اذکار مسنونہ، جن کا اہتمام آپ کو حادثات سے بچاسکتا ہے!

ڈاکٹر محمد واسع ظفر

        یوں تو حادثات سے حضرت انسان کا واسطہ زمانہ قدیم سے ہی ہے لیکن سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقیات نے موجودہ دور میں جہاں بہت سی سہولیات فراہم کی ہیں وہیں حادثات کے وقوع کے اسباب میں بھی بے تحاشا اضافہ کردیا ہے۔ چنانچہ شاید ہی کوئی دن ایسا ہوجس میں کسی بڑے حادثہ کی خبر نہ ملتی ہو۔ یہ حادثات مختلف شکلوں میں رونما ہوتے ہیں ؛ کبھی سڑک، ریل، بحری یا فضائی حادثات کی شکل میں، کبھی برقی آلات سے کرنٹ لگنے یا دھماکے اور آتش زدگی کی شکل میں اور کبھی جدید اسلحات کے نامناسب استعمال سے رونما ہونے والے حادثات کی شکل میں۔ وہ حادثات ان کے علاوہ ہیں جو قدرتی طور پر پہلے سے رونما ہوتے رہے ہیں مثلاً آندھی طوفان، زلزلے، سیلاب، درندوں اور حشرات الارض کے حملے وغیرہ۔ آج کل ہمارے دیار میں حادثہ کی ایک نئی شکل نے جنم لیا ہے جسے ماب لنچنگ (Mob Lynching) کا نام دیا گیا ہے جس میں انسانوں کی ایک بھیڑ کوئی بھی الزام عائد کرکے کسی کا بھی قتل کردیتی ہے جس کا شکار بدقسمتی سے زیادہ تر مسلمان ہی ہورہے ہیں۔

         مختلف قسم کے ان حادثات کے وقوع کی کثرت کی وجہ سے اس بات کے امکانات بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں کہ اپنے طور پر ہزار احتیاط برتنے کے باوجود آپ کسی حادثہ کا شکار ہوجائیں یا جان و مال کے نقصانات کا آپ کو سامنا کرنا پڑے ! الامان و الحفیظ! ایسے حالات میں کوئی ہستی اگر آپ کو ان حادثات سے بچاسکتی ہے تو وہ ہے اللہ رب العزت کی ذات۔ بحیثیت مومن ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی مرضی کے بغیر اس روئے گیتی پر ایک پتّا بھی نہیں ہلتا اور حالات و اسباب خواہ کتنے ہی مخالف کیوں نہ ہوں اگر وہ نہ چاہے تو ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا۔ وہ جس طرح حفاظت کے نقشوں میں کسی کی ہلاکت پر قادر ہے ٹھیک اسی طرح ہلاکت کے نقشوں میں حفاظت پر بھی قادر ہے۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ ہر معاملے میں اسی کی طرف رجوع کیا جائے اور اسی کی ذات کے اوپر بھروسہ رکھا جائے۔ نبی اکرم ﷺ نے بھی ہمیں یہی تعلیم دی ہے اور ایسے بہت سے اعمال و اذکار بتائے ہیں جن کے ذریعے ہم اللہ کی طرف رجوع کرسکتے ہیں، اس کی پناہ میں آسکتے ہیں اور اس طرح حادثات سے ہماری حفاظت ہوسکتی ہے۔ لیکن افسوس کا پہلو یہ کہ دینی علوم سے دوری کی وجہ سے ہماری اکثریت کو ان کا علم ہی نہیں۔ اس لئے احقر نے آئندہ سطور میں ان چند مخصوص اعمال و اذکار کو قلم بند کرنے کی سعی کی ہے جن کے اہتمام سے آئے دن ہونے والے بہت سے حادثات سے حفاظت ہوسکتی ہے۔

اللہ کی امان میں جانے کا سب سے اہم نسخہ:

        حادثات سے بچنے کے لئے سب سے اہم تدبیر تو یہ ہے کہ نمازوں کی پابندی کی جائے خصوصاً نماز فجر کی کیوں کہ اس کی ادائی سے انسان اللہ تعالیٰ کی ذمہ داری میں آجاتا ہے اور جب اس کی امان مل گئی تو پھر ہر قسم کے فتنے اور نقصانات سے ان شاء اللہ محفوظ ہوجائے گا۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

’’مَنْ صَلَّی الصُّبْحَ فَھُوَ فِي ذِمَّۃِ اللّٰہِ، فَلَا تُخْفِرُوا اللّٰہَ فِي ذِمَّتِہِ‘‘۔

یعنی ’’جس نے صبح کی نماز ادا کرلی وہ اللہ کی ذمہ داری (امان) میں ہے تو تم اللہ کی پناہ نہ توڑو ‘‘۔ (جامع ترمذی، کتاب الصلاۃ، بابُ مَا جَآئَ فِي فَضْلِ الْعِشَآئِ وَالْفَجْرِ فِي الْجَمَاعَۃٍ، رقم ۲۲۲، بروایت جندب بن سفیانؓ)۔

اللہ کی پناہ نہ توڑنے کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ نماز چھوڑ کر اس کی پناہ کو ہاتھ سے جانے نہ دو۔ اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایسے بندے کو جو نماز (فجر) کا پابند ہے نقصان پہنچانے کی کوشش کرکے اللہ کی ذمہ داری میں رخنہ اندازی نہ کرو ورنہ اللہ تعالیٰ تمھارے نقصان کے درپے ہوگا۔ اس تعبیر کی تائید دوسری حدیث سے بھی ہوتی ہے جسے امام ترمذیؒ نے ہی دوسرے طرق سے ابوہریرہؓ سے روایت کیا ہے جس کے آخری کلمات تھوڑے فرق کے ساتھ اس طرح ہیں :

’’ فَلَا یَتَّبِعَنَّکُمُ اللّٰہُ بِشَيْئٍ مِنْ ذِمَّتِہِ‘‘۔

یعنی ’’پھر اللہ تعالیٰ تم میں سے کسی کے درپے نہ ہواس کی پناہ توڑنے کے سبب سے‘‘۔ (جامع ترمذی، کتاب الفتن، بابُ مَا جَآئَ مَنْ صَلَّی الصُّبْحَ فَھُوَ فِي ذِمَّۃِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ، رقم ۲۱۶۴)۔

        حاصل کلام یہ ہے کہ نماز فجر کی پابندی لازمی طور پر کی جائے اور کسی ایسے بندے کو جو اس کا پابند ہو تکلیف پہنچاکر اللہ کے غیض و غضب کو دعوت نہ دی جائے۔

ناگہانی مصیبتوں سے حفاظت کے لئے صبح و شام کے اذکار:

        کتب احادیث میں ایسے کئی اذکار وارد ہوئے ہیں جن کے صبح و شام اہتمام سے اچانک پہنچنے والی مصیبتوں سے حفاظت کی بشارتیں ہیں لیکن احقر ان میں سب سے اول ان کلمات کے اہتمام کی تجویز دے گا جنہیں حضرت عثمان بن عفانؓ نے نبی کریم ﷺ سے روایت کیا ہے جو کہ پڑھنے میں بہت آسان بھی ہیں۔ آپؐنے فرمایا: کوئی بندہ ایسا نہیں جو صبح و شام تین بار یہ کلمات پڑھے اور پھر کوئی چیز اسے ضرر کرے ؛

’’بِسْمِ اللّٰہِ الَّذِي لَا یَضُرُّ مَعَ اسْمِہٖ شَیْئٌ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَائِ وَ ھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ‘‘۔

(مفہوم): ’’اللہ کے نام کے ساتھ (ہم نے صبح یا شام کی) جس کے نام کے ساتھ کوئی چیز نقصان نہیں پہنچاتی زمین میں اور نہ ہی آسمان میں اور وہی سننے والا جاننے والا ہے‘‘۔

ابان جو اس حدیث کے راوی ہیں ان کو فالج تھا اور وہ شخص جس نے ان سے یہ حدیث سنی تھی، ان کی طرف (تعجب سے) دیکھنے لگاتو ابان نے اس سے کہا کہ تو کیا دیکھتا ہے؟ آگاہ ہوکہ حدیث بالکل اسی طرح ہے جیسے کہ میں نے تجھ سے بیان کی ہے لیکن جس دن یہ (فالج کا اثر) ہواتھا اس دن میں نے یہ دعا نہیں پڑھی تھی (یعنی بھول گیا تھا) تاکہ اللہ تعالیٰ مجھ پر اپنی تقدیرکا حکم جاری کردے۔ (جامع ترمذی، کتاب الدعوات، بابُ مَا جَآئَ فِي الدُّعَائِ إِذَا أَصْبَحَ وَ إِذَا أَمْسٰی، رقم ۳۳۸۸)۔

        اس حدیث کو امام ابوداؤدؒ نے بھی اپنی سنن میں نقل کیاہے جس میں یہ ہے کہ جو شخص شام کے وقت ان کلمات کو تین بار کہے اسے صبح تک اچانک کوئی مصیبت نہیں پہنچے گی اور جو شخص صبح کے وقت تین مرتبہ انہیں کہے اسے شام تک اچانک کوئی مصیبت نہیں پہنچے گی۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الادب، بابُ مَا یَقُوْلُ إِذَا أَصْبَحَ، رقم ۵۰۸۸)۔ اس طرح ان کلمات کو صبح و شام تین تین بار پڑھ لینے سے ہر قسم کی چیزوں سے پہنچنے والے نقصانات اورناگہانی مصیبتوں جن میں اچانک نازل ہونے والی بیماریاں بھی شامل ہیں سے حفاظت کی ضمانت مل جاتی ہے۔

        اسی طرح تمام مخلوقات بہ شمول حشرات الارض (سانپ، بچھو اور دوسرے موذی کیڑے مکوڑے) کے شر سے حفاظت کی ضمانت دینے والے چند دوسرے کلمات ابوہریرہؓ نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کئے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا: جس نے صبح و شام :

’’أَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ‘‘۔

(مفہوم: میں اللہ کے مکمل کلموں کے ذریعے اس کی پناہ میں آتا ہوں اس کی تمام مخلوقات کے شر سے)، پڑھا تو اسے کویٔ بھی شے نقصان نہیں پہنچائے گی‘‘۔ (المعجم الاوسط للطبرانیؒ، دار الحرمین للطباعۃ والنشر والتوزیع، ۱۹۹۵ ؁ء، رقم ۵۲۳)۔

ابوہریرہؓ سے ہی دوسری روایت امام ترمذی نے نقل کیا ہے جس میں یہ ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’جو شخص شام کو تین مرتبہ یہ (کلمات)کہے:

’’أَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ‘‘

تواسے اس رات کوئی زہر نقصان نہیں کرے گا‘‘۔ اس حدیث کے ایک راوی سہیل نے کہا کہ ہمارے گھر والے اسے سکھایا کرتے تھے اور ہر رات پڑھا کرتے تھے۔ چنانچہ ایک مرتبہ ان میں سے ایک لڑکی کو کسی چیز نے ڈنک مارا تو اسے کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔ (جامع ترمذی، کتاب الدعوات، بابُ فِي الإِسْتِعَاذَۃِ، رقم ۳۶۰۴م۱)۔

        ابوہریرہؓ سے ہی ایک روایت امام مسلم نے نقل کیا ہے کہ ایک شخص نے نبی کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہوکر یہ عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ! مجھے اس بچھو سے کتنی شدید تکلیف پہنچی جس نے کل رات مجھے کاٹ لیا! آپؐ نے فرمایا: ’’اگر تم نے جب شام کی تھی یہ (کلمات) کہہ دیا ہوتا: ’’أَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ‘‘ تو وہ (بچھو) تمہیں کوئی نقصان نہ پہنچاتا‘‘۔ (صحیح مسلم، کتاب الذکر والدعاء والتوبۃ والاستغفار، باب فِي التَّعَوُّذِ مِنْ سُوْئِ الْقَضَائِ و دَرَکِ الشَّقَائِ وَ غَیْرِہ )۔

        ناگہانی مصیبتوں سے بچانے والی ایک دعا حضرت ابودرداءؓ نے بھی نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے جس کا وہ اہتمام کیا کرتے تھے اور اس کی تاثیر پرکس درجہ کا یقین رکھتے تھے اس کا اندازہ آگے مذکور روایت سے لگائیے۔ طلق بن حبیبؒسے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص ابودرداءؓ کے پاس آیا اور بولا : اے ابودرداءؓ ! آپ کے گھر کو آگ لگ گئی ہے۔ انہوں نے کہامیرے گھر کو آگ نہیں لگی۔ پھر ایک دوسرا شخص آیا اور (یہی) بولا : اے ابودرداءؓ ! آپ کے گھر کو آگ لگ گئی ہے۔ انہوں نے (پھر یہی)کہا کہ (میرے گھر کو ) آگ نہیں لگی۔ پھر ایک اور شخص آیا اورکہنے لگا: اے ابودرداءؓ! آگ تو بھڑک اٹھی تھی لیکن جب آپ کے گھر کے قریب پہنچی تو بجھ گئی۔ حضرت ابودرداءؓ نے فرمایا: مجھے معلوم تھا کہ بے شک اللہ عزوجل ایسا نہیں کرے گا، تو لوگوں نے کہا: اے ابودراءؓ! ہم نہیں سمجھ سکے کہ آپ کا یہ کیسا تعجب خیز کلام ہے؟ آپ نے کہا کہ (میرے گھر کو ) آگ نہیں لگی یایہ کہا کہ مجھے معلوم تھا کہ بے شک اللہ عزوجل ایسا نہیں کرے گا (یعنی اتنے یقین سے آخر آپ ایسا کیسے کہہ رہے تھے ؟)! حضرت ابودرداءؓ نے فرمایا: یہ وہ کلمات ہیں جن کو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا کہ جو شخص ان کو صبح کے وقت پڑھے گا اسے شام تک کوئی مصیبت نہیں پہنچے گی اور جو شخص اسے شام میں پڑھے گا اسے صبح تک کوئی مصیبت نہیں پہنچے گی:

’’اَللّٰہُمَّ أَنْتَ رَبِّي لَا إِلٰہَ إِلَّا أَنْتَ، عَلَیْکَ تَوَکَّلتُ، وَ أَنْتَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ، مَا شَائَ اللّٰہُ کَانَ، وَ مَا لَمْ یَشَأْ لَمْ یَکُنْ، لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ  إِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِيِّ الْعَظِیْمِ، أَعْلَمُ أَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَيْئٍ قَدِیْرٌ، وَ أَنَّ اللّٰہَ قَدْ أَحَاطَ بِکُلِّ شَيئٍ عِلْمًا، اَللّٰھُمَّ إِنِّي أَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّ نَفْسِيْ وَ مِنْ شَرِّ کُلِّ دَابَّۃٍ أَنْتَ آخِذٌ بِنَاصِیَتِھَا، إِنَّ رَبِّيْ عَلٰی صِرَاطٍ مُسْتَقِیْمٍ‘‘

(مفہوم: اے اللہ! آپ ہی میرے رب ہیں۔ آپ کے علاوہ کوئی معبود نہیں۔ میں آپ ہی پر بھروسہ کرتا ہوں اور آپ ہی عرش کریم کے رب ہیں۔ اللہ جو چاہتے ہیں وہی ہوتا ہے اور جو نہیں چاہتے وہ نہیں ہوتا۔ کوئی طاقت و قوت نہیں مگر اللہ ہی کے دم سے جو بلند و برتر ہے۔ میں جانتا ہوں کہ اللہ ہر ایک چیز پر قادر ہے اور اللہ ہر چیز کو اپنے احاطہ علمی میں لئے ہوئے ہے۔ اے اللہ! میں آپ کی پناہ چاہتا ہوں اپنے نفس کے شر سے اور ہر شر والی چیز کے شر سے اور ہر جاندار کے شر سے کہ آپ ہی ان کو اپنے قابو میں رکھنے والے ہیں، بے شک میرا رب (حق و عدل) کے سیدھے راستے پر ہے۔ (دلائل النبوۃ للبیہقیؒ، دارالکتب العلمیۃ، بیروت، ۱۹۸۵ ؁ء، باب ما رُوی في الأمان من السَّرَق والحَرَق، جلد ۷، صفحات ۱۲۱-۱۲۲)۔

        مذکورہ روایت سے رسول اللہ ﷺ کی دی ہوئی خبروں پر جہاں صحابہ کرامؓ کے یقین کی کیفیت سمجھ میں آتی ہے وہیں اس دعا کی افادیت کا بھی پتہ لگتا ہے بالخصوص آتش زدگی سے حفاظت میں حالانکہ حدیث میں ہر قسم کی مصیبت سے حفاظت کی بشارت دی گئی ہے۔ اس لئے اس دعا کا بھی اہتمام صبح و شام کرنا چاہیے۔

گھر سے نکلنے کے بعد کی آفتوں سے نجات کے اذکار:

        اب ان اذکار و ادعیہ کا تذکرہ کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے جن کے اہتمام کی تعلیم مختصر یا طویل سفر پر گھر سے باہر نکلنے کے سلسلے میں رسول اللہ ﷺ نے امت کو دی ہے۔ ان میں سے ایک روایت انس بن مالکؓ سے ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جب کوئی آدمی اپنے گھر سے نکلے پھر وہ یہ (کلمات) کہے:

’’بِسْمِ اللّٰہِ تَوَکَّلتُ عَلَی اللّٰہِ، لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ  إِلَّا بِاللّٰہِ‘‘

(مفہوم:  اللہ کے نام سے (نکل رہا ہوں )، میں نے اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کیا، کوئی طاقت و قوت نہیں مگر اللہ ہی کی طرف سے )

تو اسے اس وقت یہ کہا جاتا ہے؛ تجھے ہدایت دے دی گئی، تیری کفایت کی گئی اور تجھے بچا لیا گیا (ہر بلا سے)۔ چنانچہ شیاطین اس سے دور ہوجاتے ہیں۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الادب، باب مَا یَقُوْلُ إِذَا خَرَجَ مِنْ بَیْتِہِ، رقم ۵۰۹۵)۔

        اسی طرح کی ایک روایت ام سلمہؓ سے ہے کہ نبی کریم ﷺ جب گھر سے نکلتے تو یہ (کلمات) کہتے تھے:

’’بِسْمِ اللّٰہِ تَوَکَّلتُ عَلَی اللّٰہِ، اَللّٰھُمَّ إِنَّا نَعُوْذُبِکَ  مِنْ أَنْ نَّزِلَّ أَوْ نُضِلَّ، أَوْ نَظْلِمَ، أَوْ نُظْلَمَ أَوْ نَجْھَلَ أَوْ یُجْھَلَ عَلَیْنَا‘‘

یعنی ’’اللہ کے نام سے (نکل رہا ہوں )، میں نے اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کیا، اے اللہ میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ (راہ حق سے) پھسل جاؤں یا گمراہ ہوجاؤں یا میں کسی پر ظلم کروں یا مجھ پر کوئی ظلم کرے یا میں کسی کے ساتھ جاہلانہ برتاؤ کروں یا مجھ سے کوئی جہالت سے پیش آئے‘‘۔ (جامع ترمذی، کتاب الدعوات، باب مَا یَقُوْلُ إِذَا خَرَجَ مِنْ بَیْتِہِ، رقم ۳۴۲۷)۔

        ان دو دعائوں میں سے کم از کم کسی ایک کو اختیار کرلیناچاہیے۔ اس کے بعد جب سواری پر اپنا پاؤں ڈالے تو ’’بِسْمِ اللّٰہ‘‘کہے، پھر جب بیٹھ جائے تو ’’أَلْحَمْدُ لِلّٰہِ‘‘کہے، پھر یہ کلمات کہے:

’’سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَلَنَا  ھٰذَا وَمَا کُنَّا لَہٗ مُقْرِنِیْنَ وَ إِنَّا إِلٰی رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ‘‘

(یعنی پاک ہے وہ ذات جس نے اسے ہمارے قابو میں کردیا ورنہ ہم میں طاقت نہ تھی کہ اسے قابو میں کرلیتے اور بلاشبہ ہم اپنے رب کی طرف ضرور لوٹ کر جانے والے ہیں )، پھر تین تین بار ’’أَلْحَمْدُ لِلّٰہِ‘‘ اور ’’اللّٰہُ أَکْبَر‘‘ کہے اوریہ دعا پڑھے:

’’سُبْحَانَکَ إِنِّي قَدْ ظَلَمْتُ نَفْسِي فَاغْفِرلِي فَإِنَّہٗ لَا یَغْفِرُ الذُّنُوْبُ إِلَّا أَنْتَ‘‘

(یعنی پاک ہے تو اے اللہ! بے شک میں نے اپنی جان پر ظلم کیا سو تو مجھے بخش دے کیوں کہ تیرے سوا کویٔ گناہوں کو معاف کرنے والا نہیں )۔ یہی طریقہ تھا رسول اللہ ﷺ کاسواری پر سوار ہونے کا۔ (جامع ترمذی، کتاب الدعوات، باب مَا یَقُوْلُ إِذَا رَکِبَ الدَّابَّۃَ، بروایت علیؓ، رقم ۳۴۴۶)۔

        اللہ کی ذات سے یہ امید ہے کہ اس طریقے کو اختیار کرنے سے سواری کے حادثات سے حفاظت ہوجائے گی۔ پھر سفر کے دوران کسی منزل پر سواری سے اترنے اور مختصر قیام کرنے کی صورت میں بھی کئی قسم کے خطرات کا امکان رہتا ہے۔ ایسے مواقع پر ان خطرات سے بچنے کے لئے نبی اکرم ﷺ نے چند کلمات کا اہتمام کرنے کی تعلیم دی ہے جسے خولہ بنت حکیمؓ نے نبی کریم ﷺ سے روایت کیا ہے اور جس کے الفاظ سطور بالا میں صبح و شام کے اذکار میں ابوہریرہؓ سے بھی نقل کئے گئے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: ’’جو شخص کسی منزل پر اترے پھر یہ دعا پڑھے :

’’أَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ‘‘۔

(مفہوم: میں اللہ کے مکمل کلموں کے ذریعے اس کی پناہ میں آتا ہوں اس کی تمام مخلوقات کے شر سے)، تو جب تک کہ وہ اپنی اس منزل سے کوچ نہ کرے اسے کویٔ بھی چیز نقصان نہیں پہنچائے گی‘‘۔ (صحیح مسلم، کتاب الذکر والدعاء والتوبۃ والاستغفار، باب فِي التَّعَوُّذِ مِنْ سُوْئِ الْقَضَائِ و دَرَکِ الشَّقَائِ وَ غَیْرِہ)۔

        ’’کوئی بھی چیز‘‘ کے دائرے میں انسان، جنات، جانور اور حشرات الارض سب شامل ہیں۔ اس لئے ان کلمات کے اہتمام سے ان سب سے امن کی امید ہے۔

دشمن کے خوف و نقصانات سے حفاظت کے اذکار:

         اب ان کلمات کا ذکر مقصود ہے جن کے ذریعے دشمن کا خوف لاحق ہونے کے وقت اللہ سے رجوع کرنے کی تعلیم ہے۔ ان سے متعلق ایک روایت عبداللہ بن قیس اشعریؓ سے ہے کہ نبی اکرم ﷺ کو جب کسی قوم سے خوف ہوتا تو آپؐ یہ (کلمات) پڑھتے:

’’اَللّٰھُمَّ إِنَّا نَجْعَلُکَ فِي نُحُوْرِھِمْ، وَ نَعُوْذُبِکَ مِنْ شُرُوْرِھِمْ‘‘

یعنی ’’اے اللہ! بے شک ہم آپ کو ان کے مقابلہ میں کرتے ہیں اور ان کی شرارتوں سے آپ کی پناہ میں آتے ہیں ‘‘۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الوتر، باب مَا یَقُوْلُ الرَّجُلُ إِذَا خَافَ قَوْمًا، رقم ۱۵۳۷)۔

        اس کے علاوہ ’’حَسْبُنَا اللّٰہُ وَ نِعْمَ الْوَکِیْلُ‘‘ بھی پڑھنا چاہیے کیوں کہ عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ ان کلمات کو ابراہیم علیہ السلام نے اس وقت کہا تھا جب ان کو آگ میں ڈالا گیا تھا اور یہی کلمہ محمد ﷺ ( اور ان کے اصحاب) نے اس وقت کہا تھا جب لوگوں (منافقین) نے (مسلمانوں سے) کہا کہ بے شک لوگوں (یعنی کفارمکہ) نے تمہارے (مقابلہ کے )لئے (لشکر کثیر) جمع کرلیا ہے پس تم ان سے ڈرو تو ان کا ایمان اور زیادہ ہوگیا اور کہنے لگے ’’حَسْبُنَا اللّٰہُ وَ نِعْمَ الْوَکِیْلُ‘‘ (یعنی ’’ہم کو اللہ کافی ہے اور وہ بہت اچھا کارساز ہے‘‘)۔ (صحیح بخاری، کتاب التفسیر۔ سورۃ آل عمران، باب إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَکُمْ۔ ۔ ۔ الآیۃ، رقم ۴۵۶۳)۔

        ان کلمات میں اگر ’’عَلَی اللّٰہِ تَوَکَّلْنَا‘‘ یعنی ’’ ہم نے اللہ پر توکل کیا‘‘ کا اضافہ کرلیا جائے تو اور بھی اچھا ہے کیوں کہ اس اضافے کے ساتھ یہ کلمات صور پھونکے جانے کی کیفیت اور اس وقت کی پریشانیوں سے حفاظت کی تدبیر کے بیان میں رسول اکرم ﷺ سے منقول ہیں۔ (جامع ترمذی، کتابُ صِفَۃِ الْقِیَامَۃِ وَالرَّقَائِقِ وَالْوَرَعِ، بابُ مَاجَآئَ فِي شَأنِ الصُّوْرِ، رقم ۲۴۳۱، بروایت ابوسعیدؓ)۔

        دشمن کے خوف کے وقت پڑھنے کی ایک دعا ابوسعید خدریؓ نے بھی نبی کریم ﷺ سے روایت کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے غزوۂ خندق کے دن عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا کویٔ چیز ایسی ہے جسے ہم (ان حالات میں ) پڑھیں، کیوں کہ (خوف اور گھبراہٹ کی وجہ سے لوگوں کے) کلیجے منہ کو آگئے ہیں ؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا: ہاں ! (کہو):

’’اللّٰہُمَّ اسْتُرْ عَوْرَاتِنَا، وَ آمِنْ رَوْعَاتِنَا‘‘

یعنی ’’اے اللہ! ہمارے عیوب پر پردہ ڈال دے اور ہماری گھبراہٹوں کو امن دے‘‘۔ ابوسعید خدریؓ نے کہا کہ اس کے بعد اللہ عزوجل نے (تیز) ہوا کے ذریعے دشمنوں کے منہ پھیردئے اور اسی ہوا کے ذریعے ان کو شکست دے دی۔ ( مسند احمد، دار الکتب العلمیہ، بیروت، ۲۰۰۸ ؁ء، جلد ۵، رقم ۱۱۲۸۸)۔

        ان دعائوں کے ساتھ ان کلمات کا بھی اہتمام صبح و شام کرنا چاہیے جو کہ انتہائی جامع ہیں جن میں لوگوں کے مظالم سے اللہ کی پناہ بھی شامل ہے اور جن کے ساتھ اکثر و بیشتر دعا کرنا نبی کریم ﷺ سے بھی منقول ہے۔ وہ کلمات یہ ہیں :

’’اَللّٰھُمَّ إِنِّي أَعُوْذُبِکَ مِنَ الْھَمِّ وَالْحَزَنِ وَالْعَجْزِ وَالْکَسَلِ وَالْبُخْلِ وَضَلَعِ الدَّیْنِ وَ قَھْرِ الرِّجَالِ‘‘

یعنی ’’یا اللہ میں پناہ مانگتا ہوں تجھ سے فکر و غم سے، تھکن، سستی، بخیلی، قرض کے غلبے اور مردوں کے قہر (ظلم و زیادتی) سے‘‘۔ (جامع ترمذی، کتاب الدعوات، باب ۷۱، رقم ۳۴۸۴، بروایت انس بن مالکؓ)۔ احقر کی رائے یہ ہے کہ اس دعا کو مانگنے میں ’’قَھْرِ الرِّجَالِ‘‘ کے بعد کلمہ ’’وَ النِّسَآئِ‘‘ بھی جوڑ لیا کریں کیوں کہ آج کل عورتیں بھی ظلم و زیادتی کرنے میں مردوں سے پیچھے نہیں ہیں تو کیوں نہ ان سے بھی پناہ مانگ لیا جائے۔

آندھی طوفان وغیرہ کے نقصانات سے حفاظت کے اذکار:

        نبی کریم ﷺ سے ایسی دعائیں بھی منقول ہیں جن کے اہتمام سے آندھی طوفان وغیرہ کے نقصانات سے حفاظت کی امید ہے۔ آندھی طوفان کے آثار عموماً بادل کے اٹھنے سے ظاہر ہوتے ہیں اور بعض سابقہ اقوام کو اللہ تعالیٰ نے اسی کے ذریعے ہلاک کیا ہے اس لئے نبی کریم ﷺ بادل دیکھتے ہی اس میں پوشیدہ شر سے اللہ عزوجل سے پناہ طلب کرنے لگتے تھے۔ ام المومنین حضرت عائشہؓسے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ جب کسی افق سے بادل اٹھتا دیکھتے تو جس کام میں بھی مشغول ہوتے، خواہ نماز ہی میں کیوں نہ ہوں، اسے چھوڑ کر بادل کی طرف متوجہ ہوجاتے اور کہتے:

’’اَللّٰہُمَّ إِنَّا نَعُوذُبِکَ مِنْ شَرِّ مَا أُرْسِلَ بِہِ‘‘

یعنی ’’یا اللہ! ہم تیری پناہ میں آتے ہیں اس چیز کے شر سے جو کچھ دے کر یہ (بادل) بھیجا گیا ہے‘‘۔ اگر بارش شروع ہوجاتی تو دو بار یا تین بار فرماتے:

’’اَللّٰہُمَّ صَیِّبًا نَافِعًا‘‘

یعنی ’’یا اللہ! اس بارش کو فائدہ مند بنادے ‘‘۔ (سنن ابن ماجہ، أَبْوَابُ الدُّعَائِ، بابُ مَا یَدْعُو بِہِ الرَّجُلُ إِذَا رَأَی السَّحَابَ وَالْمَطَرَ، رقم ۳۸۸۹؛ سنن ابی داؤد، کتاب الادب، رقم ۵۰۹۹)۔

         عائشہؓ سے ہی دوسری روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب (تیز) ہوا (مراد آندھی ہے) چلتی ہویٔ دیکھتے تو (یہ کلمات) کہتے:

’’اَللّٰہُمَّ إِنِّي أَسْأَلُکَ مِنْ خَیْرِھَا وَ خَیْرِ مَا فِیْھَا وَ خَیْرِ مَا أُرْسِلَتْ بِہِ وَ أَعُوذُبِکَ مِنْ شَرِّھَا وَشَرِّ مَا فِیْھَا وَشَرِّ مَا أُرْسِلَتْ بِہِ‘‘

یعنی ’’اے اللہ! میں تجھ سے اس (ہوا) کی خیر مانگتا ہوں اور جو خیر اس میں رکھی گئی ہے اور جو خیراس کے ساتھ بھیجی گئی ہے اور تیری پناہ چاہتا ہوں اس کے شر سے اور جو شر اس میں رکھا گیا ہے اور جو شر اس کے ساتھ بھیجا گیا ہے ‘‘۔ (جامع ترمذی، کتاب الدعوات، بابُ مَا یَقُوْلُ إِذَا ھَاجَتِ الرِّیْحُ، رقم ۳۴۴۹)۔

نیند کی حالت میں حفاظت کے اذکار:

        انسان جب نیند کی حالت میں ہوتا ہے اس وقت اسے کسی بھی چیز پر قابو نہیں ہوتا اور کوئی بھی چیز اسے نقصان پہنچا سکتی ہے۔ بعض دفعہ جنات و شیاطین کے بھی حملے ہوسکتے ہیں۔ ایسے غفلت کے وقت میں خطرات سے حفاظت کے لئے بھی ایک عمل حدیث کی کتابوں میں مذکور ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ اسے شیطان نے ہی رسول اللہ ﷺ کے قریبی ساتھی ابوہریرہؓ کو بتایا جس کی آپؐ نے تصدیق کی اور وہ یہ ہے کہ جب کوئی اپنے بستر پر لیٹنے لگے تو آیت الکرسی ( سورۃ البقرہ: آیت ۲۵۵) پڑھ لیا کرے۔ اس سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نگراں فرشتہ مقرر ہوجاتا ہے جو صبح تک اس کی حفاظت کرتا ہے اور صبح تک شیطان اس کے قریب بھی نہیں آسکتا۔ (صحیح بخاری، کتاب الوکالہ، باب، رقم ۲۳۱۱، بروایت ابوہریرہؓ)۔

مال و اسباب کی چوری سے حفاظت کا وظیفہ: 

        اموال و اسباب کی چوری بھی بعض مرتبہ زندگی میں بڑے حادثے کی شکل میں سامنے آتی ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے اس سے بچنے کے لئے بھی وظیفہ بتایا ہے اور وہ سورۃ بنی اسرائیل کی آیت ۱۱۰ کا پڑھنا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ ایک موقع پر اللہ عزوجل کے قول

{قُلِ ادْعُوا اللّٰہَ اَوِادْعُوا الرَّحْمٰنَ اَیَّامَّا تَدْعُوا فَلَہُ الْاَسْمَآئُ الْحُسْنٰی۔ ۔ ۔ ۔ الی آخر الآیۃ}

(آپ کہہ دیں کہ خواہ تم اللہ کو پکارو یا رحمٰن کو، جس نام سے بھی (اللہ کو) پکارو گے (ایک ہی بات ہے) کیوں کہ تمام بہترین نام اسی کے ہیں ) کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا گیاتوآپؐ نے فرمایا کہ اس میں چوری سے امان (حفاظت) ہے۔ انہوں نے یہ بھی بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے اصحاب میں سے ایک مہاجر صحابی جب بھی بستر پر لیٹتے تو اس کی تلاوت کرلیتے۔ ایک دفعہ ان کے گھر میں چور داخل ہوگیااور اس نے گھر کا سارا ساز و سامان جمع کرلیا جب کہ وہ صحابی جاگ رہے تھے اور انہیں اٹھا کر لے جانے لگا یہاں تک کہ جب دروازے پر پہنچا تو دروازے نے اسے واپس جانے پر مجبور کردیا۔ اس نے ایسی کوشش تین بار کی لیکن ہر بار ناکام رہا۔ اس پر صاحب خانہ ہنس پڑے اور فرمایا کہ میں نے اپنے گھر کو (پہلے ہی) محفوظ کرلیا تھا۔ یہ بات سن کر چور بھاگ گیا۔ (دلائل النبوۃ للبیہقیؒ، دارالکتب العلمیۃ، بیروت، ۱۹۸۵ ؁ء، باب ما رُوی في الأمان من السَّرَق والحَرَق، جلد ۷، صفحہ ۱۲۱)۔

مصیبتوں سے امن حاصل کرنے کا ایک اور نسخہ:

        مصیبتوں سے امن حاصل کرنے کا ایک اور نسخہ یہ ہے کہ مصیبت زدوں کی مزاج پرسی کی جائے اور اس وقت خاموشی کے ساتھ اس دعا کو پڑھے جسے حضرت عمرؓ اور ابوہریرہؓ نے رسول اللہ ﷺ سے اس فضیلت کے ساتھ نقل کیا ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’ جس نے کسی کو کسی مصیبت میں دیکھا پھر یہ کہا:

’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِيْ عَافَانِي مِمَّا ابْتَلَاکَ بِہِ وَ فَضَّلَنِي عَلٰی کَثِیْرٍ مِمَّنْ خَلَقَ تَفْضِیْلًا‘‘

(مفہوم: ساری تعریف اللہ کے لئے ہے جس نے مجھ کو اس بلا و مصیبت سے بچایا جس میں مبتلا کیا تجھ کو اور فضیلت دی مجھ کو اپنی اکثر مخلوقات پر)، تو وہ بچایا جائے گا اس مصیبت سے جب تک زندہ رہے گا‘‘۔ یعنی اس شخص کو وہ مصیبت کبھی نہیں پہنچے گی۔ ( جامع ترمذی، کتاب الدعوات، باب مَاجَآئَ مَا  یَقُوْلُ إِذَا رَأَی مُبْتَلًا، رقم ۳۴۳۱ اور ۳۴۳۲)۔

        حادثات سے بچنے کی مذکورہ دعاؤں کے علاوہ بھی کتب احادیث میں بہت سے اذکار وارد ہوئے ہیں جو کہ اس سلسلے میں بہت ہی  مفید ہیں لیکن تمام کا احاطہ ایک مضمون میں ممکن نہیں۔ اس لئے یہاں کچھ کوہی قلم بند کیا گیا ہے کہ اگر اتنے کا بھی اہتمام کرلیا جائے تو بہت سی مصیبتوں سے حفاظت ممکن ہوجائے۔ ان کے علاوہ زندگی کے تمام مواقع سے متعلق مسنون دعاؤں کو جاننے کے لئے امام محمد بن محمد بن محمد الجزریؒ کی تصنیف ’’الحصن الحصین من کلام سید المرسلین ﷺ‘‘ (اردو ترجمہ ’’حصن حصین‘‘ از مولانا محمد ادریسؒ ؍ مولانا عاشق الٰہی بلند شہریؒ )، امام نوویؒ کی تصنیف ’’الاذکار من کلام سید الابرار‘‘ (اردو ترجمہ ’’اذکار نبویؐ‘‘ از مولانا نثار احمد القاسمی)، حافظ احمد بن محمد بن اسحاق الدّینوریؒ المعروف بابن السنّی کی کتاب ’’عمل الیوم و اللیلۃ‘‘ (اردو ترجمہ ’’ذکر الٰہی‘‘ از حافظ محمد الیاس سلفی)، امام احمد بن شعیب النسائی کی ’’عمل الیوم و اللیلۃ‘‘ (اردو ترجمہ ’’رسول اکرمؐ کے معمولات شب و روز‘‘ از زاہد محمود قاسمی) اور علامہ محمد بن قیم جوزیہؒ کی تصنیف ’’زادالمعاد فی ھدی خیر العباد‘‘ (اردو ترجمہ ’’زادالمعاد‘‘ از رئیس احمد جعفری) کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ بہ شمول بندہ عاجز تمام مسلمانوں کو اسوہ نبویؐ کو اپنانے اور اذکار مسنونہ سے مستفیض ہونے کی توفیق عنایت کرے، نیز ان باتوں کو پیش کرنے میں اس سیہ کار سے جو کمی کوتاہی ہوئی اسے اپنے فضل سے معاف فرمائے آمین!

1 تبصرہ
  1. Morgan کہتے ہیں

    Goldene, eine silberne und zwei bronzene.

تبصرے بند ہیں۔