا ہوں میں

مسکرانے کا نہیں مطلب بخیر

اک تڑپ ہی تو متاعِ زیست ہے

اک تڑپ دل میں رہے یارب بخیر

ایک صدقہ ابتدا میں اور ایک

گھر پہنچ جاتا ہوں واپس جب بخیر

گوشوارہ عشق کا خاموش ہے

بن تمھارے رہ سکا ہوں کب بخیر

دوسروں پر جو لٹاتے ہیں دعا

دل رہیں خوش حال اور وہ لب بخیر

جانے کس دن تک تڑپنا ہے ہمیں

جانے کب گزرے ہماری شب بخیر

اک طرف راغبؔ سلامت حوصلہ

اک طرف ظلم و ستم کا ڈھب بخیر

تبصرے بند ہیں۔