اسلام میں بچوں کے حقوق

سہیل بشیر کار

اسلام کا یہ امتیاز ہے کہ اس نے لوگوں میں نہ صرف حقوق کا تصور پیدا کیا بلکہ اس کے لیے عملی چارٹر بھی دیا۔ 1400 سال پہلے بچوں کے حقوق پر وضاحت سے بات کرنا معمولی کارنامہ نہیں، اس سلسلے میں اسلام کی تعلیمات نہ صرف وسیع ہے بلکہ عملی رہنمائی بھی ملتی ہے۔ جس کے  معاشرہ پر مثبت اثرات پڑے۔ اسلام میں بچوں کے حقوق جاننے کے لیے محقق عالم دین مولانا سلطان احمد اصلاحی (م 2016 ء) نے 198 صفحات پر مشتمل کتاب "اسلام میں بچوں کے حقوق” تحریر کی۔ مولانا سلطان احمد اصلاحی  اگرچہ روایتی مدرسے سے فارغ ہیں لیکن انہوں نے ہمیشہ نادر موضوعات پر قلم اٹھایا، ‘مشترکہ خاندانی نظام اور اسلام’، ‘پردیس کی زندگی اور اسلام’، ‘بچوں کی مزدوری اور اسلام’، ‘آزادی فکر و نظر اور اسلام’، ‘شہریت پسندی کا رجحان اور اسلام’، ‘مسلم اقلیتوں کا مطلوبہ کردار’، ‘سول لائن ایک جائزہ’، ‘پانی کا مسئلہ اور اسلام’، ‘اسلام کا نظریہ جنس’ وغیرہ۔ ان میں سے کچھ موضوعات ایسے ہیں جن پر پہلی بار اردو زبان میں کچھ لکھا گیا ہے، مولانا سلطان احمد اصلاحی کی کتابیں ہمیشہ تحقیق سے مملو ہوتی تھی لیکن زبان کی چاشنی کی وجہ  سے کبھی بھی کتاب سے بوریت محسوس نہیں ہوتی ہے۔ ان کا جدید علوم پر کافی دسترس تھا، جوکہ ان کی تحریروں میں دیکھا جا سکتا ہے، آپ original thinker تھے، روایتی علوم پر دسترس ہونے کے باوجود آپ کو موجودہ مسائل پر ادراک تھا؛ اس سلسلے میں انہوں نے ان مسائل کا حل بھی بتایا، وہ جو بات حق سمجھتے ہیں اس کو کہہ دیتے تھے، کبھی بھی مصلحت سے کام نہیں لیا,ان کے قریبی دوست اور مشہور عالم دین ڈاکٹر غلام قادر لون صاحب ان کے بارے میں لکھتے ہیں "آپ کی شرکت علمی مجالس کی کامیابی کی ضمانت سمجھی جاتی ہے، اپنی مادری زبان اردو کے علاوہ مصنف عربی، فارسی، انگریزی، اور ہندی زبانوں میں درک رکھتے ہیں، ان کی تحریروں میں قدماء کے استناد اور جدید اسلوب کا حسین امتزاج ملتا ہے، قرآن و سنت، آثار صحابہ، اقوال سلف اور فقہاء کی ژرف بینی سے بے نظیر واقفیت اور جدید علمی و سماجی نظریات سے لائق تحسین آگاہی نے ان کی تحریروں میں جو جامیعت پیدا کی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے، سماجیات اور اسلامیات کے متنوع موضوعات پر مصنف نے جس انقلابی اور اجتہادی رنگ کے ساتھ قلم اٹھایا ہے؛ وہ انھیں کا حصہ ہے۔ "

    بچوں کے حقوق پر آجکل بہت بات کی جاتی ہے، سلسلے میں مولانا نے ‘اسلام میں بچوں کے حقوق "جاننے کے لیے اپنی علمی کتاب کو تین ابواب میں تقسیم کیا ہے،یہ کتاب مولانا کے زیر ادارت سہہ ماہی’ علم و ادب’ علی گڑھ میں شائع شدہ مضامین کا مجموعہ ہے، کتاب کے دیباچہ میں مولانا لکھتے ہیں:” معاصر دنیا میں طبقہ اطفال جو محرومیوں کا شکار ہے تو بنیادی طور پر اس کے تین اسباب ہیں 1،غربت و افلاس 2،شعور کی کمی اور 3 صحیح رہنمائی کا فقدان۔” (صفحہ 9)پہلے باب میں مصنف نے معاصر دنیا میں بچوں کی صورتحال پر علمی جائزہ لیا ہے، اس باب میں مصنف کی کوشش رہی ہے کہ تمام اطراف و جوانب کا احاطہ کیا جائے، جہاں انہوں نے ان موضوعات جیسے بچہ مزدوری، بچوں کا جنسی استحصال، تعلیم سے محرومی، قلت غذا، جیسے موضوعات کا جائزہ لیا ہے جن پر آجکل بولا جاتا ہے؛ وہی مصنف نے قارئین کے سامنے ان مسائل کا بھی جائزہ لیا ہے جن پر عام طور پر بات نہیں کی جاتی جیسے شفقت کی کمی، مشترکہ خاندان میں بچوں کے مسائل، اصول تربیت سے والدین کی نا آشنائی، آرام پرستی، موٹا پن وغیرہ۔ لکھتے ہیں : "دنیا کے رائج دستور کے تحت وہ صرف بچوں کے ماں باپ بن گیے ہیں، اولاد کی نسبت سے بحیثیت ماں باپ کے ان کے فرائض اور ذمہ داریاں ہیں۔ ”  آگے لکھتے ہیں:” اس کی ایک ذمہ داری علماء کرام اور مبلغین کے سر آتی ہے، وہ اپنے خطبوں اور تقریروں میں غیر ضروری جزئیات اور دینیات کے لاطائل مباحث اور اخلاقیات پر تو غیر معمولی زور صرف کرتے ہیں بلکہ اکثر و بیشتر ان کی تقرریں اور گفتگوئیں انہی موضوعات کے گرد گھومتی ہیں، لیکن زندگی کے جو روزمرہ کے مسائل ہیں اور قرآن و سنت کی وہی اصل ترجیحات ہیں ان کے سلسلے میں وہ عوام کی رہنمائی اور ان کی ذہن سازی کا کام بہت کم کر پاتے ہیں؛اس میں بڑا دخل ان کی ناقص دینی تعلیم اور اس کی بگڑی ہوئی ترجیحات کا ہے۔ "(صفحہ 27)، مصنف کی کتاب میں اعتدال ہے۔ وہ ہر پہلو کا الگ الگ جائزہ لیتے ہیں، تعلیم میں غیر ضروری سختی کے تحت وہ ہر قسم کے والدین کا جائزہ لیتے ہیں ان والدین کا بھی جو خود پڑھے لکھے نہیں لیکن دیگر لوگوں کو دیکھ کر وہ اپنی اولاد کو پڑھانے کے شوق میں ان پر بے جا تشدد کرتے ہیں، وہ یہ دیکھتے کہ میرے بچے کا آئی۔ کیو لیول کیا ہوگا، پڑھے لکھے مالدار اور خوش حال والدین کے یہاں اس سختی کا دوسرا رنگ ہے؛ لکھتے ہیں: "پہلی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے ہر لڑکے لڑکی کلاس میں فرسٹ ڈویزن اور فسٹ پوزیشن آئے۔۔۔۔۔۔ اس مخصوص طبقے میں ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ بچے کے کم نمبر آنے پر باپ بے ہوش ہو جاتے ہیں۔” (صفحہ 43)

    مصنف پہلے ہر مسئلہ کے تہہ تک جاتے ہیں۔  مسئلے کے ہر پہلو کا جائزہ لیتے ہیں اور آخر میں حل دیتے ہیں، وہ حل جو عملی ہوتا ہے، مصنف نے جہاں غریب بچوں کے مسائل پر کھل کر لکھا ہے وہیں خوش حال بچوں کے مسائل پر بھی تفصیلی گفتگو کی ہے، مثلا آرام پسندی، موٹاپا،بے راہ روی۔ والدین کی لاپرواہی کے تحت وہ لکھتے ہیں: "آج کے حالات میں مسلم سوسائٹی میں بھی ذمہ دار باپ کی علامت اسے سمجھا جا تا ہے کہ کہ وہ اپنے بچوں کی مالی ضروریات، جوتے، کپڑے اور کتابوں کی بہتر صورت میں فراہمی کے علاوہ  اچھی کوچنگ اور میعاری ٹیوشن کا انتظام کرے، گھر کی آسائشوں کا اس کو پہلے سے خیال ہو، ذاتی مکان میں اس نے ان کا پہلے بندوبست کیا ہو تو یہ آج کے زمانہ کا فکر مند باپ ہے۔۔۔۔۔ بدلے میں اس کو بچے کا اچھا نمبر اور اونچی پوزیشن چاہیے اس کے علاوہ بچوں کی دینی حالت اور اخلاقی حالت کیا ہے؟  ماں  نمازوں کی کتنی پابند ہے اور دیگر فرائضِ کی ادائیگی کا کیا حال ہے۔ بسا اوقات دیندار اور دین پسند والدین کو بھی اس کی فکر نہیں ہوتی۔ "(صفحہ 58)ہمارے معاشرے میں جب یتیم پر بات کی جاتی ہے تو اکثر ان ہی بچوں کا تذکرہ کیا جاتا ہے جن کے باپ انتقال کر گئے ہیں وہ بچے جن کی ماں نہیں ہوتی ان کے بارے میں بہت کم لکھا جاتا ہے، مصنف اس سلسلے میں ان بچوں کے بارے میں بھی عملی اقدامات کی طرف توجہ دلاتے ہیں لکھتے ہیں: "بسا اوقات ماں کے مر جانے کے بعد خاص طور پر اس صورت میں جبکہ باپ دوسری شادی کر لے، وہ اپنی پچھلی بیوی کی اولاد سے لا پرواہ ہو جاتا ہے، مسلمان معاشرے میں بھی یہ کمزوری عام ہوتی ہے، اس لیے حقیقت یہ ہے کہ باپ کی موجودگی کے سبب اس طرح کے بچے چاہے اصطلاح میں ‘یتیم’ قرار نہ پائیں، لیکن حقوق کی پامالی اور نظر انداز کیے جانے کے سبب ان کو بے سہارا یقیناً تسلیم کیا جانا چاہیے، اور قریبی عزیزوں اور رشتہ داروں کے علاوہ مسلمان معاشرے کو بھی ان کا خصوصی دھیان رکھنا چاہیے، باپ کے اوپر تو ان کا دباو بنانا ہی چاہیے کہ وہ انصاف سے کام لے اور اپنے اوپر واجب کفالت سے تغافل نہ برتے۔ "(صفحہ 60)

    کتاب کے دوسرے باب کا عنوان ہے "اسلام میں بچوں کے حقوق”، مصنف نے خوبصورتی سے اسلام کی ان تعلیمات کو یکجا کیا ہے جو پیدائش سے پہلے ہی بندے کو سکھائی گئی ہے، قرآن و حدیث کی روشنی میں مصنف نے بچوں کے حقوق کو مختلف عنوانات کے تحت بیان کیا ہے مثلا اذان اور اقامت، تحنیک، سر کے بال اتروانا، نام رکھنا، عقیقہ، ختنہ،ناک اور کان چھیدنا، رضاعت، ماں کی عدم موجودگی میں بچے کی پرورش، تعلیم کا اہتمام، تربیت کیسے، احکام شرع کی پابندی، بچوں کی جلد از جلد شادی وغیرہ، فہرست سے ہی اندازہ ہوتا ہے کہ مصنف نے ہر بات کی طرف توجہ دلائی ہے، مصنف نے ہر پہلو کا باریکی سے جائزہ لیا ہے،، ایک جگہ لکھتے ہیں: "زمانے کی ترقی اور حالات کے فرق سے جیسا کہ گزرا، تعلیم میں مارپٹائی کا سلسلہ تو کم ہوا لیکن دوسرے پہلو سے تعلیم کی ناہمواریاں ہنوز برقرار ہیں، جن کو فوری طور پر ختم کرنے کی ضرورت ہے، سب سے پہلے والدین کے ذہن کی اصلاح کی ضرورت ہے کہ جو اکثر و بیشتر اولاد سے تعلیم میں ناجائز توقعات وابستہ کرتے ہیں اور جب بچہ ان کے توقع پر پورا نہیں اترتا تو خود پریشان ہوتے ہیں اور بچے کو مایوسی کی طرف دھکیل دیتے ہیں۔ "(صفحہ 124) مصنف سمجھاتے ہے کہ ہر بچہ کا I۔ Qلیول الگ ہوتا ہے اسی طرح مصنف سمجھاتے ہیں کہ "دوسرا مسئلہ نصاب کے بوجھل پن کا ہے؛ اس کو بھی فوری طور پر ہلکا کرنے اور سہل اور فطری بنانے کی ضرورت ہے، تربیت کے حوالے سے انہوں نے قرآن کریم کی خوبصورت آیات سے استدلال کرکے بتایا کہ کہ کس طرح اللہ کے پیغمبروں اور نیک بندوں نے اپنے بچوں کی تربیت کی۔” (صفحہ 131)،بچوں کے حقوق کے سلسلے میں وہ لڑکے اور لڑکی دونوں کی جلد شادی کا اہتمام پر ضرور دیتے ہیں، لکھتے ہیں :”قرآن میں اس کا واضح حکم ہے اور احادیث میں بھی اس کی غیر معمولی فضیلت بیان کی گئی ہے لیکن مسلم معاشرے میں اس وقت اس سلسلے میں بڑی غفلت اور بے حسی پائی جاتی ہے، یہ طے کیا گیا ہے کہ پڑھائی کے بعد جب تک لڑکا خوب کما نہ لے اور اپنا بنک بیلنس درست نہ کر لے؛ اس کی شادی نہ کی جائے۔ شہری زندگی میں لڑکیوں کے معاملے میں بھی اس کا رواج عام ہو گیا ہے کہ پڑھائی کے بعد وہ برسوں کماتی ہیں اور اپنے جہیز کا قابل لحاظ انتظام کرتی ہیں تب کہیں اس کا ہاتھ پیلا کیے جانے کی نوبت آتی ہے۔ "(صفحہ 163)مصنف مزید لکھتے ہیں دیکھا جاتا ہے کہ خوشحال والدین بھی اس سلسلے میں پہل نہیں کرتے،” ساٹھ سال کے باپ کا خود یہ حال ہے کہ بیوی کے بغیر وہ دو دن بھی اکیلے نہیں رہ سکتا، لیکن اپنی جوان اولاد کے سلسلے میں وہ بالکل بے حس رہتا ہے جیسے ابھی اس کا کوئی مسئلہ ہی نہیں۔” (صفحہ 164)

    کتاب کا تیسرا باب معاشرہ کے کمزور بچوں کے مسائل اور ان کے حل کو ایڈرس کرتا ہے، مصنف نے اپنے تیسرے باب کا عنوان "یتیم اور بے سہارا بچے اور ان کے مسائل کا حل” باندھا ہے۔ اس سلسلے میں قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں جو تاکید کی گئ ہے مصنف اس کو بیان کرتے ہیں، مصنف نے سماج کے ان کمزور بچوں کو اوپر اٹھانے کی عملی تدابیر بھی بتائی ہیں۔  باب کے آخر میں وہ ماہرین کو دعوت دیتے ہیں کہ” وہ لاوارث اور متروک بچے کے مسئلے میں سیکولر قانون کی دفعات کو سامنے لائیں، اور اس کے حق  میں اگر اسلام کی برتری ثابت ہوتی ہے تو کھلے دل سے اس کا اعتراف کرتے ہوئے آخری محمدی شریعت کا اقرار کرکے اپنی دنیا اور آخرت کی کامیابی کا سامان کریں۔”

    کتاب کی چند باتوں سے اختلاف کی گنجائش ہے، چونکہ مصنف مشترکہ خاندان کے سخت مخالف رہے ہیں، اس سلسلے میں وہ مشرکہ خاندان کو بچوں کی مشکلات و مصائب سمجھتے ہیں لیکن راقم کا ماننا ہے کہ مشترکہ خاندان سے بچے کو نقصان کم اور فائدہ زیادہ ملتا ہے، آج کل جو بڑے مسائل ہیں، اس کی بنیادی وجہ نیوکلیر فیملی ہے۔ اس سلسلے میں مصنف نے جو عنوان باندھا ہے وہ "مشترکہ خاندان کی آفتیں” میرے نزدیک صحیح نہیں ہے اس کے باوجود مصنف کے پاس دلائل ہے، کتاب میں کثرت سے حوالہ جات ملتے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ مصنف نے کتاب تیار کرنے میں کس قدر محنت کی ہے، رب العزت یہ کتاب مصنف کے لیے توشہ اخرت بنائے اور عالم انسانیت کو مولانا کی تحریروں سے فیض اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے۔

زیر تبصرہ کتاب کو ادارہ ‘علم و ادب’ علی گڑھ نے شائع کیا ہے۔ فون نمبر 9412671881  پر رابطہ کرکے کتاب حاصل کی جا سکتی ہے۔

   مبصر کا رابطہ نمبر : 9906653927

تبصرے بند ہیں۔