زنا اور اجتماعی عصمت دری: گندی فکر کا نتیجہ

ریاض فردوسی

اور زنا کے پاس بھی نہ پھٹکو کیونکہ یہ کھلی ہوئی بے حیائی اور نہایت بُری راہ ہے.(سورہ بنی اسرائیل آیت۔32)

خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لائق ہیں اور خبیث مرد خبیث عورتوں کے لائق ہیں اور پاک عورتیں پاک مردوں کے لائق ہیں اور پاک مرد پاک عورتوں کے لائق ہیں۔ ایسے پاک لوگوں کے متعلق جو کچھ بکواس (بہتان باز) کر رہے ہیں وہ ان سے بالکل بری ہیں ان کے لئے بخشش ہے اور عزت والی روزی۔ (سورہ نور آیت۔۔26)

جو لوگ پاکدامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگائیں پھر چار گواہ نہ پیش کر سکیں تو انہیں اسی) (80کوڑے لگاؤ اور کبھی بھی ان کی گواہی قبول نہ کرو۔ یہ فاسق لوگ ہیں ..(سورہ  نور آیت۔۔۔4)

 زنا کار عورت و مرد میں سے ہر ایک کو سو (100)کوڑے لگاؤ۔ ان پر اللہ کی شریعت کی حد جاری کرتے ہوئے تمہیں ہرگز ترس نہ کھانا چاہیئے، اگر تمہیں اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہو ان کی سزا کے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت موجود ہونی چاہیے (سورہ۔ نور آیت۔2)

مسلمان عورتوں سے کہو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت میں فرق نہ آنے دیں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو ظاہر ہے اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رہیں اور اپنی آرائش کو کسی کے سامنے ظاہر نہ کریں سوائے اپنے خاوندوں کے یا اپنے والد یا اپنے خسر کے یا اپنے لڑکوں کے یا اپنے خاوند کے لڑکوں کے یا اپنے بھائیوں کے یا اپنے بھتیجوں کے یا اپنے بھانجوں کے یا اپنے میل جول کی عورتوں کے یا غلاموں کے یا ایسے نوکر چاکر مردوں کے جو شہوت والے نہ ہوں یا ایسے بچوں کے جو عورتوں کے پردے کی باتوں سے مطلع نہیں اور اس طرح زور زور سے پاؤں مار کر نہ چلیں کہ ان کی پوشیدہ زینت معلوم ہو جائے، اے مسلمانوں ! تم سب کے سب اللہ کی جناب میں توبہ کرو تاکہ تم نجات پاؤ(سورہ نور آیت۔31)۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، زانی مومن رہتے ہوئے زنا نہیں کر سکتا۔ شراب خوار مومن رہتے ہوئے شراب نہیں پی سکتا۔ چور مومن رہتے ہوئے چوری نہیں کر سکتا۔ اور کوئی شخص مومن رہتے ہوئے لوٹ اور غارت گری نہیں کر سکتا کہ لوگوں کی نظریں اس کی طرف اٹھی ہوئی ہوں اور وہ لوٹ رہا ہو، سعید اور ابوسلمہ کی بھی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بحوالہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح روایت ہے۔ البتہ ان کی روایت میں لوٹ کا تذکرہ نہیں ہے۔ (صحیح بخاری حدیث نمبر۔۔2475)

یحییٰ بن یحییٰ تمیمی نے کہا: ہشیم نے ہمیں منصور سے خبر دی، انہوں نے حسن سے، انہوں نے حطان بن عبداللہ رقاشی سے اور انہوں نے حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” مجھ سے سیکھ لو، مجھ سے سیکھ لو، مجھ سے سیکھ لو (جس طرح اللہ نے فرمایا تھا: ” یا اللہ ان کے لیے کوئی راہ نکالے۔ ” (النساء: 15: 4) اللہ نے ان کے لیے راہ نکالی ہے، کنوارا، کنواری سے (زنا کرے) تو (ہر ایک کے لیے) سو(۱۰۰) کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی ہے اور شادی شدہ سے زنا کرے تو (ہر ایک کے لیے) سو (۱۰۰)کوڑے اور رجم ہے(صحیح مسلم حدیث نمبر۔۔4414۔۔۔او کما قال صلی اللہ علیہ وسلم

شعبہ نے سلیمان سے، انہوں نے ذکوان سے اور انہوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’زانی زنا نہیں کرتا کہ جب زنا کر رہا ہو تا ہے تو مومن ہو، چور چوری نہیں کرتا کہ جب چوری کر رہا ہو تو وہ مومن ہو، شرابی شراب نہیں پیتا کہ جب وہ پی رہا ہو تو مومن ہو۔ اور (ان کو) بعد میں توبہ کا موقع دیا جاتا ہے۔‘‘(صحیح مسلم۔رقم۔208)

 سیدنا انس بن مالک ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: یہ قیامت کی علامتوں میں سے ہے کہ علم اٹھا لیا جائے گا، جہالت پھیل جائے گی، شراب کو پیا جائے گا اور زنا عام ہو جائے گا۔(مسند احمد۔۔حدیث۔۔13126)

زانی اور زانیہ اور اخلاقی مجرم ہے۔اللہ تعالیٰ اپنے پیارے رسول صادق صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے خبر دیتا ہے کہ زانی سے زنا کاری پر رضامند وہی عورت ہوتی ہے جو بدکار ہو یا مشرکہ ہو کہ وہ اس برے کام کو عیب ہی نہیں سمجھتی۔ ایسی بدکار عورت سے وہی مرد ملتا ہے جو اسی جیسا بدچلن ہو یا مشرک ہو جو اس کی حرمت کا قائل ہی نہ ہو۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بہ سند صحیح مروی ہے کہ یہاں نکاح سے مراد جماع ہے یعنی زانیہ عورت سے زنا کار یا مشرک مرد ہی زنا کرتا ہے۔ یہی قول مجاہد، عکرمہ، سعید بن جبیر، عروہ بن زبر، ضحاک، مکحول، مقاتل بن حیان اور بہت سے بزرگ مفسرین سے مروی ہے۔ مومنوں پر یہ حرام ہے یعنی زناکاری کرنا اور زانیہ عورتوں سے نکاح کرنا یا عفیفہ اور پاک دامن عورتوں کو ایسے زانیوں کے نکاح میں دینا۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ بدکار عورتوں سے نکاح کرنا مسلمانوں پر حرام ہے جیسے اور آیت میں ہییعنی مسلمانوں کو جن عورتوں سے نکاح کرنا چاہئے ان میں یہ تینوں اوصاف ہونے چاہئیں وہ پاک دامن ہوں، وہ بدکار نہ ہوں، نہ چوری چھپے برے لوگوں سے میل ملاپ کرنے والی ہوں۔ (سورہ  – النسآء: آیت۔25، آیت کے درمیان میں اس کا ذکر ہے۔)   یہی تینوں وصف مردوں میں بھی ہونے کا بیان کیا گیا ہے۔ اسی لئے امام احمد رحمتہ اللہ علیہ کا فرمان ہے کہ نیک اور پاک دامن مسلمان کا نکاح بدکار عورت سے صحیح نہیں ہوتا جب تک کہ وہ توبہ نہ کرلے ہاں بعد از توبہ عقد نکاح درست ہے۔ اسی طرح بھولی بھالی، پاک دامن، عفیفہ عورتوں کا نکاح زانی اور بدکار لوگوں سے منعقد ہی نہیں ہوتا۔ جب تک وہ سچے دل سے اپنے اس ناپاک فعل سے توبہ نہ کرلے کیونکہ فرمان الٰہی ہے کہ یہ مومنوں پر حرام کردیا گیا ہے۔

ایک شخض نے ام مھزول نامی ایک بدکار عورت سے نکاح کرلینے کی اجازت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی آیت پڑھ کر سنائی۔ ایک اور روایت میں ہے کہ اس کی طلب اجازت پر یہ آیت اتری۔ ترمذی شریف میں ہے کہ ایک صحابی جن کا نام مرثد بن ابو مرثد تھا، یہ مکہ سے مسلمان قیدیوں کو اٹھالایا کرتے تھے اور مدینے پہنچا دیا کرتے تھے۔ عناق نامی ایک بدکار عورت مکے میں رہا کرتی تھی۔ جاہلیت کے زمانے میں ان کا اس عورت سے تعلق تھا۔ حضرت مرثد رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ایک مرتبہ میں ایک قیدی کو لانے کیلئے مکہ شریف گیا۔ میں ایک باغ کی دیوار کے نیچے پہنچا رات کا وقت تھا چاندنی چٹکی ہوئی تھی۔ اتفاق سے عناق آپہنچی اور مجھے دیکھ لیا بلکہ پہچان بھی لیا اور آواز دے کر کہا کیا مرثد ہے؟ میں نے کہا ہاں مرثد ہوں۔ اس نے بڑی خوشی ظاہر کی اور مجھ سے کہنے لگی چلو رات میرے ہاں گزارنا۔ میں نے کہا عناق اللہ تعالیٰ نے زناکاری حرام کردی ہے۔ جب وہ مایوس ہوگئی تو اس نے مجھے پکڑوانے کیلئے غل مچانا شروع کیا کہ اے خیمے والو ہوشیار ہو جاؤ دیکھو چور آگیا ہے۔ یہی ہے جو تمہارے قیدیوں کو چرا کر لے جایا کرتا ہے۔ لوگ جاگ اٹھے اور آٹھ آدمی مجھے پکڑنے کیلئے میرے پیچھے دوڑے۔ میں مٹھیاں بند کرکے خندق کے راستے بھاگا اور ایک غار میں جاچھپا۔ یہ لوگ بھی میرے پیچھے ہی پیچھے غار پر آپہنچے لیکن میں انہیں نہ ملا۔ یہ وہیں پیشاب کرنے کو بیٹھے واللہ ان کا پیشاب میرے سر پر آ رہا تھا لیکن اللہ نے انہیں اندھا کردیا۔ ان کی نگاہیں مجھ پر نہ پڑیں۔ ادھر ادھر ڈھونڈ بھال کر واپس چلے گئے۔ میں نے کچھ دیر گزار کر جب یہ یقین کرلیا کہ وہ پھر سوگئے ہوں گے تو یہاں سے نکلا، پھر مکے کی راہ لی اور وہیں پہنچ کر اس مسلمان قیدی کو اپنی کمر پر چڑھایا اور وہاں سے لے بھاگا۔ چونکہ وہ بھاری بدن کے تھے۔ میں جب اذخر میں پہنچا تو تھک گیا میں نے انہیں کمر سے اتارا ان کے بندھن کھول دیئے اور آزاد کردیا۔ اب اٹھاتا چلاتا مدینے پہنچ گیا۔ چونکہ عناق کی محبت میرے دل میں تھی۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت چاہی کہ میں اس سے نکاح کرلوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو رہے۔ میں نے دوبارہ یہی سوال کیا پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے اور یہ آیت اتری۔ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اے مرثد زانیہ سے نکاح زانی یا مشرک ہی کرتا ہے تو اس سے نکاح کا ارادہ چھوڑ دے۔ امام ابو داؤد اور نسائی بھی اسے اپنی سنن کی کتاب النکاح میں لائے ہیں۔ ابو داؤد وغیرہ میں ہے زانی جس پر کوڑے لگ چکے ہوں وہ اپنے جیسے سے ہی نکاح کرسکتا ہے۔

مسند امام احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں، تین قسم کے لوگ ہیں جو جنت میں نہ جائیں گے اور جن کی طرف اللہ تعالیٰ نظر رحمت سے نہ دیکھے گا۔ (۱) ماں باپ کا نافرمان۔ (۲) وہ عورتیں جو مردوں کی مشابہت کریں۔ (۳) اور دیوث۔ اور تین قسم کے لوگ ہیں جن کی طرف اللہ تعالیٰ نظر رحمت سے نہ دیکھے گا۔ (۱) ماں باپ کا نافرمان (۲) ہمیشہ کا نشے کا عادی (۳) اور اللہ کی راہ میں دے کر احسان جتانے والا۔ مسند میں ہے آپ فرماتے ہیں تین قسم کے لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے جنت حرام کردی ہے (۱) ہمیشہ کا شرابی۔ (۲) ماں باپ کا نافرمان۔ (۲) اور اپنے گھر والوں میں خباثت کو برقرار رکھنے والا۔ ابو داؤد طیالسی میں ہے جنت میں کوئی دیوث نہیں جائے گا۔ ابن ماجہ میں ہے جو شخص اللہ تعالیٰ سے پاک صاف ہو کر ملنا چاہتا ہے، اسے چاہئے کہ پاکدامن عورتوں سے نکاح کرے، الغرض زانیہ عورتوں سے پاک دامن مسلمانوں کو نکاح کرنا منع ہے ہاں جب وہ توبہ کرلیں تو نکاح حلال ہے۔

زنا کا عام مفہوم جس سے ہر شخص واقف ہے، یہ ہے کہ ایک مرد اور ایک عورت بغیر اس کے کہ ان کے درمیان جائز رشتہ زن و شوہر ہو، باہم مباشرت کا ارتکاب کریں۔ اس فعل کا اخلاقا برا ہونا، یا مذہبا گناہ ہونا، یا معاشرتی حیثیت سے معیوب اور قابل اعتراض ہونا، ایک ایسی چیز ہے جس پر قدیم ترین زمانے سے آج تک تمام انسانی معاشرے متفق رہے ہیں

نوٹ۔(مذہب اسلام کے قوانین نے ہمیشہ زنا، یعنی عورت اور مرد کے ناجائز تعلق کوجرم سمجھا ہے اور اس کے لیے سخت سزائیں رکھی ہیں۔ )

قدیم مصر، بابل، آشور (اسیریا) اور ہندوستان کے قوانین میں اس کی سزا بہت ہلکی تھی۔ اسی قاعدے کو یونان اور روم نے اختیار کیا، اور اسی سے آخر کار یہودی بھی متاثر ہوگئے۔ بائیبل میں یہ صرف ایک ایسا قصور ہے جس سے مرد پر محض مالی تاوان واجب آتا ہے۔ کتاب خروج میں اس کے متعلق جو حکم ہے اس کے الفاظ یہ ہیں : اگر کوئی آدمی کسی کنواری کو، جس کی نسبت (یعنی منگنی) نہ ہوئی ہو، پھسلا کر اس سے مباشرت کرلے تو وہ ضرور ہی اسے مہر دے کر اس سے بیاہ کرلے، لیکن اگر اس کا باپ ہرگز راضی نہ ہو کہ اس لڑکی کو اسے دے، تو وہ کنواریوں کے مہر کے موافق (یعنی جتنا مہر کسی کنواری لڑکی کو دیا جاتا ہو) اسے نقدی دے۔ (باب 22۔ آیت 16۔ 17) کتاب استثناء میں یہی حکم ذرا مختلف الفاظ میں بیان ہوا ہے، اور پھر تصریح کی گئی ہے کہ مرد سے لڑکی کے باپ کو پچاس مثقال چاندی (تقریبا 55 روپے) تاوان دلوایا جائے (باب 22۔ آیت 28۔ 29) البتہ اگر کوئی شخص کاہن (یعنی پروہت، Priest) کی بیٹی سے زنا کرے تو اس کے لیے یہودی قانون میں پھانسی کی سزا ہے، اور لڑکی کے لیے زندہ جلانے کی، (Everymans Talmud, p 319-2C) یہ تخیل ہندوؤں کے تخیل سے کس قدر مشابہ ہے اس کا اندازہ کرنے کے لیے منوکی دھرم شاستر سے مقابلہ کر کے دیکھیے، وہاں لکھا ہے کہ: جو شخص اپنی ذات کی کنواری لڑکی سے اس کی رضا مندی کے ساتھ زنا کرے وہ کسی سزا کا مستحق نہیں ہے۔ لڑکی کا باپ راضی ہو تو وہ اس کو معاوضہ دے کر شادی کرلے۔ البتہ اگر لڑکی اونچی ذات کی ہو اور مرد نیچ ذات کا تو لڑکی کو گھر سے نکال دینا چاہیے اور مرد کو قطع اعضا کی سزا دینی چاہیے۔ (ادھیائے 8 اشلوک 365۔ 366) اور یہ سزا زندہ جلا دیے جانے کی سزا میں تبدیل کی جاسکتی ہے جبکہ لڑکی برہمن ہو (اشلوک 377)

دراصل ان سب قوانین میں زنا بزن غیر ہی اصل اور بڑا جرم تھا یعنی یہ کہ کوئی شخص (خواہ وہ شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ) کسی ایسی عورت سے مباشرت کرے جو دوسرے شخص کی بیوی ہو۔ اس فعل کے جرم ہونے کی بنیاد یہ نہ تھی کہ ایک مرد اور عورت نے زنا کا ارتکاب کیا ہے، بلکہ یہ تھی کہ ان دونوں نے ملک کر ایک شخص کو اس خطرے میں مبتلا کردیا ہے کہ اسے کسی ایسے بچے کو پالنا پڑے جو اس کا نہیں ہے۔ گویا زنا نہیں بلکہ اختلاط نسب کا خطرہ اور ایک کے بچے کا دوسرے کے خرچ پر پلنا اور اس کا وارث ہوناتھا۔

اجتماعی گینگ ریپ کے واقعات انسانی تاریخ کا ایک المناک ناقابل بیان باب ہے مگرتاریخ انسانی کا سب سے بڑا گینگ ریپ سنہ 1945ء میں سوویت فوج کے ہاتھوں جرمظلوم خواتین کا قراردیا جاتا ہے۔

(العربیہ ڈؑاٹ نیٹ )نے انسانی تاریخ کے اجتماعی عصمت ریزی کے خوفناک واقعے کی تفصیلات پر روشنی ڈالی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جنوری اور اگست 1945ء کے دوران سوویت فوج نے جرمنی کی سرزمین میں خواتین کی عزت وناموس کو جس بے دردی اور بربریت کے ساتھ پامال کیا اس کی مثال دنیا کے کسی دوسرے خطے اور دور میں نہیں ملتی۔ سوویت فوج کی درندگی کے سا منے انکار کی جرات کرنے والی خاتون کوایک لمحے کی تاخیر کے بغیر موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا تھا۔سنہ 1945ء کے اوائل میں جرمنی کے بیشتر مرد فوج کی صفوں میں تھے جو جنگ عظیم دوم کی وجہ سے محاذوں پر لڑ رہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ شہر تقریبا مردوں سے خالی ہوچکے تھے جبکہ شہروں میں پیچھے رہ جانے والی خواتین اور بچے ہی تھے۔ سوویت فوج جب جرمنی میں داخل ہوئی تو اس نیوہاں کی آبادی کو مردوں سے خالی پایا اور اپنے سامنے صرف صنف نازک کو پا کر وہ بزدل فوج اور بھی جری ہوگئی۔سوویت فوج نے انتقامی حربے کے طورپر سب سے پہلے روس کے مشرقی علاقوں میں خواتین کو گینگ ریپ کا نشانہ بنانا شروع کیا۔ یہاں سے سوویت فوج کی تاریخی بدنامی کا آغاز ہوا۔ یہ مشہور ہوگیا کہ سوویت فوج جس علاقے میں دخل ہوتی ہے وہاں پر خواتین کی عزتوں کے ساتھ کھلواڑ کرتی چلی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سوویت فوج کے حملوں کے خوف سے جرمنی کی بڑی تعداد میں عورتوں نے خود کشیاں شروع کردیں۔ جرمنی شہر دمین میں بڑی تعداد میں خواتین نے اپنی عزت وناموس کوبچانے کے لیے موت کو گلے لگا لیا تھا۔

جنوری سے اگست 1945ء کے دوران مسلسل آٹھ ماہ کے عرصے میں سوویت فوجی درندوں نے قریبا 20 لاکھ جرمن خواتین کی اجتماعی آبر ریزی کی تھی۔ اجتماعی آبر ریزی کا نشانہ بننے والی بعض خواتین کو بار بار اس عذاب کا سامنا کرنا پڑا۔ بعض خواتین کو 70، 70بار گینگ ریپ کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ صرف دارالحکومت برلن میں اپریل اور مئی 1945ء کے دوران روسی فوج نے 1 لاکھ جرمن خواتین کو گینگ ریپ کا نشانہ بنایا۔ مشرقی جرمنی کے علاقوں بومیرانیا اور سیلیزیا میں دوسری عالمی جنگ کے دوران 14 لاکھ خواتین کی اجتماعی آبرو ریزی کی گئی۔

رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ سوویت درندوں کی وحشت سے بڑی عمر کی خواتین کے ساتھ آٹھ اور دس سال کی بچیاں بھی محفوظ نہ رہیں۔ اجتماعی عصمت دری کے باعث دو لاکھ خواتین بروقت طبی امداد نہ ملنے کے باعث لقمہ اجل بن گئیں۔ اگست 1945ء میں جرمنی میں خواتین کی اجتماعی آبرو ریزی کے سلسلے میں بہ تدریج کمی آنا شروع ہوئی۔ یہ کمی اس وقت آئی جب روسی فوج نے آبرو ریزی کے جرائم میں ملوث اہلکاروں کے خلاف کارروائی شروع کی۔ سنہ 1948ء میں جرمن خواتین کی عزتوں سے کھیلنے کا سلسلہ اس وقت ختم ہوا جب جرمن فوج آبادی سے نکل کر اپنے کیمپوں میں واپس پہنچی تھی مگر اس کے باوجود جرمن آبادی میں روسی فوج کی وحشت وبربریت کا خوف موجود تھا۔۔

 (نعوذباللہ) کسی عورت کے ساتھ زنا ہوتا ہے، ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں، اگر یہ المناک خبر سن کر ہماری آنکھیں نم نہ ہوء تو ہم لوگ فکر کریں کہ ہم انسان ہیں یا نہیں ؟ صدیوں سے یہ غریب عورت ظالم و جابر او ر  وحشی درندوں کی شکل میں موجود مردوں کے ہر ظلم کو برداشت کر رہی ہیں۔ جنگ ہو، دنگا وفساد ہو، اسی مظلوم اور بے بس عورت پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں،  عزت و عصمت کے پاک چادر کو داغ دار کیا جاتا ہے۔اس غلیظ معاشرے نے ترقی کے نام پر ان کی شرم وحیا کے زیور اتروالئے لیکن ان کے عزت و عصمت کی حفاظت کرنے میں ترقی پسند معاشرہ ناکامیاب رہا۔

اے چشم اشک بار ذرا دیکھ تو لے

  یہ گھر جو بہ رہا ہے کہیں تیرا گھر نہ ہو

 عورت اگرچہ جسمانی اعتبار سے مردوں سے کمزور ہے، لیکن یہ صنف نازک ذہنی اعتبار سے مردوں سے بہت زیادہ مضبوط ہے،

 ابرا ہیم علیہ السلام نے اپنی اہلیہ محترمہ کو ریگستان میں تنہا چھوڑا تو وہ مقدس خاتون صرف اللہ کے نام کے سہارے وہاں تن تنہا رہ کر صبر و استقلال کی وہ نشانی پیش کی، جس کی مثال ملنی ممکن نہیں، (اللہ تعالیٰ کو انکی یہ ادا اس قدر پسند آئی کے رکن حج میں شامل کرکے حیات جاوداں عنایت کی) نبی پاک ﷺپہلی وحی کے نزول کے (بعد انسانی کمزوری کے مطابق جب پریشان ہوئے ) تو اماں خدیجہ الکبریٰ ؓ نے آپ ﷺ کو بہترین اور شاندار الفاظ میں بہت پیارسے تسلی دی، اس سے آپ ﷺ کو تمانییت حاصل ہوئی۔صلح حدیبیہ کے موقع پر آپ کی دل جوئی کے لئے اماں امم سلمہؓ نے کہا یا رسول اللہ ﷺ مسلمان کبھی آپ ﷺ کی حکم عدولی نہیں کریں گے ہاں وہ اپنے دین و ایمان اور آپ ﷺ کے رسالت کے اعتبار سے بہت پر جوش ہیں، آپ ﷺ حلق کیجیے اور جانور ذبح کیجیے سارے آپ کے ساتھ ہیں، اور اس سے آقا ﷺ کے چہرے انور  ﷺ پر سکون و اطمینان کی لالی نمودار ہوئی، آپ ﷺ نے ایسا ہی کیا۔ صحابہ اکرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین نے آپ ﷺ کی اتباع کی۔

( تفسیر کبیر۔تفسیر ابن کثیر۔۔تفہیم القرآن۔ تاریخ ابن خلدون، مضمون طہ عبد الناصررمضان۔(تیونس)۔ و دیگر کتابوں سے ماخوذ)

تبصرے بند ہیں۔