رمضان اور فضائل قرآن!

محمد انصارالحق قاسمی

حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا روایت کرتی ہیں کہ ’’قرآن کا ماہر، ان ملائکہ کے ساتھ ہے جو میر منشی ہیں اورنیک کارہیں اورجوشخص قرآن شریف کواٹکتاہواپڑھتاہے اور اس میں دقت اٹھاتاہے اس کو دوہرااجرہے‘‘۔رمضان المبارک کاقرآن کریم کے ساتھ باہمی ربط خداتعالی کی طرف سے ہے، آخری صحیفہ کاآخری رسول پر نازل ہوناہے کہ جس کے بعد نہ کوئی صحیفہ آئے گا اور نہ کوئی رسول۔ غورفرمائیے کہ اول توالہام ربانی ہی اپنے اندر کس قدر عظمت رکھتاہے کہ وہ کلام الہی ہے اورپھر کلام الہی بھی ایسا مکمل اورجامع کہ اس کے بعد کسی اورصحیفہ کی گنجائش اور ضرورت ہی نہیں رہی۔ اسی لئے قرآن مجید کارمضان میں نازل ہونا رمضان کے لئے باعث شرف وعظمت ہے۔ اورقرآن کریم کو رمضان سے خاص تعلق اورگہری خصوصیت ہے۔

رمضان میں قرآن کانازل ہونااورحضور ﷺ کا رمضان شریف میں تلاوت قرآن کا شغل نسبتاًزیادہ رکھنا اورجبرائیل علیہ السلام کا رمضان شریف میں دورکرانا ، تراویح میں ختم قرآن مسنون ہونااورصحابہ کرام علیہم اجمعین اور امت محمدیہ کارمضان میں تلاوت کا خاص اہتمام کرنایہ سب امور اسی خصوصیت کے حامل ہیں ۔لہذا اس مہینہ میں تلاو ت قرآن کے معمول کو بہ نسبت دوسرے معمولات ذکروشغل رہناچاہئے۔قرآن مجید کی تلاوت کو اس ماہ مبارک میں دوسرے معمولات پر غالب رکھیں ۔جس طرح صیام کارمضان سے خاص تعلق ہے اسی طرح قرآن کا رمضان اور ان دونوں عبادتوں میں ایک دوسرے کے ساتھ گہر اربط ونسبت ہے۔ دونوں عبادتیں روزہ اور قرآن کئی خاصیتوں میں مشترک ہیں ۔حدیث بنوی ﷺ میں مذکور ہے کہ روزہ اورقرآن دونوں قیامت کے دن شفاعت کریں گے۔ رورزہ کہے گا اے رب میں نے اس کو دن میں کھانے پینے سے بازرکھاتھا۔میری شفاعت اس کے حق میں قبول کیجئے اور قرآن کہے گاکہ میں نے اس کو رات کوجگایا تھااسلئے میری شفاعت قبول فرمائیے، پس دونوں کی شفاعت قبول کی جائے گی۔

تلاوت سے قرب خاص حاصل ہوتاہے اسی طرح روزہ میں بھی خاص تقرب الہی سایہ فگن ہوتاہے۔مگرنفس قرب خاص میں دونوں مشترک ہیں ۔انسان قرآن کی تلاوت کریگا توا س کا تعلق ذاتی طور سے خداسے جڑجائے گا۔تلاوت کے ساتھ قرآن کی اہمیت اورفوائد بھی اسکے دل میں موجزن ہوگی جو راغب وتقرب الی اﷲہوگا ، جب ہم تلاوت کرتے ہیں توگویااﷲ تعالی سے ہم کلام ہیں ۔ اس نے ماہ مقدس اوربرکت والامہینہبنایا ،اس کی طرف صائم کادل ودماغ خودبخودمنتقل ہوتاہے گرچہ قاری کلام اﷲ کوسمجھے یانہ سجھے اس کے ساتھ خاص محبت ہوگی اور اس کی طرف خاص عنایب مبذول ہوگی۔ کوئی قرآن کی تلاوت مضمون ،فصاحت وبلاغت اورتراجم کی وجہ سے پڑھ رہاہو،مقصود لذت ہے اور ایک بغیر سمجھے ہوئے تلاوت کرتاہوتوسوائے محبت کے اورکچھ نہیں ، قیمتی سرمایہ قرب خداوندی ہے،وہ کلام اﷲ کے سمجھنے پر موقوف نہیں ۔

اس کامطلب یہ نہیں کہ ہر شخص قرآن کو نافہمی میں پڑھے، صرف اﷲ تعالیٰ کی محبت اس کا باعث ہوسکتی ہے۔ لیکن کلام اﷲ کااصل نفع اس کے سمجھنے پر موقوف نہیں ہے۔حضرت امام احمد بن حنبل ؒ نے خواب میں اﷲ تعالی کودیکھااور عرض کیاکہ کونسا عمل ہے جو آپ سے زیادہ قریب کرنے والاہے۔ارشادہواوہ عمل تلاوت قرآن ہے، آپ نے پھرسوال کیاکہ سمجھے یابغیر سمجھے ، ارشادہوابفہم اوبلا فہم سمجھ کر ہو یابدوں سمجھ ہو،اصل اسرارورموز ہے وہ تلاوت قرآن ہے۔ جب بندہ تلاوت کرتاہے توحق تعالی شانہ خوش ہوتے ہیں ۔ایک نکتہ یہ بھی ہے انسان حق تعالیٰ کے عائد کردہ افعال بندہ من وعن نقل نہیں کرسکتا، لیکن تلاوت قرآن ایک ایسا عمل ہے کہ بندہ بالکل نقل کرتاہے۔جیسے اﷲ تعالیٰ کلام کررہے ہیں یہ بھی کررہاہے۔تلاوت کا طریقہ قراء حضرات نے جوتجوید کی ہے اس انداز سے پڑھیں ، تاکہ قرآن کے معانی ومطالب تبدیل نہ ہوسکیں ، اورپڑھنے کے وقت تصورکرے کہ ہم پڑھ رہے ہیں اوربات چیت اﷲ تعالیٰ سے ہورہی ہے،گویہ تجلی کلامی ایسی ہی ہورہی ہے جیسے کہ حضرت موسی ٰ علیہ السلام درخت سے کلام فرمارہے ہیں ،حقیقت میں کلام درخت کانہ تھا محض ایک واسطہ تھا۔ متکلم تو اﷲ سبحانہ تھے، اس طرح بندہ کی آواز سے اﷲ رب العزت کلام فرمارہے ہیں۔ اﷲ نے اپنے بندے کو اپنا خاص لبا س کلام پہنایا، گویاکہ بندے اﷲ کے خاص مصاحب ہیں کہ ان کو لباس کلام سے آراستہ فرمایاہے ، بڑے خوش قسمت ہیں وہ لوگ جن کے سینوں میں کلام اﷲ ہے۔

قرآن بہت بڑی دولت اسے پڑھو خواہ سمجھویانہ سمجھو۔یہی خصوصیت صائم کے ساتھ ہے اس میں حق سبحانہ کی صفتیں موجودہیں ۔چونکہ ذات باری کی شان ہے نہ کھانانہ پینا،نہ بی بی رکھنا اورصائم کی بھی ایام رمضان میں یہی حالت ہوتی ہے۔روزہ اورتلاوت دونوں میں فرق ہے، مگرنورانیت پیداکرنے میں برابرہے۔رسول اکرم ﷺ کو قرآن کے الفاظ کااس قدراہتمام تھاکہ اس رشتے کے ساتھ ساتھ پڑھنے کی مشقت اس اندیشہ سے برداشت فرماتے تھے کہ ان محبوب الفاظ میں سے کوئی لفظ میرے حافظہ میں سے نہ نکل جائے ،حتیٰ کہ حق شانہ ٗ نے منع فرمایا ،اورکہاکہ یہ قرآن میرے ذمہ ہے قرآن کو آپ کے دل پر جمادیں گے۔ اورحضرت جبرائیل کے ساتھ رمضان المبارک میں کئی دورسناتے تھے۔جب حضور ﷺ کو الفا ظ قرآن کا اس درجہ اہتمام تھاتوہمیں ان کا اہتمام کرناچاہئے ۔یہ ایک معجزہ ہے کہ معصوم بچہ نہایت سہولت سے حفظ کرتا ہے،آپ  ﷺ قرآن پڑھنے والوں سے محبت فرماتے تھے، علاوہ اسکااصل مقصود تمام طاعات سے قرب حق ہے ،اﷲ کے نزدیک اصل قرآن کے الفاظ ہیں اورمعانی اس کے تابع ہیں ، توالفاظ کو اﷲ تعالیٰ سے قرب زیادہ ہے۔

قرآن انسان صحیح تلفظ کے ساتھ پڑھے، علامہ جزری ؒ نے کہاکہ جو شخص قرآن کی تعلیم دیتاہے اوراس کی تجوید ٹھیک نہیں ہے ،تووہ گنہگاراوراس کی اجرت حرام ہے۔حدیث میں آتاہے کہ جوقرآن کو سیکھے اورسکھائے وہ سب سے بہترہے۔ دراصل قرآن دین کی اصل ہے اس کی حفاظت اوربقاء پر ہی دین کا مدارہے اس لئے اس کے سیکھنے اورسکھانے کاافضل ہوناظاہرہے۔قیامت کے دن اﷲ تعالی کہے گا تلاوت کرتاجااورجنت کے درجات کی طرف بڑھتاجا، یعنی قرآن جس طرح تودنیا میں ٹھہرٹھہرکے پڑھتاتھا، ایساہی پڑھ اورجنت کے اعلیٰ مقام پر چلاجا، ایک روایت میں ہے کہ قرآن کریم جتنی آیتیں ہیں اتناہی جنت کے درجات ہیں ، حافظ سے حکم ہوگاکہ تلاوت کرتاجااوراوراپنی جنت کے اعلیٰ مراتب تک پہنچتاجا۔اﷲ اکبر اتنابڑاانعام کسی اورذرائع سے حاصل نہیں ہوسکتی۔ حدیث قدسی ہے کہ جس حافظ کو دنیامیں تعلیم وتعلم اورقرآن پڑھنے کے سوافرصت نہیں ملتی کہ خداسے مانگے اورطلب رحمت کادامن پھیلائے ، ایسے شخص کی خواہش اورجائز امیدقدرت بغیرمانگے قبول فرمالیتاہے،اوروہ چیز اسے عطافرماتاہے۔ جس طرح کلام اﷲ کی بزرگی تمام صحیفوں اورکلاموں میں ایساہی ہے جیسے اﷲ تعالیٰ کی بزرگی تمام مخلوق پر ہے۔ اسی طرح اس حافظ کامرتبہ تمام انسانوں سے افضل اوربہترہے جو غیرحفاظ اورقرآن نہیں جانتے۔

جوشخص اﷲ کی کتاب ایک حرف پڑھے گا،اسکے واسطے ہر حرف پر ایک نیکی ہے اورہرنیکی دس نیکی کے برابرہے۔مطلب ہر حرف پر دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں ۔اس کامطلب یہ نہیں الم ایک حرف ہے ، بلکہ الف ایک حرف ہے ،لام ایک حرف ہے اورمیم ایک حرف ہے، گویاالم کہنے پر تیس نیکیاں لکھی جاتی ہیں ۔ہرحرف پر حق تعالیٰ شانہ کی طرف سے دس حصے اجر دینے کاوعدہ ہے۔اوریہ کم سے کم درجہ ہے اور جس کیلئے چاہتے ہیں اجر زیادہ بڑھادیتے ہیں ۔حدیث میں آتاہے کہ حافظ قرآن جس کو قرآن یاد ہوگااس قلب (دل) کو عذاب نہیں فرمائے گا جس میں کلام الہی محفوظ ہو۔حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی روایت ہے کہ حاملین قرآن (حفاظ)اﷲ تعالیٰ کے سایہ کے نیچے انبیاء اورولیوں کے ساتھ ہوں گے۔ جس شخص کے دل میں قرآن شریف کاٹکڑا محفوظ نہیں وہ ویران گھرکے مانند ہے، اس دل پرشیطان قابض ہوجاتاہے۔تلاوت قرآن سے دل تروتازہ اورزنگ ختم ہوتاہے،معاصی کی وجہ سے اﷲ کی یاد سے غفلت میں رہتاہے،کثرت تلاوت سے دل صاف اورمنورہوجاتاہے،اورجس جگہ اورمکان میں تلاوت کی جائے وہ مکانات بھی روشن اورچمکیلے ہوجاتے ہیں ۔

 فرمایانبی اکرم ﷺ نے کہ جس مکانات میں کلام پاک کی تلاوت کی جاتی ہیں ،وہ مکانات آسمان والوں کیلئے ایسے چمکتے ہیں جیساکہ زمین والوں کے لئے آسمان پر ستارے۔جس محفل میں یامقام پر قرآن کریم کی تلاوت ہوتی ہے اس جگہ کوفرشتے گھیرلیتے ہیں ،اوران پر سکینہ نازل فرماتے ہیں جوطمانت اوررحمت خاص ہے۔اگرکوئی قرآن کو نماز میں پڑھتاہے تواسے ہرحرف پر سونیکیاں ہیں ،جس نے بیٹھ کر(نفل) میں پڑھا اس کیلئے پچاس نیکیاں ہیں ، جس نے اس کو نماز سے باہر پڑھامع وضو ء اس کیلئے پچیس نیکیاں ہیں ،جس نے بلاوضوء پڑھا اس کیلئے دس نیکیاں ہیں اور جس نے سنا اس کیلئے ہر حرف کے بدلے ایک نیکی لکھی جاتی ہے۔ اس سے جائزہ لیاجاسکتاہے کہ تراویح میں قرآن کا پڑھنااورسنناکس قدرثواب عظیم اورفضیلب رکھتاہے۔جوقرآن پڑھے اوراس پر عمل کرے قیامت کے دن اس کو ایک تاج پہنایاجائے گاجونور سے بناہواہوگااور اس کے والدین کوایسے دوجوڑے پہنائے جائیں گے، تمام دنیا انکا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ وہ سوال کریں گے یہ جوڑے کس صلہ میں ہیں ۔ توارشادہوگاکہ تیرے بچے کے قرآن شریف پڑھنے کے عوض ہیں ۔اوراس کی روشنی آفتاب سے بھی زیادہ تیزہوگی۔

جوشخص اپنے بچے کو ناظرہ قرآن شریف سکھلادے اس کے سب اگلے اورپچھلے گناہ معاف ہوجاتے ہیں ۔اورجو شخص حفظ کرائے اس کوقیامت میں چودہویں رات کے چاند کے مشابہ اٹھایاجائے گا، اوراس کے لڑکے سے کہاجائے گاکہ قرآن پڑھناشروع کر، جب بیٹاایک آیت پڑھے گا، باپ کاایک درجہ بلند کیاجائے گا۔درجات کی بلندی مکمل قرآن شریف تک رہیگا،درجات بلند ہوتے جائیں گے۔

ختم قرآن پر جنت میں محلات تعمیر ہوتے ہیں ۔اگرکوئی تسبیح پڑھتاہے توفرشتے اس کیلئے جنت میں درخت لگاتے ہیں ۔ جب انسان قرآن ختم کرلے تواجتماعی یاانفرادی دعاء ضرور مانگے، اس وقت اﷲ کی رحمت نازل ہوتی ہے اوردعاء قبول ہوگی۔ یہ دعاء ضرور مانگے کہ اے اﷲاس قرآن کی برکت سے قبرمیں مجھے وحشت اورخوف سے دورفرما۔

تبصرے بند ہیں۔