استاد کی عظمت: کتاب و سنت کی روشنی میں

سالک ادیب بونتی عمری

اُستاد ایک چراغ ہے جو تاریک راہوں میں روشنی کے وجود کو برقرار رکھتا ہے۔ اُستاد وہ پھول ہے جو اپنی خوشبو سے معاشرے میں امن، مہرومحبت و دوستی کا پیغام پہنچاتا ہے۔ اُستاد ایک ایسا رہنما ہے جو آدمی کو زندگی کی گم راہیوں سے نکال کر منزل کی طرف گامزن کرتا ہے۔

اسلام نے دنیا کوعلم کی روشنی عطا کی ،استاد کو عظمت اور طالب علم کو اعلیٰ و ارفع مقام عطا کیا ہے ،نبیِ کریم ﷺنے اپنے مقام و مرتبہ کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ” مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے "(ابن ماجہ۔229)۔

 اسلام نے استادکو روحانی والدقرار دے کر ایک قابل قدرہستی ،محترم ومعظم شخصیت ، مربی و مزکّی کی حیثیت عطا کی۔معلّم کے کردار کی عظمت و اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس عالم رنگ و بو میں معلّم اوّل خود رب کائنات ہیں ،چنانچہ قرآن پاک میں ارشاد ہے ،اور اٰدم ؑ کو اللہ کریم نے سب چیزوں کے اسماء کا علم عطاء کیا۔(البقرہ۔31) ۔

قرآن کریم میں تقریباً ہرنبی کےلیے”ویعلمہ الکتاب والحکمتہ” کاجملہ استعمال کیاگیاہے یعنی”وہ نبی اپنی قوم کوعلم وحکمت سیکھاتےہیں”

استادکےبغیر کوئی بھی قوم گمرہی کاشکارہوجاتی ہے اسی لیے جوبھی قبیلہ اسلام قبول کرتا پیارے نبی وہاں ایک استاد مقرر کردیتےتھے کہ قوم اندھیرےسےروشنی کی طرف آجائے۔

خودنبی ﷺ نےاہلِ علم کوعزت دی "جنگ بدرکےقیدیوں کاجائزہ لیاجارہاہے،کچھ ایسےقیدی بھی ہیں جن کےپاس فدیہ کےلیےکچھ بھی نہیں ہے ایسےمیں لسانِ نبوت سےاعلان ہوتاہے کہ وہ قیدی جوپڑھنالکھناجانتےہیں وہ انصارکےبچوں کوپڑھنالکھناسیکھادیں یہی ان کافدیہ ہوگا”

یہ علم اوراصحابِ علم کی تعظیم ہی توہے۔

استادکی تعظیم کامنظر دیکھیے کہ فرشتوں کےسردار جبرئیل امیں تشریف لاتےہیں اور انبیاءکےسرادار اور معلمِ انسانیت کےپاس جب علم حاصل کرنے بیٹھتےہیں تو باادب اپنےزانو سمیٹ کر بیٹھتےہیں۔۔۔ سبحان اللہ

حضراتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم مجمعین نبی کی خدمت اس طرح بیٹھتے تھے جیسےسرپر کوئی پرندہ بیٹھاہو۔۔۔ اللہ اللہ استادکی یہ عظمت!

استاد ہونا ایک بہت بڑی نعمت اور عظیم سعادت ہے ۔معلّم کو اللہ اور اس کی مخلوقات کی محبوبیت نصیب ہوتی ہے،مخبر صادقﷺنے استاد کی محبوبیت کو ان الفاظ میں بیان فرمایا کہ لوگوں کو بھلائی سیکھانے والے پر اللہ ،اس کے فرشتے ، آسمان اور زمین کی تمام مخلوقات یہاں تک کہ چیونٹیاں اپنے بلوں میں اور مچھلیاں پانی میں رحمت بھیجتی اور دعائیں کرتی ہیں۔(ترمذی ۔2675)

اساتذہ کے لیے نبی کریم ﷺ نے دعافرمائی کہ اللہ تعالی اس شخص کو خوش وخرم رکھے جس نے میری کوئی بات سنی اور اسے یاد رکھااور اس کو جیسا سنا اسی طرح لوگوں تک پہنچا یا۔(ابو داؤد۔366)

 نبی کریم ﷺ کےبعدخلفائےراشدین اور تابعین وتبع تابعین نےبھی استادکی تعظیم وتکریم کی مثال قائم کی

خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروقؓ معلّمین کو درس وتدریس کے ساتھ ساتھ اعلیٰ

انتظامی امور اور عہدوں پر فائز کرتے تھے۔حضرت علی المرتضیؓ کا قول ہے کہ جس نے مجھے ایک حرف بھی پڑھا دیا میں اس کا غلام ہوں خواہ وہ مجھے آزاد کر دے یا بیچ دے۔(تعلیم المتعلم ۔21)

حضرت مغیرہؓ کہتے ہیں کہ ہم استاد سے اتناڈرتے اور ان کا اتنا ادب کرتے تھے جیسا کہ لوگ بادشاہ سے ڈرا کرتے ہیں ۔حضرت یحییٰ بن معین ؒ بہت بڑے محدث تھے امام بخاریؒ ان کے متعلق فرماتے ہیں کہ محدثین کا جتنا احترا م وہ کرتے تھے اتنا کرتے ہوئے میں نے کسی کو نہیں دیکھا۔ امام ابو یوسف ؒ کہتے ہیں کہ میں نے بزرگوں سے سنا ہے کہ جو استاد کی قدر نہیں کرتا وہ کامیاب نہیں ہوتا۔(تعلیم المتعلم 22)

مگر بدبختی سے ہمارے معاشرے میں استاد کی عزت سے کسی کرپٹ اور چور سیاسی پارٹی کے رہنما کا احترام زیادہ ہے۔

یہ آفاقی سچائی ہےکہ جس سماج نےاستادکی اہمیت کوجانااور شعوری طورپراستاد کواس کاحق دیا اس نےکامیابی کی منزلیں عبورکیں اور جس معاشرےنے استادکی تحقیروتذلیل کی ذلت ورسوائی اس کامقدربن گئی۔

اللہ ہم سب کو اپنی اصلاح کی توفیق نصیب کرے۔۔۔آمین

تبصرے بند ہیں۔