اردو ادب و مزاح نگاری کے ایک درخشاں عہد کا خاتمہ

ڈاکٹر ایاز احمد اصلاحی

علم و ادب کی ساری دنیا خصوصا اردو دنیا، کو یہ خبر کل غم زدہ کرگئ کہ اردو کے عالمی شہرت یافتہ معروف مزاح نگارو ادیب و ناول نویس اور اعلی درجے کے بینکار مشاق احمد یوسفی اب اس عالم فانی میں نہیں رہے، اللہ تعالی نے انھیں جتنی طویل  عمر دی، اتنا ہی بڑا قلم بھی عطا کیا تھا اور اسی قدر شہرت بھی، انھوں نے 95 برس کی عمر میں   بدھ کے روز (20 جون 2018)  زندگی کی آخری سانس لی اور اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔

مشتاق احمد یوسفی راجستھان کے شہر ٹونک میں 1923 میں پیدا ہوئے، بی اے تک کی تعلیم راجستھان میں حاصل کی، اس کے بعد مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے ایم اے اور ایل ایل بی کیا، رشید احمد صدیقی کی طرح یوسفی کے ادبی و علمی ذوق کو  مہمیز دینے میں اس وقت کے علی گڑھ کی آزاد و مخصوص فضا کا بھی اہم رول رہا ہے۔۔۔۔۔ تقسیم کے چند سال بعد وہ پاکستان منتقل ہو گئے یہاں بینکنگ کو انھوں نے اپنا پیشہ بنایا اور اس میدان میں اپنی صلاحیتوں اور نمایاں خدمات کی وجہ سے وہ نہ صرف اعلی مناصب پر پہنچے بلکہ اس شعبے میں ایک رہنما اور منصوبہ ساز کے طور سے پاکستان بینکنگ کو بے انتہا ترقی دی۔ ایک ادیب و بینکار کے طور سے ان کی زندگی میں حکومت پاکستان کی طرف سے  ان کی امتیازی خدمات کے لئے انھیں ستارہ پاکستان سمیت بہت سے اعزازات عطا کیے گئے ، اس کے علاوہ انھیں بحیثیت ادیب  پاکستان اور پاکستان کے باہر  دنیا کے دوسرے بڑے اور معروف ادبی  اوارڈز سے نوازا گیا۔

لیکن مشتاق یوسفی کی عالمی شہرت کا اصل سبب ان کی شاہکار و لافانی ادبی تخلیقات ہیں، مزاح نگاری میں مشتاق یوسفی کی شخصیت اتنی قد آور  ہے کہ ابن ا نشاء کی طرح اس عہد کے ہر اس شخص کو، جو مشتاق یوسفی سے واقف ہے اور جسے ان کے عہد میں جینے کا شرف حا صل ہے،  اس اعتراف میں کوئی تردد محسوس نہیں ہو گا کہ اگر اردو مزاح نگاری کو اس دور میں کوئی نام دیا جائے گا تو بے شک جو نام ذہن میں آئے گا وہ مشتاق احمد یوسفی ہی ہے۔

مشتاق احمد یوسفی کی پانچویں اور آخری کتاب ’شام شعرِ یاراں‘ کی تقریب اجرا 2014میں ہوئی تھی اور اس سے پچیس سال پہلے انھوں نے "آب گم” لکھی تھی، اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ نہ تو بسیار نویس تھے اور نہ ہی انھیں دوسروں کی طرح  جلدی جلدی کتابیں شائع کر کے شہرت و دولت کمانے کی عجلت رہتی تھی ، اس کی وجہ شاید ان کا یہ یقین تھا کہ کسی اعلی درجے کے مصنف و ادیب کے لئے اپنے مداحوں کے دل و دماغ کو مسخر کرنے اور ان میں بسے رہنے کے لئے درجن یا درجنوں نہیں، بلکہ ایک دو اچھی اور معیاری تصنیفات ہی کافی ہوتی ہیں، ان کے بارے میں ایک روایت یہ بھی ہے کہ تصنیف و تالیف کے تعلق سے اپنی اسی سوچ کی وجہ سے مسودہ لکھ کر وہ اسے اپنے پاس سالوں رکھے رہتے تھے، پھر جب انھیں یہ یقین ہوجاتا تھا کہ یہ کتاب واقعی اشاعت کے قابل ہے تبھی وہ اسے شائع کروانے کا فیصلہ کرتے تھے۔

مشتاق احمد یوسفی کی وہ  اہم اور شاہکار تصانیف جو کئی دہائیوں سے  قارئین کو گدگدانے، جگانے، ہنسانے اور زندہ و شاداب رکھنے کا کام کرتی آرہی پیں وہ بس ان کی  یہ چار کتابیں ہیں، چراغ تلے (1961)، خاکم بہ دہن (1969)، زرگزشت (1976) اور (آبِ گُم 1990) ۔۔۔ میری نظر میں ان کی یہی چار کتابیں ہیں جس نے بے مثال مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کو ہم سے آشنا کیا اور جس نے اس جینیس کو جنم دیا ۔۔۔ رہی یوسفی  کی آخری اور  پانچویں کتاب  ‘شام شعر یاراں’ ، جو ان کے لئے  شام زندگی بن کر آئی، اس کا ان کی اولین چار کتابوں سے کوئی موازنہ نہیں کیا جا سکتا، یہ آخری کتاب در اصل ان کے تاثرات، تعزیتی پیغام،  ادبی اجتماعات و مجالس میں کی گئی ان کی تقریروں اور دیگر بہت سی رطب و یابس  تحریروں کا مجموعہ ہے، اسے ہم بس  اس لئے جانتے ہیں کیونکہ  مصنف کی جگہ اس کے سر ورق پر جو نام لکھا ہے وہ مشتاق احمد یوسفی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے عہد کے اس بے مثال ادیب و مزاح نگار کی آخری کتاب جو ان کے اپنے  فکر و اسلوب کے معیار پر پوری اترتی ہے وہ ‘آب گم’ ہی ہے، اس لئے میں ان نقادوں سے متفق ہوں جن کی یہ رائے  ہے کہ مشتاق یوسفی کا "ادبی سفر” ان کی کتاب ‘آب گم’ پر ہی اصلا اختتام کو پہنچتا ہے جو تقریبا تین دہائی قبل ان کے قلم سے نکل کر مشتاقان مشتاق کے ہاتھوں میں پہنچی اور عہد یوسفی کی درخشاں ادبی روایات کی آخری کڑی بنی ۔۔۔

میری نظر میں جس طرح ایک جاسوسی ناول نگار کی کامیابی کا ثبوت یہ ہے کہ اس کی کتاب پڑھتے ہوئے آدمی کو یہ اندازہ ہی نہ ہو کہ وہ اپنے بستر یا مطالعے کی میز پر ہے یا کسی سرکاری یا غیر سرکاری تفتیشی مہم کے چیف تفتیش کار اور اس کے چاق و چوبند عملے کے  ساتھ  پر خطر وادیوں میں محو سفر ہے، اسی طرح کامیاب ترین مزاح نگار وہ ہے جو اپنے قارئین کو اکیلے میں اس طرح ہنسائے اور گدگدائے کہ مطالعہ کرنے والا اس کے ایک ایک جملے سے محظوظ ہو ، ارد گرد سے بے خبر ہو کر دیوانوں کی طرح ہنسے اور قہقہ مارنے لگے ، اور جسے یہ نہ معلوم ہو کہ اس کے ہاتھ میں کوئی کتاب ہے وہ اسے دیکھ کر سچ میں اسے پاگل سمجھنے لگے۔۔۔ لیکن اس کے علاوہ ان تخلیقات  میں قہقہوں کے شور اور تجسس و تفتیش کی تنگ و پیچیدہ گلیوں کے ساتھ فطری طور سے کہیں کہیں معانی کے ایسے دلکش پڑاؤ   بھی ضرور ہوں جہاں  لگی تختیاں  کتاب کے مسافروں کو فکری و ذہنی غذا فراہم کرنے کا کام کریں، جب کسی ادیب کی تخلیقات اس شکل میں دو آتشہ ہوتی ہیں  تو قارئین پر ان کے اثرات کی وسعت و گہرائی کا اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے۔۔  اردو ادب کی یہ خوش قسمتی  ہے کہ اسے ان دونوں میدانوں میں  دو ایسے منفرد  ادیب ملے جن کی تحریریں ان خوبیوں سے بدرجہ اتم آراستہ ہیں، یہ وہ زندہ ادیب ہیں جو اپنے اپنے فن کو اس کی معراج تک پہنچانا اور قارئین کو اپنا گرویدہ ہی نہیں معتقد بنانا بھی جانتے تھے ، کیا آپ جانتے ہیں؟ ان میں سے ایک کا نام ہے ابن صفی اور دوسرے کا نام ہے مشتاق یوسفی۔

بے شک یہ دونوں ہی اس دور کے ایسے ادیب ہیں جو  اپنے فن و اسلوب کے تقاضوں اور آبشار ادب کی روانی کو متاثر کئے بغیر اپنے قارئین کے سامنے بڑی بڑی سچائیاں الہامی انداز میں کچھ اس طرح بیان کر جاتے ہیں کہ دل و دماغ ہی نہیں دھڑکنیں بھی ٹھہر کر سوچنے لگتی ہیں، اور قاری تھوڑی دیر کے لئے حیرت ، سنجیدگی اور احساسات و جذبات کی ایسی دنیا میں پہنچ جاتا ہے جو اسے زندگی بھر یاد رہتی ہے اور غور و فکر پر مجبور کرتی ہے، دیکھئے ابن صفی نے اپنے ایک جاسوسی ناول میں اسلامی تصور عبادت پر بات بات میں کتنا گہرا نکتہ بیان کردیا، ابن صفی کا مشہور کردار عمران ایک عیسائی لڑکی، جو اس کی دوست تھی،کو ایک دلچسپ مکالمے میں عبادت کے تعلق سے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے جب یہ کہتا ہے کہ دوسرے مذاہب میں عبادت جہاں ختم ہوتی ہے، اسلام میں وہیں سے اصل عبادت کا آغاز ہوتا ہے تو ایک کھلنڈرا مسلمان بھی اٹھ کر بیٹھ جا تا ہے۔ مشتاق یوسفی اپنے مزاحیہ و ظریفانہ تحریروں میں یہی باتیں کچھ دوسرے انداز میں کرتے نظر آتے ہیں، وہ قاری کو اپنے نرالے اور دلچسپ و پر مزاح انداز میں گدگداتے گدگداتے کبھی کبھی درمیان میں تہذیب و اخلاق اور دین و ملت کے تعلق سے سادہ فقروں میں وہ باتیں کہہ دیتے ہیں جو مردہ دلوں کو جھنجھوڑ نے اور ہنستے چہروں کو بھی اندر سے سنجیدہ کر جانے کے لئے کافی ہیں۔
یہاں ان کی کتاب زرگزشت سے اسی قسم کی دو  مثالیں پیش کرنا بے محل نہ ہو گا:

وہ "دلی کے گولے کے کباب” کے حوالے سے اپنی سرگزشت کی ایک دلچسپ داستان بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"گرم چائے، تازہ غزل اور تیز چونے کے پان سے تواضع کے بعد فاروقی صاحب دلی کے کبابیے کی دکان پر لے جاتے اور گولے کے کباب کھلاتے۔ پیٹ بھرنے سے پہلے آنکھیں بھر آتی تھیں۔ پہلی دفعہ دکان پر لے گئے تو دلی کے کلچر اور قیمہ کی باریکیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کباب کھانے کے ادب و آداب اتنی تفصیل سے بتائے کہ ہم جیسے مارواڑی رانگڑ کی سمجھ میں بھی آگیا کہ سلطنت ہاتھ سے کیسے نکلی”۔ (زرگزشت)۔

اس اقتباس کے آخری جملے میں مسلمانوں کے سیاسی زوال اور تہذیبی انحطاط کے  تعلق سے ایک ادیب کے نازک دل کا جو کرب چھپا ہے اسے   کوئی مردہ دل ہی ہو گا جو محسوس نہ کرے۔

وہ  بیماری کے وقت اپنے  طرح طرح کے تیمارداروں، اسپتال میں عیادت کے لئے آنے والے خورد و کلاں ساتھیوں اور اسی کے ساتھ ان کے بن مانگے حکیمی نسخوں  اور مشوروں کے بارے میں اپنے دلچسپ تجربات، کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ لفظ لفظ  میں مزاح نگاری کا فن نئی بلندیاں چھو رہا ہوتا ہے اور یوسفی قلم کا جادو  سر چڑھ کر بولتا ہے، اس بیچارگی میں وہ اپنی کیفیت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"ایک د ن میں کان کے درد میں تڑپ رہا تھا کہ وہ (مرزا عبد الودود بیگ) آنکلے اس افراتفری کے زمانے میں زندہ رہنے کے شدائد اور موت کے فیوض و برکات پر ایسی موثر تقریر کی کہ بےا ختیار جی چاہا کہ انہی کے قدموں میں پھڑپھڑا کر اپنی جان جانٍ آفریں کے سپرد کردوں اور انشورنس کمپنی والوں کو روتا دھوتا چھوڑ جاؤں۔ ان کے دیکھے سے میرے تیمارداروں کے منہ کی رہی سہی رونق جاتی رہتی ہے۔ کیوں کہ میرا عقیدہ ہے کہ محض جینے کے لیے کسی فلسفہ کی ضرورت نہیں لیکن اپنے فلسفے کی خاطر دوسروں کو جان دینے پر آمادہ کرنے کے لیے سلیقہ چاہئے”۔ (زرگزشت)

یہاں بھی اقتباس کے آخری جملے میں ادیب نے موت و حیات کے فلسفے پر ایک سادہ سا جملہ کہہ کر ہمارے لئے غور و فکر  کا  قیمتی  سامان رکھ دیا ہے۔

یہ ہیں ہم سب کے ہردلعزیز مشتاق یوسفی جن کی کتابوں میں جہاں طنز و مزاح کی لہریں ہمیں شروع سے آخر تک ہلاتی، کھلاتی، گدگداتی اور ہچکولے دیتی ہیں، وہیں وہ غالب کے بعض فلسفیانہ اشعار کی طرح  ایسے فقروں سے بھری پڑی ہیں جن کی تفسیر و تشریح کی جائے تو علم و فلسفہ کے کئی دفتر تیار ہو جائیں۔  اللہ تعالی مرحوم ادیب کو غریق رحمت کرے اور ادب کا دامن ایسے قدآور اور صحتمندانہ فکر و ذوق  کے حامل ادباء و مصنفین سے ہمیشہ بھرا ر رکھے.

تبصرے بند ہیں۔