اسلامی کلچر یا اسلامی ثقافت کیا ہے؟ (تیسری قسط)

 ترتیب:عبدالعزیز

  اسلامی ثقافت اور تہذیب اتنی قدیم ہے جتنی کہ نسل انسانی۔ اس کا آغاز پہلے نبی حضرت آدمؑ سے ہوا۔ اور اس کی تکمیل خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی۔ حضرت آدمؑ پہلے شہری تھے۔ انھوں نے اسلامی طرز زندگی ہمارے سامنے رکھا اور اس کے بعد ہر نبی وہی پیغام لے کر آتا رہا، حتیٰ کہ قرآن حکیم ہماری رہنمائی کیلئے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وساطت سے پہنچ گیا۔

   اسلام انسانیت کا دین ہے اور زندگی کے ہر شعبہ کیلئے ہدایات جاری کرتا ہے۔ اسلام نے عالمی بھائی چارے اور اخوت کی تعلیم دی ہے۔ حج اور ایسی دیگر رسوم سے اس امر کا ثبوت ملتا ہے۔ یہ امن، محبت اور نیک خواہی کا دین ہے۔

  اسلامی ثقافت ایک تخلیقی تہذیب کا نام ہے۔ یہ انقلابی ذہن کی حامل ہے، جو توحید، عظمت انسانی، مساوات اور اتحاد عالم پر مبنی ہے۔ سیاسی طور پر ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ اسلامی ثقافت دین اور سیاست کے آمیزے کا نام ہے۔

  اہم خصوصیات:

 (1 توحید: یہ کہ اللہ ایک ہے اور اس کے سوا کوئی مددگار نہیں ۔ انسانی عظمت، مساوات اور اتحاد اسی مقصد کیلئے ہے کہ انسان توحید کا عَلم بند کرے۔

 (2 ٹھوس اور پائیدار امن: اسلام امن کیلئے سائنٹفک بنیادیں فراہم کرتا ہے۔

 (3  تخلیقی اور آزادانہ سوچ: میلانات اور رجحانات سے قطع نظر اسلام نے تخلیقی اور آزادانہ غور و فکر کرنے اور زندگی پر متوازن نظر ڈالنے کی دعوت دی ہے۔

 (4 فطرت کا تنقیدی مشاہدہ: یہ دین انسان کو کائنات پر بھرپور غور وخوض کرنے کی دعوت دیتا ہے تاکہ قوانین فطرت کا مطالعہ کیا جاسکے۔

 (5  تمام عالم انسانی اور کائنات: اس کا دائرہ کار پوری کائنات اور تمام عالم انسانی کو محیط ہے۔

 (6 آزاد اور متحرک: اسلامی ثقافت آزادانہ نشو و نما پاتی ہے اور یہ متحرک ثقافت ہے۔ اس میں مسلمانوں کے مجموعی کارنامے شامل ہوتے ہیں ۔

 مثالی تحریک:

  اسلامی ثقافت مثالیت کو تحریک دیتی ہے۔ یہ اخلاقی، سماجی، ذہنی اور سیاسی مثالیت کو پروان چڑھاتی ہے، جو کچھ یوں ہے:

 (1 اخلاقی مثالیت: اخلاقیات اسلامی میں مرکزی حیثیت رکھتی ہے اور انسان کامل کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ بہترین انسان اخلاق کا حامل قرار دیا گیا ہے۔ ارشاد ربانی ہے: ’’تم میں اللہ کے نزدیک بہتر وہ ہے جس کا طرز سلوک اچھا ہے‘‘ (13:9)۔

(2  سماجی مثالیت: اسلام ایک مثالی معاشرہ کی تخلیق کیلئے کوشاں ہے۔ جس میں ذات، نسل، رنگ، علاقہ، زبان یا دولت کا کوئی مقام نہیں بلکہ اخلاق اور خیر کے کرداروں کو معاشرے میں عظمت عطا کرتا ہے۔

 (3  تعقلی مثالیت: اسلام نے تعقلی تلاش کو انتہائی اہم مقام دیا ہے۔ طلب علم ہر مسلمان کا فریضہ قرار دیا ہے اور عالم کی روشنائی کو شہیدوں کے خون سے افضل سمجھا گیا ہے (احادیث نبویؐ)۔ قرآن حکیم میں فرمایا گیا ہے کہ ’’فلاح صرف وہی لوگ پائیں گے جو علم رکھتے ہیں ‘‘۔

(4  سیاسی مثالیت: اسلام ایک فلاحی ریاست کی تشکیل چاہتا ہے، جس میں الٰہی قوانین کی حکمرانی ہو اور تخلیقی ادارے موجود ہوں ۔

اس تمام مثالیت کو ہم نے تاریخ اسلام کی مختلف مثالوں میں دیکھا اور پرکھا ہے اور یہ قابل عمل ہیں ۔ صرف یہی نہیں بلکہ اسلامی ثقافت نے عالمی تہذیب کے ارتقاء میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے۔

 دین اوسط:

  اسلام کو ’دین اوسط‘ کہا گیا ہے؛ یعنی یہ افراط اور تفریط کے مابین ایک راہ نکالتا ہے۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہوا ہے: ’’پس ہم نے تمہیں ایک امت متوسط (متوازن) بنایا ہے‘‘ (40-42)۔

 اسلام تعصبات اور میلانات کی مخالفت کرتا ہے۔ ارشاد ہوا ہے: ’’اے اہل کتاب! اپنے دین میں حد سے نہ بڑھ جاؤ، جس کی حدود مقرر کرد گئی ہیں ‘‘(171:4) ۔

 اسلام مثالیت اور حقیقت روح اور مادہ غرضیکہ زندگی کے ہر دو پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے اور کسی ایک کو حد سے زیادہ نہیں نکلنے دیتا۔ نہ تو یہ رہبانیت کو پسند کرتا ہے اورنہ مادہ پرستی کی اجازت دیتا ہے۔ نہ عسرت اور تنگدستی اور قسمت پرستی کی اجازت دیتا ہے اور نہ ارتقازِ زر ہونے دیتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اسلامی ثقافت تمام ثقافتوں کا سنگم اور توازن ہے اور انتہا پسندی کی مخالف ہے، حتیٰ کہ آرٹ اور ادب میں بھی توازن اور اعتدال کا حامی ہے۔ سائنس کو اس ثقافت نے پروان چڑھا دیا مگر حد اعتدال سے باہر نہیں نکلنے دیا۔

(1توحید: اسلامی ثقافت کے خدو خال میں سب سے زیادہ نمایاں چیز توحید اور شرک سے بیزاری ہے۔ اس کی فضا ایسی ہے جس میں اس تحریک کے جراثیم ختم ہوکر رہ جاتے ہیں اور ان کے پنپنے اور بڑھنے کے امکانات بالکل صفر ہیں ۔ یہاں صرف مرکز توجہ توحید الٰہی اور معرفت ربانی ہے۔ اس مطمحِ نظر کے تابع تمام دیگر افعال اور سرگرمیاں ہیں ، اس لئے کہ  ؎

وہ عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو … عجب چیز ہے لذتِ آشنائی

(2 احترام انسانیت: دوسرا امتیاز جو ہماری ثقافت کو حاصل ہے وہ احترام انسانیت ہے جس کی بدولت معاشرے کے تمام افرادکو مساویانہ سلوک کے مستحق سمجھے جاتے ہیں ۔ قانون کی نظروں میں ان کی حیثیت یکساں ہے۔ ادنیٰ و اعلیٰ، امیر و غریب، آقا و غلام کی تمیز باقی نہیں رہتی۔ عدل و انصاف نافذ رہتا ہے۔ظالم کو ظلم کے ارتکاب میں حد درجہ مزاحمت پیش آتی ہے۔ ظلم کی روک تھام کی ہر کوشش فرض سمجھی جاتی ہے اورمظلوم کی داد رسی میں سربراہِ حکومت کو بھی تیار رہنا پڑتا ہے۔ حقوق کی ضمانت دی جاتی ہے۔ ہر شخص کو آزادی نقل و حرکت، آزادی تقریر و تحریر حاصل ہوجاتی ہے اور اس پر ایسی کوئی پابندی عائد نہیں کی جاسکتی جس کا جواز قرآن و حدیث میں موجود نہ ہو۔

 (3 آفاقیت: تیسری صفت جو اسے دیگر ثقافتوں سے متمیّز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ کسی خاص قوم، ملک یا کسی ایک نسل کا ورثہ نہیں بلکہ اس کی حدیں تمام کائنات اور جملہ نسل آدم پر حاوی ہیں اور اس میں مخصوص قومیت کی تنگ نظری نام کو نہیں ۔ ہر وہ شخص اس ملت کا فرد تصور کیا جاتا ہے جو وحدتِ خداوندی اور رسالت ِنبیؐ کریم کا اقرار کرتا ہے۔ خواہ وہ کوئی سی زبان بولتا ہو، کسی رنگت کا ہو، مشرقی ہو یا مغربی؛ اس کی بودو باش اور طرزِ زندگی اسلامی رنگ میں رنگی جائے گی۔ اس لحاظ سے یہ ثقافت جامع اور آفاقی نوعیت کی واقع ہوئی ہے۔

(4 اخوت: اسلامی ثقافت کی بنیاد ’دین‘ ہے اور اس کے مقابلے میں خونی رشتے ثانوی حیثیت رکھتے ہیں ۔ اگر ان دونوں میں سے کسی ایک کو ترجیح دینی پڑے تو لازماً دینی پہلو کو غالب رکھا جائے گا۔ اس کا پہلی بار روح پرور مظاہرہ اس مدینہ کے بعد ’مواخاۃ‘ کی صورت میں ہوا جبکہ نادار مہاجرین کو انصارکے ساتھ محض دین کی قدر مشترک کی بنا پر ایک ہی رشتے (بھائی چارے) میں منسلک کر دیا گیا اور نہ صرف جائداد، مال و دولت، باغات کی تقسیم طیب نفس سے وقوع پذیر ہوئی، بلکہ چند مخلص انصار نے اپنی متعدد بیویوں میں سے مہاجرین کی خاطر چند ایک کو طلاق دینے کی پیشکش بھی کی ۔ اس طرح جملہ مسلمین ایک دوسرے کے دینی بھائی ٹھہرے، جن کو ایک دوسرے کے مفادات کا ہر وقت خیال رہتا۔ بلال حبشیؓ، صہیب رومیؓ اور سلمان فارسیؓ مختلف ممالک سے منسوب تھے، لیکن یہاں صرف دینی قدر مشترک کی بنا پر ان کو نہ صرف قابل احترام سمجھا جاتا ہے بلکہ حضرت عمرؓ نے بلال حبشیؓ کو ’’ہمارا آقا اور سردار‘‘ کے لقب سے پکارا اور صہیب رومی کی منقبت میں ’’نعم العبد صہیب‘‘ کہا، اور حضور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمانؓ کے بارے میں فرمایا: سلمان منا اہل البیت‘‘ کہ سلمان اہل بیت میں سے ہیں ‘‘۔

 اس طرح یہ ملت واحدہ اپنی صحیح تشکیلی آزمائش سے پوری طرح عہدہ بر آہوئی۔ جسے نبی کریمؐ نے ایک جسم سے مشابہت دی جس کے کسی ایک عضو میں اگر کوئی شکایت لاحق ہوتو سارا جسم بے خوابی اور بخار کا شکار ہوجاتا ہے۔ مسلمان خواہ دنیا کے کسی گوشے میں ہو اگر وہ اپنی برادری ملت مسلمہ کے کسی فرد کے بارے میں کچھ ناخوشگوار خبر سنتا ہے تو اس کی طبیعت بے قرار و بے چین ہوجاتی ہے اور جب تک کہ اس کا مسلمان بھائی اس تکلیف سے نجات حاصل نہیں کرلیتا اسے آرام نہیں آتا۔ تحریک خلافت میں مسلمانانِ عالم نے ترکی کے مسلمانوں کی مدد اور حمایت کیلئے جس جوش و خروش اور مالی معاونت میں جس خلوص کا مظاہرہ کیا وہ اب بھی اپنی مثال آپ ہے۔

(5 احترام امن عالم: پانچویں سب سے اہم خصوصیت احترام امن عالم ہے۔ جس میں ایسی ہر کوشش کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے جس سے معاشرے میں فساد اور خونریزی نہ پھیلے اور ہمسایہ ممالک سے تعلقات خوشگوار رہیں ۔ نیکی کو فروغ حاصل ہو اور بدی کو مٹایا جائے۔ بدی کو مغلوب کرنے کیلئے اگر طاقت کا استعمال بھی کرنا پڑا تو اس سے گریز نہ کیا جائے۔ ایسی ہر کوشش جہاد کا درجہ رکھے گی، جس سے امن عالم کو تقویت نصیب ہوگی اور دنیا جنگ کے خوفناک شعلوں سے محفوظ ہوگی۔ (جاری)

تبصرے بند ہیں۔