اسلامی کلچر یا اسلامی ثقافت کیا ہے؟ (دوسری قسط)

 ترتیب:عبدالعزیز

 اسلامی ثقافت کو دنیا میں ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ اس کا آغاز محمد رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت مبارکہ کے ساتھ ہوتا ہے۔ اسلامی ثقافت و تہذیب و تمدن کی عمارت عقائد باطلہ پر نہیں بلکہ لا الٰہ الا اللہ پر استوار ہوئی۔ جس وقت اسلامی تہذیب و تمدن نے فروغ پایا اس وقت پورا یورپ وحشت و بربریت میں ڈوبا ہوا تھا۔ گرد و پیش کی دنیا میں عام پستی اور اخلاقی زوال کا دور دورہ تھا۔

رابرٹ بریفالٹ نے ’’تشکیل انسانیت‘‘ میں اسلامی ثقافت کے بارے میں لکھا ہے: ’’یہ صرف سائنس ہی نہیں جس سے یورپ کے اندر زندگی کی ایک لہر دوڑ گئی، بلکہ اسلامی تہذیب و تمدن کے اور بھی متعدد گوناگوں اثرات ہیں ۔ جن سے یورپ میں پہلے پہل زندگی نے آب و تاب حاصل کی۔ پھر اگر چہ مغربی تہذیب کا کوئی پہلو نہیں جس سے اسلامی تہذیب و ثقافت کے فیصلہ کن اثرات کا پتہ نہ چلے، لیکن اس کا سب سے بڑا روشن ثبوت اس طاقت کے ظہور سے ملتا ہے جو عصر حاضر کی مستقل اور نمایاں ترین قوت اور ا س کے غلبے اور کارفرمائی کا سب سے بڑا سرچشمہ ہے‘‘۔

  اسلام ہی وہ پہلا دین ہے جس نے مذہب کی صحیح حدود کو متعین کیا۔ اسے ذاتی ذوق سے نکال کر اجتماعی مقام عنایت کیا۔ فلسفے کو ایک نئی زندگی بخشی۔ تمام علوم و فنون کو یکجا کیا۔ اسلامی تہذیب و معاشرت کو بالکل بدل دیا۔ اسلام نے جغرافیائی حدود کو توڑ کر ایک ملت میں گم ہوجانے کا درس دیا۔ مرلین لکھتا ہے: یہ اسلام کی عالمگیر انسان دوستی کا نتیجہ تھا کہ قدم قدم پر اسے کامیابی ہوتی گئی اور جس کسی نے اسے قبول کیا۔ اس کے دل پر اسلام کا سکہ بیٹھ گیا۔ اس نے غریبوں اور مظلوموں کو نجات دلائی۔ ان رکاوٹوں کو مسمار کیا جو انسانی ترقی کی راہ میں حائل تھیں ۔ حیات انسانی کو آشنائے مقصد بنایا اور دلوں میں وقار اور احترام پیدا کر دیا۔ جہاں جہاں سے اسلام پہنچا وہاں فرد کی قدر و منزلت پہنچائی گئی اور ایک لازوال خود داری کا جذبہ لے کر انسان سنبھل کر کھڑا ہوا‘‘۔

 اسلام نے نظریۂ توحید، رسالت،فرشتوں اور یوم آخرت پر سیر حاصل روشنی ڈالی ہے۔ تصورِ زندگی پر دیگر مذاہب کی نسبت انسان کو واقفیت دلائی ہے۔

ہر انسانی تہذیب و ثقافت کسی نہ کسی عقیدہ پر مبنی ہوتی ہے۔ اسلام کے علاوہ دیگر تہذیبوں میں اوہام باطلہ کی ایک کثیر تعداد ایمان میں شامل ہے۔ ایسے ایمان میں قوم پرستی، شخصیت پرستی، قانون پرستی، نفس پرستی وغیرہ شامل ہیں ۔ وحدانیت کو ان تہذیبوں نے فراموش کردیا۔ عیسائیوں نے حضرت مریم علیہا السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا قرار دیا۔ ہندوؤں نے رام لکشمن کو نجات دہندہ بنالیا۔ گنگا کے پانی کو مقدس سمجھ کر پرستش شروع کردی۔ بدھ مت رحمان اور رحیم کے نام سے واقف نہ ہوسکے۔ فرشتوں کو ایک گروہ نے خدا کا بیٹا کہا۔ دوسرے گروہ نے رسولوں کو خدا بنا دیا۔ عیسائیوں نے یہودیوں پر کیچڑ اچھالا۔ یہودیوں نے عیسائیوں کو گمراہ قرار دیا۔

 لیکن اسلام نے ان میں فرق و امتیاز رکھا۔ رسول خدا کے عاجز بندے ہیں ۔ ان کا عنایت کردہ پیغام صحیح اور سچا ہوتا ہے۔ رسولوں کا سلسلہ حضرت آدمؑ سے شروع ہوا اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوا۔ فرشتے اللہ کی مقرب مخلوق ہیں ۔ وہ اللہ کی حمد و تسبیح کرتے ہیں ۔ ان سے زیادہ اسلام ان کو کوئی اہمیت نہیں دیتا۔

 رسول تہذیب و تمدن کا منبع اور مصدر ہوتا ہے۔خدا کے رسول کے مقرر کردہ اصول آفاقی اور مبنی بر حقیقت ہوتے ہیں ۔ محمد رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس چیز کو کفر اور باطل قرار دیا ہے وہ ہمیشہ کیلئے کفر اور باطل ہے جسے اسلام اور حق کہا وہ ابد تک اسلام اور حق ہے۔ اسی ٹھوس بنیاد پر اسلامی تہذیب و تمدن کی عظیم الشان عمارت تعمیر ہوئی۔

 احسن الحدیث کتاب اللہ، احسن الہدیٰ، ہدایۃ محمد صلی اللہ علیہ وسلم

 قیامت کے بارے میں بتایا کہ ہر کارخانۂ حیات نیست و نابود ہوجائے گا۔ عدالت پروردگار قائم ہوگی افعال کے حقیقی نتائج مرتب ہوں گے جو عدل و انصاف کے مطابق ہیں ۔

اسلام کا تصور زندگی دیگر اقوام سے سے جدا ہے۔ افراط و تفریط میں میانہ رو ہے۔ اسلام انسان کو نہ تو کلی مختار قرار دے کر متکبر ہونے کی اجازت دیتا ہے۔ کائنات کی ہر شے خدائے بزرگ و برتر کی ہے اور اس کے تصرف کے بارے میں انسان اللہ کے سامنے جواب دہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے چند حدود و قیود کے دائرے میں رہ کر اشیاء کو تصرف میں لائے۔ اگر اس نے ذرہ بھر بھی فرمودات خداوندی سے سر مو انحراف کیا تو سزا کا مستحق قرار پائے گا۔ انسان کے ہر ارادے اور فعل کا مقصد رضائے الٰہی ہے۔ اسلام کی رو سے ہر ثقافتی فعل، خیال، ارادہ، زندگی، موت، کھانا پینا، اٹھنا بیٹھنا، رہنا سہنا، معاملات و معاشرت، دوستی اور دشمنی صرف اللہ کیلئے ہوتی ہے۔ جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ علیہم اجمعین کی حیاتِ مبارکہ کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کا وجود صرف خوشنودی اللہ کیلئے تھا۔ وہ اپنے جسم مبارک کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے۔

 اسلام نے انسان کو معاشرتی زندگی بہتر طور پر گزارنے کا درس دیا ہے۔ اسلامی اصولوں کی رو سے ایک مثالی معاشرہ معرض وجود میں آتا ہے۔ اسلام نے صفائی ستھرائی کو نصف ایمان قرار دیا ہے۔ چوری، غیبت، ڈاکہ زنی۔ گلہ اور حرام خوری کی اسلام نے سخت مخالفت کی ہے۔ ان برائیوں کے خاتمے سے دنیا کی بہترین ثقافت بن جاتی ہے۔ اسلام نے صفائی ستھرائی کو نصف ایمان کی شرط قرار دے کر ایک صاف ستھری ثقافت کی بنیاد رکھی ہے۔

 اسلام نے جہاں انفرادیت پر زور دیا ہے وہاں ملت یا معاشرہ کا پابند بھی ٹھہرایا ہے۔ اطاعت امیر اور پابندی شریعت سے مسلمان ملت سے وابستہ رہ کر اس کے استحکام اور قوت کا باعث بنتا ہے۔ فرمایا گیا: ’’اگر تم پر کوئی ایسا حبشی غلام بھی جس کا سر منقیّٰ کی طرح چھوٹا ہو امیر بنا دیا جائے تو جب تک وہ حکومت کتاب اللہ کے مطابق چلائے اس کو سمع و اطاعت کرتے رہو‘‘۔

اسی طرح اسلام نے ملت کے ساتھ وابستہ رہنے کی تلقین کی۔ گویا اسلامی ثقافت کی ابتدا کلمہ طیبہ سے ہوئی۔ اس کا اقتدار اللہ اکبر کے سائے میں اور انجام اطاعت امیر پر ہوا۔ اس سے دنیا کو نئی تہذیب ملی۔ نیا تمدن ملا۔ نیا نظام حیات ملا۔

اور یوں عرب کے ریگ زاروں میں پرورش پانے والی یہ ثقافت صرف ایک صدی میں سماٹرا سے پیرس تک پہنچ گئی۔                  (جاری)

تبصرے بند ہیں۔