ہو جائے اب تباہ نہ گلزارِ اعتبار
افتخار راغبؔ
ہو جائے اب تباہ نہ گلزارِ اعتبار
طوفاں سے لڑ رہے ہیں سب اشجارِ اعتبار
…
کب تک مناتی خیر عمارت یقین کی
کس درجہ خستہ حال تھی دیوارِ اعتبار
…
ہلکی سی ہی ہوا سے زمیں بوس ہو گیا
کم زور کس قدر تھا وہ مینارِ اعتبار
…
انسانیت کے جسم میں روحِ خلوص و مہر
رخشندہ صحنِ قلب میں انوارِ اعتبار
…
جھرّی کوئی نہ حاجتِ غازہ ہی ہو کبھی
پُر تاب عمر بھر رہے رخسارِ اعتبار
…
اُٹھ جاؤں گا میں ساتھ ترے اعتبار کے
تابندہ چھوڑ جاؤں گا آثارِ اعتبار
…
بے اعتباریوں کے قبیلے میں بٹ گیا
راغبؔ متاعِ شوق تھا جو بارِ اعتبار
تبصرے بند ہیں۔