اسلام میں عورتوں کے دستوری حقوق (2/2)

عورتوں کے دستوری حقوق
اسلامی شریعت نے حقوق و واجبات میں مرد اور عورت کو مساوی درجہ دیا ہے۔ ہر ایک کے دوسرے پر کچھ حقوق ہیں جنہیں لینے کااسے استحقاق ہے، اسی طرح ہر ایک کی دوسرے کے تئیں کچھ ذمہ داریاں اور فرائض بھی ہیں جن کی بے کم و کاست ادائیگی پر کسی مستحکم معاشرہ کی بنیادیں استوار ہوسکتی ہیں۔
مرد و عورت کے مساوی حقوق میں سے ایک یہ ہے کہ دونوں کو عدالتی چارہ جوئی،  شکایتوں کے دستوری مرافعہ اور اپنے دعوؤں اور مقدمات کی قانونی پیروی کاحق حاصل ہے۔ دینِ فطرت نے عورت کو اس بات کی تعلیم دی ہے کہ ظلم و زیادتی یا ناحق امتیازی سلوک کا شکار ہونے پر وہ کس طرح اپنے حقوق کا مطالبہ کر سکتی ہے۔ ذیل میں عورت کے اہم دستوری حقوق کی نشاندہی کی گئی ہے:
(1) حقِ مراجعتِ قضاء:
بکثرت شرعی نصوص سے ثابت ہے کہ عورت اپنی شکایت کو قاضئ وقت کے سامنے پیش کر سکتی ہے۔  یہ چیز اس کی شخصیت میں کسی عیب یا نقص اور اس کے خاندان کے لیے کسی طرح کی بے عزتی کا باعث نہیں ہے، بلکہ اس کے بر عکس جب عورت اپنی شکایت قاضی کے سامنے پیش کرتی ہے تواس وقت وہ اپنے اس حق کا مطالبہ کرتی ہے جو شرعِ حنیف نے اسے عطا کیا ہے اور جس کی تاکید و تائیداسلام بحیثیت نظامِ حیات کرتا ہے۔ علاوہ ازیں اس میں استحسان کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ایسی خاتون اپنے ملک کے لادینی نظامِ عدالت کو چھوڑ کر اسلامی نہج پر اپنی مشکلات و مسائل کو حل کرانا چاہتی ہے اور یہ بذاتِ خود ایک قابلِ تعریف اقدام ہے۔ حضرت ابنِ عباسؓ کی روایت ہے کہ حضرت ثابتؓ بن قیس کی اہلیہ،  اللہ کے رسولﷺ کے پاس آئیں اور کہنے لگیں: یارسول اللہﷺمیں نے ثابتؓ بن قیس میں دین و اخلاق کی کوئی کمی نہیں پائی، لیکن مسلمان ہوتے ہوئے میں کفرانِ نعمت کروں ایسا میں نہیں چاہتی۔ آپﷺ نے کہا:کیا تم اس کا باغ واپس کردوگی؟اس نے کہا:ٹھیک ہے میں رضامند ہوں، تب آپﷺ نے (ان کے شوہر حضرت ثابتؓ سے )کہا:باغ لے لو اور اس کو ایک طلاق دیدو۔ ‘‘[أنّ امرأۃ ثابت بن قیس أتت النبیﷺ فقالت: یا رسول اللہﷺ…! ثابت بن قیس ما اعتب علیہ فی خلق ولا دین،  ولٰکنّی اکرہ الکفر في الاسلام،  فقالﷺ: أتردّین علیہ حدیقتہ،  قالت: نعم،  قالﷺ: أقبل الحدیقۃ وطلّقہا تطلیقۃ](صحیح بخاریؒ :5273۔ سنن نسائیؒ :3463۔ سنن ابن ماجہؒ :2056)
یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ عورت شرعی قاضی کے سامنے اپنے مسائل پیش کر سکتی ہے۔  حضرت ثابتؓ کی بیوی۔  جن کا نام حضرت حبیبہؓ بنت سہل تھا۔ کو اپنے متعلق ایسا اندیشہ تھا کہ وہ اپنے شوہر کے حقوقِ زوجیت کما حقہ ادا نہ کر سکیں گی،  جس کی وجہ سے ان کی خانگی زندگی کامیاب نہیں ہو پائے گی۔ کافی غور و خوض کے بعد انہوں نے اس قضیہ کو بارگاہِ رسالت میں پیش کر دیا۔  آپﷺنے ان کے اس انداز پر بلا کسی سرزنش و نکیر کے یہ فیصلہ دیا کہ وہ اپنی مہر لوٹا دیں اور بدلے میں انہیں طلاق حاصل ہو جائے گی۔
یہی واقعہ حضرت عائشہؓ کی روایت میں اس طرح سے آیا ہے:ایک مرتبہ حضرت ثابتؓ بن قیس نے اپنی اہلیہ حبیبہؓ بنت سہل کو اس قدر مارا کہ کسی عضو کو توڑ دیا، وہ فجر کے بعد آپﷺ کے پاس آئیں اور ثابتؓ کی شکایت کی،   آپﷺ نے ان کو بلا بھیجا اور کہا:کچھ مال لے کر انہیں چھوڑدو۔  حضرت ثابتؓ نے کہا:کیا اس طرح کرنا درست ہے؟آپ ﷺنے کہا:ہاں۔ حضرت ثابتؓ نے کہا:میں نے ان کو مہر میں دو باغ دیئے تھے جو ان کے پاس ہیں۔  آپﷺ نے فرمایا:انہیں لے لو اور اپنی بیوی کو چھوڑ دو۔  حضرت ثابتؓ نے ایسا ہی کیا۔ ‘‘[ان حبیبۃؓ بنت سہل کانت عند ثابتؓ بن قیس بن شماس،  فضربہا،  فکسر بعضہا،  فأتت رسول اللہﷺ بعد الصبح،  فاشتکت الیہ،  فدعا النّبیﷺ ثابتاً،  فقال: خذ بعض مالہا وفارقہا،  فقال: ویصلح ذالک یا رسول اللہﷺ! قال: نعم،  قال: فانّی اصدقتہا حدیقتین وھما بیدھا،  فقال النّبیﷺ: وخذھما وفارقھا،  ففعل](سنن ابی داؤدؒ :2228)
عورتوں کے دستوری حقوق کی مشروعیت میں مذکورہ بالا حدیث سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ حضرت عائشہؓ ہی سے ایک اور واقعہ بھی مروی ہے کہ:ایک نوجوان لڑکی آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا : یا رسول اللہﷺ! میرے والد جوکہ بہت اچھے باپ ہیں، لیکن انہوں نے اپنے ایک گمنام بھتیجے کو معزز بنانے کے لیے میری شادی اس کے ساتھ کر دی ہے(اور میری رضامندی کا خیال نہیں کیا)۔ آپﷺ نے (نکاح کے فسخ و بقاکا)کُلّی اختیار اس کے ہاتھ میں دے دیا۔ تب اس نے کہا:میں اپنے والد کے فعل کو باقی رکھتی ہوں، دراصل اس استفسار سے میرا مقصود یہ تھا کہ خواتین جان جائیں کہ والدین کو ایسے معاملے میں کوئی(اجباری) حق حاصل نہیں ہے۔ ‘‘[جاء ت فتاۃ الی النّبیﷺ فقالت: یا رسول اللہﷺ! انّ أبی۔  و نعم الأب ھو۔  زوّجنی ابن أخیہ لیرفع بی خسیستہ،  قال: فجعل الأمر الیھا،  فقالت: انّی قد أجزت ما صنع أبی،  ولٰکنّی أردت ان تعلم النّساء أنّ لیس الی الآباء من الأمر شیءٌ](مسند احمدؒ :25087۔ سنن نسائیؒ ؒ :3269۔ سنن دارقطنیؒ :3555۔ سنن ابن ماجہؒ :1874) اس دانشمند لڑکی نے اپنے اعتراض کے ذریعے رہتی دنیا تک کے لیے ایک شرعی قاعدہ کی عملی وضاحت کر دی کہ شادی جیسا اہم معاملہ عورت کی رضامندی کے بغیر دینی اعتبار نہیں پاسکتا۔ اور نہ ہی والدین کو یہ حق پہونچتا کہ وہ اپنی بچیوں کو زبردستی نکاح پر مجبور کریں۔
خواتین کے دستوری حقوق کا اثبات اللہ کے رسول ﷺکے اس قول سے بھی ہوتا ہے:آلِ محمدﷺ کے گھر بہت ساری ایسی عورتیںآئیں جن کو اپنے شوہروں سے شکایت ہے۔ تمہارے بہترین لوگ ایسے شوہر نہیں ہو سکتے۔ ‘‘[لقد طاف بآل محمد نساء کثیر یشکون أزواجہن،  لیس اولٰئک بخیارکم](سنن ابوداؤدؒ مع تصحیحِ البانیؒ :2164۔ مستدرک حاکمؒ :2765)دوسری روایت میں ہے کہ تم ایسے شوہروں کواپنے اچھے لوگوں میں نہیں پاؤ گے۔ ‘‘[فلا تجدون اولٰئک خیارکم](سنن نسائی:9122۔ سنن ابن ماجہؒ :1985) حضرت ہندؓبنت عتبہ کی حدیث بھی اسی امر سے متعلق ہے۔ فتحِ مکہ کے بعد اللہ کے رسولﷺسے بیعت کرتے ہوئے انہوں نے پوچھا تھاکہ:میرے شوہرحضرت ابو سفیانؓ کم خرچ کرنے والے آدمی ہیں، کیا میں چھپ کر ان کے مال میں سے کچھ لے سکتی ہوں؟آپﷺ نے فرمایا:بھلائی کے ساتھ جتناتمہیں اور تمہاری اولاد کو کفایت کرے، اتنا لے لیا کرو۔  ‘‘[قالت :انّ ابا سفیان رجلٌ شحیحٌ،  فھل علیّ حرج أن آخذ من مالہ سراً؟ قال: خذی أنت وبنوک ما یکفیک بالمعروف](صحیح بخاریؒ :2211۔ صحیح مسلمؒ :4574)
نیزارشادِ باری ہے: (وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْْنِہِمَا فَابْعَثُواْ حَکَماً مِّنْ أَہْلِہِ وَحَکَماً مِّنْ أَہْلِہَا إِن یُرِیْدَا إِصْلاَحاً یُوَفِّقِ اللّہُ بَیْْنَہُمَا إِنَّ اللّہَ کَانَ عَلِیْماً خَبِیْراً)(النساء،  35)’’اور اگر تم لوگوں کو کہیں میاں اور بیوی کے تعلقات بگڑ جانے کا اندیشہ ہوتو ایک حَکَم مرد کے رشتہ داروں میں سے اور ایک عورت کے رشتہ داروں میں سے مقرر کرو،  وہ دونوں اصلاح کرنا چاہیں گے تو اللہ ان کے درمیان موافقت کی صورت نکال دے گا،   اللہ سب کچھ جانتاہے اور با خبر ہے۔  ‘‘
یعنی جب زوجین آپسی نزاع میں ایک دوسرے کی طرف زیادتی کی نسبت کر رہے ہوں اور مصالحت کی کوئی سبیل نظر نہ آتی ہو تو قاضی یا حاکم دونوں کے خاندانوں میں سے دو صالح وعادل ثالثی تعینات کر دے گا۔ یہ آیت اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ عورت دارالقضاء سے مراجعہ کرنے میں خود کفیل ہے،  اوراپنے مطالبات کا مرافعہ کرنے اورقانونی چارہ جوئی کرنے میںآزاد ہے۔
(2) حقِ وکالت:
عورت کو اسلام میں یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی بھی نزاع میں مردوں کی طرح اپنی وکالت کر سکتی ہے۔ وہ قاضی کے سامنے اپنے مقدمہ کا مرافعہ اور جوابِ دعویٰ پیش کر سکتی ہے اور شریعت کی نگاہ میں یہ غیر فطری عمل نہیں ہے۔ یہاں وکالت سے مراد پیشۂ وکالت نہیں، کیونکہ ہمارے ملک کے سیکولر ماحول میں شرعی حدود و قیود کی رعایت کرتے ہوئے اس پیشہ کا اختیار کرنا کسی مسلمان خاتون کے لیے ناممکن ہے۔ اسلامی حقِ وکالت سے مرادیہ ہے کہ مسلمان عورت لباس، حجاب اور گفتگو کے شرعی آداب کی پابندی کرتے ہوئے اپنی یا اپنے کسی قرابت دار کی نمائندگی کر سکتی ہے اور نیابتاً کسی مقدمہ کا دستوری مرافعہ انجام دے سکتی ہے۔ یہ اسلام میں عورت کے شرعی حقوق کی ضمانت کی دلیل اورایک باعثِ فخر چیز ہے۔ علّامہ ابنِ خنینؒ لکھتے ہیں:’’وکالت میں مرد ہونا شرط نہیں، بلکہ ہر وہ ذات جس کے تصرفات کو شریعت نے معتبر قرار دیا ہے خواہ وہ مرد ہو یا عورت، تمام نیابتی امور میں کسی غیر کی وکالت کی اہل مانی جائے گی، البتہ عورت پر یہ واجب ہے کہ وہ اپنی یا کسی اور کی وکالت کرنے میں لباس و گفتگو کے اسلامی آداب کاالتزام رکھے۔ ورنہ بصورتِ دیگراسے وکالت کی اجازت نہیں ہوگی۔ ‘‘(الوکالۃ علی الخصومۃ :ص 68)
(3) حقِ شہادت(گواہی):
اسلام میں عورت کے دستوری حقوق میں سے ایک یہ ہے کہ وہ وقتِ ضرورت گواہی دے سکتی ہے، اور یہ فی نفسہ معیوب نہیں ہے۔ ارشادِ باری ہے: (وَاسْتَشْہِدُواْ شَہِیْدَیْْنِ من رِّجَالِکُمْ فَإِن لَّمْ یَکُونَا رَجُلَیْْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ)(البقرہ،  282)’’پھر اپنے مردوں میں سے دو آدمیوں کی اس پر گواہی کرا لو، اور اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ہوں۔ ‘‘ علّامہ ابن القیمؒ فرماتے ہیں:اس با ت پر اجماعِ امت ہے کہ مالی معاملات اور اس کی جملہ فروعات مثلاً بیع و شراء، رہن، وقف، وصیت وغیرہ میں ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی قبول کی جائے گی۔ ‘‘(اعلام الموقّعین:1/92)
عورت کی گواہی مرد کے مقابلے آدھی کیوں ہے؟اس کی حکمت پر اسی آیت میںآگے چل کر روشنی ڈالی گئی ہے: ( أَن تَضِلَّ إْحْدَاہُمَا فَتُذَکِّرَ إِحْدَاہُمَا الأُخْرَی)(البقرہ،   282)’’تاکہ ایک بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلا دے۔  ‘‘یعنی بسااوقات ایک عورت کو مسئلے کی باریکیاں مستحضر نہیں رہ پائیں تو دوسری عورت اس کو یاد دلا سکتی ہے۔ امریکہ کی مشہور و معروف یونی ورسٹی بیل (Bell)میں ایک ماہرِ نفسیات کے ریسرچ نے عجیب و غریب انکشاف کیا ہے۔ اس کی تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ کسی مخصوص موضوع پر لکھتے ہوئے یا کسی معینہ پریشانی کو حل کرتے ہوئے عام طور پر مرد حضرات اپنے دماغ کا بایاں حصہ ہی استعمال کرتے ہیں جبکہ ایسی صورتحال میں عورتیں اپنے دماغ کی دونوں سمتیں استعمال کرتی ہیں۔ اور بقول اس ماہرِ نفسیات کے، یہ چیز اس بات کی دلیل ہے کہ مرد کا آدھا ذہن عورت کے پورے ذہن کے مقابلے میں زیادہ فعال اور صلاحیت مند واقع ہوا ہے۔ (رسائل فی أبواب متفرقہ:ص132)
عورتوں کے مخصوص مسائل مثلاً حیض، نفاس، زوال و عدمِ زوالِ بکارت، رضاعت وغیرہ میں ان کی گواہی کو ترجیح حاصل ہوگی، جیسا کہ حضرت عقبہؓ بن الحارث کی حدیث سے واضح ہوتا ہے۔ حضرت عقبہؓ نے امِ یحیےٰ بنتِ ابی اہاب سے نکاح کیاتو ایک کالی باندی آکر کہنے لگی:میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے۔ (یعنی تم دونوں رضاعی بھائی بہن ہو اور تمہارا نکاح کرنا جائز نہیں)حضرت عقبہؓ کہتے ہیں کہ میں نے اس کا تذکرہ آپﷺ سے کیا تو آپﷺ نے اعراض فرمایا،   میں نے پھر ذکر کیا تو آپﷺنے فرمایا:اب کیسے ممکن ہے جبکہ اس کا دعویٰ ہے کہ تم دونوں رضاعی بھائی بہن ہو ؟ تم اپنی اہلیہ سے دست بردار ہو جاؤ۔ ‘‘[أنہ تزوج ام یحییٰ بنت اھاب،  فجاء ت امۃ سوداء فقالت: ارضعتکما،  قال: فذکرت ذالک للرسولﷺ فاأرض عنّی،  قال: فتنحیّت فذکرت ذالک للرسولﷺ،  فقال: کیف وقد زعمت أنھا قد أرضعتکما،  دعھا عنک](صحیح بخاریؒ :2659۔ سنن ترمذیؒ : 1151۔ مسند احمدؒ :6093۔ سنن نسائیؒ :3330)۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:( وَلاَ یَحِلُّ لَہُنَّ أَن یَکْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللّہُ فِیْ أَرْحَامِہِنَّ) (البقرہ، 228)’’اوران کے لیے یہ جائز نہیں کہ اللہ نے ان کے رحم میں جو کچھ خلق فرمایا ہو،   اسے چھپائیں۔ ‘‘مشہور مفسر علامہ عبدالرحمٰن سعدیؒ لکھتے ہیں:آیتِ کریمہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ مخصوص مسائل جن پر دوسرے لوگ عام طور سے مطلع نہیں ہو سکتے،  جیسے کہ حیض و حمل کے مسائل،  تو ان کے بارے میں عورت کا قول ہی معتبر قرار پائے گا۔  (تیسیر الکریم الرحمٰن فی تفسیر کلام المنّان :ص 101)۔
(4) حقِ ولایت:
ولایت سے مراد باپ کی وفات کے بعدچھوٹے بچوں کی جائیداد کاولی(منتظم) بنناہے۔ لیکن یہ حق اس بات سے مشروط ہے کہ باپ نے اپنے پیچھے کسی دوسرے کو ولی نامزد نہ کیا ہو۔  یتیموں کی ولایت میں دو صورتیں ممکن ہیں:
(الف) پہلی صورت یہ ہے کہ ماں کے علاوہ کوئی دوسرا مثلاً دادا، چاچا، بھائی وغیرہ یتیم بچوں کی ولایت کا مطالبہ کرے۔ ایسی حالت میں شرعی عدالت درخواست دہندہ کی دینداری و شرافت کے متعلق تحقیق کرے گی اور اطمنان ہونے پر یتیم بچوں کی ماں کو دعوت دے گی کہ وہ عدالت میں حاضر ہوکر درخواست دہندہ کے بارے میں اپنی موافقت یا عدمِ موافقت کا اظہار کر ے۔  واضح رہے کہ ماں کی رضامندی اس پورے معاملے میں بنیادی حیثیت رکھتی ہے جس کے بغیر کوئی شخص بھی یتیم بچوں کی ولایت حاصل نہیں کر سکتا۔ حقِ امومت کی اس سے بڑھ کر عزت و احترام ناممکن ہے۔  اس میں بیوہ ماں کی دلداری کے پہلو بہ پہلو، اس بات کی رعایت رکھی گئی ہے کہ وہ اپنے بچوں کے روشن معاشی مستقبل کی ضمانت کے لیے خوب سے خوب تر انسان کا انتخاب کر سکے۔
ّ (ب) دوسری صورت یہ ہے کہ خود ماں ہی محکمۂ عدالت سے اپنے چھوٹے بچوں کی ولایت کا مطالبہ کرے۔  اس کو اس مطالبہ کا شرعی حق حاصل ہے۔ اب اگر عدالت اُس میں تمام شروط موجود پاتی ہے اور کوئی شرعی مانع نہیں پایاجاتا، تو اس کوچھوٹے بچوں کا ولی مقرر کیا جا سکتا ہے۔ بعض فقہاء کے نزدیک تویہی افضل ہے کہ ماں کو چھوٹے بچوں کے اموال پر شرعی ولی بنا دیا جائے کیونکہ ایسا کرنا زیادہ قرینِ مصلحت اورزیادہ سودمندہوتاہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ماں کی اپنے بچوں کے تئیں شفقت اور خیرخواہی کا عشرِعشیر بھی کسی اور شخص میں متصور نہیں ہوسکتا۔ لیکن ان حضرات کا کہنا یہ بھی ہے کہ چونکہ کوئی ایک عورت تمام مالی امور و معاملات کو بسااوقات انجام نہیں دے پاتی، اس لیے اس کو یہ حق بھی حاصل ہوگا کہ بعض کاموں کی انجام دہی کے لیے وہ کسی کو اپناتنخواہ دار نائب بنا لے۔
عورت کی ولایت کا مسئلہ اس بات کی دلیل ہے کہ شرعِ حنیف نے عورت کو جو دستوری حقوق دیئے ہیں، ان میں ربِ کریم نے اس کی فطرت و طبیعت کے کے تقاضوں کی بے پناہ رعایت کی ہے اور جو حقیقتِ واقعہ کے عین مطابق ہے۔
(5) حقِ زوجیت :
بعض اولیاء اور والدین بیٹیوں اور بہنوں کو شادی سے روکے رکھتے ہیں، یا غیر کفو میں رشتہ کر دیتے ہیں اور ان کی پسند ونا پسند کی چنداں پرواہ نہیں کرتے۔  اس میں ان کا مقصد مکمل جائیداد پر قبضہ اور اپنی خدمت و خاطر داری کے لیے بے دام نوکر وں کی سہولت باقی رکھنا ہوتا ہے۔ یہ ظلم و سنگدلی کی انتہا ہے۔ ہر لڑکی کا خواب ہوتا ہے کہ اس کاایک گھر ہو، بچے ہوں،  لیکن انسانیت سے عاری یہ اولیاء حضرات ان معصوم فطری خوابوں کو شرمندۂ تعبیر نہیں ہونے دیتے۔  اس بے قید حرص و ہوس کا شکار ہمارے معاشرہ کی وہ بے شمار لڑکیاں ہیں جو شادی کی راہ تکتی بوڑھی ہو رہی ہیں۔ جن خواتین کا سابقہ اس قسم کے اولیاء سے ہو، ان کو شریعت یہ حق دیتی ہے کہ وہ اپنی شکایت دارالقضاء تک پہونچائیں تاکہ عدالت ان کے ولی کو جلد از جلد شادی کر دینے پر آمادہ کرے۔ اور اگر وہ انکار کرتا ہے توشرعی عدالت کی جانب سے ان کے عقدِ نکاح کا انتظام کیا جائے گا۔
حقِ زوجیت کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے اپنی کمزور بندیوں کی حفاظت،   انصاف دہی اور فطری خواہشات کی تکمیل کا جو نظم فرمایا ہے وہ اس نظامِ زندگی کے منزل من اللہ ہونے کا ثبوت ہے۔
(6) حقِ کفالت :
خواتین کو درپیش عائلی مسائل و مشکلات میں سب سے اہم مسئلہ بچوں کی کفالت کا ہوتا ہے۔ بلکہ بیشتر حالات میں بچوں کی جدائی کا ڈر اور ان کے مستقبل کا سوال ہی عورتوں کو ظلم و ستم کی چکی میں چپ چاپ پستے رہنے پر مجبور رکھتا ہے۔ خوفِ خد ا سے خالی، حقوقِ زوجیت تو کجا حقوقِ انسانیت تک سے جاہل شوہر کی زیادتیوں پرصبرو خاموشی کو عموماًاسی لیے ترجیح دی جاتی ہے کہ کہیں اپنے جگر کے ٹکڑوں سے دوری ومہجوری کا صدمہ نہ اٹھانا پڑے۔ حالانکہ شریعت کی رو سے بے دین باپ کے مقابلے دیندار ماں اپنے بچوں کی کفالت کی زیادہ حقدار ہوتی ہے۔ عورت اگر کفالت کی شرعی شرائط پر پوری اترتی ہے اور کوئی مانع بھی نہیں پایا جاتا، توکوئی وجہ نہیں کہ وہ اپنے بچوں کی کفیل نہ بن سکے، نیزاس صورت میں باپ کے ذمہ واجب ہوگا کہ بچوں کے اخراجات اس کو ادا کیاکرے۔
شیخ الاسلام ابنِ تیمیہؒ لکھتے ہیں:نابالغ بچے کی کفالت کے لیے ماں،    باپ کی نسبت بہتر ہے۔ کیونکہ ماں اپنے بچے کے کھانے پینے اور سونے اٹھنے کے اوقات سے زیادہ واقف ہوتی ہے، اور مشاہدہ کہتا ہے کہ اس مقام پر اس سے زیادہ باخبر، باصلاحیت اور صابر و شاکر کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا۔  یہی وجہ ہے کہ بہت چھوٹے بچے کے سلسلے میں شریعت نے کوئی دوسرا اختیار نہیں رکھا ہے۔ (فتاوی ابن تیمیہؒ :34/122)
علّامہ ابنِ قدامہؒ رقمطراز ہیں:اگر زوجین علیحدہ ہو جائیں اور ان کی اولادنابالغ یا پاگل ہو تو کفالت کے لیے ماں کو ترجیح حاصل ہوگی، بشرطیکہ وہ شرعی ضوابط پر پوری اترتی ہو۔ یہاں اولاد میں لڑکے لڑکیوں کی تفریق نہیں۔ یہی قول امام مالکؒ اور اصحاب الرأی ؒ کاہے، اور ہمارے علم میں کوئی اس کا مخالف نہیں۔  (المغنی:8/19)
کفالت ہی سے متعلق یہ بات بھی ذہن نشیں رہنی چاہئے کہ والدین میں سے کوئی ایک،   دوسرے کو زیرِ کفالت بچے کی زیارت و ملاقات سے نہیں روک سکتا۔ اگر ماں بچے کی کفیل ہو اور اسے بچے کے باپ سے یہ اندیشہ ہو کہ وہ بچے کی زیارت کے بہانے اسے پریشان کرے گا، تو وہ قاضی سے اس بات کا مطالبہ کر سکتی ہے کہ وہ بچہ کی زیارت و ملاقات کا وقت اور جگہ متعین کر دے۔ قاضی معاملے کی تحقیق و تفتیش کے بعد مطابقِ مصلحت فیصلہ کر سکتا ہے۔
(7) حقِ مطالبہ :
اکثر و بیشتر عورت جن خانگی مسائل کا شکار ہو کر مدعی یا مدعیٰ علیہ کی حیثیت سے شرعی محکموں کا دروازہ کھٹکھٹاسکتی ہے اور جن میں اسے مکمل طور پراپنے دفاع ومطالبہ کا شرعی حق حاصل ہے، ان میں سے چند اہم مسائل کی فہرست ذیل میں ذکر کی جاتی ہے:
(الف) شوہر سے حسنِ معاشرت کا مطالبہ۔
(ب) اخراجات (خرچہ) کا مطالبہ۔
(ج) مسکن(رہائش)کا مطالبہ۔
(د) مہر کا مطالبہ۔
(ھ) طلاق دینے کا مطالبہ۔
(و) فسخِ نکاح کا مطالبہ۔
(ز) خلع کا مطالبہ۔
(ح) عقدِ نکاح میں مذکور ہ شرائط کی انجام دہی کا مطالبہ۔
(ط) بیویوں میں عدل کا مطالبہ۔
(ک) اثبات و نفئ نسب کا مطالبہ۔
(ل) بچوں کی زیارت و ملاقات کا مطالبہ۔
(م) کفالت وپرورش کا مطالبہ۔
(ن) نشوز(نافرمانی)کے مسائل۔
(س) خانگی تشدد کا دعویٰ۔
یہ چنداہم مسائل ہیں جن کے دستوری مرافعہ کا حق اسلام نے خواتین کو دیا ہے۔ اور جن کاوجود اس بات کا روشن مظہر ہے کہ دینِ حکمت میں عورت کی حفاظت و حق شناسی کا کس درجہ خیال کیا گیاہے۔
خاتمہ
گزشتہ مباحث کے ضمن میں متعدد اہم نتائج اور مفید تجاویز کا تذکرہ آیا ہے۔  ذیل میں ان میں سے بعض کاخلاصہ پیش کیا جاتاہے:
(1)دینِ فطرت اسلام نے عورت کو عزت و توقیر عطا کی ہے،  اس کے فطری حقوق کا اعتراف کیاہے،  بلکہ بعض معاملات میں اس کو جنسِ مخالف پر فوقیت دی ہے۔
(2)عورت کو شرعی عدالتوں سے استفادہ کا حق ہے اور وہ مدعی و مدعیٰ علیہ ہو سکتی ہے۔
(3)عورت اپنی جہالت و ناواقفیت کی وجہ سے خود ہی شریعت کے تفویض کردہ حقوق و رعایتوں سے اپنی محرومی کا سبب بنتی ہے۔
(4)عورت کا مرد سے علیحدہ مستقل مالی تشخص ہوتاہے، اس کو اپنی ملکیت میں تصرف کی پوری آزادی ہے اوربجز خلافِ شرع تصرفات کی مناہی کے، کوئی اس پر نکیر کا حق نہیں رکھتا۔
(5)مختلف ذرائع ابلاغ کی قومی و ملی ذمہ داری ہے کہ خواتین کو ان کے شرعی حقوق و واجبات سے روشناس کرائیں۔
یہ اس مضمون میں ذکر کردہ کچھ اہم تجاویز و نتائج تھے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس کوشش کو نفع بخش اور اپنی خوشنودی کا ذریعہ بنائے۔ وصلّی اللہ علیٰ نبیّہ محمد وعلیٰ آلہ وأصحابہ وسلم۔

تبصرے بند ہیں۔