اخلاق : انسانیت کی پہچان

شاہ مدثر

حسنِ اخلاق کامیابی و کامرانی کی علامت خیر و بھلائی کے حصول اور انسانی قدروں کی پہچان کا ذریعہ ہے اچھی خصلتیں، بھلے طور طریقے اورپسندیدہ عادتیں اعلٰی اخلاق کہلاتے ہیں۔

اسلام میں حسنِ اخلاق کی بڑی اہمیت ہے۔ اخلاق حسنہ کو نیکی اور بھلائی کا درجہ حاصل ہے۔اسلامی  تعلیمات  میں اخلاق سے مراد وہ ’’اخلاق حسنہ‘‘ ہیں جو انسانیت کی فلاح و کامرانی کے لئے عطا کئے گئے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ اسلام فرد کی اصلاح کے لیے اخلاق حسنہ پر زور دیتا ہے۔قرآن و حدیث  میں کئی مقامات پر اخلاق کا درس دیا گیا ہے۔ نبی کریم ﷺ  اخلاقیات کاسب سے اعلیٰ نمونہ ہیں جس پر اللہ  تعالیٰ  کا فرمان موجود ہے۔ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلْقٍ عَظِیْمٍ o ( القلم) بے شک آپ بڑے عظیم اخلاق کے مالک ہے۔ اور خود نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:۔ بَعِثْتُ لِاَتَمِّمِ مَکَارَمِ اِخْلَاقٍ۔(حاکم ) میں اعلیٰ اخلاقی شرافتوں کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہوں۔ اور اسی طرح کسی صحابئی ؓ رسول نے ام المومنین حضر ت عائشہ ؓ سے نبی کریم ﷺ کے اخلاق کریمہ کے بارے میں پو چھا تو حضرت عائشہ ؓ نے جواب دیا کہ کیا تم قرآن کی تلاوت نہیں کرتے ’’کان خلقہ القرآن ‘‘پورا قرآن تو آپ کا اخلاق تھا۔ ( مسند احمد)۔

بلاشبہ نبی کریمؐ کی زندگی پیکرِ اخلاق سے معمور تھی، کیونکہ آپ نے قرآنی تعلیمات سے اپنے آپ کو مزین کرلیا تھا۔

اسی لیے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں نصیحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَّۃٌ حَسَنَّۃٌ "بے شک تمہارے لیے رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے۔ ایمان  و عبادت کی درستگی کی عملی نشانی صحت اخلاق ہے بلکہ عبادات اور اسلامی تعلیمات   کا لب لباب اخلاق کو سنوارنا اور نکھارنا ہے جس کی تائید نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد گرامی سے ہوتی ہے:

اَکْمَلُ الْمُوْمِنِیْنَ اِیْمَانًا اَحْسَنُہُمْ خُلْقًا

’’مسلمانوں میں کامل ترین ایمان اس شخص کا ہے جس کا اخلاق سب سے بہترین ہو۔‘‘

ایک اور حدیث مبارکہ ہے۔ اَحْسَنُکُمْ اَحْسَنُکُمْ خُلْقاً تم میں بہتر وہ ہے جو تم میں اخلاق کے ا عتبار سے بہتر ہے۔ حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : بیشک ایک مو من اپنے عمدہ اخلاق کی بدو لت روزہ دار اور تہجد گذار کا درجہ پالیتا ہے۔ ایک حدیث میں نبی کریمؐ نے فرمایا:میرے نزدیک تم میں سب سے زیادہ محبوب وہ ہے جس کے اخلاق سب سے بہترین ہوں۔ (بخاری)

اخلاق کیا ہیں؟ نبی کریم ﷺ نے اخلاق کی تربیت دیتے ہوئے فرمایا۔ ’’اخلاق یہ ہیں کہ کوئی تمہیں گالی دے تو تم جواب میں اس کو دعا دو،یعنی گالی کا جواب گالی سے نہ دو بلکہ دعا اور اچھے الفاظ سے دو۔ جو تمہیں برا کہے تم اس کو اچھا کہو، جو تمہاری برائی کرے تم اس کی تعریف اور اچھائی بیان کرو، جو تم پر زیادتی کرے تم اسے معاف کر دو۔

لیکن یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کے آج بیشتر مسلمانوں کا رویہ اسلامی تعلیمات خلاف اور کردار رسول اللّٰہ ﷺ کی زندگی  سے بالکل مطابقت نہیں رکھتا، بالخصوص آج نوجوانوں کی اکثریت اخلاق و کردار سے محروم ہے، معاملے کی صفائی اور شفافیت، دوسروں کے ساتھ اچھا برتاؤ اعلٰی اخلاق وکردار کا مظاہرہ اور دیگر اخلاق فاضلہ جو کبھی ان کی پہچان ہوا کرتے تھے اب وہ ختم ہوتی جارہی ہے اور وہ تمام اخلاقی برائیاں جو مغربی تہذیب میں پائی جاتی ہیں وہ نوجوانوں میں در آئی ہیں۔ آج ہمارے اندر امانت و دیانت، وعدے کا پاس و لحاظ، معاملات کی صفائی، سچائی، حسنِ سلوک، خدمت اور ہمدردی کا عملی جذبہ جیسی اخلاقی صفات کی  شدید کمی ہے۔ منشیات کا استعمال،شراب خانے، جوا، چوری، ڈاکہ زنی، قتل وغارت گری،زنا کاری، رشوت خوری، سود و حرام خوری، دھوکہ دہی، بددیانتی، جھوٹ،خوشامد، دوغلے پن، حرص، تمہ، لالچ، ملاوٹ،غنڈہ گردی، فساد و خونریزی، ہوس کے اڈے، تجارت میں دھوکہ، آخر وہ کون سی  اخلاقی برائی ہے جو ہم میں نہیں پائی جاتی؟؟؟۔ کیا آج بات بات پر بدزبانی اور بد کلامی کرنا ہماری عادت نہیں بن چکی؟ کیا آج غیبت،چغلی اور عیب جوئی ہماری محفلوں میں  زوروں پر نہیں ہے؟ مگر پھر بھی ہم مسلمان کہلوانے میں ذرا شرم محسوس نہیں کرتے!

اپنے گھروں پر نظر ڈالئیے،محلوں کو دیکھئے،نوجوانوں کو دیکھئیے، ایک عام انسان ہو یا پوری قوم، ایک عجیب سی کیفیت کا شکار ہے۔ بے چینی کا ماحول۔ ہر طرف بد اخلاقی کا الائو گرم ہے۔۔ دین سے دوری کا نتیجہ ہے کہ آج ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا دشمن بنا ہوا ہے۔حیوانیت رقص کررہی ہے جس کی وجہ سے انسانیت کے درمیان اخلاق کی پہچان ختم ہوتی نظرآرہی ہے۔ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ نقصانات میں سب سے بڑا نقصان  اخلاق کے زوال کا ہے۔ اسی لئے جس کے اخلاق اچھے اور بہتر ہوتے ہیں معاشرے میں انہیں پسند کیا جاتا ہے، اور لوگ ان کی عزت بھی کرتے ہیں، ان سے قربت اختیار کر تے ہیں اور  ان کی باتوں کو بغو ر سماعت فرماتے ہیں اور اس پر عمل بھی کرتے ہیں، لیکن جو لوگ بداخلاق، بد تمیز،لفاظ، گالی گلوچ دینے والے اور غیبت و چغلخوری کرنے والے ہو تے ہیں تو ایسے افراد سے لو گ دور بھاگتے ہیں اور ان سے کنارہ کشی ہی میں اپنی بھلائی اور عافیت سمجھتے ہیں۔ ایسے لوگ دنیا ہی میں ذلیل و رسواء رہتے ہیں اور اپنی بد اخلاقی کی وجہ سے آخرت میں بھی ذلت و رسوائی کا سبب بنتے ہیں۔ کیونکہ اسلامی تعلیمات میں بداخلاقی کی مذمت کی گئ ہے، اور اس کے بھیانک نتائج سے خبردار بھی کیا گیا ہے۔حضرت عائشہ سے روایت ہے کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔۔۔۔اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ مغضوب شخص وہ ہے جو ضدی قسم کا اور جھگڑالو ہو۔ (ترمذی)

ہمیں یہ بات بھی ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ اخلاقِ حسنہ یا بہتر نیکی صرف یہی نہیں ہے کہ لوگوں سے خندہ پیشانی اور مسکراکر ملاجائے بلکہ اس کے علاوہ  عمدہ ایمان، پختہ عقیدہ، عبادات کی پابندی، اچھے ونیک اعمال، اچھے عادات و اطوار، لوگوں کے معا ملات میں سچائی و صفائی، چھوٹوں کے ساتھ شفقت ومحبت اور بڑوں کا ادب و احترام، والدین کی خدمت گذاری اور ان کے ساتھ حسن سلوک، پڑوسیوں کے ساتھ اچھا برتاؤاور اعزہ واقرباء دوست و احباب اور رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک، لوگوں کے معاملات میں عدل و انصا ف، حقوق العباد کی ادائیگی، اور بے ایمانی و ناانصافی  سے دوری، حرام کمائی، بیوہ و یتیم کا مال کھانے سے بے حد دور رہنا وغیرہ یہ سب چیزیں اخلاق حسنہ میں داخل و شامل ہیں۔ لہٰذا ہمیں اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے اخلاق و کردار کو بہتر بنائیں،جب تک ہماری زندگیاں اسلام کی تعلیمات کا عملی نمونہ نہیں پیش کریں گی اس وقت تک اشاعت اسلام کی راہ کی رکاوٹ دور نہیں ہوگی۔۔۔اگر ہم میں اخلاق نہیں تو ہم ایک اچھے مسلمان بھی نہیں بن سکتے،کیونکہ ایسا ہوہی نہیں سکتا ایک مسلمان ایمان کا دعویٰ کرے اور اس کی زندگی اخلاقیات سے بالکل خالی ہو۔ اس لئے ہم تمام مسلمانوں کو خلوص کے ساتھ اخلاقی صفات کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے، ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی عادتوں کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں صحیح رخ دیں، تاکہ  معاشرہ بد اخلاقی کی برائیوں سے پاک وصاف ہوجائے، جب تک ہمارے اندر اخلاقی صفت باقی رہے گی تب تک ہم اپنی ذمہ داریوں، دینی سرگرمیوں اور سماجی کوششوں کو خوش دلی سے ادا کرتے رہیں گے، لیکن جس دن ہمارے اندر سے اخلاقی صفت وحشی یا مردہ ہوجائے گی اسی دن سے معاشرے میں بد اخلاقی پروان چڑھنا شروع ہوگی۔

 اللہ رب العالمین سے دعا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ  ہمیں اخلاص حسنہ کے اوصاف سے متصف ہونےاور دنیاؤی خرافات و بد خلق لوگوں سے دور رہنے کی تو فیق عطافرما۔ آمین۔

تبصرے بند ہیں۔