امتِ دعوت، نہ کہ امتِ لعنت

ذکی الرحمن غازی فلاحی
دعوتِ اسلام کا مطلب ہوتا ہے کسی کو مشرف باسلام ہوکر رحمتِ الٰہی میں داخلہ کی طرف بلانا،جبکہ لعنت کا مطلب ہوتا ہے کسی کے بارے میں رحمتِ الٰہی سے دورہونے کی خواہش ودرخواست کرنا۔ظاہرِ بات ہے کہ دینِ رحمت اپنے پیروکاروں میں جو عمومی مزاج تشکیل دینا چاہتا ہے وہ دعوت ورحمت سے عبارت ہوتا ہے نہ کہ لعنت وقساوت سے۔اس سیناریو میں اگر ہم اپنی مساجد میں جمعہ کے روز پڑھے جانے والے رٹے رٹائے یا لکھے لکھائے عربی خطبوں کا جائزہ لیں تو تعجب ہوتا ہے کہ امتِ دعوت اپنے ہفتہ بھر بعد کے اجتماع میں جن دعاؤں پر سب سے زیادہ زور دیتی ہے وہ بلا وجہ مقفی ومسجع عبارتوں میں تمام غیر مسلم کفار ومشرکین کو موردِ لعنت ومستحقِ عذابِ الٰہی قرار دینا ہے۔قطعِ نظر اس سے کہ غیر مسلم تعلیم یافتہ برادرانِ وطن پر اس کا کیا ردِ عمل ہوتا ہے،یا انسانی واخلاقی نقطۂ نظر سے اس کی کیا حیثیت ہے،سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہ طرزِ عمل خود اسلامی مزاج اور امتِ دعوت کی منصبی ذمہ داری سے فروتر ومتناقض ہے۔آئند سطور کا پیشگی خلاصہ یہی ہے کہ بلا وجہ اس طرح کی عمومی بددعائیں کرنا قرآن وحدیث سے ثابت رویہ نہیں ہے۔یقیناًدینی نصوص میں اوصاف وحالات کی بنیاد پر یا ظلم وزیادتی کے جواب میں کسی کے خلاف بددعائیں مانگنے کا جواز ملتا ہے،لیکن اس استثنائی صورتِ حال کو عمومی وکلّی نوعیت کا رنگ دینا بھی صراطِ مستقیم سے انحراف ہے۔سب سے پہلے قرآن وسنت کی نصوص کا ترجمہ دیکھ لیجئے،بعد ازاں ان سے مستفاد شرعی احکامات سے تعرض کیا جائے گا۔وباللہ التوفیق:
ارشادِ باری ہے: (آلِ عمران، 159) ’’یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم ان لوگوں کے لیے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہو۔ورنہ اگر کہیں تم تندخو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمہارے گرد وپیش ے چھٹ جاتے۔‘‘
(انبیاء، 107) ’’اے محمدؐ ہم نے جو تم کو بھیجا ہے تو یہ دراصل دنیا والوں کے حق میں ہماری رحمت ہے۔‘‘ علامہ ابن جریر طبریؒ اس آیتِ کریمہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ اس آیتِ کریمہ میں اپنے رسولﷺ سے فرماتا ہے کہ اے محمد!ہم نے تمہیں صرف اپنی رحمت بناکر بھیجا ہے، آپﷺکا رحمت ہوناساری مخلوق کے لیے ہے جن کی طرف آپﷺ رسول بناکر بھیجے گئے ہیں۔ اس آیت کے معنی کی تعیین میں مفسرین کے مابین اختلاف پایا جاتا ہے کہ آیا آپﷺ کو جو ساری دنیا کے لیے رحمت بناکر بھیجا گیا ہے اس میں مومن وکافر دونوں داخل ہیں یا مراد خاص طور سے بس اہلِ ایمان ہیں۔ بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ اس میں پوری دنیا کے لیے رحمت ہونا مراد ہے جو کفار ومشرکین اور اہلِ ایمان سب کے حق میں عام ہے۔ یہ لوگ اپنی تائید میں حضرت ابنِ عباسؓ کا قول نقل کرتے ہیں جس کے بموجب آپﷺ ساری دنیا کے لیے رحمت ہیں، تاہم اہلِ ایمان کے لیے دنیا وآخرت دونوں میں رحمت ثابت ہوتے ہیں، جبکہ اہلِ کفر کے لیے آپﷺ کی عمومی رحمت یہ ہے کہ آپ کے رہتے اب اُن پر کوئی عمومی عذاب نازل نہیں ہوگا جیسا کہ سابقہ اقوام وملل کے اوپر ان کی سرکشی وعناد کی وجہ سے عمومی عذابِ الٰہی نازل ہوتے رہے ہیں۔ دیگر مفسرینِ کرامؒ کی رائے میں اللہ کے رسولﷺ کا رحمت ہونا اہلِ ایمان کے ساتھ مخصوص ہے، نہ یہ کہ سارے انسانوں بشمول کفار ومشرکین کے لیے عام ہے۔ ہمارے نزدیک دونوں اقوال میں قرینِ صحت وصواب قول وہی ہے جس کی تائید حضرت ابنِ عباسؓ کی رائے سے ہوتی ہے، یعنی آپﷺ سارے انسانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ مومنوں کے حق میں اس طرح کہ آپﷺ کے ذریعہ سے انہیں ہدایت وایمان کی توفیق ملتی ہے اور اس پر عامل ہوکروہ جنت میں داخلہ پالیتے ہیں، جبکہ کافروں کے حق میں اس طرح کہ آپﷺ کی وجہ سے ان پر سے دنیاوی عذاب مرفوع کردیا گیا ہے جو کہ سابقہ رسولوں کی تکذیب کرنے والی قوموں پر بارہا نازل ہوچکا ہے۔‘‘ (دیکھیں: تفسیر طبریؒ : سورہ انبیاء، آیت107)
حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ سے کہاگیا کہ آپﷺمشرکین پر بددعا فرمادیں تو آپﷺنے فرمایا: مجھے لعّان (خوب لعنت کرنے والا) بناکر نہیں بھیجا گیا ہے، مجھے تو صرف رحمت بناکربھیجا گیا ہے۔‘‘(صحیح مسلمؒ : 2599۔ مسند ابویعلیؒ : 6174۔ سنن کبری، بیہقیؒ : 1403۔ الادب المفرد، بخاریؒ : 321)
حضرت ابوہریرہؓ سے ہی مروی ہے کہ حضرت طفیلؓ بن عمرو دوسی اور ان کے رفقائے دین آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا: اے اللہ کے رسولﷺ!قبیلۂ دوس نے کفر کی روش اختیار کرلی ہے اور اسلام لانے سے انکار کیا ہے، لہٰذا آپﷺ ان کے حق میں بددعا فرمادیں۔ حاضرین نے سنا تو چہ مگوئیاں شروع ہوگئیں کہ اب تو قبیلۂ دوس ہلاکت کے گھاٹ اتر گئے۔ لیکن آپﷺ نے دعا فرمائی: اے اللہ!قبیلۂ دوس کو ہدایت کی توفیق دے اور انہیں یہاں بلادے۔‘‘ (صحیح بخاریؒ : 2937، 4392، 6397۔ صحیح مسلمؒ : 2524۔ صحیح ابن حبانؒ : 979، 980۔ مسنداحمدؒ : 7315، 10526)
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ بیت اللہ کے پاس نماز پڑھ رہے تھے اور قریب ہی ابوجہل اور اس کے ساتھی بیٹھے ہوئے تھے۔ ان میں سے کسی نے کہا: تم میں سے کون فلاں کے اونٹ کی اوجھڑی لاکر بحالتِ سجدہ محمدؐ کی کمر پر رکھ سکتا ہے۔ ان میں کا بدبخت ترین آدمی کھڑا ہوا اور اوجھڑی لے آیا۔ وہ انتظار کرتا رہا یہاں تک کہ جب آپﷺ سجدہ میں گئے تو اس نے اوجھڑی کو اٹھا کر کمر اور شانوں کے بیچ میں رکھ دیا۔ میں (عبداللہ بن مسعودؓ) دیکھ رہا تھا لیکن کچھ کر نہیں سکتا تھا اور کاش میرے پاس کچھ کرسکنے کی قوت ہوتی!بہرحال وہ لوگ ہنسنے لگے اور ایک دوسرے کا حوالہ دینے لگے۔ اللہ کے رسولﷺ اس دوران سجدہ ہی میں رہے اور سرنہ اٹھایا تاآنکہ آپﷺ کی بیٹی حضرت فاطمہؓ آئیں اور اوجھڑی کو کمرِ مبارک سے اتار کرپھینکا، اس کے بعد اللہ کے رسولﷺ نے سرِ مبارک اٹھایا اورتین بار فرمایا: اے اللہ!تو ہی سزاوار ہے قریش کی پکڑ کرنے کا۔ ان کافروں کو آپﷺکا بددعافرمانا بڑا شاق گزرا کیونکہ ان کے نقطۂ نظر سے بلد الحرام میں کی جانے والی ہر دعا قبول ہوتی ہے۔ پھر آپﷺنے نام لے کر بددعا کی اور فرمایا: اللہ تو پکڑ فرما ابوجہل، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ، امیہ بن خلف اور عقبہ بن ابی معیط کی۔‘‘ یہاں آپﷺنے سات نام لیے تھے لیکن ساتواں نام میرے (ابن مسعودؓ) حافظہ میں محفوظ نہ رہ سکا۔ لیکن اُس ذاتِ پاک کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے!میں نے آپﷺ کے گنائے تمام لوگوں کو بدر کے گڈھے میں لاشوں پڑے دیکھا تھا۔‘‘ (صحیح بخاریؒ : 240، 420، 4392۔ صحیح مسلمؒ : 1794۔ صحیح ابن خزیمہؒ : 785۔ مصنف ابن ابی شیبہؒ : 37718، 37832)
حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں: یقیناًجب اللہ کے رسولﷺ کسی پر بددعا کرنے یا کسی کے حق میں دعا کرنے کا ارادہ فرماتے تھے تو (نماز میں) رکوع کے بعدقنوت پڑھتے۔ بسا اوقات آپﷺ فرماتے تھے: سمع اللّٰہ لمن حمدہ، اے اللہ ہمارے پروردگار!ساری تعریفات تیرے لیے ہیں، تو ولیدؓ بن الولید، سلمہؓ بن ہشام اور عیاشؓ بن ربیعہ کو نجات دے، اے اللہ مضر پر اپنی سخت پکڑ فرما اور اس پکڑ کو قحط میں بدل دے جیسا کہ حضرت یوسف کا قحط تھا۔‘‘ یہ جملے آپﷺ بآوازِ بلند ادافرماتے تھے۔ بسا اوقات نمازِ فجر میں فرماتے تھے: اے اللہ فلاں بن فلاں پر لعنت بھیج، مراد کچھ عربی قبائل ہوتے تھے تاآنکہ اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمادیا: (آل عمران، 128) ’’اے پیغمبر، فیصلہ کے اختیارات میں تمہارا کوئی حصہ نہیں، اللہ کو اختیار ہے چاہے انہیں معاف کرے، چاہے سزا دے کیونکہ وہ ظالم ہیں۔‘‘(صحیح بخاریؒ : 7669، 6393، 6940۔ صحیح مسلمؒ : 675۔ سنن ابوداؤدؒ : 1444۔ صحیح ابن حبانؒ : 1969، 1986، مصنف ابن ابی شیبہؒ : 7119)
حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ انہوں نے اللہ کے رسولﷺ کو فجر کی نماز میں دوسری رکعت میں رکوع کے بعد کہتے سنا تھا: اے اللہ تو ہمارا پروردگار ہے اور تیرے لیے ہی سب تعریفیں ہیں، اے اللہ!تو فلاں اور فلاں پر لعنت بھیج۔ اسی واقعہ کے بعد یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی تھی کہ: (آل عمران، 128) ’’اے پیغمبر، فیصلہ کے اختیارات میں تمہارا کوئی حصہ نہیں، اللہ کو اختیار ہے چاہے انہیں معاف کرے، چاہے سزا دے کیونکہ وہ ظالم ہیں۔‘‘ (صحیح بخاریؒ : 4070، 4559، 7346۔ مسند احمدؒ : 5674۔ صحیح ابن حبانؒ : 1987، 5747۔ صحیح ابن خزیمہؒ : 622)
حضرت ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسولﷺنے غزوۂ احد کے دن فرمایاتھا کہ اے اللہ ابوسفیان پر، حارث بن ہشام پر اور صفوان بن امیہ پر لعنت بھیج، چنانچہ اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی کہ:(آل عمران، 128) ’’اے پیغمبر، فیصلہ کے اختیارات میں تمہارا کوئی حصہ نہیں، اللہ کو اختیار ہے چاہے انہیں معاف کرے، چاہے سزا دے کیونکہ وہ ظالم ہیں۔‘‘ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اُن لوگوں کی توبہ قبول کرلی اور یہ سب اسلام لے آئے اور ان کی اسلامی سیرت اچھی ہوگئی۔‘‘ (مسنداحمدؒ : 6574۔ سنن ترمذیؒ : 3004مع تصحیح البانیؒ ۔ تفسیر طبریؒ : 7/200۔ تاریخ دمشق، ابن عساکرؒ : 11/494، 24/109، 24/110)
حضرت انسؓ بن مالک فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺنے ان لوگوں کے حق میں بددعائیں کی تھیں جنہوں نے ’’بئرِ معونہ‘‘ میں آپﷺکے اصحابؓ کو قتل کیا تھا اور بددعا کرنے کا یہ سلسلہ تیس دن تک چلا تھا، اس میں آپﷺ قبیلہ ’’رعل‘‘ اورقبیلہ ’’لحیان‘‘ اورقبیلہ ’’عصیہ‘‘ پر بددعا کرتے تھے کیونکہ ان قبائل نے اللہ اور اس کے رسولﷺ کی نافرمانی کی راہ اختیار کی تھی۔‘‘(مؤطامالکؒ : 1964۔ صحیح بخاریؒ : 2801، 2814، 4091، 4095۔ صحیح مسلمؒ : 677)
حضرت خفافؓ بن ایماء کہتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺنے رکوع کیا اور پھر سر اٹھا کر فرمایا: قبیلہ غفار کی اللہ مغفرت فرمائے، قبیلۂ اسلم کو اللہ سلامت رکھے، قبیلۂ عصیہ نے اللہ اور اس کے رسولﷺ کی نافرمانی کی ہے، اے اللہ تو لعنت بھیج قبیلہ بنو لحیان پر اور لعنت بھیج قبیل�ۂ رعل وقبیلۂ ذکوان پر۔‘‘ اس کے بعد آپﷺ نے سجدہ فرمایا۔ حضرت خفافؓ کہتے ہیں کہ اس (عملِ رسولﷺ) کی وجہ سے کفار پر لعنت رکھ دی گئی۔‘‘(صحیح مسلمؒ : 679۔ مسند احمدؒ : 16687۔ صحیح ابن حبانؒ : 1984۔ مصنف ابن ابی شیبہؒ : 7125)
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں: یقیناًجب اللہ کے رسولﷺنے لوگوں کی جانب سے اعراض وادبار دیکھا۔ اور (دوسری روایت میں ہے کہ) جب قریش اللہ کے رسولﷺ پر مسلط ہوگئے اور عصیان برتنے لگے تو آپﷺ نے فرمایا: اے اللہ!سات سال ایسے جیسے کہ حضرت یوسف ؑ کے تھے۔‘‘ اس دعا کے نتیجہ میں قریش کو قحط سالی نے آلیا جس میں ہرچیز ہلاک ہوگئی حتی کہ لوگ چمڑا، مردار اور سڑی چیزوں کو کھانے پر مجبور ہوگئے۔ ہر شخص آسمان کی طرف دیکھتا تو شدتِ بھوک سے اسے ایک دھواں سا دکھائی پڑتا تھا۔ اس کے بعدابوسفیان (اس وقت کے قریشی سردار) آپﷺ کے پاس آئے اور کہا: اے محمدﷺ!آپ طاعتِ خداوندی اور صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں، آپﷺ کی قوم ہلاک ہوئی جاتی ہے، اس کے لیے اللہ سے دعا فرمائیے۔ (دوسری روایت میں ہے کہ) ان لوگوں نے یہ دعائیں کرنا شروع کردی تھیں کہ اے ہمارے رب ہم سے عذاب ہٹا دیجئے کہ ہم ایمان لے آتے ہیں۔ آپﷺ سے کہا گیا تھا کہ اگر ہم اُن سے عذاب ہٹا دیں گے تویہ لوگ اپنے ایمان سے پھر جائیں گے، تاہم آپﷺنے اپنے رب سے دعا کی تو اللہ نے ان سے (عذاب) ہٹادیا، لیکن یہ لوگ اپنے اعتراف سے پھر گئے۔ اس روگردانی کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے ان سے غزوۂ بدر میں انتقام لیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے نازل فرمایا تھا:(دخان، 10۔16) ’’اچھا، انتظار کرواس دن کا جب آسمان صریح دھواں لیے ہوئے آئے گا اور وہ لوگوں پر چھاجائے گا، یہ ہے دردناک سزا۔ (اب کہتے ہیں) پروردگار ہم پر سے یہ عذاب ٹال دے، ہم ایمان لاتے ہیں۔ ان کی غفلت کہاں دور ہوتی ہے؟اِن کا حال تو یہ ہے کہ ان کے پاس رسولِ مبین آگیا، پھر بھی یہ اس کی طرف ملتفت نہ ہوئے اور کہا: یہ تو سکھایا پڑھایا باؤلا ہے۔ ہم ذرا عذاب ہٹائے دیتے ہیں، تم لوگ پھر وہی کچھ کروگے جو پہلے کررہے تھے۔ جس روز ہم بڑی ضرب لگائیں گے، وہ دن ہوگا جب ہم تم سے انتقام لیں گے۔‘‘ چنانچہ وہ کاری ضرب معرکۂ بدرکی صورت میں ہوئی اور دھوئیں، کاری ضرب، ’’لزام‘‘ اور روم کی نشانیاں گزرگئی ہیں۔‘‘ (صحیح بخاریؒ : 1007، 1020، 4774، 4693، 4809، 4821، 4822، 4823، 4824۔ صحیح مسلمؒ : 2798۔ سنن ترمذیؒ : 3254۔ مسند احمدؒ : 3613)
حضرت عبید بن عمرؓ فرماتے ہیں: یقیناًحضرت عمرؓ نے رکوع کے بعد قنوت (نازلہ) پڑھی اور کہا: اے اللہ مغفرت فرما ہماری، مومن مردوں اور عورتوں کی، مسلم مردوں اور عورتوں کی، ان کے دلوں کو جوڑ دے اور آپسی معاملات سدھار دے اوران کے اور تیرے دشمنوں کے مقابلے میں اُن کی مدد فرما۔ اے اللہ لعنت بھیج (ایک روایت میں یہاں ’’عذاب دے‘‘ کا لفظ ہے) اہلِ کتاب کے کافروں پر جو تیری راہ سے روکتے ہیں، تیرے رسولوں کی تکذیب کرتے ہیں اور تیرے اولیاء سے جنگ کرتے ہیں۔ اے اللہ!ان کے اتفاق میں اختلاف پیدا فرما، ان کے قدموں کو ہلادے اور ان پر اپنی وہ سزا نازل فرما جو تو کسی مجرم قوم سے نہیں پھیرتا ہے۔‘‘ (مصنف عبدالرزاقؒ : 4969۔ سنن کبری، بیہقیؒ : 2/210۔ تصحیح البانیؒ فی إرواء الغلیل: 428)
*مستفاد شرعی احکام
مذکورہ بالاقرآن وحدیث کی نصوص کی مجموعی دلالت سے جو بات سمجھ آتی ہے وہ یہ کہ غیر مسلموں پر لعنتیں بھیجنے اوران کے حق میں بددعائیں کرنے کا حکم اُن کے اوصاف وافعال کے ساتھ ساتھ بدلتا رہتا ہے۔ بظاہر محولہ بالا دینی نصوص متناقض ومتصادم نظر آتی ہیں، لیکن حقیقت وہی ہے جو اوپر گزری کہ غیرمسلموں کے احوال اور اہلِ اسلام کے ساتھ ان کے تعامل کی روشنی میں ان کا شرعی حکم مختلف ہوتا رہتا ہے۔ ذیل میں اس اجمال کی کسی قدر وضاحت کی جاتی ہے:
1) اللہ کے رسولﷺ کی دائمی سنت وطریقہ اور آپﷺ سنت کی نقش بنقش پیروی کرنے والوں کا ہمیشہ سے یہی طرزِ عمل رہا ہے کہ لعنت ملامت بھیجنے سے اجتناب کیا جائے کیونکہ یہ طرزِ عمل دینِ رحمت کے مزاج اور عام انسانی فطرت کے خلاف ہے۔ امتِ مسلمہ کو قرآنِ کریم میں امتِ دعوت قرار دیا گیا ہے، اور داعی کی غرض یہی ہوتی ہے کہ کسی طرح مخلوقِ خدا تک دینِ حق کا پیغام پہنچا دیا جائے، اس تڑپ کے پسِ پشت دراصل رحمت وہمدردی کا جذبہ کارفرما ہوتا ہے۔ اس طور دیکھیں توافرادِ امت یا ائمۂ مساجدکاکفار ومشرکین کو مستقل طور سے ملعونیت اور بددعاؤں کا ہدف بنالینا خود امتِ مسلمہ کے مقصدِ وجودکے منافی اور دینِ دعوت کے مزاج کے خلاف ہے۔ یہی وجہ تھی کہ اللہ کے رسولﷺلعّان (ہرآن لعنت ملامت کرنے والے) نہ تھے۔‘‘(صحیح بخاریؒ : 6031، 6046۔ مسند احمدؒ : 12274، 12463، 12609۔ طبقات ابن سعدؒ : 1/126) احادیث میں آتا ہے کہ آپﷺ نہ فحش گو تھے نہ فحش پسند، نہ بدگو تھے نہ لعنت گر اور نہ ہی آپﷺبازاروں میں شور شرابہ کرنے والے تھے۔‘‘ (مسند ابن الجعدؒ : 2755۔ تاریخ دمشق، ابن عساکرؒ : 3/372) روایات میں آتا ہے کہ کسی کو ڈانٹتے ہوئے آپﷺکی زبان سے صرف اتنا نکلتا تھا کہ اسے کیا ہوگیا ہے، اس کی پیشانی خاک آلود ہوجائے! (سنن کبری، بیہقیؒ : 10/1930۔ الادب المفرد، بخاریؒ : 430، تاریخ دمشق، ابن عساکرؒ : 3/367) مزید برآں آپﷺ نے اس قسم کے طرزِ عمل کو مومنانہ طرزِ عمل کے خلاف قرار دیا ہے۔ آپﷺ کا ارشادِ گرامی ہے: ’’مومن طعنے کسنے والا، لعنتیں کرنے والا، فحش گواوربدزبان نہیں ہوتا ہے۔‘‘ (مسند بزارؒ : 1523۔ مسند ابویعلیؒ : 5088، 5379۔ مستدرک حاکمؒ : 1/57۔ مصنف ابن ابی شیبہؒ : 10974۔ مسند احمدؒ : 3839) آپﷺنے لعنت کرنے کو اپنا تکیہ کلام بنالینے والوں کے بارے میں فرمایا ہے: ’’بہت زیادہ لعنت کرنے والے روزِ قیامت نہ سفارشی بنائے جائیں گے اور نہ ہی گواہ۔‘‘ (صحیح مسلمؒ : 2598۔ سنن ابوداؤدؒ : 4907۔ صحیح ابن حبانؒ : 5746۔ مسند احمدؒ : 27529) نیز فرمایا: ’’کسی صدیق (سچ بولنے والے) کے لیے مناسب نہیں ہے کہ وہ لعنتیں کرنے والاہو۔‘‘(صحیح مسلمؒ : 2597۔ مسند احمدؒ : 8447، 8782۔ شعب الایمان، بیہقیؒ : 5151۔ الادب المفرد، بخاریؒ : 317)
2) لعنت کا مطلب ہے خدا کی رحمت سے دوری ومہجوری ہونا۔ لہٰذا ہر وہ شخص جس کی موت حالتِ کفر پر ہونا متحقق ومتیقن نہ ہو، اس کے بارے میں گمان رکھنا چاہیے کہ اگر اس نے زندگی کے کسی لمحہ میں توبہ وانابت کرلی ہوگی تو اللہ کی رحمت کا مستحق ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کے رسولﷺکواس بات سے منع کردیا گیاکہ کفارِ قریش، جو کہ اسلام کے کھلے دشمن تھے، کے سرخیلوں کا نام لے لے کر بالتعیین ان پر لعنت نہ بھیجی جائے، پھر وہ ابوسفیانؓ، حارثؓ بن ہشام یا صفوانؓ بن امیہ جیسے صفِ اول کے قائدینِ کفر وضلالت ہی کیوں نہ ہوں۔ کیونکہ اس وقت تک حالتِ کفر میں ان کی موت واقع نہیں ہوئی تھی، اس لیے امکان باقی تھا کہ وہ ہدایت پاجائیں اور فی الواقع مستقبل میں ایسا ہوا بھی۔ جہاں تک تعلق ہے عمومی انداز میں ظالموں اور مفسدوں پر لعنت کرنے کا تو یہ مسلمان اور غیر مسلمان سب کے لیے عام ہے، کیونکہ اس قسم کی لعنت خود قرآنِ کریم میں صراحت کے ساتھ وارد ہوئی ہے۔ ارشادِ باری ہے: (بقرہ، 159) ’’جولوگ ہماری نازل کی ہوئی روشن تعلیمات اور ہدایات کو چھپاتے ہیں، درآں حالیکہ ہم انہیں سب انسانوں کی رہنمائی کے لیے اپنی کتاب میں بیان کرچکے ہیں، یقین جانو کہ اللہ بھی ان پر لعنت کرتا ہے اور تمام لعنت کرنے والے بھی اُن پر لعنت بھیجتے ہیں۔‘‘ (بقرہ، 161۔162) ’’جن لوگوں نے کفر کا رویہ اختیار کیا اور کفر کی حالت ہی میں جان دی، ان پر اللہ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے۔ اسی لعنت کی زندگی میں وہ ہمیشہ رہیں گے، نہ ان کی سزامیں تخفیف ہوگی اور نہ انہیں پھر کوئی دوسری مہلت دی جائے گی۔‘‘ (ہود، 18۔19) ’’اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹ گھڑے؟ایسے لوگ اپنے رب کے حضور پیش ہوں گے اور گواہ شہادت دیں گے کہ یہ ہیں وہ لوگ جنہوں نے اپنے رب پر جھوٹ گھڑا تھا۔ سنو!خدا کی لعنت ہے ظالموں پر۔ ان ظالموں پر جو خدا کے راستے سے لوگوں کو روکتے ہیں، اس کے راستے کو ٹیڑھا کرنا چاہتے ہیں اورآخرت کا انکارکرتے ہیں۔‘‘
ان آیات میں مذکورہ لعنت کا اطلاق ہر اس شخص پر ہوگا جو اس قسم کی لعنت کے مستوجب کسی صفت سے متصف ہے۔ مستوجبِ لعنت صفات کا پایا جانا مسلم وغیر مسلم سب میں عام ہے۔ صحیح احادیث میں صراحت کے ساتھ سود کھانے والے، سود دینے والے، سودی معاملہ کے گواہ اور کاتب پر لعنت کی گئی ہے۔‘‘ (صحیح مسلمؒ : 1598۔ مسند احمدؒ : 14263۔ مسند ابویعلیؒ : 1849، 1960۔ مسند ابوعوانہؒ : 5453، 5455۔ سنن صغری، بیہقیؒ : 1852) نیزبادہ خواروں، شراب پلانے والوں، بیچنے والوں، خریدنے والوں، کشید کرنے اور کرانے والوں، منتقل کرنے والوں، منگانے والوں اور اس کی قیمت کھانے والوں سب پر صراحت ووضاحت کے ساتھ لعنت کی گئی ہے۔‘‘ (مصنف ابن ابی شیبہؒ : 22045۔ مسند احمدؒ : 4787، 5391۔ سنن ابن ماجہؒ : 3380۔ سنن ابوداؤدؒ : 3674) اسی طرح سے رشوت لینے اور دینے والے پر(سنن ترمذیؒ : 1336۔ مسند احمدؒ : 9011، 9019۔ مسند بزارؒ : 8672۔ شرح مشکل الآثار، طحاویؒ : 5662۔ صحیح ابن حبانؒ : 5076۔ الدعاء، طبرانیؒ : 2095) اپنے والدین کو ملعون کہنے والے، غیر اللہ کے لیے جانور ذبح کرنے والے اور راستوں کی علامات بگاڑنے والوں پر(صحیح مسلمؒ : 1978۔ مصنف ابن ابی شیبہؒ : 22449۔ مسند احمدؒ : 1307۔ سنن نسائیؒ : 4745۔ صحیح ابن حبانؒ : 6604) حلالہ کا نکاح کرنے اور کرانے والوں پر (مسند احمدؒ : 4308۔ مسند ابویعلیؒ : 5054۔ مسند الشاشیؒ : 862۔ شرح السنۃ، بغویؒ : 2293) اور ا س کے علاوہ متعدد گناہوں کے مرتکب اشخاص پر زبانِ رسالتﷺ سے لعنت بھیجی گئی ہے۔ (مثال کے طور پر دیکھیں: صحیح الجامع الصغیر وزیادتہ: 5089۔5114۔ کتاب الاذکار، نوویؒ : ص280فصل: فی جواز لعن اصحاب المعاصی غیر المعنیین والمعروفین۔ مصنف عبدالرزاقؒ : 10793۔ الدعاء، طبرانیؒ : 2169) یہ سب احادیث دلالت کرتی ہیں کہ کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کرنے والوں کی انواع پر لعنت بھیجی جاسکتی ہے البتہ اعیان یعنی افراد کی تخصیص کے ساتھ لعنت نہیں کی جائے گی۔ (زاد المعاد، ابن القیمؒ : 5/53)
کسی بھی غیر مسلم کو تعیین کے ساتھ موردِ لعنت قرار دینا، جمہور علمائے اسلام کے نزدیک جائز نہیں ہے۔ (البحر المحیط، ابن حیان القرطبیؒ : سورہ بقرہ، 160) تعیین کے ساتھ لعنت کرنے کے اِس عدمِ جواز میں مسلمان فساق وفجار بدرجۂ اولیٰ داخل مانے جائیں گے۔ امام غزالیؒ نے اس ممانعت کی علت بھی بیان کی ہے، وہ کہتے ہیں: کیونکہ بہت ممکن ہے کہ وہ (متعینہ شخص) اسلام لے آئے اور مرتے وقت اللہ کا مقرب بندہ ہوکر مرے، اس لیے ملعون کہہ کرکیسے حکم لگایا جاسکتا ہے کہ وہ ہمیشہ کے لیے رحمت الٰہی سے محروم ہوگیاہے۔ اب اگر کوئی صاحب اعتراض کریں کہ ہم فی الوقت کسی کافر کو ملعون اُسی طرح کہتے ہیں جیسے کسی مسلمان کو رحمۃ اللّٰہ علیک (تجھ پر اللہ کی رحمت ہو) کہتے ہیں، حالانکہ جس طرح کسی کافر کے بارے میں امکا ن ہے کہ وہ آئندہ کبھی اسلام لاسکتا ہے، اسی طرح کسی مسلمان کے بارے میں بھی ممکن ہے کہ وہ آئندہ کبھی مرتد ہوسکتاہے، چنانچہ جس طرح ہم مستقبل کے احتمال کی وجہ سے مسلمان کو رحمت کا مستحق کہنا نہیں چھوڑتے اسی طرح کسی کافر کو مستقبل کے احتمال کی وجہ سے لعنت کا مستحق کہنا کیوں چھوڑ دیں۔ یہاں بنیادی غلطی ’’رحمۃ اللّٰہ علیک‘‘ (تجھ پر اللہ کی رحمت ہو) کامفہوم سمجھنے میں ہوئی ہے۔ جان لیجئے کہ جب ہم کسی مسلمان کو رحمت کی دعا دیتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ ہمیں اس کے جنتی ہونے کا کامل یقین ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ دعاہے کہ اللہ تعالیٰ اُس مسلمان کو طاعتِ اسلام پر ثابت قدم رکھے جو کہ رحمتِ الٰہی کا سبب ہے۔ یعنی ہم کسی کے بارے میں فیصلہ نہیں کرتے کہ وہ یقیناًاللہ کی رحمت کا مستحق بن گیا ہے۔ بالکل اسی طرح اگر ہم کافر کو اس کے موجودہ کفر کی وجہ سے لعنت کا مستحق مانتے ہوئے ملعون کہیں تو اس کے معنی ہوں گے کہ ہم اس کے لیے دعا کررہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اسے کفر ومخالفتِ اسلام پر ثابت قدم رکھے جو کہ لعنت کا سبب ہے۔
کسی کے بھی بارے میں اس طرح سے کفر کی دعاکرنا بذاتِ خودکفر ہے۔ (یہاں ذہن میں رہنا چاہیے کہ جن علمائے کرام نے متعینہ طور سے کسی کافر پر لعنت بھیجنا جائز مانا ہے۔جیسا کہ احکام القرآن میں علامہ ابن العربیؒ کا موقف ہے: 1/74۔ انہوں نے کافر پر لعنت بھیجنے میں یہ معنی ملحوظ نہیں رکھے ہیں جو امام غزالیؒ یہاں بیان کررہے ہیں، بلکہ موجودہ حالت پر حکم لگاتے ہوئے اسے جائز کہا ہے۔ اس لیے ایسے علمائے دین پر امام غزالیؒ کی بیان کردہ توجیہ وارد کرتے ہوئے کفر کا فتویٰ لگانا کسی حال درست میں نہ ہوگا۔ خود امام غزالیؒ نے اپنی اس توجیہ کو دوسروں پر لازم نہیں مانا ہے بلکہ اپنے مخالف قول کی کمزوری دکھانے کے لیے اس قسم کے الفاظ استعمال کیے ہیں) اس قسم کی لعنت کاجواز اسی صورت ہوسکتا ہے جب کہ لعنت کے ساتھ، حالتِ کفر پر مرنے کی شرط جوڑ دی جائے یعنی کہا جائے کہ فلاں کافر پر اللہ کی لعنت ہو اگر وہ کفر پر مرے اور لعنت نہ ہو اگر وہ اسلام پر مرے۔ اس قسم کی لعنت بذاتِ خود ایک تکلف وتصنع محسوس ہوتی ہے، مزید برآں یہ ایک غیبی امر ہے جو مجہول ہے۔ مطلقاً کسی کو لعنت کرنے میں دونوں قسم کے احتمالات (یعنی لعنت کا سچا ہونا یا جھوٹا ہوجانا) ممکن ہیں جو کہ خطرناک بات ہے، جبکہ اس لعنت گری کے وطیرہ سے کلی اجتناب کرنے میں کوئی خطرہ نہیں ہے۔ یہ حکم تو کسی کافر کے بارے میں تھا، اب کسی مسلمان فاسق وبدعتی کے بارے میں یہی حکم بدرجۂ اولیٰ مسلّم مانا جائے گا۔ بہرحال متعین اشخاص پر لعنت کرنے میں بڑا خطرہ ہے کیونکہ انسانی حالات بدلتے رہتے ہیں، جبکہ اوصاف پر لعنت کا معاملہ ایسا نہیں ہوتا۔‘‘ (احیاء علوم الدین۔ غزالیؒ : 3/124) متذکرہ بالا آیات واحادیث سے بھی اس شرعی مسلک کی تائید ہوتی ہے۔
3) بسااوقات مسلمانوں کو واقعی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ محاربین اور دشمن کافروں کے افراد وجماعتوں کے ظلم وستم اور زیادتی وسرکشی کے خلاف اللہ تعالیٰ سے دعائیں کریں اور نالۂ نیم شبی میں ان پر بددعاؤں اور لعنتوں کے تیر آزمائیں۔ کافروں کے ظلم وستم کے مقابلے میں اور ان کے شر کو دفع کرنے کے لیے ہرممکنہ اسلحہ آزمایا جاسکتا ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ایک مومن کی دعائیں اور بارگاہِ رب میں کی گئی مناجاتیں اور نصرت واعانت کی درخواستیں اُس کا ایسا ہتھیار ہیں جو اپنی عظمت، قوت اور اثرآفرینی میں بے مثال وبے نظیرہوتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ اللہ کے رسولﷺنے بھی کفر وباطل کی جارحانہ قوتوں، کافر محاذکے اماموں اور سرخیلوں کے مقابلے میں اس ہتھیار سے کام لیا تھا اور اس کے نتیجے میں اُن کا انجام یہ ہوا کہ سب کے سب غزوۂ بدر میں کام آگئے، حالانکہ یہ اہلِ اسلام اور اہلِ کفر کے مابین پہلا ہی معرکہ تھا۔ تاہم جوبات نوٹ کر لینی چاہیے وہ یہ ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے اس طرزِ عمل کو مستقل اختیار نہیں کیا تھا۔کسی بھی حدیث میں یہ صراحت نہیں ملتی ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے استثنائی حالات میں کی جانے والی ان بددعاؤں کو عمومی رنگ دیا تھا اور یہ کہ قرنِ اول کے مدنی معاشرے میں ہر جمعہ کے خطبہ میں اس طرح کی بددعاؤں کو جزوِ لاینفک سمجھا جاتا تھا۔
امام ابن تیمیہؒ کا تجزیہ اس بابت نہایت اہم ہے، وہ لکھتے ہیں: ظالم وجابر کفار کی زیادتی کے مقابلہ اللہ کے حضور شکایتیں کرنا نہ صرف مشروع ہے بلکہ ہمیں ایسا کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور اسی کی وجہ سے قنوتِ نازلہ رکھی گئی ہے جس میں مومنین کے لیے دعا اور ظالم کافرین کے لیے اللہ کے حضور شکایات کا بکھان ہوتاہے۔ تاہم متعین ومخصوص اشخاص کا نام لے کر ان کے حق میں بددعائیں کرنے کا نبوی عمل منسوخ ہوچکا ہے۔ اس عمل کومنسوخ کرنے والی آیت یہ ہے:(آل عمران، 128) ’’اے پیغمبر، فیصلہ کے اختیارات میں تمہارا کوئی حصہ نہیں، اللہ کو اختیار ہے چاہے انہیں معاف کردے، چاہے سزا دے کیونکہ وہ ظالم ہیں۔‘‘ اس کی وجہ یہی ہے کہ کسی متعین انسان کے بارے میں ہم فیصلہ کرنے کے مجاز نہیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اُس کے لیے کفر پر ہلاکت مقدر فرمادی ہے یا نہیں۔ ایسا بالکل ممکن ہے کہ اللہ ایسے سرکش کافروں کو توبہ کی توفیق بخش دے۔ اس کے برخلاف طرزِ عمل یہ ہے کہ ظلم وبربریت اور شر وفساد سے متصف پوری جنس موصوف کے خلاف اللہ سے شکایتیں کی جائیں، اس کی بارگاہ میں ظالموں کے ظلم کے خلاف گہار لگائی جائے جس میں دینِ اسلام اور اس کے متبعین کی عزت وشوکت مقصود ہو اور دشمنانِ خدا کی ذلت ونابودی مراد ہو، تو ایسی دعائیں مانگنا شرعاًمستحب ومطلوب ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے دین اور اصحابِ ایمان سے محبت رکھتا ہے اور ان کاغلبہ وفتح مندی چاہتا ہے اور کفر وملتِ کفر کی مغلوبیت اسے پسند ہے، اس لیے اس قسم کی دعائیں کرنا گویا اُس چیز کی دعا کرنا ہوا جسے خود اللہ رب العزت پسند فرماتا ہے۔
البتہ متعین طور سے کسی کافر کے بارے میں بددعائیں کرنے کا عمل جس میں دعا کرنے والے کے علم میں نہ ہو کہ مدعو علیہ کا خاتمہ ایمان پر ہوگا یا غیرِ ایمان پر ہوگا، تو ایسا کرنے کا ہمیں حکم نہیں دیا گیا ہے۔ اللہ کے رسولﷺ پہلے پہل ایسا کرتے تھے، لیکن بعد میں آپﷺکواس سے روک دیا گیااور بتا دیا گیا کہ کسی کو بھی مستحقِ عذاب یا مستحقِ رحمت متعین کرنے کا حق خالصتاً اللہ تعالیٰ کے اختیاروارادہ پر منحصر ہے۔ حضرت نوحؑ نے تمام اہلِ زمین کی ہلاکت کی جوبددعا کی تھی وہ اسی وقت کی گئی تھی جب کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں بتادیا تھا کہ اب اُن کی قوم میں سے کوئی اور ایمان لانے والا نہیں ہوگا۔ اس کے باوجود حدیثِ شفاعت میں حضرت نوحؑ کا قول مروی ہوا ہے کہ وہ کہیں گے کہ میں نے ایک ایسی دعا کردی تھی جس کا مجھے حکم نہیں دیا گیا تھا، اس وجہ سے میں میدانِ حشر میں شفاعت کرنے کا اہل نہیں ہوں۔ (امام ابن تیمیہؒ نے حضرت نوحؑ کی روایت کے جو الفاظ نقل کیے ہیں یعنی‘‘ إنی دعوت علی أھل الارض دعوۃ لم أومر بھا‘‘ یہ الفاظ صحیحین میں موجود نہیں ہیں۔ البتہ حدیثِ شفاعت میں یہ واقعہ ضرور منقول ہوا ہے۔ دیکھیں: صحیح بخاریؒ : 4343۔ صحیح مسلمؒ : 287) حالانکہ اگرمان لیا جائے کہ انہیں اس قسم کی بددعا کرنے کا حکم نہیں دیاگیا تھا توایسا بھی نہ تھا کہ انہیں اس سے روک دیا گیا تھا۔ اگرچہ مقامِ نبوت کے شایانِ شان یہی تھا کہ وہی دعا مانگی جائے جو واجب یا مستحب کی حیثیت سے حکم فرمائی گئی ہے۔ یہاں جان رکھئے کہ دعا بھی عبادت ہے، اس لیے اس عبادت کو بھی مامور من اللہ قواعد وضوابط کے دائرہ یعنی وجوب واستحباب کے حدودِ اربعہ میں رہتے ہوئے ہی ادا کیا جانا چاہیے۔ بفرضِ محال مان بھی لیں کہ حضرت نوحؑ کو اس طرح کی بددعائیں کرنے کی اجازتِ خداوندی دی گئی تھی، تب بھی یہ ’’شرع من قبلنا‘‘ (سابقہ شرائع) کے تحت آتا ہے جو کہ اسی وقت قابلِ قبول ہوتی ہیں جبکہ ان کا ہماری شریعت کے احکامات کے ساتھ کوئی تعارض واقع نہ ہوتا ہو۔ ذرا دیکھئے کہ آیا اس طرح کی بددعاؤں کا حکم ہماری شریعتِ اسلامیہ میں باقی ہے یا منسوخ ہوگیا ہے؟کچھ یہی معاملہ حضرت موسیٰ کی بددعا کا بھی ہے جو قرآن میں اس طرح وارد ہوئی ہے: (یونس، 88) ’’موسیٰ نے دعا کی،اے ہمارے رب! تو نے فرعون اور اس کے سرداروں کو دنیا کی زندگی میں زینت اور اموال سے نواز رکھا ہے۔اے رب،کیا یہ اس لیے ہے کہ وہ لوگوں کوتیری راہ سے بھٹکائیں؟اے رب، ان کے مال غارت کردے اور ان کے دلوں پر ایسی مہر کردے کہ ایمان نہ لائیں جب تک کہ دردناک عذاب نہ دیکھ لیں۔‘‘
اب اگر ہم نے دعا کو ایک عبادت کی حیثیت سے مان لیا ہے جو مستحب، واجب اور مباح ہوسکتی ہے، تو مذکورہ بالا بددعاؤں میں دیکھا یہی جائے گا کہ آیا یہ ہماری شریعت میں بھی علی حالہ باقی رکھی گئی ہیں یا منسوخ کردی گئی ہیں۔ شریعتِ اسلامیہ میں قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ اگر دعا واجب ومستحب ہو تو دعا کرنے والے کو ثواب دیا جائے گا، اگر کسی حرام کے لیے ہو مثلاً ناحق خون بہانے کے لیے، یا حرام انداز میں غیر اللہ سے کی جارہی ہو تو ایسی دعا مانگنا گناہ اور معصیت کا عمل ہے، اور اگر دعا مکروہات سے متعلق ہو تو ایسی دعائیں کرنا داعی کے مقام ورتبہ سے فروترہے، اور اگر دعا مباحات سے متعلق ہے تو اس میں دونوں پہلو برابر ہیں یعنی اس کے کرنے یا نہ کرنے پر کوئی شرعی مواخذہ نہیں ہوتا۔ اوراللہ سبحانہ تعالیٰ ہی سب سے زیادہ جاننے والاہے۔‘‘ (مجموع فتاوی ابن تیمیہؒ : 8/335)
معاصر علمائے کرام میں سے سعودی عرب میں کبارِ علماء بورڈ کے رکن شیخ صالح الفوزان کا کہنا ہے: قنوتِ نازلہ وغیرہ دعاؤں میں صرف انہی کفار ومشرکین کے خلاف بدعائیں کرنا مشروع رکھا گیا ہے جو اہلِ اسلام پر ظلم وزیادتی کرتے ہیں۔ اللہ کے رسولﷺنے بھی جب کفار ومشرکین کے مقابلہ قنوتِ نازلہ کا اہتمام کیا تھا تو اپنی دعاؤں میں مخصوص ایسے ہی کفار کا تذکرہ فرماتے تھے جو مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑ رہے تھے، ایسانہ تھا کہ جملہ کفار ومشرکین پر عمومی تباہی وعذاب کی بددعائیں فرماتے تھے۔ آپﷺکی دعاؤں کے جونمونے ہمیں احادیث میں ملتے ہیں وہ صاف صاف بتاتے ہیں کہ آپﷺ نے مخصوص افراداورمتعینہ قبائل ہی پر بددعائیں فرمائی تھیں، سارے کفار کے حق میں ان بددعاؤں کو عام نہیں کیا تھا۔‘‘ (مجلۃ الدعوۃ، العدد: 1869، ص260)
4) اگر کوئی کافر غیر حربی ہے یعنی ذمی ہے، مستامن ہے یا مسالم ہے تو اس کے خلاف بددعائیں کرنا یا اس کو لعنتِ خداوندی کا مستحق کہنا جائز نہیں، اس کے برعکس اُس کے لیے ہدایت واصلاح کی دعائیں کرنا مناسب ہوتاہے۔ مخالفینِ اسلام کے تئیں یہی سنت وسیرتِ رسولﷺ ہمیں ملتی ہے۔ اسی لیے امام مہلبؒ فرماتے ہیں کہ: مشرکین پر بددعا کرنے کا حکم اختلافِ احوال میں مختلف ہوجاتا ہے۔ اگر کفار ومشرکین اسلام اور اہلِ اسلام کی حرمتوں کو پامال کریں اور بندگانِ خدا پر ظلم و ستم ڈھائیں توایسی صورت میں ان کے خلاف بددعائیں کرنا واجب ہوجاتا ہے۔ یہی حکم ظالم وجابر کفار ومشرکین کے ہم شاکلہ عاصیوں، فاجروں اور علی الاعلان گناہ کرنے والوں کا ہے۔ لیکن اگر دین اور اہلِ دین کی حرمتیں پامال نہیں ہورہی ہیں، تو واجب ہے کہ غیرِ اہلِ ایمان کے لیے توبہ وانابت اور توفیقِ اسلام کی دعا کی جائے۔ بالکل اسی طرح جیسے کہ آپﷺ سے درخواست کی گئی تھی کہ قبیلۂ ’’دوس‘‘ پرعذاب کی بددعا فرمادیں لیکن آپﷺ نے جواب میں اُن کے لیے ہدایت کی دعا فرمائی تھی۔ (اس حدیث کا تذکرہ اوپر گزر چکا ہے) علامہ ابن بطالؒ فرماتے ہیں: ہمیں سیرتِ پاک میں جو سبق ملتا ہے وہ یہی ہے کہ آپﷺ نے حالات کے تحت بسااوقات کچھ لوگوں کے خلاف بددعا فرمائی تھی لیکن دوسرے کفار ومشرکین کے لیے ہمیشہ ہدایت کی دعا فرمائی۔ دونوں صورتوں میں نظر آنے والا اختلاف دراصل متعلقہ لوگوں کے جرائم وآثام کے اختلاف پر مبنی ہے۔ چنانچہ آپﷺ ایسے لوگوں پر ہلاکت کی بددعائیں فرماتے تھے جو اہلِ اسلام کو اذیت دینے میں انسانی حدود سے نکل کر حیوانیت میں داخل ہوجاتے تھے، لیکن جن افراد وقبائل کے تئیں رجوع الی الاسلام اور توبہ کی امید رہتی تھی، اُن کے لیے آپﷺ نے ہمیشہ ہدایت کی دعا ہی فرمائی ہے۔‘‘ (شرح صحیح مسلمؒ : 5/112)
5) ایسی دعائیں مانگنا کہ صفحۂ ہستی سے سارے غیر مسلموں کا وجود ختم ہوجائے، نہ صرف ناجائز ہے، بلکہ گہری سرکشی ونافرمانی بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ جو اس کائنات کا خالق ومالک اور مختارِ کُل ہے، اس نے دینِ حق اور متبعینِ حق کے پہلو بہ پہلو ادیانِ باطلہ اور پرستارانِ باطل کا وجود مقدر فرمایا ہے اور اُن کو باقی رکھنے میں اس کی حکمت کا دخل ہے۔ اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے، جس حکم کا ارادہ کرتا ہے نافذ فرماتا ہے۔ اس لیے اس قسم کی دعا کرنا خدائی اسکیم سے بغاوت کے مرادف مانا جائے گا جو کہ ایک گناہِ عظیم ہے۔‘‘ (فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والإفتاء: 24/275) اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں دین کا صحیح فہم عطا فرمائے اور اس کے مطابق عملِ صالح کی توفیق دے!آمین۔وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین۔

تبصرے بند ہیں۔