اسلام کا بے لوث داعی: مولانا طارق جمیل

امتیازعبدالقادر

(ریسرچ اسکالرشعبہ اردوکشمیریونیورسٹی، سرینگر)

میرااُس شہرسے واسطہ ہے جوصدیوں سے غلامی کی زنجیروں میں جکڑاہواہے۔ اقبال ؔ نے شائدمیری بستی کے باشندوں کوہی یہ کہہ کر’خراجِ عقیدت‘سے نوازا تھا کہ  ؎

ایں غلام، ابنِ غلام، ابنِ غلام

حریت اندیشئہ اُو  را  حرام

یوں تودنیاوالے اسے ’جنتِ نظیر‘کہتے ہیں لیکن یہاں کے باشندوں کی حالتِ زاراس’ خطاب‘ کوہنسی میں ٹال دیتے ہیں۔ ہم انگشت بدنداں ہیں کہ اگر’جنت‘ایسی ہے توپھر’جہنم‘کیسی ہوگی؟’زندگی‘ یہ ہے توپھرموت ہمارے لئے ’انعام ‘سے کم نہیں۔ بھارت کا’زیرِانتظام‘ کشمیر۔ جہاں ہوا بھی پابہ زنجیرہے۔ سرحدکے آرپارپرندہ بھی پرمارے تووہ بھی ’صیاد‘کے پنجرے کی ’زینت‘بن جاتاہے اورخفیہ ایجنسیوں کاایجنٹ قراردے کرسُولی پر’جھولنے‘ لگتا ہے۔ اس حالت پریہاں کے بادل، پتّے، شجروحجر، کوہ ودمن بھی ’سینہ کوبی‘ کررہے ہیں۔ سیاست کے دلالوں نے ہمیں اس حالت کوپہنچایا۔ اسی وجہ سے اُس پارکی زمین، بستیاں مشاہدے میں توآنے سے رہی البتہ پڑھاہواہے کہ۔ ۔ ۔ خانیوال صوبہ پنجاب(پاکستان) کے شہر’میاں چنوں ‘ سے ’عبدالحکیم‘ جاتے ہوئے راستے میں ’تلمبہ‘ کا تاریخی شہر پڑتاہے۔ مؤرخین کے مطابق’ تلمبہ‘ کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی حضرت انسان کی۔ اس شہرکے قریب سے گزرئے توسامنے ایک نہایت پرشکوہ عمارت نظر آتی ہے۔ یہ ہے مولانا طارق جمیل صاحب کا مدرسہ’ حصنات‘۔ یہ مدرسہ عین اسی جگہ واقع ہے جس کے بارے میں روایت ہے کہ اسی جگہ دس بارہ سال پہلے پاکستان کا سب سے بڑا اور قدیم بازارِ حسن تھا۔ برطانوی عہد سے ہی اس خطے میں تین بڑے بازار ِحسن قائم تھے۔ لاہور، ملتان  اور تلمبہ اس’ عشرت کدے ‘کے لئے مختص کئے گئے تھے۔ ’لاہورکاچکلہ ’بوڑھے راوی‘کا ہم عمرتھا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دورِانحطاط میں اس کاآغازہوا۔ اسی طرح تلمبہ‘ کا بازارِ حسن ۱۸۱۸ء میں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے ہی قائم کیا اور وسط پنجاب میں ہونے کی وجہ سے یہ مقبول خاص و عام تھا۔ سینما، تھیٹر اور ٹی۔ وی کے دور سے پہلے یہاں کی رقاصائیں ملک کے کونے کونے میں اپنے فن کا جادو جگا کر تقریبات کا حسن دوبالا کرتی تھیں۔ مرورِزمانہ کے ساتھ ساتھ رقص و موسیقی نے باقاعدہ ایک انڈسٹری کا روپ اختیار کیا تو بازار بھی اس سے متاثر ہوئے- ان بازاروں کو’رونق‘ بخشنے والی رقاصائیں ترقی کرتے کرتے ’شہرت‘کی اوجِ ثریاکوپہنچ گئیں۔ ’ تلمبہ ‘کا بازارِحسن اس دورمیں ضرب المثل کا درجہ رکھتی تھی۔ یہ بازارنہیں، ایک سنگین بسترتھا، جہاں عورت کی عفت تھک کرہمیشہ کی نیندسوگئی تھی۔ اس ’مقتل‘میں عورت قتل ہوتی تھی۔ اس کاگوشت’بکتا‘تھا۔ کسی بھی گاہک کے لئے کوئی قیدنہیں تھی۔ ہربوٹی کی قیمت مقررتھی۔ گویاعورتیں نہیں بھیڑیں ہوں   ؎

خداکے نام پربازارمیں کوڑی نہیں ملتی   

ہوس کی چاشنی سے دل کاکاروبارچلتاہے

گلابی ہونٹ اک جنسِ گراں مایہ ہیں منڈی میں   

انھیں اجسام سے یہ حُسن کابازارچلتاہے

جولوگ اپنے گھر کا کچرا باہر گلی میں پھینک کر’ نصف ایمان ‘کے درجے پہ فائز ہو جاتے ہیں، ان کے لئے ’تلمبہ‘کا بازار قطعاً اس قابل نہ تھا کہ وہ اس کے بارے میں سوچ کر اپنا قیمتی وقت برباد کرتے۔ ’نیک لوگ‘ ایسی متعفن جگہوں سے منہ ڈھانک کر اور پائنچے چڑھا کر گزرتے ہیں اور بد خصلت صرف رات کے اندھیرے میں ادھر جھانکتے ہیں۔ مولاناطارق جمیل صاحب غالباً وہ پہلا شخص تھا جس نے دن کے اجالے میں اس تاریک نگر کا رخ کیا۔

شروع شروع میں مولانا کی یہ حرکت ان کے معتقدین، بازار کے نکڑمیں ’ٹھنڈے گوشت‘کی ٹوہ میں لگے عفت وعصمت کے بھوکے ’خریداروں ‘، سیاسی اکھاڑے میں موجودشعبدہ بازوں وکرتب بازوں اورخواتین سے پیشہ کرانے والے ان’دکانداروں ‘ کوناگوارگزری لیکن مولانا کا استدلال یہ تھا کہ دین سیکھنا ہر اس شخص کا حق ہے جس نے کلمہ پڑھ رکھا ہے۔ بازار ِحسن سے تعلق رکھنے والے چونکہ مسلمان ہیں اس لیے انہیں اس نعمت سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔

مولانا ایک مدت تک بلاناغہ اس ’اچھوت‘بستی میں جاتے اور ایک کونے میں بیٹھ کر درس دیتے رہے۔ آہستہ آہستہ پیشہ ور خواتین کی ایک معقول تعداد اس محفل کارُکھ کرنے لگیں۔ نفس کے’ تقوٰی ‘نے نفس کے ’فجور‘ کومات دے دی۔ رگوں میں گھومنے پھرنے والا شیطان کفِ افسوس ملنے لگا۔ بدی ڈنکے کی چوٹ پر’تلمبہ‘کے بازارمیں رُسواہورہی تھی۔ نیکی دبے پائوں تاریکی کاسینہ چیرکراس بستی میں نویدِصبح کاپیغامِ جاں فراسنارہی تھی۔ مولانا طارق جمیل صاحب انہیں ’ میری بہنو‘ کہہ کر مخاطب کرتے۔ بنیادی عبادات کامشق کرایا، اعتقادکو پختہ ترکرنے کی نصیحت کی، قرنِ اول کی باغیرت اورعفت وعصمت کے لئے جان کی قربانی دینے والی پاکیزہ صحابیات وپارساخواتین کاتذکرہ چھیڑتے۔ پاکی ِ نفس اورحیاکی تلقین موثرپیرائے میں کرتے۔ خباثتِ نفس اور بدکرداری کی نحوست سے آگاہ کرتے۔ دل سے نکلی دردبھری آہ نے اثردکھلایااورسماج سے بچھڑے ہوئے ان ’خطاکاروں ‘کواللہ کی طرف لوٹنے کاموقع فراہم ہوا۔ بے عزتی کی جگہ اب عزت نے لے لی، اقبال نے ادبارکوپسپاکیا، پاکیِ دامانی ایسی کہ فرشتے بھی ’وضو‘کرے۔ ۔ ۔

مولانا طارق جمیل صاحب یکم جنوری ۱۹۵۳ء کو’میاں چنو‘میں پیداہوئے۔ ان کا تعلق ایک زمیندار گھرانے سے ہے، جو تلمبہ سے دو تین کلو میٹر آگے آڑی والا (حسین پور) میں ہے۔ مولانا کا خاندان علاقے کے بڑے زمینداروں میں شمار ہوتا ہے۔ سینکڑوں کنال کی زرعی اراضی ہے۔ آم، کینو، امرود کے باغات ہیں۔ مولانا کا دوسرا بھائی ڈاکٹر طاہر سہو صاحب کا پاکستان کے دل کے بڑے ڈاکٹروں میں شمار ہوتا ہے۔

مولانا طارق جمیل صاحب نے گورنمنٹ کالج لاہور سے پری میڈیکل کرنے کے بعد کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں داخلہ لیا مگر پھر دینی تعلیم کی طرف رجحان غالب ہوا تومروجہ تعلیم مکمل کئے بغیرہی کنگ ایڈورڈ کوخیربادکہا۔ مولانااگروہ تعلیم مکمل کرکے مذہبی تعلیم حاصل کرتے توشایدپاکستان کوایک محسن، ایماندار، دیانت دار، دردِدل رکھنے والاڈاکٹرملتا، جوروح کے امراض میں مبتلانفوس کے ساتھ ساتھ اُن کے مادی وجودکے دردکابھی دوا کرتے۔ مولانا جدید تعلیم سے آراستہ ذہن کو سمجھتے ہیں۔ انہوں نے آزاد فضا میں تعلیم پائی ہے۔ ان طبقات کی سنگت میں جوانی گزاری ہے جن کو آج وہ اپنی تبلیغ سے اپنا مرید بنائے ہوئے ہیں۔ یہ ان جیسی زبان میں بات کرتے ہیں۔ ان کی سوچ کو سمجھتے ہیں۔ ان کے شکوک و شبہات سے آگاہ ہیں۔ یہ سمجھتے ہیں کہ ان طبقات کی سوچ کو کیسے متاثر کیا جا سکتا ہے۔ ان کی توجہ کیسے حاصل کی جا سکتی ہے۔ جبکہ عصر حاضر کے روایتی علما کی اکثریت اس خصوصیت سے محروم ہیں۔

مولاناکی آوازمیں ایک کشش ہے، جوآپ کومقناطیس کی طرح اپنی طرف مائل کردیتی ہے۔ زبان شستہ، لہجہ رفتہ۔ ان کے خطاب دردسے پُر ہیں۔ مبالغہ نہیں کی اُن کے ہاں امت کادردجھلکتاہے۔ اُن کے دل سے جوآہ نکلتی ہے، وہ شقی القلب افرادکے دلوں کوبھی پگلادیتی ہے۔ موصوف کی زبان نہیں بولتی بلکہ ان کادل گویاہوتاہے۔ اُن کی شخصیت میں ایک رعب ہے۔ خوش پوشاک، خوش خوراک، تبلیغی جماعت کے روحِ رواں۔ تامل وتذبذب سے بے زار، نہ زندہ بادکے تمنائی نہ مُردہ بادسے خائف۔ نہ رعب کھاتے نہ رعب ڈالتے۔ خطابت کے غنی ہیں لیکن خطبوں میں کڑک ہے نہ بھڑک۔ مولاناطارق جمیل صاحب کی خدمات دعوت واصلاح کے میدان میں آبِ زرسے رقم کرنے کے لائق ہیں۔ چھ برِاعظموں کادورہ کرکے انہوں نے اپنے تئیں دین کی دعوت عام کرنے کی کوشش کی ہے۔ مولاناکی سب سے بڑی خوبی انسانوں کے تئیں ہمدردی ومحبت ہے۔ وہ ’انسان‘چاہے مسلم ہویاغیرمسلم، کس مکتبہ فکر کا ہے، کس تنظیم، جماعت یاادارہ سے وابستہ ہے، شیعہ ہویاسُنی، غرض ہرایک کے لئے ان کے دل میں بے پناہ وسعت ہے۔ وہ اُن تنگ نظرعلماء کی طرح نہیں جومسلمانوں میں کوئی کمی یاخرابی دیکھ کرکافر، فاسق اورملحدکافتوٰی صادرکرتے ہیں۔ جوان کے نظریات وافکارسے اختلاف رکھیں تو انہیں ’گمراہ‘ جتلا کر اُمت میں انتشار پید ا کرتے ہیں۔ مسلکی وفروعی مسائل کوبنیادی واصولی امورپرترجیح دے کر امت میں تفرقہ ڈالتے ہیں۔ مولاناطارق جمیل صاحب کی شخصیت میں رسول اللہ ﷺ کاخُلق جھلکتاہے۔ ہرکسی سے نرمی اورمحبت سے پیش آتے ہیں۔ اُن کی شخصیت میٹھی، پرکشش ونرم ہے۔ چال ڈھال اوربول چال میں پارسائی اورتقدس کااحساس ہوتاہے۔

 مولانا کی شخصیت میں آپ کو حسین تنوّع دیکھنے کوملے گا۔ ان کادل لوگوں کے لئے کُڑھتاہے۔ اس دل میں بڑی وسعت ہے۔ گستاخی معاف مگر وہ جس مکتبِ فکرسے وابستہ ہیں وہاں یہ سوچ محال ہے۔ لیکن مولانا کی مجلس میں کبھی گانے بجانے والوں کوآپ دیکھتے ہیں، تو کبھی ہندوپاک کے فلمی ’ستاروں ‘کی میزبانی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ کبھی کھلاڑیوں کے پاس جاتے ہیں، توکبھی سیاست دانوں کیلئے دعا کرتے ہیں اورگاہے دیگرمذہبی رہنمائوں کے ’آستانہ ‘ پر’ قدم بوسی‘ کیلئے جاتے ہیں۔ اُن کی یہ وسعتِ قلبی، شقی القلب افرادکوراس نہیں آتی۔ اپنے اورپرائے سامنے بھی اورپسِ پردہ بھی مولانا کی ملامت کرتے رہتے ہیں۔ طارق جمیل صاحب نے مولاناسیدابوالاعلٰی مودودی کی تعریف کی، منصورہ بھی گئے تولوگوں نے طعنہ کسا۔ سیاسی مخالفوں کے ساتھ خوش مزاجی اورکھلی پیشانی کے ساتھ ملاقات کرتے ہیں تولوگ انہیں مطلبی قراردیتے ہیں۔ مگر کیا کیجئے مولانا توکسی اور خمیرکے بنے ہیں ملامت کرنے والوں کی ملامت انہیں پُشت بمنزل نہیں کرتی۔ مرحوم قاضی حسین احمد(سابق امیرجماعت اسلامی پاکستان)کی دعوت پر، اُن کے پہلومیں بیٹھ کرکارکنانِ جماعت کوقرآن کی عظمت بیان کرتے ہیں توکبھی سید منور حسن سے محبت کا اظہارکرتے ہیں۔ مولانا طارق جمیل، طاہر القادری صاحب کی دعالینے کبھی اُن کی مجلس کو بھی زینت بخشتے ہیں، داعی اُمت ڈاکٹر ذاکر نائیک کی خدمات جلیلہ کوسراہنے اُن کی خدمت میں پیش ہوتے ہیں اورمدنی پھول بکھیرنے والے مولانا الیاس قادری صاحب کے پاس جاکراپنی عقیدت کااظہارکرتے ہیں۔ مولاناطارق جمیل صاحب ان مخلصانہ کوششوں کے باوجود’توپوں ‘کی زدسے نہ بچے۔ لوگوں نے ’غیر مقلد، تجدد پسند، گمراہ ہے‘ کے فتوے صادرکئے۔ یہاں تک کہ پاکستان میں ایک ٹی۔ وی  اینکر نے اخلاقیات کو پسِ پشت ڈال کر مولانا کو ٹی۔ وی پر برا بھلا کہا، منافق تک کہا لیکن مولانا طارق جمیل صاحب نے ان کے اگلے پروگرام میں نبوی اخلاق کی مثال قائم کرکے انہیں دعائیں دیں۔ مولانا نے عین اس وقت امام بارگاہوں کے دورے کیے کہ جب پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں شیعہ سنی فساددستک دے رہے تھے، لوگوں نے کہا یہ تو ’شیعہ‘ ہو گیا’ رافضی‘ ہو گیا مگر کیا کیجئے مولانا پر کوئی اثر نہ پڑا۔ مسکراکر ان ’تہمتوں ‘سے اعراض کرتے ہیں۔ ان بے جااعتراضات کو مولانامودودی کی طرح کوئی اہمیت نہیں دیتے اوراُن کی طرح ہی اس سب وشتم، گالی گلوچ اور’وصول‘کی گئی تہمتوں کوقیامت تک کے لئے اٹھارکھاہے۔ جس قوم کے افرادسُوئِ ظن میں پختہ ہوگئے ہوں وہاں توقع رکھناکہ جوانی تہمت کے بغیرگزرسکتی ہے، ایک ’خوش آئند‘سانحہ ہے۔ جوانی کابغیرتہمت کے گزرنابھی ایک دردناک ’المیہ ‘ ہی ہے۔

مولانا طارق جمیل صاحب کو جدید تعلیم سے آراستہ ذہنوں میں پذیرائی حاصل ہے۔ مختلف تعلیمی اور پروفیشنل ادارے بھی ان کے لیکچرز کا اہتمام کرتے ہیں۔ سماجی انجمنیں، عدالتیں، اسپتال میں کام کررہے ڈاکٹرزمولاناکومدعو کرکے تسکینِ روح کاسامان کرتے ہیں۔ ان کے مختلف سبق آموز قصے، جن میں بیشتراگرچہ’ صحت‘ کی رُوسے ’ضعیف‘، کہانیوں اورتراش خراش کرکے لائے گئے سند سے عاری واقعات پرمشتمل ہوتے ہیں لیکن اُن کے واقعات سنانے کا اندازواقعتََا دل کھینچتا ہے۔ اُن کے دروس میں انسانوں سے محبت کاعکس نمایاں ہیں۔ ایسالگتاہے مانولوگوں کوجہنم سے زبردستی کھینچ کرجنت کی راہ پرلگارہے ہوں۔

اپنی زبان کوحتٰی المقدور کسی کی برائی کرنے سے روکتے ہیں۔ کبھی کسی مسلک کی تنقیص نہیں کی، کبھی علاقائی، نظریاتی، مذہبی بنیاد پر کسی کی مخالفت نہیں کی۔ کسی پربے جا اعتراض نہیں کیا۔ ہمیشہ امت کو جوڑنے کی بات کی، ہم چوں مادیگرے نیست کازعم نہیں رکھتے، اس کے باوجودکچھ’خیرخواہ‘ ان پر نقطہ چینی صرف اس بنیاد پر کرتے ہیں کہ ان کے دسترخوان پر ۳ سے ۴ کھانے موجودہوتے ہیں اور وہ لمبی گاڑی سے اترتے ہیں۔ کیا ہم اتنا گر چکے ہیں کہ ایک ایسے شخص کو جو اخلاقیات کا درس دیتا ہے، اس کی حقارت فقط اس کے اچھے لباس، اس کی گاڑی یااچھا کھانا کھانے کی بنیاد پر کریں ؟ جو شخص اگر روایتی طور پر زمیندار بن کر رہتا تو بھی یہ سب کچھ با آسانی کر سکتا تھا۔

اس سب مساعی کے باوجودمولانا طارق جمیل ایک انسان ہے۔ اُن کے ساتھ بہت سے لوگوں کوشکا یات ہونگی، اختلاف بھی ہے۔ علم کی دنیاہی ایسی ہے۔ یہاں کسی شخص کی بات، چاہے وہ عبقری وعلّامہ ہی کیوں نہ ہو، حرفِ آخر نہیں۔ تنقیدسے مبراتوبس ایک ہی ذاتِ اقدس ﷺ ہے۔ مولاناطارق جمیل حفظہ اللہ کی مساعی جلیلہ کاایک پہلو یہ بھی ہے کہ اُن کے ہاں قرآن و حدیث کافہم وحکمت سطحی ہے۔ قرآنی آیات کاصحیح فہم اورصحیح احادیث کی روح کوچھوڑکرغیرثقہ قصے، کہانیوں، وظائف، ضعیف وموضوع روایات اورظواہرپرزیادہ زورملتاہے۔ مولاناکے مداحین کی تعدادلاکھوں میں ہیں۔ دنیاکے بیشترممالک میں لوگ انھیں سنتے ہیں، عقیدت سے اُن کی نقل کرتے ہیں۔ اسلئے مولاناکوچاہئے کہ مستندو معتبرذرائع کاحوالہ دے کرصحیح واقعات، قرآن وحدیث کاصحیح فہم لوگوں تک منتقل کریں تاکہ ان سے عقیدت رکھنے والوں پرمثبت اثرات مرتب ہوں۔ لیکن اس سب کے باوجودان کی مخلصانہ کاوشوں، محنت اور جدوجہدکی قدرکرنامہذب سماج کے فرائض میں سے ہے۔ جس طرح وہ محبت کاپیغام لے کر اٹھے ہیں، اخلاص اورللٰہیت کاتقاضاہے کہ ایسے بندے کی دل وجان سے قدرکی جائے۔ ایسے نفوس کے بارے میں حسنِ ظن رکھا جائے اوریہ سمجھیں کہ اگرچہ میں اس جماعت، ادارہ یاتنظیم سے وابستہ نہیں لیکن اس کے باوجود’وہ‘لوگ میراہی کام کررہے ہیں۔ ایسے لوگ توہمارے محسن ہیں جن کوہماری دنیامیں سے ذرہ برابربھی معاوضہ نہیں چاہئے بلکہ ہماری آخرت بنانے کی فکرمیں شب روزاللہ کی بارگاہ میں گڑگڑاتے ہیں۔ جواپنی مصروفیات کوہمارے ’کل‘کے لئے تج دیتے ہیں۔ جن کے قلوب واذہان پردوسروں کی فکردامن گیرہوتی ہے۔ ایسے لوگ چاہے جس دینی جماعت سے وابستہ ہوں، اُن کی قدرکرناانسانیت کی دلیل ہے۔ امت کے ایسے گُل سرسبداحترام کے مستحق ہیں۔ ان کے ساتھ بغض، عناد، مخاصمت، نفرت شقی القلب افرادکا ہی کاشیوہ ہے۔

قابلِ اتباع تو بس محمدالرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس ہے، جنہیں تاج نبوّت نوازنے سے کئی سال پہلے ہی خالق کائنات نے شق صدر کر کے، ان تمام کمزوریوں سے پاک فرمادیا تھا جو عام انسانوں میں ہوتی ہیں۔ نعرے بازی، سب وشتم، کافر کافرجیسے ’کھیل‘ تو اکثرلوگ کھیلتے ہیں۔  کاش کوئی ایسامصلح بھی ہو، جو اسی حکمت و بصیرت سے معاشرے کا گند صاف کرے جس طرح چودہ سوسال پہلے محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے جہالت میں ڈھوبی اُس سوسائٹی کوصاف کیا تھا۔ دردسے، علم سے، حکمت سے اوراعلٰی اخلاق سے۔ ۔ ۔ ۔ !

تبصرے بند ہیں۔