ازروئے قرآن مجید زکوٰۃ اور ہماری غیر شرعی تاویلیں

زکوٰۃ اسکینڈلس کے خاطی ملت کے بہی خواہ اور ہمدرد بن بیٹھے

اطہر معین

مسلمانو! ماشاء اللہ ہم میں سے اکثر صاحب نصاب فریضۂ زکوٰۃ کی ادائی میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں کرتے تاہم صحیح معلومات کے فقدان کے باعث اسلام میں زکوٰۃ کی فرضیت کے اصل مقصد اور اس کی باریکیوں کو فراموش کر بیٹھے ہیں۔ ہم یہ سمجھنے لگے ہیں کہ زکوٰۃ کی ادائی ہی معنی رکھتی ہے ‘ زکوٰۃ کی مستحقین تک تقسیم کی ذمہ داری صرف انہی لوگوں پر عائد ہوتی ہے جو وصول زکوٰۃ کی ذمہ داریاں اپنے کندھوں پر لاد لیتے ہیں۔ ہمیں یہ احساس ہی نہیں ہے کہ ’کفاف‘ کے نام پر ہماری زکوٰۃ کا ایک تہائی حصہ ان ہاتھوں میں چلا جارہا ہے جو زکوٰۃ کی وصولی کرتے ہیں اور یہ لوگ زکوٰۃ میں اپنا حصہ لیتے ہوئے پر تعیش زندگیاں بسر کرنے لگے ہیں۔ اسلام میں زکوٰۃکی فرضیت امہ میں معاشی توازن کو قائم کرنے ہے مگر آج ہم زکوٰۃ کے ذریعہ تعلیمی عدم توازن کو دور کرنے پر اپنی توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں جو منشائے الہیٰ کے سخت منافی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم قرآن کے مطابق مستحقین زکوٰۃ کو چھوڑ کر غیر مستحقین زکوٰۃ کو مستفید کررہے ہیں۔ ہماری کوتاہیوں کی وجہ سے ہر سال کروڑ ہا روپے کی زکوٰۃ غلط مصرف پر خرچ ہورہی ہے اور ہر سال کروڑوں روپے کے زکوٰۃ اسکینڈلس ہورہے ہیں۔ عصری تعلیم کو ملت کے مسائل کا حل ظاہر کرتے ہوئے ہمارے نام نہاد دانشور زکوٰۃ کے قرآنی مقصد کو فوت کرنے کا جرم عظیم کررہے ہیں۔ملت کی تعلیمی پسماندگی کی بجائے اگر ہم معاشی پسماندگی کو دور کرنے پر اپنی توجہ مرکوز کردیں تو خود بخود دیگر مسائل بھی حل ہوجاتے ہیں۔ بعض ادارے تعلیمی اسکالرشپس کے نام پر زکوٰۃ وصول کررہے ہیں جنہیں زکوٰۃ کے مسائل کا تھوڑا سا بھی ادراک نہیں ہے۔
ملت کے سلجھے ہوئے طبقہ کو غور کرنا چاہئے کہ ایم ڈی‘ ایم ایس‘ ایم ٹیک‘ ایم ای‘ ایل ایل ایم‘ ایم ایڈ وغیرہ ماسٹر کورس کرنے والے افراد کیسے زکوٰۃ کے مستحق بن جاتے ہیں؟ یہ افراد اگر اپنی تعلیم پر اکتفا کرتے ہوئے معاش سے جڑ جائیں تو ایک ہی برس میں وہ صاحب نصاب بن جاتے ہیں۔ پھر ان کا اعلیٰ تعلیم کیلئے زکوٰۃ پر انحصار کرنا شرعی طور پر کیسے جائز ہے؟
سورۃ التوبہ کی آیت نمبر 60 میں ہمیں واضح طور پر جتلادیا گیا کہ زکوٰۃ کے حقدار کون ہیں۔ رب کائنات کا ارشاد ہے
’’صدقات ( یعنی زکوٰۃ و خیرات) تو حق ہے فقراء و مساکین اور عاملین زکوٰۃ کا اور ان لوگوں کا جن کی تالیف قلوب منظور ہے اوررقاب( غلاموں کے آزاد کرانے میں) اورغارمین (قرضداروں کے قرض ادا کرنے میں ) اور اللہ کی راہ میں (جہاد) اور ابن السبیل (مسافروں کی مدد ) میں ، یہ حقوق اللہ کی طرف سے مقرر کردئیے گئے ہیں اور اللہ جاننے والا (اور) حکمت والا ہے۔ ‘‘
حدیث مبارکہ کی روشنی میں اللہ نے صدقات (زکوٰۃ) کی تقسیم کو نبی یا غیر نبی ،کسی کی مرضی پر نہیں چھوڑا بلکہ بذات خود اس کے مصارف متعین کردئیے ہیں جو آٹھ ہیں۔ ’’فقراء‘‘ (جن کے پاس کچھ نہ ہو)، ’’مساکین ‘‘ ( جن کو بقدر حاجت میسر نہ ہو)، ’’عاملین‘‘ (جو خلافت اسلامی کی طرف سے تحصیل صدقات وغیرہ کے کاموں پر مامور ہیں)، ’’مؤلفتہ القلوب‘‘ (جن کے اسلام لانے کی امید ہو یا اسلام میں کمزور ہوں وغیرہ)، ’’رقاب ‘‘ (یعنی غلاموں کا بدل کتابت ادا کرکے آزادی دلائی جائے یا خرید کر آزاد کئے جائیں یا فی زمانہ اجتہاد کرتے ہوئے فدیہ دے کر اسیر رہا کرائے جائیں)، ’’ غارمین‘‘ (جن پر کوئی حادثہ آن پڑا اور مقروض ہوگئے ہیں یا کسی کی ضمانت وغیرہ کے بارے میں دب گئے)، ’’سبیل اللہ‘‘ (جہاد میں حصہ لینے والوں کی معاونت) اور ’’ابن السبیل ‘‘ (ایسا مسافر جو حالت سفر میں مالک نصاب نہ ہو، گو مکان پر دولت رکھتا ہو) ۔
قرآن مجید میں ایک اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’نیکی یہ نہیں کہ تم مشرق یا مغرب کو ( قبلہ سمجھ کر ان) کی طرف منہ کرلو بلکہ نیکی یہ ہے کہ لوگ اللہ پر اور روز آخرت اور فرشتوں پر اور (اللہ کی) کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائیں‘ اور مال باوجود عزیز رکھنے کے رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں اور مانگنے والوں کو دیں اور گردنوں (کے چھڑانے) میں (خرچ کریں) اور صلوٰۃ ادا کریں اور زکوٰۃ دیں اور جب عہد کرلیں تو اس کو پورا کرلیں اور سختی اور تکلیف میں اور (معرکہ) کارزار کے وقت ثابت قدم رہیں‘ یہی لوگ ہیں جو (ایمان میں) سچے ہیں اور یہی ہیں جو (اللہ سے) ڈرنے والے ہیں۔‘‘ ( سورۃ بقرہ:177)۔ سورہ بقرہ کی ہی آیت نمبر 215 میں اس ضمن میں مزید وضاحت کردی گئی کہ ’’ (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم) لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ (اللہ کی راہ میں) کس طرح کا مال خرچ کریں‘ کہہ دو کہ (جو چاہو خرچ کرو لیکن) جو مال خرچ کرنا چاہو وہ (درجہ بہ درجہ اہل استحقاق یعنی) ماں باپ اور قریب کے رشتے داروں کو اور یتیموں کو اور محتاجوں کو اور مسافروں کو (سب کو دو) اور جو بھلائی تم کروگے اللہ اس کو جانتا ہے۔‘‘
ان آیات مبارکہ کی روشنی میں ہمیں یہ جائزہ لینا ہوگا کہ کہیں ہم اپنے قریبی رشتہ داروں‘ فقراء و مساکین‘ مسافرین‘ گردنیں چھڑانے اور جہاد کے قرآنی مدات کو چھوڑ کر غیر قرآنی مدات میں اپنی زکوٰۃ کی رقم خرچ کرکے قرآنی تعلیمات کی خلاف ورزی تو نہیں کررہے ہیں؟ کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ واقعی ہماری زکوٰۃ قرآن مجید کی روشنی میں درست طور پر ادا ہورہی ہے یا پھر ہم اپنے تغافل کے باعث خود بھی ادائیگی زکوٰۃ میں کوتاہی کے قصور وار بننے کے ساتھ ساتھ زکوٰۃ وصول کرنے والوں کو گناہوں میں مبتلا کرنے کا موجب تو نہیں بن رہے ہیں؟ کیا قرآن مجید میں زکوٰۃ و صدقات کیلئے جو مدات بیان کئے گئے ہیں اب ان پر خرچ کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہی ہے۔ اللہ رحم کرے ان فقہی حضرات پر جنہوں نے نہ جانے کیا سوچ کر زکوٰۃ کے بیان میں یہاں تک کہہ دیا کہ تالیف قلوب کیلئے ( اسلام کی طرف راغب غیر مسلموں پر زکوٰۃ و صدقات کی ادائی ) کا مد زمانہ نبوت کے ساتھ ہی فوت ہوگیا ہے۔ کیا اب دنیا میں ایسا کوئی مشرک و کافر نہیں ہے جو اسلام کی طرف رغبت رکھتا ہے اور وہ حق کا متلاشی ہے؟ کیا ایسے غیر مسلموں کو حق کی طرف راغب کرنے کی ضرورت باقی نہیں ؟ کیا اسلام صرف ہم پیدائشی مسلمان کا ہی دین ہے کہ دوسروں کو دین حنیف میں داخل ہونے کا حق نہیں؟ تو پھر کیوں ایسے غیر مسلموں پر زکوٰۃ کی رقم خرچ کرنے سے مسلمانوں کو منع کردیا گیا جن کے دل پیغام حق کو قبول کرنے کیلئے نرم پڑچکے ہیں؟

شریعت اسلامی کی رو سے زکوٰۃ کی وصولی کا حق تو صرف امیر المومنین کو حاصل ہے۔ شریعت نے کسی دوسرے فرد کو زکوٰۃ کی وصولی کا اختیار نہیں دیا ہے۔ ادارہ جاتی سطح پر زکوٰۃ کی وصولی کا آغاز تو چنگیز خان کے اسلامی مملکت کی تباہی کے بعد سے شروع ہوا۔ اس وقت کے علمائے کرام نے اجتہاد کرتے ہوئے ادارہ جاتی سطح پر زکوٰۃ کی وصولی کی اجازت دی چونکہ خلافت اسلامیہ کا خاتمہ ہوچکا تھا۔ محکومیت کے باعث مسلمانوں کی اکثریت محتاج ہوگئی تھی اور ان تک مسلمانوں کی زکوٰۃ صحیح طور پر پہنچ نہیں پارہی تھی۔ شریعت مطہرہ کی رو سے جس طرح امیر المومنین پر زکوٰۃ کی رقومات قرآن مجید میں وضاحت کردہ تمام مدات پر خرچ کرنا ضروری ہے اسی طرح وہ لوگ جو زکوٰۃ وصول کرنے اور اجتماعی زکوٰۃ کی رقم تقسیم کرنے کی عظیم ذمہ داری اپنے کندھوں پر لئے ہوئے ہیں ان پر بھی یہ لازم ہے کہ وہ کسی ایک مد پر مسلمانوں سے وصول کردہ زکوٰۃ کی رقم خرچ نہ کریں بلکہ قرآنی مدات پر ضرورت کے مطابق خرچ کریں اور یہ یاد رکھیں کہ کسی بھی طرح قرآن مجید میں ذکر کردہ ایک مد بھی فوت نہیں ہوا ہے۔ اس کے برخلاف ہندستان جیسے ملک میں اگر کوئی مسلم خاتون اپنے شوہر سے خلع حاصل کرنا چاہتی ہے اور شوہر اس کی درخواست قبول نہ کرے تو فسخ نکاح کرنے پر کوئی آمادہ نہیں ہے۔ اس ضمن میں جب ہم مفتیان کرام اور فقہی عظام سے مسئلہ کے بارے میں دریافت کرتے ہیں تو وہ یہی حیلہ کرتے ہیں کہ خلیفتہ المسلمین کے نامزد کردہ قاضئ شریعت کو ہی فسخ نکاح کا اختیار ہے ، اور چونکہ یہاں اسلامی حکومت نہیں ہے اس لئے فسخ نکاح کرنے کا کسی کو اختیار نہیں ہے، اس لئے مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ عدالت سے رجوع ہوتے ہوئے رشتۂ مناکحت کو ختم کرلینے کے بعد کسی قاضی (قاری النکاح) یا عالم دین سے رجوع ہوتے ہوئے فسخ نکاح کروالیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب اسلامی مملکت نہیں ہے تو فسخ نکاح کا اختیار کسی کو نہیں تو پھر زکوٰۃ کی وصولی کا بھی اختیار کسی کو حاصل نہیں ہونا چاہئے چونکہ یہ بھی خالص خلیفتہ المسلمین کا ہی حق ہے۔
قرآن مجید میں زکوٰۃ جسے شریعت میں صدقہ سے تعبیر کیا گیا ہے‘ کے مصرف کی کھلی توضیح کردی گئی ہے۔ صدقات کے مصرفات میں کہیں بھی یہ تاویل نہیں ملتی کہ مدرسے؍عصری تعلیمی اداروں یا ان میں تعلیم پانے والے زکوٰۃ کے مستحق ہیں۔ تحصیل علم میں مشغول بچوں کے نام پر زکوٰۃ وصول کرنے والے زکوٰۃ ادا کرنے والوں اور اللہ رب العزت دونوں کو دھوکہ دے رہے ہیں کہ تحصیل علم میں مصروف بچے ہی زکوٰۃ کے سب سے زیادہ مستحق ہیں۔ دینی مدرسے کے ذمہ دار یہ تاویل پیش کرتے ہیں کہ دینی تعلیم پانے والوں کو دی جانے والی زکوٰۃ‘ قرآن مجید کی رو سے جہاد فی السبیل اللہ کے مد میں ہی شامل ہے جبکہ حقیقت میں اسلام میں جہاد فی سبیل اللہ کا مطلب صرف اور صرف دشمنان اسلام سے میدان جنگ میں قتال کرنا ہے۔اعلیٰ تعلیم یا دیگر امور کی کی انجام دہی میں زکوٰۃ کی رقومات کا صرف کرنا تو ثابت ہی نہیں ہوتا ہے۔ زکوٰۃ کی ایک اور اہم شرط یہ ہے کہ جسے زکوٰۃ دی جارہی ہے اسے مالک بنانا ہوتا ہے ، مگر یہ دیکھا گیا ہے کہ زکوٰۃ وصول کرنے والے ادارے جنہیں زکوٰۃ تقسیم کرتے ہیں انہیں مالک نہیں بناتے بلکہ اپنی پسند کے لحاظ سے ان کی اشیاء کے ذریعہ یا پھرمخصوص مشاغل کے لئے ہی اعانت کرتے ہیں۔
ملت اسلامیہ ہند میں اب ایک اور نیا طبقہ ابھرا ہے جو زکوٰۃ کی وصولی اور ان کی تقسیم کے ذریعہ خود کو ملت کا ہمدرد اور بہی خواہ ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے۔ یہ طبقہ ملت کا نام نہاد دانشور اور متمول طبقہ ہے جن کا نقطہ نظر یہ ہے کہ ملت کے تمام مسائل کی اصل جڑ ناخواندگی ہے۔ اس لئے وہ ملت سے وصول ہونے والی زکوٰۃ کی ایک ایک پائی عصری تعلیم پانے والے بچوں پر خرچ کرڈالنے پر تلا ہوا ہے۔ چونکہ اس طبقہ نے مسلم معاشرہ میں اپنی شناخت ایسے دانشوران ملت کی حیثیت سے بنالی ہے جن کے پاس دولت کی کمی بھی نہیں ہے اس لئے ان پر زکوٰۃ کے مال کو غصب کرنے کا شبہ بھی نہیں کیا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا پڑھا لکھا طبقہ ایسے افراد اور گروپس کو اپنی زکوٰۃ کی رقومات ادا کرتے ہوئے مطمئن ہیکہ ان کی زکوٰۃ یقیناً مستحق لوگوں تک پہنچ رہی ہے جبکہ قرآن مجید کی رو سے عصری تعلیم حاصل کرنے والے وہ نوجوان زکوٰۃ کے قطعی مستحق نہیں ہیں جن کا شمار فقراء و مساکین میں نہیں ہوتا۔ دانشوران ملت کی قائم کردہ تنظیمیں تحقیق کئے بغیر اسکالرشپس کے ناموں پر زکوٰۃ کی رقومات ایسے طلبہ میں بھی تقسیم کررہی ہیں جو مستحق زکوٰۃ تو دور کی بات ہے خود ان کے والدین و سرپرستوں پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے۔ ایسے اداروں کی اسکالرشپس پانے والوں میں کئی طلبہ کے والدین سرکاری ملازم بھی ہیں ۔ اسکالرشپس کے لئے حاجت کو نہیں بلکہ میرٹ کو معیار بنایا گیا ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ان اداروں سے اسکالرشپس پانے کچھ طلبہ جھوٹ کا سہارا لینے لگے ہیں اور کچھ تو اپنے والدین کے بقید حیات ہوتے ہوئے بھی خود کو یتیم ظاہر کرتے ہیں۔ اب تو ایک اور قدم آگے بڑھتے ہوئے سیاسی میدان میں قدم رکھنے والی ایک تنظیم نے بھی زکوٰۃ کی وصولی کے لئے اپنا حق جتانا شروع کردیا ہے، زکوٰۃ دینے والوں کو راغب کرنے اس تنظیم نے اپنے جو مقاصد بیان کئے ہیں اس میں یہ تک بتایا گیا کہ وہ سنگھ کی سازشوں کو عیاں کرتی ہے، ملک دشمن عناصر سے نبردآزما ہے، ہندستان کو با اختیار بنانے کوشاں ہے، سیاسی جہدکاری اور انتخابی سیاست میں سرگرم ہے، حقوق انسانی کے تحفظ کے لئے جدوجہد کررہی ہے وغیرہ وغیرہ ۔
ہمارے مشاہدہ میں یہ بات بھی آئی ہے کہ زکوٰۃ وصول کرنے والے اداروں کے ذمہ دارافراد وصول شدہ رقومات سے خریدی گئی عالی شان گاڑیوں کو استعمال کرنے لگے ہیں اوکفاف کے نام پر اس قدر رقومات اپنے لئے مختص کرلینے لگے ہیں کہ وہ بھی صاحب نصاب بن بیٹھے ہیں۔کفاف کے لئے شرعی عذر تو تلاش کرلیا گیا ہے مگر ہم تاریخ اسلام پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلے گا کہ ہمارے خلفائے راشدین نے مملکتی ذمہ داریوں کو نبھانے اپنا تمام تر وقت لگادیتے تھے اس لئے وہ بیت المال سے اپنے گھر کے اخراجات حاصل کیا کرتے تھے مگر وہ اخراجات اس قدر قلیل ہوا کرتے تھے کہ ایک غریب کا گھر بھی بمشکل چل سکے۔ ہمیں خلیفتہ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا وہ واقعہ بھی ملتا ہے کہ جب آپ کے دسترخوان پر میٹھا پیش ہوتا ہے تو آپؓ اپنی زوجہ سے دریافت کرتے ہیں کہ آیا یہ میٹھا کسی پڑوس والوں نے بھیجا ہے؟ آپؓ کی زوجہ محترم فرماتی ہیں کہ کئی دنوں سے بچوں کا اصرار تھا کہ گھر میں کوئی میٹھا پکایا جائے اس لئے میں نے بیت المال سے جو پیسہ ملتا ہے اس میں سے کچھ پس اندازی کرتے ہوئے آج آٹھویں دن یہ میٹھا تیار کیا ہے، جس پر حضرت ابو بکر صدیقؓ بے چین ہو اٹھتے ہیں اور بیت المال کے خزانچی کو طلب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مجھے آج ہی پتہ چلا کہ گھر کے لئے جو اخراجات جاری ہوتے ہیں اس میں آٹھویں دن میٹھا پکانے کی بھی گنجائش نکل آتی ہے لہذا آئندہ سے گھر کے اخراجات میں مزید کمی کردی جائے ۔ اس سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اسلامی مملکت کے سربراہ کے لئے بیت المال سے دئیے جانے والی رقومات میں میٹھا پکانے کی بھی گنجائش نہیں رکھی گئی تو بھلا ہم کیسے لکژری گاڑیوں اور پرتعیش زندگی گذارنے کے لئے کفاف کا سہارا لے سکتے ہیں۔ مجھے حضرت مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی کے وہ جملے آج بھی یاد ہیں جب وہ شہر کے ایک بیت المال کے اجلاس سے خطاب کررہے تھے۔ انہوں نے بیت المال کے ذمہ داروں کو شفافیت ملحوظ رکھنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ بیت المال چلانے والوں کی بڑی پکڑ ہوگی ، انہیں اللہ تعالیٰ کے حضور ایک ایک پائی کا حساب دینا ہوگا۔ انہوں نے کہا تھا کہ اگر کوئی بیت المال کا ذمہ دار ، دفتر میں بیٹھا بیت المال کے امور انجام دے رہا ہو اور اسے کوئی فون آجائے اور وہ اس فون پر بات چیت کرلے توجتنی دیر وہ بات چیت کرتا رہا اتنی دیر تک بیت المال کے دفتر کی لائٹس اور پنکھوں کے لئے جو بجلی استعمال ہوئی ہے وہ ذاتی مصرف میں شمار ہوگی اور اس کا بھی اسے حساب دینا ہوگا ، اس لئے بیت المال کے ذمہ داروں کو چاہئے کہ وہ اس نوعیت کی پکڑ سے بچنے کے لئے ہر ماہ اپنی طرف سے بھی کچھ رقم بیت المال میں جمع کروادیں۔
’مال مفت دل بے رحم ‘ کے مصداق زکوٰۃ وصول کرنے والے اداروں کے ذمہ داربڑے ہی بے دریغ انداز میں رقومات صرف کرنے لگے ہیں ، کچھ ادارے تو کارپوریٹ طرز پر زکوٰۃ کی وصولی کے طریقے اختیار کرچکے ہیں اور کچھ ادارے یوروپی اور امریکی خیراتی اداروں کی تقلید کرتے ہوئے زکوٰۃ کی وصولی کی ترغیب دینے پرتکلف دعوتوں کا بھی اہتمام کرنے لگے ہیں اور پروجیکٹرس ، بروشرس اور پمفلٹس کے ذریعہ اپنے اداروں کے کارنامے پیش کرنے کے علاوہ اخبارات میں لاکھوں روپے کے اشتہارات جاری کرتے ہوئے کروڑوں روپے اینٹھ رہے ہیں۔ اغیار میں عوامی مالیہ کے زیاں پراس قدر بیداری پیدا ہوگئی ہے کہ وہ حکومت وقت سے نبرد آزما ہونے اور اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنے سے بھی گریز نہیں کررہے ہیں اور ہم ہیں کہ اللہ کی راہ میں دی جانے والی رقومات کے غاصبین کے خلاف ایمان کے آخری درجہ کا بھی مظاہرہ کرنا ( یعنی دل میں برا جاننا) بھی گوارہ نہیں کرتے ۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ زکوٰۃ وصول کرنے والے ادارں کی بھی عوامی آڈٹ کی جائے۔
زکوٰۃ کے تئیں شعور بیداری کی یہ مہم قطعی طور پر مدارس دینیہ کے خلاف نہیں ہے۔ مدارس دینیہ بے شک امہ کا اثاثہ ہیں اور ان کی ترقی و ترویج امہ کی ذمہ داری ہے۔ مدارس دینیہ کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے مگر ان اداروں کو زکوٰۃ اور چرم قربانی کے طفیل پروان نہیں چڑھایا جاسکتا بلکہ انہیں خود مکتفی بنانے کی ضرورت ہے جس کیلئے امہ کے متمول طبقہ کو آگے آناچاہئے اور ان مدارس کیلئے ایسے اثاثے بنانے چاہئے جن کی مستقل آمدنی سے یہ ادارے عصری تقاضوں پر اشاعت دین کاکام کرسکیں۔ان مدارس دینیہ کو ان کے بانی یا ناظم کی صوابدید پر نہیں چھوڑنا چاہئے بلکہ امہ کے عطیات پر چلائے جانے والے اداروں کا نظم و نسق امہ کے بہترین افراد کے ہاتھوں میں ہونا چاہئے نہ کہ کسی ایک فرد کے ہاتھوں میں۔ ایسی کئی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں کہ ملت کے ان اداروں کو شخصی ملکیت میں تبدیل کرلیا گیا ہے۔

تبصرے بند ہیں۔