اذان اور دعوت میں  تعلق (پہلی قسط)

 مفتی کلیم رحمانی

اذان کی ابتداء اورکلماتِ اذان

آنحضرت ﷺ ہجرت سے پہلے جب تک مکہ میں  تھے، تب تک نہ اذان کی ضرورت تھی اور نہ اس کے لیے حالات ساز گار تھے، لیکن آنحضرتﷺ جب مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ پہونچے اور اہل ایمان کی بھی ایک بڑی تعداد مدینہ میں  جمع ہوگئی تو اذان کی بھی ضرورت پیش آئی اور اس کے لئے حا لات بھی ساز گار ہوگئے تو پھر اذان کی ابتداء ہوئی۔ چنانچہ بخاری اور مسلم شریف کی ایک روایت میں  اس ضرورت اور وقت کا تذکرہ یوں  کیا گیا۔

( عَن ْ اِبنِ عُمَرَ قَالَ کَانَ الْمُسْلُموْنَ حِیْنَ قَدِمُوا الْمَدِینَۃَ یَجْتَمعُوْنَ فَیَتحَیُّوْنَ لِلصَّلوٰۃ ِ وَلَیْسَ یُنَادِیْ بِھاَ اَحَدُ فَتَکّلمُواْ یَوْماً فِی ذٰلِکَ فَقَالَ بَعضُھْم اتّخَذُوا مِثلَ نَاقُوْسِ النَّصاریٰ وَ قَالَ بَعْضُھُمْ قَرْناً مِثلَ قَرْنِ الْیَھُودِ فَقَالَ عُمَرُ اَوَلاَتَبْعَثُونَ اَجُلاً یُّنَادِیْ باالصّلوٰۃِ فَقَالَ یَا بِلَالُ قُمْ فَنَادِ بِالصَّلوٰۃِ)  (بخاری و مسلم)

ترجمہ : حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ مسلمان جب مدینہ آئے تو شروع میں  وقت کا اندازہ کرکے خود ہی نماز کے لیے آجاتے، کوئی بُلاتا نہیں  تھا، ایک دن انہوں  نے اس کے متعلق بات چیت کی، بعض نے کہا نصاریٰ کی طرح ناقوس بنائو، اور بعض نے کہا یہود کی طرح نرسنگہ بنائو، حضرت عمرؓ نے کہا تم ایک آدمی کیوں  نہیں  بھیجتے جو نماز کی آواز دے، بنیﷺ نے حضرت بلالؓ سے فرمایا، اے بلالؓ پس کھڑا ہو، اور نماز کے لئے آواز دے۔

مذکورہ روایت میں  نماز کیلئے بُلانے کے متعلق ایک ضرورت کا تذکرہ کیا گیا ہے کچھ صحابہؓ نے مشورہ دیا کہ جس طرح نصاریٰ لوگوں  کو جمع کرنے کیلئے ناقوس بجاتے ہیں ، اسی طرح ہم بھی ناقوس بنائے اور نماز کے وقت اسے بجا کر لوگوں  کو نماز کے لئے جمع کرے، واضح رہے کہ ناقوس اعلان کرنے اور خبردار کرنے کا ایک آلہ تھا، جسے نصاریٰ استعمال کرتے تھے۔ کچھ صحابہؓ نے مشورہ دیا کہ جس طرح یہود لوگو ں  کو جمع کرنے کیلئے ایک جانور کے سینگ سے آلہ بنا کر اس میں  پھونکھتے ہیں  اور اس کی آواز سے لوگ جمع ہوتے ہیں ، ہم بھی اسی طرح کا آلہ بنائے، اور نماز کے وقت اس میں  پھونک مار کر لوگوں  کو نماز کے لیے بُلائے، لیکن حضرت عمر فاروقؓ نے مشورہ دیا کہ نماز کے وقت کسی کو بھیجا جائے اور وہ لوگوں  میں  الصلوٰۃ، الصلوٰۃ کی آواز لگائے، تاکہ لوگ نماز کے لئے جمع ہو جائے، چنانچہ آنحضورﷺ نے حضرت  عمر فاروقؓ کے مشورہ کو قبول فرما کر حضرت بلالؓ کو حکم دیا کہ وہ نماز کے لیے آواز دے۔چنانچہ حضرت بلالؓ اذان کا باضابطہ حکم آنے تک نماز کے وقت لوگوں  میں  الصلوٰۃ جامعۃ، الصلوٰۃ جامعۃ کی آواز لگاتے جس سے لوگ نماز کے لئے جمع ہو جاتے، لیکن چند ہی دنوں  کے بعد اذان کا باضابطہ حکم آگیا، جس کا تذکرہ مندرجہ ذیل روایت میں صرا حت کے ساتھ کیا گیا ہے۔

عَن ْ عَبدِ اللہِ بن زیدِ بنْ عَبدِ رَبّہ قَالَ لَمَّا اَمَرَ رَسُولُ اللہِﷺ بِالنَاقُوْسِ یُعْمَلُ لِیُضْرَبَ بِہ لِلنَّاسِ لِجَمْعِ الصَّلٰوۃِ طَافَ بِیْ وَاَنَآئمِ رَجُلْ یَحْمِلُ نَاقُوْساً فیِ یَدِہِ فَقُلْتُ یَا عَبْدَ اللہِ اَتَبِیعُ النَّاقُوسَ قَالَ وَمَا تَصْنَُع بِہ قُلْتُ نَدْعُوا بِہ اِلٰی الصّلٰوۃِ قَالَ فَقَالَ تَقُوْلُ اللہُ اَکْبَرُ اِلٰی اٰخِرِہ وَ کَذَا الْاقَامَۃُ فَلَمَّا اَصْبَحْتُ اَتَیْتُ رَسُولَ اللہِﷺ فَاَخْبَرْ تہُ بِمَا رَایْتُ فَقَالَ اِنّھَا لَرُئْ یاحَقِّ اِنْ شَآء اللہُ فَقُمْ مّعَ بِلَالِ فَاَلْقِ عَلَیہِ مَارَایْتَ فَلْیوذّنْ بِہ فَانَّہُ اَنْدٰی صَوْتاً مِنْکَ فَقُمْتُ مَعَ بِلَالِ فَجَعَلْتُ اُلْقِیْہِ عَلَیہِ وَ یُوَذّنُ بِہ قَالَ فَسَمِعَ بِذٰلِکَ عُمَرُ بِنْ الْخَطَّابِ وَ ھُوَ فیِ بَیٰتِہ فَخَرَجِ یَجُرُّ رِدَآئہ یَقُوْلْ یَا رَسُولَ اللہِ وَ الّذِیْ بَعَثَکَ بِالْحَقَّ لَقَدْ رَایْتُ مِثْلَ مَا اُرِیَ فَقَالَ رَسُولُ اللہِﷺ فَلِّلہِ الْحمدُ۔ (ابو دائود، ترمذی، ابن ماجہ )

ترجمہ  :حضرت عبد اللہ بن زید بن عبد ربہّ سے روایت ہے جب رسول اللہﷺ نے ناقوس تیار کرنے کا حکم دیا تاکہ لوگوں  کو نماز کے لیے پُکارا جائے، مجھے ایک خواب نظر آیا وہ یہ کہ میں  سویا ہوا تھا، ایک آدمی اپنے ہاتھ میں  ناقوس اُٹھائے ہوئے ہے، میں  نے کہا ائے اللہ کے بندے کیا تو ناقوس بیچے گا اُس نے کہا تو اس کو لیکر کیا کرے گا، میں  نے کہا ہم اس کے ذریعہ نماز کے لیے بُلائیں  گے، اس نے کہا، کیا میں  تجھے اس سے بہتر چیز نہ بتلائوں ، میں  نے کہا کیوں  نہیں ، تو اس نے کہا تو اللہ اکبر سے لیکر اخیر تک اذان کے کلمات کہہ، اور اسی طرح اقامت بھی، میں  صبح کے وقت نبی کریمﷺکے پاس آیا، اور میں  نے جو خواب دیکھا تھا، بیان کیا، آپﷺ نے فرمایا، بیشک یہ ایک سچا خواب ہے اگر اللہ نے چاہا، پھر آپﷺ نے فرمایا تو بلال ؒ  کے ساتھ کھڑا ہو، اور اس کو وہ کلمات بتلا جوتو نے خواب میں  دیکھا ہے، پس حضرت بلالؓ نے ان کلمات کے ساتھ اذان دی تو حضرت عمر بن خطاب نے جیسے ہی اذان کے کلمات سنے وہ چادر گھسیٹتے ہوئے نبی ﷺ کے پاس پہنچ گئے، اور کہا ائے اللہ کے رسولﷺ قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ ﷺ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، مجھے آج رات خواب میں یہی کلمات دکھائے گئے، رسول اللہﷺ نے فرمایا، پس اللہ کے تعریف ہے، مطلب یہ کہ دو سچے خوابوں  کے ذریعہ اذان کے کلمات سکھلادیئے۔

مذکورہ روایت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اذان کا حکم آنے سے پہلے آنحضرت ﷺ اور صحابہ کرامؓ نماز کے لیے بُلانے کے متعلق کس درجہ فکر مند تھے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جب کوئی صحیح فکر اپنے اندر پیدا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرتا ہے، چنانچہ نماز کے لیے بلانے کے متعلق آپﷺ اور صحابہ کرامؓ متفکر تھے تو اللہ تعالیٰ نے نہ صرف یہ کہ نماز کے لیے بلانے کے کلمات سکھلائے، بلکہ اسلام کی مکمل دعوت کے کلمات بھی سکھلا دیئے، اور ان کلمات کو بھی اذان کا لازمی حصہ بنا دیا گیا، ورنہ جہاں  تک صرف نماز کے لیے بلانے کے کلمات کا تعلق ہے تو اذان کے پندرہ (15) کلمات میں  صرف دوہی کلمے ایسے ہیں  جن میں  براہ راست نماز کی دعوت اور نماز کا حکم ہے، اور وہ ہیں ، حَیّ عَلیَ الصّلوٰۃ، حَیَّ عَلیَ الصَّلوٰۃ   یعنی آئو نماز کی طرف، آئو نماز کی طرف، بقیہ تمام کلمات اسلام کی عظیم اور مکمل دعوت پر مشتمل ہیں ، یہی وجہ ہے کہ آنحضورﷺ نے اپنی امت کو اذان کے بعد کی جو دعا سکھلائی ہے، اس میں  اذان کو مکمل دعوت قرار دیا گیا ہے۔چنانچہ بخاری شریف میں  حضرت جابرؓ سے آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد مذکور ہے۔

مَنْ قَالَ حِیَنْ یَسْمَعُ النّدَآئَ اَللَّھُمَّ رَبَّ ھٰذِہِ الدّعوَۃِِ التّامّۃِ وَالصّلٰوۃِ الْقَآ ئِمۃِ اٰتِ مُحَّمدَنِ الْوَسِیْلَۃَ وَالْفَضِیلَۃَ وَابْعَثہُ مَقَاماً مَّحمُوْدً۔ان الّذِیْ وَ عَدْ تَّہ، حَلَّتْ لَہ شَفَاعِتیْ یَومَ الْقِیٰمَۃِ ۔(رواہ البخاری)

 ترجمہ  :  جس نے اذان سنا اور کہا ائے اللہ اس مکمل دعوت اور قائم ہونے والی نماز کے رب، دے محمدﷺ کو وسیلہ اور بزرگی، اور فائز فرما آپﷺ کو مقام محمود پر جس کا تونے ان سے وعدہ کیا ہے، تو قیامت کے دن اس کے لئے میری شفاعت واجب ہوگئی۔ (بخاری شریف)

 مذکورہ حدیث میں  جو کوئی اذان دے اور اذان سنے اس کے لیے تلقین کی گئی ہے کہ وہ اذان کے بعد مذکورہ دعا پڑھے اس دعا میں  خاص بات یہ ہے کہ اذان کو دین کی مکمل دعوت کہا گیا ہے، چنانچہ اذان میں  جو کلمات رکھے گئے ہیں  وہ اپنے اندر اسلام کی مکمل دعوت لیے ہوئے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ جو کوئی  ٰلَا اِلٰہَ اِلاّ اللہُ مُحّمَدُ رَسُولُ اللہِ  کا اقرار کرے وہ مکمل طور سے اسلام کو قبول کرنے والا شمار ہوتا ہے، اور اذان کے کلمات میں   ٰلَا اِلٰہَ اِلاّ اللہُ کی گواہی بھی ہے، اور مُحّمَدُ رَسُولُ اللہِ کی گواہی بھی ہے، البتہ پورا قرآن مجید، اور نبیﷺ کی تیئس(23) سالہ نبوی زندگی اسی کلمہ کا تقاضہ اور تشریح ہے، لہذا جس کو قرآن کی کسی بات سے اختلاف ہے، یا نبیﷺ کے کسی قول و عمل سے سے اختلاف ہے تو وہ کلمہ کو قبول کرنے والا شمار نہیں  ہوگا، بلکہ کلمہ سے اختلاف کرنے والا شمار ہوگا، اور اسلام کے کلمہ سے اختلاف کرنے والا مسلمان نہیں  ہوسکتا۔

ساتھ ہی اس سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ   جس نے بھی کلمہ پڑھا ہے، اب اس کے لیے ضروری ہوگیا ہے کہ وہ پورے قرآن اور نبیﷺ کی پوری سیرت کا علم حاصل کرے، اگر کوئی کلمہ پڑھنے کے باوجود پورے قرآن اور نبیﷺ کی پوری سیرت کا علم حاصل نہیں  کر رہا ہے تو گویا وہ کلمہ کا پورا علم حاصل نہیں  کر رہا ہے، اور اگر کوئی قرآن اور سیرت رسولﷺ سے غافل ہے تو گویا وہ اسلام کے کلمہ سے غافل ہے۔اور اذان میں  یہ کلمہ تکرار کے ساتھ اسی لیے رکھا گیا ہے کہ دن میں  سے پانچ مرتبہ عام انسانوں  کے سامنے بھی اور مسلمانوں  کے سامنے بھی اسلام کی مکمل دعوت آجائے۔اذان کے کلمات کی تشریح سے قبل مناسب ہے کہ فرمان رسولﷺ کی روشنی میں  اذان کے کلمات کی ترتیب طریقہ اور تعداد بھی سامنے آجائے، چنانچہ حدیث کی مشہور و معروف کتاب، مسلم شریف کی روایت ہے، اور اس روایت کومشکوٰۃ شریف میں  نقل کیا گیا ہے:

 عَنْ اَبیِ مَحْذُوْرۃَ قَالَ اَلْقٰی عَلَیَّ رَسُولُ اللہِﷺ اَلتَّاْذِینَ ھُوَ بَنفسِہِ فَقَالَ قَاَلَ تَقُوْلُ اللہُ اَکبَرُ، اللہُ اکْبَر، اللہُ اَکبَرُ، اللہُ اکْبَر، اَشْھَدُاَنْ لَاّ ٓ اِلٰہُ اِلَّااللہُ، اَشْھَدُاَنْ لَاّ ٓ اِلٰہُ اِلَّااللہُ، اَشْھَدُاَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللہِ، اَشْھَدُاَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللہِ، ثُمَّ تَعُوْدُ فَتَقُولُ اَشْھَدُاَنْ لَاّ ٓ اِلٰہُ اِلَّااللہُ، اَشْھَدُاَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللہِ  اَشْھَدُاَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللہِ، اَشْھَدُاَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللہِ، حَیَّ عَلیَ الصَّلٰوۃ، حَیَّ عَلیَ الصَّلٰوۃ، حَیَّ عَلیَ الْفَلاح، حَیَّ عَلیَ الْفَلاح اللہُ اَکبَرُ، اللہُ اَکبَرُ لَاّ ٓ اِلٰہُ اِلَّااللہُ  : (رواہ مسلم) حضرت ابو محذورہؓ سے ہی ابودائود شریف اور مشکوٰۃ میں  مروی ہے کہ آنحضورؐ نے انہیں  سکھایا، فَاِنْ کَانَ صَلٰوۃُ الصُّبْحِ قُلْتَ الْصَّلٰوۃ خَیرُمِنَ النَّومِ، الْصَّلٰوۃ خَیرُمِنَ النَّومِ ۔

  مذکورہ روایت کی بنا پر اذان کے انیس (19) کلمات ہو جاتے ہیں ، اس لیے کہ اس میں  شہاد تین کے کلمات کو چار چار مرتبہ دُہرانے کا ذکر ہے، لیکن ابودائود اور نسائی شریف میں  حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ آنحضورﷺ کے زمانہ میں  اذان کے کلمات دو دو بار اور اقامت کے کلمات ایک ایک مرتبہ تھے، صرف  َقدْقَامَتِ الصَّلٰوۃ، قدْقَامَتِ الصَّلٰوۃ، دو مرتبہ تھا، جیسا کہ مروی ہے:

عَنْ اِبْنِ عُمَرْ قَالَ کَانَ الْاَذَانُ عَلیَ عَھْدِ رَسُولِ اللہِ ﷺ مَرَّتَینِ مَرَّتَینِ وَ الْاِ قَامَۃُ مَرَّۃً مَرَّۃً غَیْرَاَنَّہُ کَانَ یَقُوْلُ قَدْ قَامَتَِ الصَّلٰوۃُ، قَدْ قَامَتِ الصَّلٰوۃُ۔ تر(رواہ ابودائود، نسائی، دارمی، مشکوٰۃ)

شاید اسی روایت کی بناء پر دور نبوی سے لیکر آج تک تواتر کے ساتھ اذان میں  شہادتیں  کے کلمات دو، دو مرتبہ دُہرانے کا عمل جاری ہے۔اذان کے پندرہ کلمات کا اگر تجزیہ کیا جائے تو، یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اس میں  سب سے زیادہ مرتبہ یعنی کل چھ(6) مرتبہ اللہُ اَکْبَرْ کا کلمہ ہے، اور تین مرتبہ  لَاّ ٓاِلٰہُ اِلَّااللہُ  کا کلمہ ہے، اور دومرتبہ َّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللہُ کا کلمہ ہے، اور دو مرتبہ حَیَّ عَلیَ الصَّلٰوۃ، اور دو مرتبہ حَیَّ عَلیَ الْفَلَاحِ کاکلمہ ہے۔ (جاری)

تبصرے بند ہیں۔