اردو میڈیم اسکولوں کا معیارِ تعلیم اور تعلیمی پروگرام

تحریر:  محمد اسحاق  …  ترتیب:   عبدالعزیز

                آج سے کوئی 30 برس پہلے ملک کے ایک ممتاز دانشور کی ایک طویل تقریر بعنوان ’’اردو کے مستقبل‘‘ پر حیدر آباد ہی میں ہوئی تھی۔ موصوف نے پورے اعتماد کے ساتھ یہ پیش گوئی کہ تھی کہ ’’آج سے 25 برس بعد ہندستان میں یونیورسٹیز کے اردو ڈیپارٹمنٹ میں اردو رہ جائے گی۔ اس کو پڑھنے اور لکھنے والا شاید ہی کوئی رہ جائے گا۔ اگر اس زبان کو زندہ رکھنا ہو تو یہودی قوم کا سا جگر چاہئے جنھوں نے اپنی عبرانی زبان کو چار ہزار برس تک صحرا نوردی کے باوجود سینہ سے لگائے رکھا۔ اس مضمون کے لکھتے وقت میرے سامنے وہ مایوسی کا عالم ہے جو سارے ہال پر چھا گیا تھا اور دل افسردہ سے زبان پر یہ مصرع آیا تھا  ع

عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے

                اتفاق کی بات ہے کہ وہ دانشور آج بھی زندہ ہیں اور وہ تقریر سننے والے مجھ جیسے کئی ابھی بقید حیات ہوں گے۔ زہے نصیب کہ وہ پیش گوئی پوری نہ ہوئی بلکہ اردو کے اچھے دن آگئے ہیں۔ اس زبان کی چاہت نے اس کو زندہ ہی نہیں رکھا بلکہ اس کو پروان چڑھانے کیلئے ہندستان ہی نہیں بلکہ ساری دنیا میں کوششیں جاری ہیں۔

                یوں تو موسم بدلتے ہی رہتے ہیں، پت جھڑ کے موسم میں درختوں کے پتے گرنے لگتے ہیں اور وہ ننگ دھڑنگ موسم بہار کے انتظار میں کھڑے رہ جاتے ہیں۔ چند برسوں سے ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ ان خزاں رسیدہ درختوں پر نسیم بہار کے جھونکے چلنے لگے ہیں۔ عابد علی خاں اردو تعلیمی ٹرسٹ کے تحت اردو سیکھنے کی گرمائی کلاسوں میں کافی گرمی آچکی ہے۔ اس پروگرام کا عوام نے جس جوش و خروش سے استقبال کیا اسے دیکھنے سے محسوس ہوتا ہے کہ سرپرستوں میں اپنے بچوں کو اردو سکھلانے کا جذبہ کس قدر شدید ہے۔ مشاعروں کی آب و تاب وہی باقی ہے۔ ریڈیو اور ٹی وی سے ہندی، اردو یا ہندستانی زبان کہہ لیجئے، یہی عوام کی زبان ہے۔ اس کا کوئی گھر نہیں لیکن سارا ملک اس کا وطن ہے۔ اگر کوئی زبان سیکولرزم کا دعویٰ کر سکتی ہے تو وہ اردو زبان ہی ہے۔ اے سخت جاں اردو تیری پیدائش جنگی لشکروں کے درمیان ہوئی۔ ہندستان کے بازاروں میں تیرا بچپن ہنستے بولتے گزر گیا۔ مشاعروں اور ادبی محفلوں میں تیرا شباب دیکھا۔ ادیب و شاعر، افسانہ و ناول نگار، کالجوں اور جامعات کے اساتذہ نے تیری زلفوں کو سنوارا، عوام نے تجھے گلے لگایا، اب یہی تیری زندگی کی ضمانت دے سکتے ہیں۔

                ذریعہ تعلیم: روزنامہ ’سیاست‘ میں کسی نے یہ سوال کیا تھا کہ بچوں کیلئے کون سا ذریعہ تعلیم مناسب ہے؟ دنیا کے سارے ماہرین تعلیم اس ایک بات پر متفق ہیں کہ ’’بچہ کیلئے مادری زبان ہی ذریعہ تعلیم ہونا چاہئے‘‘۔ ڈاکٹر ذاکر حسین کا قول ہے کہ ’’بچہ مادری زبان ماں کے دودھ کے ساتھ پیتا ہے‘‘۔ مادری زبان بھی بچہ کے جسم و جان کا حصہ بن جاتی ہے بلکہ خون کے ساتھ اس کے رگ وپے میں دوڑنے لگتی ہے۔ مادری زبان کا مطلب ذرا وسیع ہے۔ گھر میں بھائی، بہن، دوست و رشتہ دار، محلہ کے بچوں کی زبان کا سارا ماحول مادری زبان ہی کا حصہ ہے۔ اب جو لوگ اپنے بچوں کو کسی دوسری زبان میں تعلیم دلوانا چاہتے ہیں تو وہ اپنے بچوں پر ظلم کرتے ہیں کیونکہ بچہ پہلے پانچ برس میں جتنا سیکھتا ہے، بعض ماہرین کا خیال ہے کہ وہ باقی ساری عمر کے حصہ میں اسی پانچ برس کے مساوی سیکھ پاتاہے۔ یہی بچہ کی زندگی کا زر خیز زمانہ ہے، لیکن وہ ایسی مصنوعی کاوشوں میں ضائع ہوجاتا ہے جو بچہ کو نامانوس زبان سیکھنے کیلئے کرنی پڑتی ہے۔ اکثر دانشور حضرات کا خیال ہے کہ اگر ہم اپنے بچوں کو انگریزی میڈیم اسکولوں میں نہ پڑھائیں تو پھر وہ اعلیٰ تعلیم اور آل انڈیا سروسز میں نہیں آسکتے، چونکہ یہ حقیقت ہمارے سامنے ہے کہ انگلش میڈیم کے طلبہ ہی ہر سال میڈیسن، انجینئرنگ، زراعت، وِٹنری، بزنس ایڈمنسٹریشن وغیرہ جیسے اعلیٰ تعلیم کے شعبوں میں داخل ہوتے ہیں۔ ایک طرف تو آپ کا دعویٰ ہے کہ مادری زبان ہی میں تعلیم دینا چاہئے اور دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ اردو میڈیم اسکولوں کے میٹرک کی سطح کے نتائج افسوسناک حد تک پست ہیں۔ اب آپ ہی بتلائیے کہ اپنے بچوں کو اردو میڈیم اسکولوں میں پڑھاکر ان کی ساری زندگی کو کون برباد کرے گا اور سارے حوصلوں پر پانی پھیرنے کیلئے کون تیار ہوگا۔

                اردو سچ ہے میری مادری زبان ہے، شیریں اور پیاری زبان ہے، دل اور روح کی زبان ہے مگر دنیا میں عزت و آبرو کی زندگی گزارنے کیلئے کچھ روپیہ پیسہ کی بھی ضرورت ہے۔ سرسید کی زبان میں گو یہ دنیا دو روزہ ہے لیکن یہ دو روز کی زندگی بھی بڑے معرکہ اور مصیبت کی ہے۔ یہاں پر عزت و وقار کی زندگی کی قیمت ہے۔ جاہل و کاہل بن کر، دوسروں کے رحم و کرم پر زندہ رہنا زندگی کی توہین ہے۔ اگر بچہ اردو میں تعلیم پائے گا تو اس کے ڈاکٹر، انجینئر وغیرہ بننے کے مواقع 90 فیصد کم ہوجائیں گے۔ ہمیں یہاں ان ہی سوالوں کا جواب دینا ہے جو بڑی ذہنی الجھن کا باعث بنے ہوئے ہیں۔

                شہر ہی میں نہیں بلکہ اضلاع میں بھی ہزاروں انگلش میڈیم اسکول چل رہے ہیں۔ ان میں بس دو چار فیصد ایسے اسکول ہیں جو گزشتہ ساٹھ ستر برس سے اپنے اعلیٰ تعلیمی معیار کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ ان کی شہرت کا راز یہ نہیں کہ ان کا ذریعہ تعلیم انگریزی ہے بلکہ یہاں پر داخلہ ہر کس و ناکس کو ملتا ہی نہیں۔ داخلے کے وقت وہ بچے سے زیادہ ماں اور باپ کی قابلیت، عہدہ اور سماجی مرتبہ کو جانچتے ہیں۔ اس طرح وہ ابتدا ہی میں سوسائٹی کے Cream Layer (بالائی سطح) Cream (بالائی) نکال لیتے ہیں۔ ایک اندازہ کے مطابق 60 فیصد تعلیم اسکول میں ہوتی ہے اور 40 فیصد تعلیم گھر پر ہوتی ہے۔ اگر آپ گھر پر ٹیوٹر کا انتظام نہ کریں یا خود ماں باپ دو گھنٹے ان کا ہوم ورک نہ دیکھیں تو بچہ کا گریڈ گرجاتا ہے۔ اگر فیل ہوگیا تو وہ اسی دن اسے ٹی سی دے کر بڑھا دیتے ہیں۔ پھر اسکول انتظامیہ بھی غیر معمولی موثر اور اساتذہ قابل اور کارکرد ہوتے ہیں۔ وہ اپنے نام کو اونچا رکھنا چاہتے ہیں۔ کوئی پندرہ برس پہلے مجھے لیٹِل فلاور اسکول کے پرنسپل سے نجی گفتگو کا موقع ملا۔ میں نے کہاکہ آپ کے ہاں منسٹر، سکریٹریز، ڈاکٹرز کے بچے پڑھتے ہیں۔ کیوں آپ کالج اور پوسٹ گریجویشن کالج قائم نہیں کرتے۔ برادر نے جواب دیا کہ ہاں ہم کالج کھولنا چاہیں تو بس ایک دو دن میں منظوری حاصل کرلیں گے۔ دوسروں کیلئے شاید برس بھی کافی نہ ہوں گے۔ ہم کوئی کالج اسٹارٹ کرنا اس لئے نہیں چاہتے کہ دیکھئے گزشتہ سال ایک سو طلبہ انٹرمیڈیٹ میں سب کے سب فرسٹ کلاس پاس ہوگئے۔ ان میں 21 میڈیکل کالج میں، 29 انجینئرنگ کالج، آئی آئی ٹی، چند ایگریکلچر کالج، وٹنری اور باقی سب کے سب رامنتا پور پالی ٹیکنیک میں داخلے کے مستحق ہوئے۔ بس ہم انٹرمیڈیٹ کورس تک اپنے طلبہ کو لے جاتے ہیں جو تمام فنی اور پروفیشنل کورسز کا ’باب الداخلہ‘ ہے۔ گورنمنٹ کے اعلیٰ تعلیم کے کالجوں میں ہمارے ہی اسکول کے طلبہ کا قبضہ ہے۔ پھر ہمیں کوئی کالج اسٹارٹ کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔

                باقی 90 فیصد سینکڑوں انگلش میڈیم اسکول جو ہر موڑ پر نظر آئیں گے ان کا معیار تعلیم نہایت پست ہے۔ لہٰذا تمام اسکول کچھ ظاہری ٹپ ٹاپ کے ساتھ تجارتی نوعیت کے Education Shops کی سی ہے، جہاں پر بچہ کو اسباق رٹنے پڑتے ہیں۔ جن کا رَٹٹو حافظہ (Rote Memory) اچھا ہوتا ہے وہ کچھ آگے جاتے ہیں، ورنہ ان کی مہارتیں اردو تیلگو میڈیم طلبہ سے بہت کم ہوتی ہیں، لیکن یہ اسکول سر سبز و شاداب اس لئے ہیں کہ سرپرست ایک بڑے دھوکہ میں مبتلا ہیں کہ بچہ انگریزی میڈیم اسکول سے پڑھے گا تو کچھ بن جائے گا۔ ’’ولی کالونی‘‘ کے سلم ایریا کے کوئی دس بارہ بچے انگلش میڈیم اسکولوں میں زیر تعلیم ہیں جن کے باپ رکشا چلاتے ہیں یا پھر ٹھیلہ وغیرہ کا کام کرتے ہیں اور عورتیں گھروں میں کام کرتی ہیں۔ ان کے بچوں کا تعلیمی معیار معلوم کرنے کیلئے میں خود ان کے ساتھ بیٹھ گیا۔ تعجب ہے کہ پانچ سے سات سال تک انگلش میڈیم اسکول میں پڑھنے کے باوجود ایک طالب علم بھی نہ تو ایک جملہ بول سکتا ہے اور بعض کو سبق کے عنوان کے معنی تک نہیں معلوم ہیں، لیکن رپورٹ میں نمبرات 57 فیصد سے کامیاب ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہزاروں سرپرست اس جال میں پھنس چکے ہیں۔ اردو داں طبقہ کی مصیبت یہ ہے کہ اردو میڈیم اسکولوں کا معیار تعلیم بہت پست ہے۔ وہ ان اسکولوں میں پڑھانا نہیں چاہتے۔ مکان کے قریب ہی جو اسکول انگلش میڈیم کا ہے اس میں داخلہ دلواتے ہیں۔ اس سے بہتر تھا کہ وہ مقامی میڈیم اسکول میں داخلہ کرواتے۔ اگر کوئی ان اسکولوں کے معیار تعلیم پر ریسرچ کرے تو عوام کی بہت سی غلط فہمیاں دور ہوجائیں گی۔

                اب تیسرا رخ اردو میڈیم اسکولوں کا دیکھئے۔ اردو اکیڈمی روڈ (کی جانب سے) ایک گورنمنٹ گرلز اَپر پرائمری اسکول کی عمارت ہے، جو کھنڈر میں تبدیل ہوچکی ہے۔ اس کی حالت دیکھ کر ہی آپ سمجھ جائیں گے کہ یہاں کا تعلیمی معیار کیا ہوسکتا ہے۔ بعض اسکولوں میں دس دس بر س سے کوئی ٹیچر نہیں۔ نصابی کتب ندارد، بلیک بورڈ اور چاک بھی نصیب نہیں تو پھر تعلیم کیا ہوتی ہوگی۔ یہ کہہ دینا آسان ہے کہ اردو میڈیم اسکولوں کا معیار تعلیم بہت پست ہوتا ہے لیکن لیکن یہ تہمت کہاں تک درست ہے، ان اسکولوں کو بھی وہی سہولتیں فراہم کر دیجئے جو اچھے انگلش میڈیم مشنری اسکول میں ہیں تو پھر ان طلبہ کا پانچ سال کی تعلیم کے بعد مقابلہ کروادیجئے۔ آپ یہ دیکھ کر حیرت میں پڑجائیں گے کہ اردو میڈیم طلبہ ان سے کسی طرح کم نہیں۔ لارڈ بازار میں اردو میڈیم اقامتی اسکول کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ میٹرک امتحان میں ہر سال 80 فیصد طلبہ فرسٹ ڈویژن میں کامیاب ہوتے ہیں اور نتیجہ سو فیصد رہتا ہے۔ وجہ ظاہر ہے کہ یہاں پڑھنے کی تمام سہولتیں حاصل ہیں۔

                اردو میڈیم کے ساتھ ہی غریبی کا سایہ سامنے آجاتا ہے۔ اس شہر کے محلہ تاڑبن میں گورنمنٹ اردومیڈیم ہائی اسکول ہے جہاں تعداد گیارہ سو سے اوپر ہے۔ 35 ٹیچرس کی جائیدادیں منظور ہیں لیکن گزشتہ پانچ سال سے صرف تین ٹیچرس اس اسکول پر کام کرتے رہے۔ کوئی دو ماہ قبل ہائی کورٹ کے حکم سے ان خالی جائیدادوں کو پُر کیا گیا۔ ایک کلاسیکل مثال اردو میڈیم کے اسکول کی دی جاسکتی ہے۔

                تعلیمی پروگرام: حالات کی تبدیلی کے ساتھ ہی مساجد اور مکاتب کے ذمہ داروں نے اردو کی حفاظت کا ذمہ اپنے سر لے لیا۔ اردو اور دینیات کی تعلیم کا سلسلہ صباحی مدرسوں میں آج ہرمحلہ اور بستی میں جاری ہے۔ اس طرح اردو کا رشتہ ہر جگہ بنیادی سطح پر آج بھی باقی ہے۔ بعض سرپرست اپنے بچوں کو اچھے انگلش میڈیم اسکولوں میں پڑھا رہے ہیں لیکن وہ اپنی مادری زبان سے بچوں کو اجنبی رکھنے کے بجائے انھیں گھر پر اردو پڑھا رہے ہیں۔ انھیں اس بات کا احساس ہے کہ ان کی نسل کسی طرح اردو سے اپنا رشتہ جوڑے رکھے۔

(1            انجمن ترقی اردو ہر سال ایک ماہ کیلئے اردو ٹیچرس، اَن ٹرینڈ اور ٹرینڈ ٹیچرس کیلئے ریفریشن کورس چلائے تو ہر سال کم از کم 200 اساتذہ کی تربیت سے اسکولوں میں پڑھائی کے حالات بہت کچھ بدل سکتے ہیں۔ اس سلسلہ میں اسلامک سوشل سروس نے کوئی 86 اَن ٹرینڈ ٹیچرس کیلئے ان گرمائی تعطیلات میں اس قسم کے کورس کا انتظام کیا جس کے مفید نتائج برآمد ہوئے ہیں۔

(2            عابد علی خان اردو تعلیمی ٹرسٹ کا ٹارگیٹ 5 لاکھ کا سرمایہ ہے، لیکن اسے ایک کروڑ کارپس فنڈ میں تبدیل کیا جائے تو اردو کی تعلیم اور ترقی کے بہت سے کام کئے جاسکتے ہیں۔ یہ کوئی بڑی رقم نہیں ہے، لیکن اردو کے پریمیوں کو ایک مہم چلانے کی ضرورت ہے تاکہ یہ ٹارگیٹ ایک سال کے اندر پورا ہوجائے۔

(3            اتر پردیش میں ہمدرد ملت سید حامد صاحب کی قیادت میں ایک تعلیمی کارواں کوئی دو سال قبل نکالا گیا۔ یہی کارواں اب تک 27 اضلاع کا دورہ کرچکا ہے۔ اس کارواں میں پروفیسر، دانشور، ڈاکٹر، انجینئر، ماہرین تعلیم، تاجر، صحافی سب ہی شریک تھے۔ مقصد عام تعلیم پر اور اصلاح معاشرہ کے کاموں پر توجہ دینا تھا۔ معلوم ہوا کہ اس کے بہتر نتائج سامنے آرہے ہیں۔ جب تک تعلیم کے کام کو ایک تحریک میں تبدیل نہ کیا جائے اس وقت تک حالات کے بدلنے کی کوئی توقع نہیں۔

(4            ریاست کے چار اردو میڈیم ریزیڈیشنل اسکولوں میں شرکت کیلئے دو جماعتوں میں 36-36 ایسے طلبہ نہیں مل رہے ہیں جو چوتھی جماعت کامیاب ہوں اور داخلہ امتحان میں 100 میں 15 نمبر لیں۔ یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے جبکہ تیلگو میڈیم کے ایک سو سے زا ئد رہائشی اسکولوں میں داخلے کیلئے اس ضلع کے طلبہ ان نشستوں کیلئے ہر ایک رہائشی اسکول میں داخلہ کیلئے پانچ ہزار سے زائد طلبہ شریک ہوتے ہیں۔ اس ٹیسٹ میں کامیابی کیلئے خانگی سطح پر ہر ضلع میں کوچنگ انسٹیٹیوٹس کا جال بچھا ہوا ہے۔ کیا اچھا ہوتا کہ ہمارے ادارے ان طلبہ کی کوچنگ کا انتظام کریں۔ ہر سال طلبہ کے قحط کی کمی کی وجہ سے پانچ چھ سیٹ خالی رہ جاتی ہیں، دوسرے معنوں میں ان طلبہ کے قحط کی وجہ سے یہ گورنمنٹ اسکول سسک رہے ہیں۔

(5            اسی تعلیمی پروگرام کے تحت اس بات کا تذکرہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ماں باپ کی غریبی اور جہالت کی وجہ سے آج لاتعداد بچے جن کی عمریں 5-6 سال کی ہو چکی ہیں وہ معمولی کارخانوں میں چھوٹے موٹے کام کرنے اور خاندان کی آمدنی بڑھانے میں مصروف ہیں۔ یہ بچے ناخواندہ ہی نہیں بلکہ تعلیم سے ہمیشہ کیلئے محروم رہ جاتے ہیں۔ دستورِ ہند میں 14 سال کی عمر تک کے بچوں کیلئے لازمی جبری تعلیم کی دفعہ ہے۔ چنانچہ ایسے بچوں کو اسکولوں میں داخل کروایا جائے چاہے وہ انگلش یا اردو میڈیم اسکول ہوں یا دیگر میڈیم کے لیکن ان کی تعلیم کسی حال میں ضروری ہے۔ یہ کام چھوٹے پیمانے پر ہر کوئی کرسکتا ہے۔ آپ باہر نکل جائیے، کسی ایک لڑکے ہی کے ماں باپ سے بات کیجئے، اس کی انگلی پکڑ کر کسی اسکول میں لے جاکر شریک کروادیجئے۔ ہوسکا تو کمیٹی یا خود اس کی فیس، کتب کاپیوں کا انتظام کر دیجئے۔

                اگر ہر سال ایسے دس طلبہ ہی کو آپ داخل کروادیں تو 5سال کے عرصہ میں اس محلہ یا بستی میں کوئی بچہ ان پڑھ نہیں رہے گا۔ یہ کام بظاہر چھوٹا معلوم ہوتا ہے لیکن ہمارے لئے یہ نہایت عظیم الشان کام کا رتبہ رکھتا ہے۔ اصل میں یہی ایک کام کرنے کا ہے۔ ضرورت ہے کہ لوکل لیڈر شپ کو متحرک کر دیا جائے اور انھیں مالی وسائل حتی المقدور فراہم کئے جائیں۔

                مولانا ابوالکلام آزاد کا قول ہے کہ ’’آدمی ساری عمر اس سوچ میں گزاردیتا ہے کہ اسے کوئی اچھا کام کرنا چاہئے۔ آج کل میں وقت گزر جاتا ہے۔ وہ لوگ قابل احترام ہیں جو منزل پر گامزن ہونے کیلئے پہلا قدم آگے بڑھاتے ہیں، لیکن یہ پہلا قدم بھی اٹھانے والے کتنے ہیں ‘‘۔ علامہ اقبال کی نظم ’’چاند تارے‘‘ میں تارے چاند سے پوچھتے ہیں کہ اس جہاں کی ہر شے بے تاب ہے۔ چاند، تاروں کو اس زمین پر زندگی کے راز ہائے سربستہ بتلاتا ہے۔

جنبش سے ہے زندگی جہاں کی … یہ رسم قدم ہے یہاں کی

اس رہ میں مقام بے محل ہے … پوشیدہ قرار میں اجل ہے

چلنے والے نکل گئے ہیں … جو ٹھہرے ذرا کچل گئے ہیں

                علامہ اقبال کا یہ پیام ہم سب کے لئے ہے۔

تبصرے بند ہیں۔