اردو کی عصری صدائیں: غلام نبی کمار کا ایک منفرد کارنامہ

بشیر چراغ

بشیر چراغ

اردو دنیا میں نئی نسل کے جو جواں فکر قلم کار اپنی خدمات کے ذریعے روشناس ہورہے ہیں۔ ان میں غلام نبی کمار ایک اہم نام ہے۔ جو درحقیقت ایک ہوش مند، درد آشنا اور حساس قلم کار کی حیثیت سے اردو ادب میں نادر و نایاب مواد کے ساتھ متعارف ہورہے ہیں اور اپنی تحقیقی و تنقیدی کتاب’’اردو کی عصری صدائیں ‘‘کے منظر عام پر آنے سے وہ اہلِ تحقیق و تنقید کی نگاہوں میں اپنی خاص جگہ بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

غلام نبی کمار بلاشبہ ایک تازہ کار قلم کار ہیں جو اپنی ادبی کاوش سے تحقیق و تنقید کی راہیں ایک وسیع و ہمہ گیر موضوعِ سخن کااحساس کرا رہے ہیں۔ انھیں علم و ادب کی شائستگی اور اس کے لچک پن کا بھی احساس ہے۔ ان کے مختلف موقر رسائل و جرائد میں بے لاگ مضامین و تبصرے شائع ہوتے رہتے ہیں۔ اس طرح ادب کی لوث خدمت کرکے وہ اپنا نام پیدا کر رہے ہیں۔ غلام نبی کمارکے مقالات اور تحقیقی مضامین میں بلاشبہ جغرافیائی، تاریخی، لسانی و ادبی پس منظر یکسانیت کے ساتھ استعداد حاصل کر رہے ہیں۔ جس میں تحقیقی اظہار و احساس نئے پن کے ساتھ نظرآتا ہے۔ اس نوجوان نقاد سے اردو زبان کی بہت سی امیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں۔ یہ بات باعثِ فخر ہے کہ غلام نبی کمار اپنے تعلیمی سفر کے ساتھ ساتھ اپنا ادبی سفر بھی قابلِ رشک و حیرات انگیز انداز میں بڑی تیز گامی کے ساتھ طے کر رہا ہے۔ انھوں نے ابتدائی مرحلے سے ہی اپنے تخلیقی اور تحقیقی ادبی فضا کو منفرد انداز میں اپنے حلقۂ احباب میں متعارف کرایا۔ ان کی طبیعت میں نہایت نرمی اور بزلہ سنجی پائی جاتی ہے۔

تحقیق و تنقیدکے دبستانِ فن کی روایت کا رشتہ انھیں اپنے استاد مکرم پروفیسر ارتضیٰ کریم صاحب اور ڈاکٹر مشتاق عالم قادری صاحب کی علمی روایت سے بندھا نظر آتاہے۔ جب کہ اس دبستانِ فن کا طرۂ امتیاز لسانی اور واقعاتی تحقیق کے داخلی و خارجی شواہد کی بنیاد پر صداقت شغف کی تلاش میں گامزن ہے۔ غلام نبی کمار کے عملی روّیے میں ایک مخصوص ضابطۂ اخلاق پر عمل اور مروّجہ تاریخی مغالطوں کی صحت شامل ہے۔ جس کا سرمایہ تحقیق و تنقید ’’اردو کی عصری صدائیں ‘‘ ہیں جو نئے اور صادق حقائق کی دریافت اور اس کے علمی مقاصد میں فردری شق ہے۔

’’اردو کی عصری صدائیں ‘‘کا معرضِ وجود میں آنا درحقیقت تحقیق و تنقید کا مقصد مثبت جہات کی تلاش ہے۔ جس کی اس نوجوان نقاد و محقق نے خوبصورت توضیح اور تشریح کی ہے۔ اس میں ان کی معتدل مزاجی نے ان کا مثبت ساتھ دیا ہے۔ بغیر مبالغہ آرائی کے کہا جا سکتا ہے کہ انھوں نے ادبی تحقیق و تنقید میں اہم کام سر انجام دیا ہے۔ غلام نبی کمارکے بیشتر تحقیقی و تنقیدی مضامین اردو ادب کے موقر رسائل میں خاص حیثیت اختیار کیے ہوئے ہیں۔ وہ تنقیدی اور تحقیقی امور میں داخلی اور خارجی شہادتوں کی اساس پر صداقت کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس کی بدولت غلام نبی کمار کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اس کی مثال ’’اردو کی عصری صدائیں ‘‘ہیں جس کو مستند تصنیف کے طور شمار کیا جانے لگا ہے۔ اس طرح یہ کتاب تحقیق و تنقیدی زاویے میں ان کے معاصر ناقدین میں ممتاز حیثیت اختیار کرنے لائق ہے۔

’’اردو کی عصری صدائیں ‘‘ اس نوجواں ادیب کی اہم تحقیقی و تنقیدی کتاب تصور کی جائے گی جس کی کتاب میں شامل بڑے معتبر ادیبوں اور ناقدوں نے نشاندہی کی ہے۔ یہ کتاب کم و بیش پچھتر مضامین اور دوسرے متفرق ادبی موضوعات پر مشتمل ہے۔ جو خوبصورت انداز میں دلنشین طباعت اور دیدہ زیب سرورق کے ساتھ زیور طبع سے آراستہ ہوئی ہے۔ اس کے بیشتر مضامین پہلے ہی سے ہندوستان کے کئی موقر ادبی رسالوں اور جریدوں شائع ہوچکے ہیں جن میں اردو دنیا، ایوانِ اردو، دربھنگہ ٹائمز، اردو ادب، اردو بک ریویو، آجکل وغیرہ کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ غلام نبی کمار خود بھی کئی رسائل سے جڑے ہوئے ہیں۔ وہ سہ ماہی’’پنج آب‘‘کے مدیراور سہ ماہی’’ دربھنگہ ٹائمز ‘‘کے معاون مدیر بھی ہیں۔

کتاب کی اہمیت اور تحقیقی و تنقیدی مماثلت کے تعلق سے’’تقریظ‘‘میں مشہور و معروف شاعر و ادیب پروفیسر صادق نے اپنے خیالات کا اظہار بے باک انداز میں کیا ہے۔ اس کے علاوہ اس کتاب کے فلیپ پر منفردتنقیدی ذہن رکھنے والے نقاد حقانی القاسمی اور ڈاکٹر مشتاق عالم قادری نے بھی اپنے اہم رائے پیش کی ہے۔ جب کہ کتاب کی پشت پر سابق صدر شعبہ اردو، ممبئی یونی ورسٹی و ڈائرکٹر انجمن ِ اسلام، اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ممبئی پروفیسر عبدالستار دلوی کا بے حد اہم اقتباس موجود ہے۔ جو اس کتاب کو سمجھنے میں بہت مدد گار و معاون ثابت ہوتے ہیں۔

حق تو یہ ہے کہ ہر ایک شخص کو اپنے ذاتی ماحول کا اثر اس کو بنانے میں اور بگاڑنے میں اہم رول ادا کرتا ہے۔ غلام نبی کمار نے جس ماحول میں آنکھیں کھولی وہ ماحول ہر قسم کے تعصب سے صاف و پاک رہا ہے اور انسانیت ابھی بھی بغیر آلودہ زندہ ہے۔ ان کی تحریروں سے اس کے پورے سماجی منظرنامے کو بھی محسوس کیا جا سکتا ہے۔

مجموعی طورپر ’’ اردو کی عصری صدائیں ‘‘ عصرِ حاضر کے شعرا و ادبا کے ادبی کارناموں کو بھی اپنے تنقیدی و تحقیقی سرمایے سے اردو ادب میں بہتر ڈھنگ سے پیش کرنے کا عندیہ دے رہا ہے۔ ان کے اسلوبِ بیان کو دلچسپ اور دلکش بیاض کی شکل کو نمونے کے طور پیش کرنے کا باعثِ اطمینان اضافہ تصور کیا جا سکتا ہے۔ اردو ادب میں تنقید نگار کی اس دریانت دارانہ عمل کو ایک قابلِ فخر سرمایہ حسن کو ثبوت کے طور پیش کیا جاسکتا ہے جس کو ہاتھوں ہاتھ پذیرائی کی دہلیز پر برابر النوع جہات نمایاں ہونے کا شرف حاصل ہے۔

2 تبصرے
  1. ڈاکٹر ریاض توحیدی کہتے ہیں

    بہت عمدہ۔۔۔محبت بھرا تبصرہ۔۔۔مبارکباد

    1. ڈاکٹر محمد عبداللہ شیدا کہتے ہیں

      بشیرچراغ صاحب کاتبصرہ واقعی پر مغز تبصرہ ہے آپ خود ادبی دنیا میں ایک انجمن ہیں میرے طرف سے مبارک باد .

تبصرے بند ہیں۔