استدراک – نماز کے اختلافات اور ان کا آسان حل

غلام نبی کشافی، آنچار (صورہ) سرینگر کشمیر
’’احادیث کی بنیاد پر نماز کے تمام طریقوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت قرار دینا وہ خار زار ہے، جس میں داخل ہوجانے کے بعد خراشوں کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا‘‘۔ (ص: 90)
ماہنامہ زندگی نو، فروری 2016ء کے شمارے میں ’’نقد وتبصرہ‘‘ کا کالم کے تحت محی الدین غازی صاحب کی تازہ کتاب ’نماز کے اختلافات اور ان کا آسان حل‘ پر مولوی ولی اللہ مجید قاسمی صاحب کا تبصرہ دیکھا، کتاب تو افسوسناک ہے ہی، مگر اس سے زیادہ مایوس کن تبصرہ ہے، جس میں تبصرہ نگار نے آنکھیں بند کر کے کتاب کے بارے میں تعریفوں کے پل باندھنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی، جیسا کہ وہ ایک جگہ لکھتے ہیں۔
’’کتاب کیا ہے؟ علم وتحقیق کی آئینہ دار اور بحث و جستجو کا شاہ کار ہے۔ نماز کے اختلافات کے موضوع پر یہ بالکل نئے طرز کی کتاب ہے۔ بلکہ اس موضوع پر پورے اسلامی لٹریچر میں پہلی اور منفرد کتاب ہے۔ کتاب اس درجہ دلچسپ ہے کہ ہاتھ میں لینے کے بعد مکمل پڑھے بغیر رکھنے کے لیے دل آمادہ نہیں ہوتا، حقیقت یہ ہے کہ کتاب کی تالیف میں مصنفِ کتاب کا سوز دروں بھی شامل ہے‘‘۔
اور اس تبصرہ کی یہ آخری سطریں بھی ملاحظہ کیجیے۔
’’اُمید ہے کہ جس حقیقت کی نقاب کشائی کے لیے اور جس جذبے کے تحت یہ کتاب لکھی گئی ہے، اس کی قدر کی جائے گی اور حقیقت پسندی کا ثبوت دیتے ہوئے لوگ اس کتاب کو ہاتھوں ہاتھ لیں گے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کتاب کو جلد از جلد عربی، انگریزی اور دیگر زبانوں میں منتقل کیا جائے۔ تاکہ اس کی افادیت عام ہوسکے‘‘۔ (ماہنامہ زندگی نو، فروری 2016ء، ص: 84)
اس تبصرہ کو دیکھنے سے پہلے میں غازی صاحب کی اس افسوسناک کتاب کو پڑھ چکا تھا اور ارادہ تو پہلے ہی سے تھا کہ میں اس مغالطہ انگیز اور حدیث و سنت کے درمیان فرق کرنے کی آڑ میں نئی نسل کو ان سے محروم کرنے والی کتاب پر کچھ لکھوں مگر جب مذکورہ تبصرہ دیکھا تو میں نے سوچا یہی ٹھیک موقع ہے کہ اس کتاب کے حوالے سے چند خدشات وگزارشات پیش کروں۔
جہاں تک زیر نظر کتاب کا سوال ہے، اس کو دیکھنے کے بعداس بات کا اچھی طرح اندازہ ہوتا ہے کہ کتاب کو انتہائی شاطر دماغی سے لکھا گیا ہے اور کتاب میں جگہ جگہ پر انکار حدیث کے نمونے ملتے ہیں اور جس کی وجہ سے اس کتاب کے ذریعہ عام مسلمانوں کو فائدہ پہنچنے کے بجائے فتنۂ انکار حدیث ہی کو تقویت مل جائے گی اور وہ نماز جیسی اہم عبادت کو بھی منکرین ہی کی طرح احادیث سے بے نیاز ہو کر سیکھنے سکھانے کے عادی اور قائل بن جائیں گے۔
مصنف نے کتاب کے آغاز ہی میں اپنے فکر وخیال کے سانچے میں ڈالنے کے لیے سب سے پہلے اہل علم کو اُتارنے کی کوشش کی ہے۔ جیسا کہ وہ کتاب کے پہلے ایڈیشن کے حوالے سے لکھتے ہیں۔
’’اس کتاب کے پہلے ایڈیشن کو اہل علم و دانش کی رائے حاصل کرنے کے لیے شائع کیا جارہا ہے، تاکہ تحقیق کے سفر کو آگے بڑھایا جائے، اس کتاب پر آنے والی تمام رائیں، ان میں تائیدہو یا تردید، یا کسی نئے پہلو کی نشاندہی، تحقیق کے اس سفر میں بہت اہمیت رکھتی ہیں۔ اس ضمن میں حاصل ہونے والی تمام رایوں سے ان شاء اللہ اگلے ایڈیشن میں استفادہ کیا جائے گا‘‘۔ (ص: 8)
میں نے اس 132 صفحات والی کتاب کو اول سے آخر تک بالاستیعاب دیکھا اور دوران مطالعہ یہی محسوس ہوا کہ یہ کتاب بھی ’حقیقتِ رجم‘ جیسی کتابوں کی طرح فتنۂ انکار حدیث ہی کی ایک خطرناک کڑی اور بازگشت ہے، اصل میں اس کتاب کو ایک منصوبہ کے تحت کتب احادیث سے ہٹ کر عملی تواتر کے مفروضہ کی بنیاد پر فقہاء کی آراء کے حوالے سے بے ترتیب و متفرق انداز میں کئی فروعی و اختلافی مسائل کو لیکر لکھا گیا ہے۔ جبکہ پوری کتاب میں براہ راست طور پر صرف دو حدیثیں ایک صفحہ 16 پرالمستدرک للحاکم کے حوالے سے اور دوسری صفحہ 31 پر مسند سراج کے حوالے سے نقل کی گئی ہیں۔ اور وہ بھی صرف اس مقصد کے لیے لی گئی ہیں کہ ان سے بظاہر عملی تواتر کے مفروضہ پر روشنی پڑتی ہے، اور اسی وجہ سے ان دو احادیث کو قابل استدلال سمجھا گیا ہے۔ اس طرح ان لوگوں کے نزدیک حدیث بھی وہی صحیح اور قابل استدلال بن جاتی ہے جس سے ان کے موقف کی تائید ہوتی ہو، خواہ وہ حدیث مسند سراج جیسی غیر معروف و غیر مستند کتاب ہی سے اخذ کیوں نہ کی جائے۔ جبکہ اس کتاب میں بخاری ومسلم اور صحاح ستہ کی دوسری مستند و معتبر کتب و احادیث کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ اور اس سلسلہ میں ’’عملی تواتر‘‘ کے فقرے کو ایک داؤ کی طرح کھیلنے کی ناکام کوشش کی گئی ہے اور پوری کتاب میں زور صرف اس بات کو ثابت کرنے پر لگادیا گیا ہے کہ ہر دور میں نماز کو عملی تواتر سے سیکھا گیا ہے اورخود مصنف نے کتاب کے انتساب میں اپنے بارے میں لکھا ہے کہ انھوں نے بھی نماز اپنے والدین سے ہی سیکھی ہے اور آگے پھر ’’نماز کا طریقہ اور احادیث و روایات‘‘ کے ذیل میں لکھا ہے۔
’’نماز کے مختلف اعمال کا تذکرہ مختلف روایوں نے کیا، یہ تذکرے ہم تک حدیث کی کتابوں میں مدون ہو کر راویوں کے الفاظ کی صورت میں پہنچے۔ ان تذکروں کی حیثیت قولی روایت کی ہے۔ قولی روایتوں میں تواتر شاذ و نادر ہی ملتا ہے۔ زیادہ تر اخبار آحاد ہیں جن میں کچھ روایتں صحیح ذریعہ سے پہنچی ہیں اور کچھ کمزور ذریعہ سے، تاہم جو حقیقت ذہن نشین رہنی چاہیے وہ یہ کہ امت نے نماز پڑھنی ان قولی روایتوں سے نہیں سیکھی، بلکہ ان روایتوں سے پہلے اور ان روایتوں کے بغیر سیکھی اور ان متواتر عملی روایتوں کے ذریعہ سیکھی، جن کی حیثیت متواتر عملی سنت کی ہے، قولی روایتں تو بسا اوقات ایک راوی سے ایک دو راویوں تک پہنچی، مگر نماز ساری امت سے ساری امت تک پہنچی۔ گویا امت نے نماز راویوں سے نہیں سیکھی بلکہ نمازیوں سے سیکھی، جن میں یہ راوی بھی شامل تھے‘‘۔ (ص: 32)
احادیث و روایات کے بارے میں اس طرح کا اظہار خیال کرنے والے مصنّفین کو ہمیشہ اندر سے یہ خدشہ بھی لا حق رہتا ہے کہ کہیں قارئین ان کو منکرین حدیث نہ سمجھ بیٹھیں، اس لیے درمیان میں کبھی کبھی ایسے فقرے بھی لکھ دیتے ہیں جن سے وہ سادہ لوح قارئین اور سطح بین مبصرین کو یہ مغالطہ دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کا مقصد احادیث کی اہمیت کو گھٹانا نہیں ہے۔ جیسا کہ مصنف کتاب کو بھی یہ خدشہ لاحق ہے اور اس پر اگلے ہی صفحہ پر یہ بھی تحریر فرماتے ہیں۔
’’یاد رہے، ہمارا مقصد عملی تواتر کا حوالہ دے کر احادیث کی اہمیت کو گھٹانا نہیں ہے، بلکہ ایک ایسا راستہ یاد لانا ہے، جس میں تمام صحیح روایتوں پر عمل ممکن ہوجاتا ہے، نہ کسی کو مرجوح اور قابل رد قرار دینا پڑتا ہے، نہ کسی کو منسوخ کہہ کر ناقابل التفات بنانا ہوتا ہے‘‘۔ (ص: 33)
لیکن اسی صفحہ پر پہلا سبق بُھلا کر اگلی ہی سطور میں یہ بھی اُگل دیتے ہیں۔
’’ہمارا رویہ نماز سے متعلق روایتوں کے بارے میں تبدیل ہونا چاہیے، ہم یہ نہ سمجھیں کہ نماز بس وہ ہے جو روایتوں میں مذکور ہے، بلکہ نماز تو پہلے نمبر پر وہ ہے جو امت نے امت کے تعامل سے سیکھا ہے، یعنی جو کچھ صحیح روایتوں میں ہے وہ تو درست ہے، ساتھ ہی وہ بھی درست ہے‘‘۔ (ص: 33)
ان اقتباسات کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ مصنفِ کتاب نے اپنے ان متضاد و پریشان خیالات کو بنا کسی غور وفکر اور سوچے سمجھے لکھ ڈالے ہیں بلکہ ایک جگہ پر تو حد ہی کر ڈالی ہے کہ احادیث کو وہ خار زار قرار دیا ہے جس میں داخل ہونے کے بعد خراشوں کے سوا کچھ ہاتھ نہیںآتا۔ جیسا کہ وہ لکھتے ہیں۔
’’احادیث کی بنیاد پر نماز کے تمام طریقوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت قرار دینا وہ خار زار ہے جس میں داخل ہوجانے کے بعد خراشوں کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا، بلکہ بعض اعمال جیسے خواتین کی نماز کے مختلف طریقے سے متعلق تو کوئی صحیح روایت ہی نہیں، ایسی صورت میں یہ دعویٰ کرنا کہ نماز کے تمام طریقے معتبر احادیث سے ثابت ہیں نہ تو تحقیق سے ثابت ہوتا ہے اور نہ تمام لوگوں کے لیے قابل قبول ہوسکتا ہے۔
اس کے مقابلے میں عملی تواتر کی روشن اور قطعی دلیل کو سامنے رکھا جائے تو بلاشبہ یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ نماز کے تمام طریقے درست ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں اور عین سنت کے مطابق ہیں‘‘۔ (ص: 90)
اس اقتباس کو بار بار پڑھئے اور غور کیجیے کہ کس طرح مصنف کتاب احادیث نبوی سے بدظن کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ان کو خار زار قرار دیتے ہیں اور جس میں داخل ہونے کے بعد سوائے خراشوں کے کچھ ہاتھ لگنے والا نہیں۔ مگر دوسری طرف عملی تواتر کے مفروضہ کی رٹ لگاتے ہوئے اس سے ثابت نماز کے تمام طریقوں کو درست اور عین سنت قرار دینے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتے ہیں۔ جبکہ احادیث سے نماز کے جو صحیح اور حقیقی طریقے ثابت اور ہمیشہ زندہ رہیں گے انھیں خار زار قرار دینے میں کسی طرح کی دریغ نہیں کرتے ہیں۔ اس لیے انھوں نے کتب احادیث کے مقابلے میں فقہی کتابوں کے کثرت سے حوالے دئے ہیں۔ اور احادیث نبوی سے بے اعتنائی برتنے کی یہ روش انتہائی خطرناک اور گمراہ کن ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ مصنف نے پوری کتاب کو فقہی آراء و اختلافات کا جنگل بنادیا ہے۔ اور یہ چیزیں انہیں خار زار نظر نہیں آتیں، مگر کتب احادیث میں بعض جزوی اختلافات، جو اصل میں تنوع و توسع کے معنی میں ہیں، کو خار زار قرار دیا ہے۔
ایک او رجگہ پر عملی تواتر کے مفروضہ کے ضمن میں یہ بھی تحریر فرماتے ہیں۔
’’نماز کے معاملے میں عملی تواتر کی دلیل کی بنیاد پر صحیح موقف یہ ہے کہ نماز کے ایک عمل کو جتنی طرح سے نقل کیا گیا ہے، وہ سارے طریقے قابل قبول اور بالکل درست ہیں، ایسی صورت میں سیکھنے اور سکھانے کے سلسلے، خواہ وہ مدینہ کے ہوں یا مکہ کے ہوں، یا مصر او رعراق کے ہوں، ہمارے لیے نہایت ٹھوس دلیل کی حیثیت رکھتے ہیں، دور اول کے مدینے کے مسلمانوں میں رائج نماز بھی درست اور مکہ اور عراق کے مسلمانوں میں رائج نماز بھی درست مانی جائے۔ کیونکہ اس وقت بیشتر امت سنت کے قدر دان اور پاسبان تھی‘‘۔ (ص: 63۔64)
حقیقت یہ ہے کہ پوری کتاب اسی طرح کے منتشر ومتضاد خیالات کا مرقع پیش کرتی ہے اور احادیث و روایات پر تیکھے حملے کر کے نماز کے انہی طریقوں کو درست قرار دیا گیا ہے جو عملی تواتر سے ثابت ہیں، جو کہ محدثین کی محنت شاقہ اور کتب احادیث کے ساتھ کھلا مذاق اور نماز کو بازیچۂ اطفال بنانے کے مترادف ہے ؂
میری عبادتوں کا نظام فقہی زوایوں میں بٹ گیا
جو مستند مجموعے تھے، وہ بے اعتبار ہوگئے
حیرانی کی بات یہ ہے کہ ایک طرف ہمارے محدثین نے احادیث جمع کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی جرح و تعدیل کے لیے اپنی زندگیاں کھپا دی ہیں اور اسماء الرجال جیسا عظیم کارنامہ بھی انجام دیا ہے اور یہ سب اس لیے کیا گیا ہے تاکہ امت مسلمہ قرآن کے ساتھ ساتھ احادیث نبوی سے بھی فیض حاصل کرتی رہے، اور جس سے اسے قرآن کے اصولی واجمالی تعلیمات کوسمجھنے میں مدد ملے، اور شرعی احکام اپنے خدو خال اور جزئیات و تفصیلات کے ہمیشہ کے لیے محفوظ رہیں۔ مگر دوسری طرف موجودہ دور کے بعض روشن خیال مصنّفین عملی تواتر کے مفروضہ کے رٹ لگاتے ہوئے اس سلسلہ میں وہ کسی تحقیق و روایت یا فن اسماء الرجال جیسی چیزوں کی بھی ضرورت محسوس نہیں کرتے ہیں۔ یہ حماقت خیز روش دین کی خدمت نہیں بلکہ دین کے ساتھ کھلواڑ ہے، اور اسے امت مسلمہ کو احادیث نبوی سے محروم کرنے کی ایک خطرناک سازش ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ بلکہ احادیث کی اہمیت کو گھٹانے کے سلسلہ میں مصنفِ کتاب نے کئی طرح کے ہتھکنڈے آزمائے ہیں، لیکن ان پر غور کرنے سے آسانی سے معلوم ہوجاتا ہے کہ مصنفِ کتاب کے دماغ میں کیا چل رہا ہے۔اس سلسلہ میں ایک یہ اقتباس بھی ملاحظہ کیجیے۔
’’جس طرح قرآن مجید کی کسی آیت کو قرآن کی آیت ثابت کرنے کے لیے کسی روایت یاکسی خاص امام کی تائید کی ضرورت نہیں ہے، اسی طرح نماز کے کسی بھی عمل کو صحیح ثابت کرنے کے لیے کسی روایت کی یا کسی خاص امام کی تائید کی ضرورت نہیں ہے۔ امت کو قرآن مجید جس عظیم تواتر سے ملا ہے، نماز بھی اسی عظیم تواتر سے ملی ہے۔ اس لیے یہ ماننا چاہئے کہ امت کے تمام گروہ نماز کے جس جس طریقے پر عمل پیرا ہیں۔ وہ سب طریقے درست ہیں‘‘۔ (ص: 128)
یہ جو اس اقتباس میں بار بار روایت کی تائید کی ضرورت نہیں ہے۔ دوہرایا گیا ہے، اس کا صاف مطلب یہی ہے کہ نئی نسل کو کتب احادیث سے بے دخل کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے، اصل میں مصنفِ کتاب کے دل و دماغ میں یہی جذبہ کار فرما ہے کہ ایک مرتبہ ثابت ہوجائے کہ نماز کے تمام طریقے عملی تواتر سے ہی درست ہیں اور روایات کی تائید کی ضرورت نہیں ہے۔ تو پھر انہیں کتاب کے دوسرے ایڈیشن یا اس کی دوسری جلد تیار کرنے کے دوران احادیث پر تیکھے وار کرنے میں کوئی خوف و خدشہ لاحق نہیں ہوگا۔ جیسا کہ زیر نظر کتاب میں یہ خوف و خدشہ کئی جگہوں پر نظر آتا ہے۔ اور کبھی کبھی اندر کا یہ چور بھی انھیں یہ فقرہ بار بار لکھنے پر مجبور کرتا ہے ’’صحیح روایتیں سر آنکھوں پر‘‘ (مثال کے طور پر دیکھئے صفحہ 33/127) لیکن سوال یہ ہے کہ جب وہ ذخیرہ احادیث کو خار زار قرار دیکر اس میں داخل ہونے کے بعد سوائے خراشوں کے کچھ حاصل ہونے والا نہیں، جیسی جارحانہ و تمسخرانہ زبان استعمال کرتے ہیں (ص: 90) تو پھر ’’صحیح روایتیں سر آنکھوں پر‘‘ کی بار بار رٹ لگانا کیا معنی رکھتا ہے۔ کسی نے ٹھیک ہی کہا ہے ؂
فریب کاروں کے زد میں ہیں دین و ایمان
یہ کیسے راہبر ہیں، یہ کیسی رہنمائی
اس طرح عملی تواتر کے مفروضہ کی وکالت کرنا محض ایک فریب ہے۔ اوراس کے پیچھے اصل مقصد احادیث کی اہمیت کو گھٹانا ہے۔ حالانکہ سنت نبوی کا عملی تواتر صرف ایک نسل یعنی صحابہ و خلفاء راشدین تک محدود و معروف رہا ہے۔ اور اس کے بعد دھیرے دھیرے بدعات و خرافات نے جنم لینا شروع کردیا، جس کی وجہ سے اسوۂ نبوی سے دوریاں بڑھنے لگیں۔ بلکہ کئی بدعات کے پیدا ہونے کا ثبوت عہد صحابہ ہی میں ملتا ہے۔ مثال کے طر پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ جمعہ ہمیشہ کھڑے ہو کر دیا کرتے تھے اور یہی معمول خلفاء راشدین کا بھی تھا۔ لیکن ان کے بعد خطباء حضرات نے بیٹھ کر خطبہ دینا شروع کردیا تو صحابہ اس خلاف سنت طرز عمل کا سختی سے رد کرتے تھے اور غیرت ایمانی کی وجہ سے جارحانہ زبان استعمال کرتے سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے۔ جیسا کہ اس طرح کا ایک واقعہ صحیح مسلم کی اس روایت میں ملتا ہے۔
عن کعب بن عجرۃ قال دخل المسجد وعبد الرحمن بن ام الحکم یخطب قاعدًا، فقال انظروا الی ہذا الخبیث یخطب قاعدًا وقال اللّٰہ تعالیٰ ۔ واذ ا راوا تجرۃ أو لہوًا الفضوا الیہا وترکوک قائما. (شرح مسلم للنووی کتاب الجمعۃ باب قولہ تعالیٰ ۔ واذا رأوا تجارۃ او لہوًا ۔۔۔ ج 3، ص: 416، حدیث نمبر 864)
حضرت کعب بن عجرہ سے روایت ہے کہ وہ مسجد میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ عبد الرحمن بن ام حکم بیٹھ کر خطبہ دے رہا ہے، اس پر انھوں نے کہا، اس خبیث کو دیکھو، بیٹھ کرخطبہ دے رہا ہے، جبکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ ’’جب وہ تجارت یا کھیل تماشہ دیکھتے ہیں تو اُدھر ہی ٹوٹ پڑتے ہیں اور آپؐ کو کھڑا ہو کر چھوڑ جاتے ہیں‘‘۔ (الجمعۃ: 11)
اس حدیث پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ابھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو انتقال کئے ہوئے نصف صدی بھی نہیں گزری تھی کہ آپ کی ایک معروف سنت خطبہ جمعہ کھڑے ہو کر دینا، کیسے معدوم ہوتی ہوئی نظر آرہی تھی اور اس کی جگہ پر بیٹھ کر خطبہ دینے کی بدعت جاری ہوگئی تھی۔ جس پرصحابی رسول حضرت کعب بن عجرہ سخت برہم ہوجاتے ہیں اور خطیب کو مسجد کے اندر ہی خبیث کہہ کر پکارنے لگتے ہیں اور خطبہ جمعہ کو کھڑے دینے والی سنت کو ثابت کرنے کے لیے قرآن کی ایک آیت سے استدلال کرتے ہیں، جس میں ایک لفظ ’قائمًا‘ آیا ہے جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ممبر پر کھڑے ہو کر خطبہ دینے کی حالت کو ظاہر کرتا ہے۔ اور یہ سنت بظاہر معروف اور سب کے علم میں تھی مگر پھر بھی صحابہ ہی کے زمانے میں اس پر عملی لحاظ سے معدوم ہونے کے آثار ظاہر ہوچکے تھے۔
اگر دیکھا جائے تو آج بھی اکثر خطباء و واعظین اس سنت نبوی سے یا تو بے خبر ہیں اور یا پھر اس سے بالکل ہی بے اعتنائی برت رہے ہیں۔ اور وہ بیٹھ کر خطبہ دے کر اس خلاف سنت عمل کو اس طرح سے کرتے ہیں کہ گویا خطبہ دینے کا یہی طریقہ درست اور سنت نبوی کے عین مطابق ہے۔ حالانکہ اس سنت پر عمل کا تعلق خواص سے ہے نہ کہ عوام سے۔ مگر اس کے باوجود بھی اس سے پہلے ادوار کے مقابلے میں آج بہت کم عمل ہوتا ہے۔ بلکہ اب تو اکثر علماء و خطباء آرام طلب ہوگئے ہیں اور وہ ممبروں پر ٹانگیں پھیلائے ہوئے بیٹھ جاتے ہیں اور ان میں کسی کو بھی احساس ہی نہیں کہ ان کا یہ طرز عمل سنت نبوی سے صریحاً خلاف اور ایک نئی بدعت کے مترادف ہے۔
اس ایک واقعہ سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ کوئی بھی سنت نبوی، خواہ اس کا تعلق خواص سے ہی کیوں نہ ہو، بھی معدوم ہوسکتی ہے، تو اس طرح کی سنتوں کے احیاء کے لیے احادیث نبوی ہی واحد ذریعہ ہے۔ جن کی بدولت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بھی معدوم ومتروک سنت کو دوبارہ زند کیا جاسکتا ہے اور جس کے بارے میں عام لوگوں کو بتایا جاسکتا ہے اور اس پر پھر سے عمل کرنے لیے ابھارا جاسکتا ہے۔
بلاشبہ یہی حال نماز جیسی اہم ترین عبادت کا بھی ہے۔ جیسا کہ آجکل اکثر مسلمان نماز کی صحیح صورت و ہیئت اور اس کے احکام و آداب سے قطعی طور پر بے خبر نظر آتے ہیں۔ اگر ہمارے یہ روشن خیال اہلِ دانش اپنے خول اور مخصوص دائرہ فکر سے باہر آجائیں گے تو انہیں آس پاس ہی کی مساجد میں نظر آئے گا کہ اکثر لوگ کس قدر خلاف سنت طریقے سے نماز پڑھتے ہیں؟ اور نماز کے معاملہ میں وہ کتنے نا بلد ہیں؟ نماز کا قیام، رکوع اور سجدہ کرنے میں ان سے کتنی زیادہ غلطیاں سر زد ہوجاتی ہیں اور جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کے باوجود وہ نماز کے آداب و احکام سے کس قدر ناواقف ہیں۔ خاص کر بڑے بڑے دینی اجتماعات میں اس طرح کے مناظر کثرت سے دکھائی دیتے ہیں۔ اور عام طور پر لوگوں کی نمازوں کا جائزہ لیتے وقت قرآن کی ان آیات کا صحیح مصداق نظر آتا ہے۔ ارشاد خدا وندی ہے۔
فَوَیْْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ. الَّذِیْنَ ہُمْ عَن صَلَاتِہِمْ سَاہُونَ. الَّذِیْنَ ہُمْ یُرَاؤُونَ. (الماعون: 4 تا 6)
پس ایسے نمازیوں کے لیے تباہی ہے جو اپنی نماز سے غافل ہیں، جو ریا کاری کرتے ہیں۔
اگرچہ ان آیات سے بعض مفسرین کے نزدیک مشرکین مکہ کی نماز ہے، جبکہ بعض اس سے منافقین کی نماز مراد لیتے ہیں، مگر آیت کا مفہوم عام ہے کہ اگر آج بھی مسلمان نماز کی صحیح صورت و ہیئت اور اس سے لا تعلق و بے خبر رہے ہیں اور اس کے بارے میں شرعی آداب واحکام کے بارے میں ضروری حد تک بھی جانکاری حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے ہیں۔ جیسے کبھی پڑھ لی، کبھی نہیں پڑھی، یا جلدی جلدی چند ٹھونگیں مار لیں۔ اصل میں اس طرح کے لوگ نماز کے بارے میں چند ظاہری چیزوں کے علاوہ کچھ نہیں جانتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ دوسروں کی نماز کی نقل اتار کر محض عادت سے مجبور ہو کر پڑھ لینا ہی کافی ہے۔ لیکن وہ نہیں جانتے کہ یہ انتہائی سنگین معاملہ ہے۔ تو بلاشبہ اس طرح کے لوگ بھی مذکورہ آیات کی وعید کے زد میں آتے ہیں۔
واضح رہے مصنفِ کتاب نے بار بار دعویٰ کیا ہے کہ مسلمان عملی تواتر سے نماز سیکھتے آئے ہیں لیکن کاش کہ انھوں نے ایسے علاقوں کا دورہ کیا ہوتا، جہاں صدیوں سے چلے آئے اکثر مسلمان نماز اور اس کے احکام و آداب سے مطلق بے خبر نظر آتے ہیں۔ اور وہ جس طرح کی نماز پڑھتے ہیں، اس کی صورت یا نسبت حقیقی نماز سے قطعی طور نہیں ملتی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ایک تو ان علاقوں میں دینی مدارس نہیں، جہاں طلباء قرآن و حدیث کی روشنی میں نماز کو سیکھ سکیں اور مساجد میں جو افراد نماز پڑھاتے ہیں وہ بھی عموماً شرعی احکام سے نابلد ہی ہوتے ہیں اور وہ بھی لوگوں کو صحیح دینی رہنمائی کرنے سے قاصر ہی رہتے ہیں اور دوسرا یہ کہ لوگ بھی اتنے زیادہ پڑھے لکھے نہیں کہ وہ دینی کتابوں کا اپنے طور سے مطالعہ کر کے شرعی احکام کے بارے میں جانکاری حاصل کرسکیں۔ میرا تو ذاتی طور پر اس طرح کے علاقوں میں رہنے والے لوگوں کے بارے میں کافی زیادہ تجربات و مشاہدات ہیں۔ جیسا کہ چند ماہ پہلے کی بات ہے کہ میں ایک مسجد میں عصر کی نماز پڑھنے کی غرض سے گیا، مسجد کا امام عمر رسیدہ تھا، اس نے نماز پڑھائی، لیکن دوران نماز اسے سہو ہوگیا کہ اس نے تین رکعت پڑھانے کے بعد ہی سلام پھیردیا۔ کسی نے لقمہ نہیں دیا، میں پچھلی والی صف میں شامل تھا۔ اور میں بھی نماز میں کمی کی وجہ سے تذبذب میں پڑگیا تھا، البتہ سلام پھیرنے کے بعد پہلی والی صف میں شامل ایک مقتدی نے امام سے کہا، آپ نے نماز صرف تین رکعت پر ہی ختم کردی ہے، اور جب دوسرے لوگوں نے بھی اس کی تصدیق کی تو امام نے بقیہ ایک رکعت پڑھنے اور سجدہ سہو کرنے کے بجائے نئے سرے سے نماز پڑھائی۔ اسی طرح اگلے دن اسی مسجد میں ایک نوجوان نے امام کی غیر حاضری میں عشاء کی نماز پڑھانی شروع کردی تو اس نے جب پہلی رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد دوسری سورت پڑھنی شروع کردی تو وہ پہلی ہی آیت پر رک گیا اور اسے دوسری آیت یاد نہیں آرہی تھی اور لقمہ دینے کے بعد بھی وہ آگے نہیں پڑھ پایا تو اس نے فوراً دوسری سورت پڑھی اور آخر میں سجدہ سہو کردیا۔ حالانکہ اس مسئلہ میں سجدہ سہو کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ اور اسی مسجد کے ایک جمعہ خطیب نے ایک دفعہ عید کی نماز پڑھائی۔ لیکن اس نے پہلی رکعت پڑھانی شروع کردی تو وہ تکبیرات زوائد کہنا بھول گیا۔ اگرچہ کچھ نزدیکی نمازیوں نے لقمہ بھی دے دیا تھا۔ مگر اس نے سورہ فاتحہ پڑھنی شروع کردی تھی تو پھر اس نے سورہ فاتحہ پڑھنے کے بعد ہی کھڑے کھڑے دونوں طرف سلام پھیردیا۔ اور پھر نئے سرے سے نماز پڑھانی شروع کردی۔ حالانکہ تکبیرات زوائد چھوٹ جانے سے نماز میں کوئی اثر پڑھنے والا نہیں تھا۔ لیکن امام کی بے خبری یا کم علمی کا کس کو دوش ٹھہرایا جائے؟
اس طرح میں نے اس مسجد میں نماز کے حوالے سے درجنوں ایسے واقعات دیکھے، جن سے معلوم ہورہا تھا کہ عوام الناس سے کہیں زیادہ ائمہ مساجد نماز کے بنیادی مسائل سے بے خبر ہیں۔ اور یہ ایسے مسائل ہیں جو صرف دیکھنے سے حل نہیں ہوتے اور نہ کسی عملی تواتر کے مفروضہ سے اس طرح کے مسائل سیکھے جاسکتے ہیں۔ تو ایک دن مجھ سے رہا نہیں گیا اور میں نے عشاء کی نماز کے بعد کھڑے ہوکر تمام موجود نمازیوں سے گزارش کی کہ سنت و وتر پڑھنے کے بعد مسجد میں ہی پندرہ بیس منٹ تک بیٹھ جائیں۔ نماز کی چند بنیادی باتوں کے حوالے سے ایک مختصر تقریر ہوگی، تو سارے نمازی بیٹھ گئے اور میں نے تقریباً آدھے گھنٹے میں نماز کی اہمیت و فرضیت اور خاص طور سجدہ سہو کے بارے میں چند احادیث کی روشنی میں سجدہ سہو کی حقیقت اور کن مواقع پر اس کا کرنا لازم ہوجاتا ہے، قدرے تفصیل سے بتایا۔ میری تقریر سننے کے بعد تقریباً سبھی نمازی ایک ایک کرکے میرے پاس آئے اور شکریہ کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ ہمیں آج تک اس طرح سے نماز کے بارے میں کسی نے نہیں بتایا اور کہا کہ ہم ایک دوسرے کی نماز دیکھ کرتو رہی سہی پڑھ لیتے ہیں۔ مگر نماز کے آداب و احکام کیا ہیں؟ اس کے بارے میں ہمیں کچھ علم نہیں اور نہ ہی ہمارے ائمہ و خطباء کچھ بتاتے ہیں بلکہ ایک نوجوان نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے یہاں تک کہا کہ آپ نے ہمارے روحوں کو بیدار کیا اور پہلی بار نماز کی اہمیت و افادیت اور اس کے بارے میں کچھ ضروری مسائل جاننے کا موقع ملا۔ اس لیے ہم آپ کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں۔
اسی طرح کا ایک اور واقعہ، میرے ایک دوست نے بتایا ہے، وہ جماعت اہلحدیث سے تعلق رکھتے ہیں اور ایک دینی رسالہ کے مدیر بھی ہیں، انھوں نے کہا ہے کہ وہ ایک دفعہ اپنے چند دوستوں کے ساتھ ایک گاؤں میں گئے اور کہا کہ عصر کی نماز پڑھنے کی غرض سے ہم لوگ ایک مسجد میں داخل ہوگئے اور جب نماز شروع ہوگئی تو امام کی آواز اللہ اکبر کے ساتھ سنائی نہیں دی۔ البتہ ناک سے نکلی ہوئی عجیب قسم کی آواز سنائی دی۔ اور اس طرح کی آواز رکوع اور سجدہ کرنے کے دوران بھی سنائی دی۔ اور لوگ اس آواز کی تعمیل کرتے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے اور ہم نے بھی دوسرے نمازیوں کی طرح اسی امام کی اقتداء میں عصر کی نماز پڑھ لی۔ اور نماز پڑھنے کے بعد ہم نے ایک مقامی شخص سے دریافت کیا کہ ابھی ہم جس امام کے پیچھے نماز پڑھ چکے ہیں، کیا وہ یہاں کا مستقل امام ہے؟ اور اس کی آواز کچھ عجیب سی اور صاف سنائی نہیں دے رہی تھی؟ ہمیں تو کچھ بھی سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ آخر یہ کیا پڑھ رہا تھا؟ تو اس شخص نے حیران کرنے والا جواب دیا کہ اصل میں ہمارا یہ امام گونگا ہے اور اس کے والد کا کچھ عرصہ پہلے انتقال ہوگیا ہے اور وہی ہمارا مستقل امام تھا۔ چونکہ یہ موجودہ امام اس کا اکلوتا بیٹا تھا اور اس کے سوا گھر میں کوئی دوسرا کمانے والا نہیں تھا، اس لیے ہم نے گونگا ہونے کی وجہ سے اسے صرف دو وقت ’’ظہر اور عصر‘‘ کی نماز پڑھانے کے لیے امام مقرر کیا ہے اور باقی تین وقتوں کی نماز پڑھانے کے لیے ایک دوسرا امام آتا ہے۔
علامہ اقبال نے غالباً اسی طرح کی نمازوں اور اماموں کے بارے میں بجا فرمایا ہے ؂
تیرا امام بے حضور تیری نماز بے سرور
ایسی نماز سے گزر، ایسے امام سے گزر
تری نماز میں باقی جلال ہے نہ جمال
تری اذان میں نہیں ہے مری سحر کا پیام
اگر عملی تواتر کی اتنی زیادہ اہمیت ہے کہ اس کے بغیر لوگوں نے کبھی نماز سیکھی ہی نہیں تو پھر اکثر لوگ نماز کے بنیادی مسائل سے بے خبر کیوں ہیں؟ اور ان کی نماز اس وقت تک صحیح کیوں نہیں ہوتی؟ جب تک کہ کوئی جانکار آدمی کتب احادیث کی روشنی میں انہیں نماز کے بارے میں بنیادی باتیں نہیں بتاتا ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ آج کے دور میں احادیث کے بغیر نماز کو اچھی طرح سیکھنا ممکن ہی نہیں۔ نماز کے ساتھ یہ معاملہ آج ہی کا نہیں بلکہ پہلے سے یہ سلسلہ جاری تھا۔ یہاں تک کہ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے صحابہ کرام بھی ایک دوسرے کی نماز دیکھنے اور سیکھنے کے باوجود صحیح طریقے سے نہیں پڑھ پاتے تھے، حتیٰ کہ بعض روایات کے مطابق ایک صحابی نے کہیں سے نماز سیکھی تھی، لیکن جب اس نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تین چار بار ایک ہی نماز پڑھی تو آپ نے اسے ہر بار نماز لوٹانے کا حکم دیا اور جب اس نے جان لیا کہ اس کی نماز درست نہیں ہے تو اس نے کہا، اے اللہ کے رسول، میں اس سے زیادہ اچھی نماز نہیں پڑھ سکتا، اب آپؐ ہی بتائیے کہ کس طرح نماز پڑھی جاتی ہے؟ تب آپؐ نے اسے عمل کے ذریعہ یا دوسرے صحابہ کی نماز دیکھ کر پڑھنے کے لیے نہیں فرمایا، بلکہ آپؐ نے اسے نماز کے بارے میں بنیادی باتیں زبانی طور پر بتائی اور سمجھائی تھیں۔ پوری روایت اس طرح آئی ہے۔
عن أبی ہریرۃ أنّ رجلاً دخل المسجد ورسولُ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم جالس فی ناحیۃ المسجد فصلّی ثم جاء فسلّم علیہ فقال لہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وعلیک السّلام ارجع فصلّ فانّک لم تصلّ، فرجع فصلّی ثم جاء فسلّم فقال وعلیک السلام ارجع فصلّ فانّک لم تصلّ، فقال فی الثالثۃ أو فی التی بعدہا علّمنی یا رسول اللّٰہ، فقال اذا قمت إلی الصلوٰۃ فاسبع الوضوء ثمّ استقبل القلبۃ فکبّر ثم اقرأ بما تیسّر معک من القرآن ثم ارکع حتّی تطمئن راکعًا ثم ارفع حتّی تستوی قائما ثم اسجد حتّی تطمئن ساجدًا ثم ارفع حتی تطمئن جالسًا ثم اسجد حتّی تطمئن ساجدًا ثم ارفع حتّی تطمئن جالسًا (وفی روایۃ) ثم ارفع حتّی تستوی قائما ثم افعل ذلک فی صلواتک کلّہا. (البخاری حدیث نمبر 757/ مسلم حدیث نمبر 397/ مشکوٰۃ باب صفۃ الصلاۃ الفصل الاول، حدیث نمبر 790)
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ ایک شخص مسجد میں داخل ہوا، جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں ایک جانب تشریف فرما تھے، اس شخص نے نماز پڑھی۔ پھر آپ کے پاس آکر سلام کیا، آپؐ نے سلام کا جواب دیا، اور فرمایا، واپس جاکر نماز پڑھو کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی، وہ واپس گیا اور دوبارہ نماز پڑھی، پھر آپ کے پاس آکر سلام کیا، آپ نے سلام کا جواب دیا، پھر آپؐ نے فرمایا، واپس جا کر نماز پڑھو، کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی، تو اس نے تیسری بار یا اس بار کے بعد عرض کیا، اے اللہ کے رسول مجھے آپ ہی (نماز) سکھا دیجیے (کہ میں کس طرح پڑھوں) آپؐ نے فرمایا جب تم نماز پڑھنے کا ارادہ کرو تو پہلے اچھی طرح وضو کرو، پھر قبلہ کی طرف اپنا چہرہ کرو، پھر تکبیر کہو، پھر جو تمہیں قرآن سے آسان لگے، وہ پڑھو پھر رکوع کرو۔ یہاں تک کہ تمہیں اطمینان ہو کہ تم حالت رکوع میں ہو، پھر اٹھو، یہاں تک کہ تم پوری طرح کھڑے ہوجاؤ۔ پھر سجدہ کرو، یہاں تک کہ تمھیں اطمینان ہو کہ تم حالت سجدہ میں ہو، پھر اٹھو، یہاں تک کہ تمھیں اطمینان ہو کہ تم بیٹھے ہوئے ہو، پھر سجدہ کرو، یہاں تک کہ تمھیں اطمینان ہو کہ تم حالت سجدہ میں ہو، پھر اٹھو، یہاں تک کہ تمھیں اطمینان ہو کہ تم بیٹھے ہوئے ہو، ایک اور روایت کے مطابق یہ بھی آیا ہے کہ پھر اٹھو، یہاں تک کہ تم سیدھے کھڑے ہوجاؤ۔ پھر اپنی ساری نماز میں یہی کرو۔
یہ روایت اپنے مفہوم میں بالکل واضح اور نماز کا صحیح طریقہ بتانے میں بڑی اہمیت کی حامل ہے، کیونکہ اس روایت کے مطابق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابی کویہ نہیں فرمایا، کہ تم دوسرے صحابہ کو دیکھ کر نماز پڑھو اور ان سے خود ہی سیکھنے کی کوشش کرو، بلکہ آپؐ نے ایک مختصر گفتگو کے ذریعہ صحابی کو نماز کا صحیح طریقہ بتایا۔ اس طرح سے یہ روایت آج بھی ہمیں دعوت فکر دیتی ہے کہ ہم کلام نبوی کے ذریعہ اپنی نمازوں کی اصلاح کریں، چونکہ دوسروں کی نماز دیکھ کر آدمی وہ نماز نہیں سیکھ سکتا ہے، جو شریعت اسلامی کے مطابق حقیقی نماز کہلاتی ہے۔ چونکہ رکوع، سجود اور قیام میں جس اطمینان قلب کی بات بار بار حدیث نبوی میں آئی ہے، اس کیفیت کو آدمی کبھی دوسروں کی نماز کو دیکھنے سے حاصل نہیں کرسکتا، جب تک کہ اسے احادیث نبوی کی روشنی میں نہیں سمجھایا جاسکتا ہے۔ بلکہ بعض روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ نماز کے آداب و احکام کے سیکھنے کے معاملہ میں عملی تواتر کوئی اہمیت ہی نہیں رکھتا تھا۔ جیسا کہ صحابہ کرام ایک دوسرے کو زبانی طور پر تفیہم و تعلیم کی غرض سے نماز کے مسائل بتاتے تھے اور ایک دوسرے کی معلومات سے تصدیق بھی حاصل کرتے تھے۔ اس سلسلہ میں حضرت ابو حمید ساعدی کی مشہور روایت صحیح بخاری وغیرہ کتب احادیث کے حوالے سے قابل غور ہے۔ اور یہ روایت اس طرح آئی ہے۔
عن أبی حمید الساعدیّ قال فی نفر من أصحاب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنا احفظکم لصلوٰۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم رایتہ اذا کبّر جعل یدیہ حذاءَ منکبیہ واذا رکع امکن یدیہ من رکبتہ ثم ہصر ظہرہ فاذا رفع رأسہ استوی حتی یعود کلّ فقار مکانہ فاذا سجد وضع یدیہ غیر مفترش ولا قابضہما واستقبل باطراف اصابع رجلیہ القبلۃ فاذا جلس فی الرکعتین جلس علی رجلہ الیُسری ونصب الیمنی فاذا جلس فی الرکعۃ الآخرۃ قدّم رجلہ الیسری ونصب الأخری وقعد علی مقعدتہ. (البخاری حدیث نمبر 828/ مشکوٰۃ باب صفۃ الصلوٰۃ، الفصل الاول، حدیث نمبر 792)
حضرت ابو حمید ساعدی سے روایت ہے کہ انھوں نے صحابہ کی ایک جماعت کے سامنے فرمایا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تم سب سے زیادہ یاد ہے۔ میں نے آپ کو دیکھا کہ جب آپ تکبیر کہتے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر کندھوں تک لے جاتے، اور جب آپ رکوع کرتے تو گھٹنوں کو مضبوطی سے پکڑ لیتے۔ اور کمر کو جھکادیتے، پھر جب رکوع سے سر اٹھاتے تو اس طرح سیدھے کھڑے ہوجاتے کہ تمام جوڑ اپنی جگہ پر آجاتے، پھر آپ سجدہ کرتے تو آپ اپنے دونوں ہاتھوں کو اس طرح رکھتے کہ نہ بالکل پھیلا دیتے اور نہ سمٹے ہوئے اور پاؤں کی انگلیوں کا رخ قبلہ کی طرف رکھتے، پھر جب آپ در رکعت پڑھ کے بیٹھتے تو بائیں پاؤں پر بیٹھتے اور دائیں پاؤں کھڑا رکھتے اور جب آپ آخری رکعت پڑھ کے قعدہ اخیرہ میں بیٹھتے تو بائیں پاؤں کو آگے کرلیتے اور دائیں پاؤں کو کھڑا کردیتے، پھر اپنی سرین پر بیٹھ جاتے۔
اس حدیث سے بھی صاف طور پر واضح ہوتا ہے کہ خالی عملی تواتر کے مفروضہ کی رٹ لگانے سے نماز کی صحیح اسپرٹ ہرگز حاصل نہیں ہوسکتی ہے۔ کیونکہ دوسروں کی نماز دیکھ کر آدمی صرف نماز کی کچھ ظاہری چیزوں کو ہی دیکھ پائے گا جبکہ شریعت اسلامی میں نماز کی اہمیت، فرضیت اور فضیلت کے بارے میں بنیادی چیزیں کیا ہیں؟ وہ صرف دیکھنے سے معلوم نہیں ہوجاتی ہے، وہ یا تو اہل علم کے وعظ و تبلیغ اور یا ان کی تحریر و تصنیف کے ذریعہ ہی حاصل ہوسکتی ہیں۔ جیسا کہ خود مصنفِ کتاب نے بھی عملی تواتر کے مفروضہ کی رٹ لگانے کے باوجود اپنی بات منوانے کے لیے تحریر و تصنیف کا سہارا لیا ہے۔ اور جو چیز وہ محض عملی تواتر کے مفروضہ سے نہیں سمجھا سکتے تھے، اس کو انھوں نے تحریر و تصنیف ہی کے ذریعہ سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ باوجود یہ کہ ان کی یہ کوشش نا مسعود ہی نہیں بلکہ نماز کو احادیث نبوی سے الگ ایک منصوبہ بند سازش معلوم ہوتی ہے۔ ایسے موقع پر علامہ اقبال کا یہ شعر بر محل معلوم ہوتا ہے ؂
قلب میں سوز نہیں، روح میں احساس نہیں
کچھ بھی پیغام محمدؐ کا تمھیں پاس نہیں
واضح رہے جب بھی کہیں پر نماز کے بارے میں تذکرہ ہوتا ہے تو بخاری کی ایک مشہور حدیث کے ایک فقرہ ۔ صلّوا کما رایتمونی اصلّی ۔ (تم اسی طرح نماز پڑھا کرو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہو) کا حوالہ ضرور دیا جاتا ہے۔ لیکن اس حدیث کو سیاق و سباق کے ساتھ بیان نہیں کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے مغالطہ انگیزی کے ساتھ اس کو بھی عملی تواتر کے مفروضہ کی تائید میں پیش کیا جاتا ہے۔ اس لیے اس حدیث کا حقیقی مفہوم سمجھنے کے لیے اس کا پورا متن یہاں نقل کیا جاتا ہے۔
عن أبی سلیمان مالک بن الحویرث قال اتینا النبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلم ونحن شببۃ متقاربون فاقمنا عندہ عشرین لیلۃ فظنّ انا اشقنا اہلنا وسألنا عمّن ترکنا فی اہلینا فاخبرناہ وکان رفیقا رحیما فقال ارجعوا إلی اہلیکم فعلّموہم ومروہم وصلوا کما رأیتمونی اُصلّی واذا حضرت الصلوٰۃ فلیؤذن لکم احدکم ثم لیومکم اکبرکم. (البخاری کتاب الأدب، باب رحمۃ الناس والبہائم، حدیث نمبر 6008)
حضرت ابو سلیمان مالک بن حویرث بیان کرتے ہیں کہ ہم (چند افراد) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ہم سب ہم عمر نوجوان تھے، ہم آپؐ کے ساتھ بیس دن تک رہے، پھر آپ کو خیال ہوا کہ ہمیں اپنے گھر کے لوگ یاد آرہے ہوں گے اور آپؐ نے ہم سے ان کے متعلق پوچھا، جنھیں ہم اپنے گھروں میں چھوڑ کر آئے تھے۔ پھر ہم نے آپ کو سارا حال سنادیا، آپؐ بڑے ہی نرم دل اور رحم کرنے والے انسان تھے، آپؐ نے فرمایا، تم اپنے گھروں کو واپس جاؤ اور اپنے لوگوں کو دین سکھاؤ اور انھیں حکم دو کہ تم اسی طرح نماز پڑھو، جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے اور جب نماز کا وقت آجائے تو تم میں سے ایک شخص تمہارے لیے اذان دے گا۔ پھر جو تم میں بڑا ہو، وہ امامت کرے گا۔
اس حدیث پر غور کرنے سے کئی باتیں ثابت ہوتی ہیں جن میں ایک یہ کہ جو نوجوان اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تھے، انھوں نے دین کی بنیادی باتیں سیکھنے کے لیے بیس دن لگادئے تھے اور دوسرا یہ کہ آپؐ نے انھیں فرمایا اپنے لوگوں کو بھی دین کی باتیں سکھانا اور ان کو بھی اسی طرح نماز پڑھنے کی تلقین کرنا، جس طرح تم نے ان بیس دنوں میں ہمارے یہاں آکر مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خالی عملی تواتر سے کچھ بات بننے والی نہیں ہوتی ہے جب تک کہ اپنے مخاطب لوگوں کو زبانی طور پر بھی نہ بتایا جائے۔ چونکہ ظاہر ہے کہ صرف اتنی سی بات کہ ۔ تم اسی طرح نماز پڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے ۔ سے نماز کے سارے خدو خال سامنے نہیں آسکتے ہیں۔ کیونکہ نماز کے اندر قیام، رکوع، سجود، تشہد، فرائض، سنن اور نوافل اور قرأت قرآن کے علاوہ تشہد، درود، دعا اور دوسری تسبیحات جو رکوع و سجود میں خاص طور پر پڑھی جاتی ہیں۔ یہ تمام باتیں صرف دیکھنے سے معلوم نہیں ہوسکتی ہیں۔ یہ تمام باتیں اسی وقت سیکھ سکتے ہیں جب تک کہ صاحب علم افراد تبلیغ و تدریس کے ذریعہ نہ بتائیں اور یہ کام اللہ کے فضل سے ہر دور کے علماء و مبلغین بحسن خوبی انجام دیتے آئے ہیں۔اور خاص طور پر محدثین نے اپنی مستند و معتبر کتب احادیث میں الگ سے کتاب الصلوٰۃ اور اس میں نماز کے متعلق تمام مسائل کے متعلق ابواب ترتیب دئے ہیں اور ان کے تحت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مستند ومعتبر ذرائع سے منقول ارشادات نقل کئے ہیں جن کو دیکھنے اور پڑھنے سے ہر کوئی نماز نبوی کے حقیقی خدو خال اور صورت و ہیئت معلوم کرسکتا ہے۔
یہ بات درست ہے کہ نماز کے بعض مسائل و جزئیات میں مختلف قسم کی روایتیں ملتی ہیں مگر علماء اسلام نے ان تمام طریقوں جو مستند و معتبر روایات کے ذریعہ امت مسلمہ تک پہنچے ہیں، کو درست قرار دیا ہے، اور ان اختلافی امور کو تنوع و توسع کی نظر سے دیکھنے کی تلقین کی ہے، اس سلسلہ میں حضرت عمر بن عبد العزیز (متوفی 101ھ) کا ایک نصیحت آموز قول حال ہی میں ایک رسالہ میں ان الفاظ اور حوالہ کے ساتھ پڑھنے کو ملا۔
ما سرنی لو أن أصحاب محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم لم یختلفوا لانہم لو لم یختلفوا لم تکن رخصۃ. (المقاصد الحسنۃ، حدیث نمبر 39)
میرے لیے یہ چیز باعثِ مسرت نہیں کہ اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں اختلاف نہ ہوتا، اس لیے کہ اگر وہ اختلاف نہ کرتے تو ہم کو رخصت کا فائدہ نہ ملتا۔
نماز یا دوسرے شرعی احکام کے بارے میں بعض روایات میں جو اختلافات ملتے ہیں وہ کنفیوژن پیدا کرنے والے نہیں ہوتے ہیں۔ بلکہ ان میں تنوع و توسع کے ساتھ آسانی اور رخصت کا پہلو غالب ہوتا ہے۔ لیکن اس طرح کے اختلافات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے والے منکرین حدیث ہوتے ہیں اور جن کا واحد مقصد یہ ہے کہ عام مسلمان نماز اور دوسرے شرعی احکام کے بارے میں شکوک و شبہات کے شکار ہوں اور وہ احادیث پڑھنا ترک کردیں۔ لیکن بدقسمتی سے مصنفِ کتاب نے منکرین حدیث سے دو قدم آگے بڑھ کر اختلافی امور کی آڑ لیکر احادیث کو خار زار قرار دیا ہے اور جس میں داخل ہونے کے بعد سوائے خراشوں کے کچھ ہاتھ لگنے والا نہیں ہے۔ (ص: 90)
نماز کو احادیث نبوی سے الگ کرنا یہ کوئی نئی بات نہیں ہے اور یہ زہر بہت پہلے منکرین حدیث نے ہی بویا تھا۔ اس سلسلہ میں ایک اہلحدیث عالم مولانا صفی الرحمن مبارک پوری نے اپنی ایک کتاب میں یہ فکر انگیز سطریں بھی لکھی ہیں۔
’’نماز کے بعض جزوی اور فروعی مسائل میں ہمارے درمیان بالکل معمولی اور ناقابل ذکر قسم کا اختلاف ہے تو ایسے اختلاف کو اچھالنا اور اسے پچاسوں قسم کے ’’رنگ برنگ‘‘ نماز سے تعبیر کرنا منکرین حدیث کی فطرت کی کجی کی علامت ہے، دنیا کا کوئی انسان جو سمجھ بوجھ اور فطرت کی سلامت روی سے محروم نہ ہو، اس بات سے انکار کی جرئت نہیں کرسکتا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تیئس سالہ پیغمبرانہ زندگی میں اگر گنجائش اور بیان جواز کے لیے نماز کے بعض بعض عمل کی دو دو صورتیں اختیار کی ہوں تو یہ کوئی بعید بات نہیں بلکہ عین ممکن ہے، خود قرآن مجید میں قسم کے کفارہ کی تین تین صورتیں رکھی گئی ہیں، کفارۂ ظہار کے لیے بھی تین صورتیں رکھی گئی ہیں، نماز تہجد کے لیے تین اختیاری اوقات کی نشاندہی کی گئی ہے، حاجی کے لیے یوم النحر (دس ذی الحجہ) کے بعد منیٰ میں دو دن ٹھہرنا بھی درست قرار دیا گیا ہے اور تین دن ٹھہرنا بھی۔ پس اگر ایک عمل کے لیے ایک سے زیادہ صورتوں کا جواز کوئی قابل اعتراض بات ہے تو قرآن کے بیان کئے ہوئے ان مسائل کی بابت کیا ارشاد ہے؟ اور اگر قابل اعتراض نہیں تو پھر ہماری نماز کے ان معمولی اور ناقابلِ ذکر اختلافات کو اچھال کر اس پر جملہ بازی کرنا اگر فطرت کی کجی کی علامت نہیں تو پھر اسے علم و دیانت کے کس خانہ میں شمار کیا جاسکتا ہے؟ (انکار حدیث حق یا باطل؟ ص: 78۔79)
پوری کتاب دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بظاہر مصنفِ کتاب فقہی آراء کی روشنی میں اختلاقات کا دائرہ پھیلاتے ہوئے نماز کو ہر طرح سے درست قرار دینے کی وکالت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ مگر عملی تواتر کے مفروضہ کی صورت میں انھوں نے نئی نسل کو احادیث نبوی سے بدظن کرنے کی ایک خطرناک اورمنصوبہ بند کوشش کی ہے۔ اور انھوں نے اس سلسلہ میں جس طرح کی زبان استعمال کی ہے، وہ حد سے زیادہ افسوسناک ہے۔ اور جس کے چند نمونے اوپر کی سطور میں قدرے تفصیل سے آگے ہیں۔ اور جن کو دیکھنے کے بعد سنجیدہ قارئین کرام خود ہی فیصلہ کریں گے کہ کتاب کے پیچھے بنیادی طور پر کس طرح کے محرکات، مقاصد اور عزائم کار فرما ہوسکتے ہیں؟ بقول شاعر ؂
اثر کھو رہی ہیں تحریریں اپنا
غلط خود تو اہلِ قلم کررہے ہیں

تبصرے بند ہیں۔