بچوں کی تربیت کا مسئلہ – نزاکتیں اور ذمہ داریاں (2)

تحری: ڈاکٹر بشریٰ تسنیم   –  ترتیب:عبدالعزیز
باپ کیلئے لازم ہے کہ وہ اپنی اولاد کو پاکیزہ اور صالح کردار پر اٹھانے کیلئے گھر میں ایسی کمائی لائے جو حلال و طیب ہو۔ اپنی اولاد کو اگر حرام کمائی سے سینچا گیا تو اس کے کردار و اعمال میں شرافت کی سی تابندگی کیسے آئے گی؟
حقائق کی دنیا کا یہ اٹل اصول ہے کہ اگر نقطۂ آغاز ہی غلط ہو تو پھر ہر خط غلط رخ پہ جاتا ہے۔ اپنے اسلاف کی زندگیاں اور ان میں ماؤں کے کردار کا تذکرہ ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔ وہ ائیں قابل فخر ہیں جنھوں نے اپنے بچوں کو شوہر کی مشکوک کمائی نہ کھلائی بلکہ خود محنت و مشقت کرکے ملت اسلامیہ کو قابل رشک کردار کے حامل سپوت فراہم کئے۔ عزیمت کی راہوں پر چلنے والی ان ماؤں کی تقلید میں کم از کم وہ امور تو انجام دینا ہر گز مشکل نہیں جن کا تعلق اپنی ذات سے ہے۔
ہمہ وقت اللہ کا ذکر، نماز کی پابندی، باوضو رہنا، پاکیزہ گفتار ہونا، جسمانی، روحانی وذہنی سکون کا باعث ہوتا ہے۔ ہر وہ غذا جو حاملہ عورت کھاتی ہے اس میں اس ننھی سی جان کا حصہ بھی شامل ہوتا ہے۔ اس زمانے میں اگر جسمانی غذا معمول سے زیادہ درکار ہوتی ہے تو روحانی غذا کا تناسب بھی تو پہلے سے زیادہ چاہئے۔
جب اللہ تعالیٰ گوشت کے بے جان لوتھڑے میں جان ڈالتا ہے تو فرشتے کو بھیجا جاتا ہے کہ وہ معلوم کرے، تخلیق کے مراحل سے گزرنے والی عورت اپنے بچے کیلئے کیا طلب کر رہی ہے؟ اس کو اپنے تخلیق کردہ شاہکار کو سنوارنے کی فکر بھی ہے یا نہیں؟ اگر ماں اپنے ہونے والے بچے کیلئے دنیا مانگ رہی ہے تو وہ اس کا مقدر ہے۔ دنیا و آخرت مانگ رہی ہے تو اللہ کے پاس کسی چیز کی کمی نہیں ہے۔ اس کے خزانوں میں کبھی کمی واقع نہیں ہوتی۔
مدت حمل میں بچہ ماں سے خوراک ہی حاصل نہیں کرتا بلکہ ماں کی افسردگی، بے چینی، بیماری، بے کلی کا بھی اس پر اثر ہوتا ہے۔ اس زمانے میں وہ کیا سوچتی ہے؟ کن مصروفیات میں گھری رہتی ہےْ اس کا دل کن جذبوں سے آراستہ رہتا ہے؟ بچے کی شخصیت اسی کا پرتو ہوتی ہے ۔۔۔۔ مختلف سائنسی مطالعوں سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ ماں کی مصروفیات سے جنین اثر لیتا ہے۔ ماہرین نفسیات سفارش کرتے ہیں کہ والدین اپنے آئندہ بچے کو جیسا کچھ بنانا چاہتے ہیں، ماں کو اسی کی طرف یکسو رہنا چاہئے۔ جس لائن پہ لگانا چاہتے ہیں، جس مضمون یا فن کا ماہر بنانا چاہتے ہیں ، ماں کو بھرپور اسی کی طرف توجہ دینی چاہئے اور ویسے ہی ماحول میں رہنا چاہئے۔
ایک مسلمان ماں اپنے بچے کو ’’نمائندہ مسلمان‘‘ بنانا چاہتی ہوگی تو وہ ضرور ان سب امور کا خیال رکھے گی۔ بزرگان دین کی مائیں اکثر و بیشتر قرآن پاک کو ہر وقت وردِ زبان رکھتی تھیں۔ آج بھی ایسی مثال مل سکتی ہے کہ جب ماں نے مدت حمل میں ہر وقت قرآن پاک کی تلاوت سنی، خود بھی وردِ زبان بنایا اور ایک ہی قاری کی زبان، لب و لہجہ میں کثرت سے قرآن سنا تو اس کا اثر یہ ہوا کہ نومولود قرآن کی تلاوت کو حیرت انگیز دلچسپی سے سنتا اور جب قرآن سیکھنے کی عمر ہوئی تو حیرت انگیز طور پر بہت جلد سیکھ گیا۔
ایک ذمہ دار اور حساس مسلمان ماں وہ ہے جو زمانۂ حمل میں متقی خواتین کی صحبت سے فیضیاب ہو، قرآن و حدیث کا بکثرت مطالعہ کرے، قرآن پر غور و فکر کرے اور درس و تدریس میں وقت گزارے۔ اپنی دیگر ذمہ داریوں کو بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے انجام دے۔ یہ آزمائی ہوئی بات ہے کہ مستقل بنیادوں پر منعقدہ قرآن خوانی کلاسوں میں شامل ہونے والی خواتین نے اس بچے کی عادات میں نمایاں تبدیلی محسوس کی، جو قرآنی کلاسوں میں شریک ہونے کے زمانے میں رحم میں پرورش پارہے تھے۔
ماں بننے والی خاتون کو شعوری کوشش کے ساتھ صبر و قناعت اور قوت برداشت کو اجاگر کرنا چاہئے۔ وہ بنیادی اخلاقی عیب جو انسانی زندگی کو بدصورت بناتے ہیں اور انسانیت کی توہین ہیں مثلاً بغض، کینہ ، حسد، تکبر اور جھوٹ سے بچنے کی کوشش کرے۔ بے جا، لایعنی اور غیر ضروری بحث سے گریز کرے۔ ذکر و تسبیح کو اپنا معمول بنائے۔ یقیناًاس کی عبادت، ذکر، روزہ و دیگر حقوق و فرائض کی ادائیگی میں ایک معصوم روح بھی شریک ہوتی ہے اور وہ اللہ کے حضور اپنی ماں کے ہر نیک عمل کی گواہ بھی ہوگی۔
جسمانی غذا کے ساتھ روحانی غذا بھی اعلیٰ اور زیادہ مقدار میں ہونی چاہئے۔ روشن کردار، اعلیٰ ذہنی و فکری استعداد کی مالک ماں ہی اپنے بچے کے روشن مستقبل کی فکر کرسکتی ہے۔ کم ظرف، جھگڑالو، حاسد، احساس برتری یا کمتری کی ماری، ناشکری اور بے صبری عورت، اعلیٰ کردار کا سپوت قوم و ملت کو کیسے دے سکتی ہے۔
جسمانی صحت و صفائی کے ساتھ ساتھ ماں کو روحانی صحت و صفائی کا خیال رکھنا لازمی امر ہے۔ باوضو رہنا، ہر کھانے سے پہلے وضو کرلینا، ہر چیز کھانے سے پہلے بسم اللہ پڑھنا اور اپنے ہونے والے بچے کا دھیان بھی اس غذا کے ساتھ رکھنا کہ وہ اس غذا میں حصہ دار ہے۔ اسی طرح عورت اپنے ہر چھوٹے، بڑے کام میں زیر تخلیق معصوم ہستی کو شامل رکھے تو اس کی اپنی روحانی تربیت میں بیحد اضافہ ہوگا۔ گویا ماں بننے کے مراحل میں عورت خود اپنے لئے ایک ایسا ادارہ بن جاتی ہے، جس میں ہر لمحہ اس کو ایک بات سیکھنے اور سکھانے میں مدد ملتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی نظر رحمت میں رہتی ہے۔
بیرونی ماحول اور ماں کے اپنے فکر و عمل سے جنین اثرات قبول کرتا ہے۔ اس بات کا تجربہ، مشاہدہ کرنے کیلئے ’’نیشنل انسٹیٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ اینڈ ہیومن ڈیولپمنٹ‘‘ نے حاملہ خواتین کو مختلف ماحول اور فنون کے ساتھ رکھا۔ ایک یورپی ماں کا اپنا تجربہ ہے: ’’جب میں نے یہ بات سنی کہ جنین پہ ماحول کا اور ماں کے اپنے اندازِ فکر و عمل کا اثر ہوتا ہے تو میں نے کمپیوٹر کی تعلیم سیکھتے ہوئے اپنے بچے کو شعوری طور پر مخاطب کرکے ہر سبق دہرایا اور ہر عمل میں اس کو اپنے ساتھ محسوس کیا۔ پیدائش کے چند سال بعد وہ بچہ حیرت انگیز طور پر کمپویٹر کے بارے میں راز داں نکلا‘‘۔ تخلیق کے ابتدائی چھ مہینوں میں ننھی سی جان کے اندر حسن سماعت، حسن لامسہ اور ذائقہ پیدا ہوجاتی ہیں۔ قرآن پاک میں بھی تخلیق کے تین مراحل بیان ہوئے ہیں۔ قرار مکین، سماعت اور بصارت جنین میں قوت سماعت کی تکمیل سب سے پہلے ہوتی ہے۔ اسی لئے بیرونی ماحول کے اثرات جنین پر شروع ہوجاتے ہیں‘‘۔
اسی ادارے کے ایک محقق اسٹیفین سومی نے تحقیق کے بعد بتایا: ’’پہلے خیال کیا جاتا تھا کہ صرف جینیاتی (موروثی) اثرات ہی مزاج بنانے پر اثر انداز ہوتے ہیں، مگر اب ماحول کی اہمیت واضح ہورہی ہے۔ مایوسی میں گھری ماؤں کے بچے بھی مایوس شخصیت لے کر پیدا ہوتے ہیں‘‘۔ جیرالڈین ڈاسن نے واشنگٹن یونیورسٹی میں منعقدہ ایک سیمینار میں اپنا مشاہدہ بیان کیا: ’’جن بچوں کی مائیں مایوسی کا شکار ہوتی ہیں، ان کے بچوں کے دماغ کا بایاں حصہ جس کا تعلق خوشی، دلچسپی اور دیگر مثبت عادات سے ہے، اپنا ہر کام بہتر طریقے پر انجام نہیں دے سکتا‘‘۔
اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے والی، روشن ضمیر، اللہ پر توکل کرنے والی خاتون روحانی طور پر مضبوط اور پُر عزم ہوگی۔ اس زمانے میں عورت کے گھر کا ماحول اور خصوصاً شوہر کا رویہ اور انداز فکر بھی بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اس غیر معمولی صورت حال میں شوہر کی بھی ذمہ داریاں غیر معمولی طور پر بڑھ جاتی ہیں، اس لئے خاتون کی ذہنی، جسمانی، روحانی طمانیت کیلئے شوہر کو بھرپور طریقہ سے اپنا کردار انجام دینا چاہئے۔ یہ شوہر کا فرض عین ہے جس کی اس باز پرس ہوگی۔ دیگر رشتہ دار اور شوہر ایک نئی ہستی کو دنیا میں لانے کیلئے عورت کو جتنی آسانیاں، آرام، ذہنی و جسمانی سکون مہیا کریں گے تو وہ بھی لازماً اس کا صلہ اللہ تعالیٰ کے ہاں پائیں گے۔ دیکھا گیا ہے کہ تخلیق کے مراحل میں پورے نو ماہ جس خاتون کے شوہر نے بیوی کے آرام و سکون کیلئے خاطر خواہ انتظامات کئے اپنی نفسانی اور عمومی خواہشوں کی تکمیل کیلئے قربانی اور ایثار کا راستہ اختیار کیا، ان کے بچے صحت مند، خوبصورت، ذہین اور پُر اعتماد نکلے۔
حاملہ خاتون کو کچھ بیماریوں سے محفوظ رکھنے کیلئے حفاظتی ٹیکے اور دوائیں دی جاتی ہیں تاکہ خاتون اور اس کا بچہ بیماریوں سے بچا رہے۔ بالکل اسی طرح کچھ روحانی بیماریوں سے بچاؤ کے بھی حفاظتی اقدامات کرنے چاہئیں۔ ہر عورت اپنے عیب و محاسن کا جائزہ لے اور جو عیوب انسان کی زندگی کو عیب دار بناتے ہیں ان سے بچے کیلئے مکمل توجہ کے ساتھ کوشش کرے، جس طرح رمضان میں اہتمام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اگر جسمانی بیماری کا علاج ضروری ہے تو اخلاقی بیماریوں کا سدباب بھی ہونا چاہئے۔ (جاری)

تبصرے بند ہیں۔