اردو افسانہ – ایک جائزہ

پروفیسر حامدی کاشمیری، سری نگر

                   اردو افسانہ، شعری اضاف کے خلاف، گذشتہ صدی کی ہی پیداوار ہونے اور نسبتاََ بہت کم مدت پر محیط ہونے کے باوجوداپنی فنی حیثیت اور وقت کو تسلیم کرانے میں کامیاب ہوا ہے۔ ایک زندہ توانا اور حساس صنف کے طور پر یہ وقت کے بدلتے تقاضوں سے تاثر پزیری کا ثبوت دیتا رہا ہے۔ چنانچہ بدلتے حالات کے تناظر میں اردو افسانہ رومانیت، حقیقت نگاری، جدیدیت، علامت نگاری، تجریدیت اور مابعد جدیدیت کے رجحانات کی غمازی کرنے میں پیش پیش رہا ہے، اور ساتھ ہی موضوعی اور تکینیکی و ہیئتیی اعتبار سے بھی تضیر پسندی کے رجحان کو ظاہر کرتا رہا ہے، اہم بات یہ ہے کہ افسانہ بدلتے وقت کے زیر اثر تبدیلیوں کے دباؤ کا سامنا کرتے ہوئے اپنی فنی سا  لمیت کا تحفظ کرتا رہا، چنانچہ کسی بھی تاریخی تبدیلی یا عصری رجحان کے زیر اثر ایسے افسانے لکھے گئے، جواپنی فنی Validity کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہوئے۔ ان متعدد افسانوں کا ذکر بے محل ہے۔ جو افسانے سے موسوم ہونے کے باوجود اس کی ذیل میں نہیں آتے، اور وقت کی ایک ہی کروٹ کے ساتھ معدوم ہو جاتے ہیں۔

                   بہر حال، جو افسانے وقت کے گزراں کی نفی کرتے ہوئے زندہ رہے، وہ صرف اپنے بل بوتے پر زندہ رہے، یعنی ایسے افسانوں کے یہ وہ فنی اور تکنیکی اصول و ضوابط ہیں، جو ان کی تخلیقیت اور دوام کے ضامن ہیں، یہ حقیقت تو ہے، مگر اتنی طمانیت بخش نہیں جتنا کہ یہ نظر آتی ہے، کیونکہ ایسے افسانوں کی تعداد ان افسانوں کے مقابلے میں بہت کم ہے جو افسانے پر اتہام کے برابر ہیں۔

                   یہ ایک غور طلب صورت حال، اس کے اسباب و علل کے بارے میں اس وقت تفصیل میں جانے کا محل نہیں ہے، تاہم فوری طور پر افسانے کی تنقید کی غیر تسلی بخش کار گزاری کی طرف توجہ جاتی ہے۔ تو کیا افسانے کی تنقید اپنے تفاعل کے ساتھ انصاف نہیں کرسکی ہے؟ اس سوال کا جواب دینے سے پیشتر یہ دیکھنا لازم ہے کہ گزشتہ ساتھ برسوں میں اردو تنقید کا افسانے کے حوالے سے کیا رول رہا ہے، اگر یہ کہا جائے کہ اردو تنقید مطلوبہ حد تک اپنے فریضے سے عہدہ بر آ نہیں ہوسکی ہے، تو تعجب نہین ہونا چاہئے، افسانے کی بد قسمتی یہ ہے کہ اپنے ابتدائی دور سے ہی یہ اپنی داخلی فنی شناخت کا تحفظ کرنے کے بجائے ایک باہر سے لادی گئی چیز یعنی نظریاتی غیر ادبی مقصدیت کی زد میں آگیا، اور نہ صرف پریم چند ہی بلکہ ان کے بعد آنے والے درجنوں افسانہ نگار افسانے کو تخلیقی خود کفالت سے آشنا کرنے کے بجائے اسکے میڈیائی ترسیلی کردار پر زور دیتے رہے، نتیجتاََ افسانہ حقیقت کی جامد سطح سے چمٹا رہا۔ اور تحیلی طورپر شگفتن ذات کے عمل سے دور رہا، یہ صحیح ہے کہ اس ضمن میں بعض ایسے افسانے ضرور لکھے گئے، جو افسانے کی زندہ رویت کو آگے بڑھاتے رہے، لیکن افسانوی ادب کا معتدبہ حصہ نام نہاد مقصدیت کی نذر ہوگیا۔

                   حقیقت نگاری کے دور سے آج تک افسانے کی تنقید کی شعریات کو دریافت کرنے اور اسے مرتب کرنے کے لئے افسانے کے متن سے زیادہ افسانہ نگار (جو افسانے سے باہر ہے) کے نظریات کی توضیحات کی طرف توجہ کی گئی۔ یہ توضیحات بعض صورتوں میں افسانے کی فنی حیثیت سے صرف نظر کر کے اسے کسی معینہ مقصد مثلا سماجی معنویت کی ترسیلیت کا ذریعہ قرار دیتا رہا، اس عمل میں بعض بین شعبہ جاتی علوم پر نظر رکھنے والے تمدنی نشادوں نے اپنی علمیت کا زور و شور سے مظاہرہ تو کیا مگر انہوں نے افسانے کی متن سے سروکار رکھا اور نہ ہی افسانے کی فنی حیثیت سے تعرض کیا، زیادہ سے زیادہ، افسانے کے بعض فنی اور تکنیکی محاسن و معائب کا ذکر کیا گیا۔ اور تنقیدی عمل کو درسیاتی عمل کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ افسانہ علم تاریخ، مقصد، نظریہ، عصریت یا سماجیت کی ترسیل کا ذریعہ نہیں، اتنی عالمانہ چیزیں غریب افسانے کے نازک کندھوں پر لادنا ہرن پر گھاس لادنے کے عمل کے مترادف ہے، اس نوع کی خارجی چیزوں سے افسانے کو گرانبار کرنے سے اسکی خود کفیل فنی سا  لمیت اور داخلیت دب جاتی ہے، یہ صحیح ہے کہ افسانوں کی تنقید نے افسانے کے متن پر بھی توجہ مرکوز کی ہے، لیکن یہ عمل بھی تنقید کے حق کوادا کرنے کے بجائے ایک حد تک درسی ضرورت کو پورا کرتا ہے، کیونکہ اس نوع کی بیشتر تنقید تجزیاتی ہوتے ہوئے بھی افسانے سے محض معنی و مطلب یا متعینہ موضوع کی کشید پر زور دیتی رہی ہے۔

                   اس بحث سے یہ نکتہ ابھرتا ہے کہ اردو افسانے کو ابھی تک وہ تنقید میسر نہیں آسکی ہے، جو اپنے تفاعل کو احترام کرتے ہوئے اس کی بنت سے اگنے والی فنی حیثیت کو دریافت کرے، اس کا ایک منفی نتیجہ یہ نکلا ہے کہ نسل بعد نسل افسانہ نگار افسانے کی شعریات سے نابلد رہنے کی بنا پر پوری قوت اور اعتماد سے فن افسانہ پر حاوی ہو کر اپنی شناخت نہیں کر پائے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نئی نسل کے بیشتر افسانہ نگار تنقید سے بے زاری اور مایوسی کا برملا اظہار کرتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ تنقید اس وقت تک اپنی معنویت اور استناد کو ثابت نہیں کر پائے گی، جب تک کہ افسانے کے اندر عمل آرا شعریات کی یافت و تشکیل نہ کی جائے۔

                   شعریات بنیادی طور پر وہ فنی اصول و ضوابط ہیں، جو افسانے کے مستند ہونے پر دلالت کر سکتے ہیں، یہ اصول و ضوابط خارج سے یا من مانے طریقے سے افسانے پر لاگو نہیں کئے جا سکتے ہیں، اور نہ ہی کسی اچھے سے اچھے افسانے سے مستخرج ہونے کی بنا پر ہر افسانے اور ہر دور کے افسانے پر منطبق کئے جا سکتے ہیں، افسانے کر شعریات اور اسکی آفاقی معنویت اس انجذاب پذیرتخیلی فضا سے مشروط ہے، جو افسانے میں ایک نادر ڈرامائی صورت کو پنپنے دیتی ہے، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ افسانہ دیگر افسانوں کی شعریات کو ساقط کرتے ہوئے محض اپنی وضع کر دہ شعریات پر اصرار کرتا ہے، اگر ایسا ہوتا تو تخلیق کے ساتھ ساتھ نقد و نظر میں بھی نراج کی حالت پیدا ہوتی، آرٹ مسلمہ روایتی اقدار و لوازم اور آداب کی پاسداری کرتا ہے، اور اس ضمن میں علاقائی، ملکی یا بین الاقوامی اختلافات کو تسلیم نہیں کرتا، افسانہ اپنے داخلی تجربے کے مطابق اپنی لسانی ساخت، فجاء کردار و واقعہ اور تکینک کی پیو ستگی سے اپنی ہیئت وضع کرتا ہے، افسانے سے افسانے تک ہئیت و تکنیک میں فرق ہوسکتا ہے۔ (اب افسانے میں اسکے نام نہاد عناصر ترکیبی کی گردان کرنے کا زمانہ بھی نہیں رہا ہے)تاہم اس سے افسانے کے اس عمل پر کوئی اثر نہیں پڑتا جو لازماََ اس کا فنی مقصد نہیں، بلکہ مقصد کے حصول کا ذریعہ ہ، اور جو اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ افسانہ اپنے صنفی لوازم کا احترام کرتے ہوئے قاری کو اپنے امکان پزیر تخیلی تجربے میں شریک کرے۔ یہی آرٹ کی خاصیت بھی ہے اور غایت بھی۔ پس مجھے یہ کہنے دیجئے کہ افسانے کی شعریات کی دریافت اور تعئین کا کام ہنوز توجہ طلب ہے، اور نئی نسل کے نقادوں کے لئے ایک بڑے چلینج کا حکم رکھتا ہے۔

                   یہ مسلمہ امر ہے کہ ادب کے ہر نئے دور میں تخلیق و تنقید کے ضمن میں نئے سوالات سر اٹھاتے ہیں اور تخلیقی رجحانات اور تحسین شناسی کے معائر تبدیلیوں سے دو چار ہوتے ہیں، یہ تبدیلیاں ادیبوں اور نقادوں کے لئے ایک بڑے چلینج کی صورت اختیار کرتی ہیں۔ اس چلینج کا سامنا کرنے کے لئے کھلے ذہن، نازک حساسیت اور گہرے ادراک کی ضرورت ہے، یہ ممکن ہے کہ باہر کی دنیا میں تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کا سامنا کرنے کی بجائے روایت کی پناہ گاہوں میں عافیت  پسندی کو ترجیج دی جائے، لیکن اس میں قباحت یہ ہے کہ خود فنکار کا وجود اپنے عصر کے لئے بے معنی ہو جاتا ہے، اور ساتھ ہی ادبی اقدار و امکانات کے راستے مسدود ہوتے ہیں۔ روایت اور جدت پسندی کا تخلیقی شعور رکھنے والے فنکار پوری ذہنی آزادی کے ساتھ جمہوری قدروں کا احترام کرتے ہوئے نئے عہد کے پیدا کردہ سوالات پر غور و فکر کرتے ہیں۔ اور ان کے جوابات تلاشتے ہیں۔

                   یورپی اور امریکی ادیب اور نقاد و قتاََ فوقتاََ پیدا ہونے والے سوالات سے متصادم ہو کر اپنی ہوش مندی اور معاصر آگہی کا ثبوت دیتے ہیں، اوراپنے لئے غور و فکر کی راہیں روشن کرتے ہیں۔ زیر نظر شمارے میں لندن میگزین نے وقت کی اسی ضرورت کے پیش نظر معاصر ادبی صورت حال سے متعلق ایک سوالنامہ مرتب کیا ہے، اور انگریزی کے نامور شعرا اور نقادوں سے اس کے جوابات طلب کئے ہیں۔ یہ سوالنامہ اور اسکے جوابات ہم من و عن جہات کے زیر نظر شمارے میں ترجمے کی صورت میں شامل کر رہے ہیں، اس سوالنامہ میں جو سوالات اٹھائے گئے ہیں، وہ صرف یورپ اور امریکہ کی ادبی صورت حال سے ہی متعلق نہیں، بلکہ دنیا کے دیگر ممالک جن میں ایشائی ممالک بھی شامل ہیں، سے بھی مربوط ہیں،

یہ سوالات پاونڈ اور ایلیٹ کی جدیدیت، تکنیکی تجربہ کاری، روایتی ہئیتوں کی شکست، یورپی تجربے کی انجذاب پزیری اور کپلکس عہد کے لئے کمپلکس شاعری کے خلاف رد عمل سے متعلق ہیں۔

                   میری دانست میں یہ سوالات آج بھی ہمارے ذہنوں کو جھنجھوڑ رہے ہیں، اور ان کے ساتھ ہی ملکی اور بین الاقوامی حالات کے تناظر مین اور بھی سوالات پیدا ہورہے ہیں، جو شدت سے جواب طلب ہیں۔ مثلاََـ:۔

          1۔       مابعد جدیدیت کن معنوں میں جدیدیت سے مختلف ہے؟

          2۔       ساختیاتی تنقید مروجہ تنقیدی نظریات سے کن معنوں میں مختلف ہے؟

          3۔       کلاسیکی ادب کی کیا عصری معنویت ہے؟

          4۔       کیا تنقید بحران کی شکار ہے؟

          5۔       کیا ادب جدید میڈیائی ترسیلیت کے قریب آ رہا ہے؟

          6۔       ادب میں علاقائیت پر اصرار کرنے سے اس کے آفاقی کردار کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے؟

تبصرے بند ہیں۔