انسان اور زمین کی حکومت (قسط 70)

رستم علی خان

چنانچہ حضرت حنظلہ علیہ السلام وہاں سے نکل گئے- بعد اس کے چشموں سے ایک زہریلا دھواں ایسا ان پر نازل ہوا کہ کئی لوگ اس دھوئیں سے مر گئے- چند روز کے بعد حضرت حنظلہ نے جہان فانی سے رحلت فرمائی-

دوسری جانب جن عمالقہ سے حضرت یوشع بن نون نے ملک شام فتح کیا تھا اور ان کی املاک اور ان چھینی ہوئی نعمتوں کو اپنے صرف میں لائے- عمالقہ شکست کھانے کے بعد بچ جانے والے لقگ جو وہاں سے نکل کر مغرب کیطرف جا بسے تھے- چنانچہ ان عمالقہ کی نسل نے قصد کیا کہ بھلا کب تک ہم یوں شہر بدر رہیں گے- چلو واپس شام چلیں اور بنی اسرائیل سے جنگ کر کے اپنی مملکت اور نعمتیں واپس حاصل کریں اور اپنے باپ دادا کی میراث پر جا کر بیٹھیں- اور اگر ایسا نہ بھی ہوا تو یہاں رہ کر دکھ اٹھانے سے بہتر ہے جنگ کریں اور لڑ کر مر جائیں-

چنانچہ ادھر قوم عمالقہ یہ تدبیریں اور ارادے کر رہے تھے- تو دوسری جانب بنی اسرائیل اس سب سے بےخبر تمام دن فسق و فجور میں مستغرق رہتے- اور ان کی بدبختی کیوجہ سے اللہ تعالی نے ان میں سے پیغمبری اور بادشاہت چھین لی تھی- اور بنی اسرائیل ایک بار پھر اپنی سرکشی اور گمراہی کیوجہ سے زلیل و رسوا ہوئے- پس عمالقہ نے واپس آ کر ان سے جنگ کی- بنی اسرائیل میں کوئی شخص صاحب تدبیر ایسا نہ تھا کہ جنگ میں ان کی رہبری کرتا- ان کی نخوست کیوجہ سے پیغمبر اور بادشاہ کوئی ان میں باقی نہ رہا-

چنانچہ عمالقہ نے ان سے جنگ کر کے تابوت سکینہ اور مال و دولت اور املاک سب چھین کر ملک مغرب میں لے گئے- اور یہی تابوت سکینہ سبب تھا بنی اسرائیل کے اقبال کا کہ اس میں انبیاء علیہم السلام کے تبرکات کے علاوہ تورات کے نسخے بھی رکھے تھے- چنانچہ بنی اسرائیل میں نہ کوئی بادشاہ رہا کہ جس کے اقتدار میں چین و سکون سے بیٹھ کر کھا سکیں- اور نہ کوئی پیغمبر ہی رہا کہ جس کی دعا کے سبب سے مقہور ہوتے اور املاک وغیرہ واپس حاصل کر سکتے- سب کے سب غریب و عاجز ہوئے- اور نہ کوئی عالم فاضل ہی ان میں باقی رہا کہ ان کی راہنمائی کرتا اور ہدایت کا راستہ بتاتا اور شریعت و طریقت سکھاتا-

پس بنی اسرائیل میں جو لوگ بچ رہے سو سب کے سب گمراہ ہوئے- اور جو تابوت سکینہ بنی اسرائیل سے عمالقہ نے چھین لیا تھا وہ مضبوط لوہے کا بنا تھا اور دو مضبوط قفل اس میں لگے تھے- اور جب کسی کو کوئی حاجت ہوتی تو اس تابوت کے چاروں طرف گھوم کر دعا مانگتا سو دعا اس کی پوری ہوتی- اور جب جنگ ہوتی تو اس تابوت کو میدان جنگ میں ساتھ لے جاتے تو اس کے اندر سے ایک آواز نکلتی جس سے دشمنوں کے دلوں میں ہیبت اور خوف پیدا ہوتا اور ان کی سپاہ میدان چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہو جاتی- اور مومن سب اس کی برکت سے فتح پاتے اور سکون و چین حاصل کرتے- مگر اس صندوق کے اندر کیا تھا کوئی نہیں جانتا تھا- چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے؛ اور کہا ان کو ان کے نبی نے کہ نشان ان کی سلطنت کا یہ ہے کہ آوے تم کو ایک صندوق جس میں دلجمعی ہے تمہارے رب کیطرف سے اور باقئ اس چیز سے کہ چھو گئی ہے موسی اور ہارون کی اولاد- اٹھا لاویں گے اس کو فرشتے اور نشانی ہے اس میں پوری تمہارے واسطے اگر تم یقین رکھتے ہو۔

چنانچہ عمالقہ بنی اسرائیل سے تابوت سکینہ چھین کر لے گئے- خبر ہے کہ اس تابوت کے اندر موسی علیہ السلام کا عصا اور حضرت ہارون علیہ السلام کا عمامہ اور دو ترنجیں جو آسمان سے ان کی قوم کے لیے اترتی تھیں کہ جن کا بیان اوپر ہو چکا ہے اور اس کے علاوہ دو تختیاں توریت کی شکستہ کہ جو حضرت موسی نے قوم کو گئوسالہ پوجتے دیکھ خفا ہو کر زمین پر مار کر توڑ ڈالیں تھیں اس تابوت میں موجود تھیں- یہ بیان قصص النبیاء اور توریت میں ہے-

جبکہ تفسیر میں لکھا ہے کہ بنی اسرائیل میں ایک صندوق چلا آتا تھا جس میں تبرکات تھے- حضرت موسی و ہارون کو جب جنگ پیش آتی اس کو سردار کے آگے لے چلتے اور جب دشمن پر حملہ کرتے تو اس صندوق کو آگے دھر لیتے پھر اللہ پاک اس کی برکت سے فتح دیتا- چنانچہ جب بنی اسرائیل بدنیت ہوئے تو وہ تابوت ان سے چھین لیا گیا اور رسوا ہوئے-

مروی ہے کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص غریب مسکین تھا اور اس کی دو بیویاں تھیں اور ان میں ایک بی بی صاحب ایمان تھی اور اللہ تعالی کو معبود مانتی اور حضرت موسی کے دین پر تھی- جو دوسری بی بی تھی وہ بنی اسرائیل کی باقی قوم کیطرح شرک و بت پرستی کرتی- پس اس کے ہاں ایک بیٹے کی ولادت ہوئی تو اس نے دوسری سے کہا جو صاحب ایمان تھی کہ بھلا تمہارے رب نے تمہیں بےاولاد کیوں رکھا ہوا ہے اگر تمہارا خدا صاحب قدرت ہے تو کیوں تمہیں ایک بیٹا عطا نہیں کرتا- تب اس بی بی نے فرمایا کہ اللہ تو بڑی بےنیاز زات ہے کہ چاہے تو کسی کو بن مانگے عطا کر دے- اور اگر نہ چاہے تو مانگنے والے کو بھی خالی لوٹا دے- اور اللہ نے تمہیں بےمانگے عطا کیا ہے اور میں بھی اس کے در سے امیدوار ہوں کہ مجھے بھی عطا کرے گا-

پس دلگیر ہو کر تمام رات اللہ کی عبادت کی اور دعا مانگی تب اللہ تعالی نے بشارت دی کہ ہم تجھے ایک فرزند عطا کریں گے جو ہمارا نبی ہو گا اور بنی اسرائیل اس کے ہاتھ پر ایمان لائیں گے- چنانچہ اللہ تعالی نے اس بی بی کو ایک بیٹا عطا کیا اور نام اس کا شموئیل رکھا- جب ان کی عمر چالیس برس ہوئی تو اللہ تعالی نے پیغمبری عطا فرمائی-

چنانچہ جب شموئیل نے بنی اسرائیل کو دعوت حق پنہچائی تو بنی اسرائیل تمام ان پر ایمام لائے اور حضرت شموئیل سے کہا کہ دعا کریں کہ حق تعالی ہمیں پھر سے سلطنت عطا کرے اور ایک بادشاہ دیوے کہ جس کی قیادت میں ہم عمالقہ سے جنگ کر کے تابوت سکینہ واپس لا سکیں- اور سب نے عہد کیا کہ ہم ضرور واپس لائی گے-

ادھر کافروں نے تابوت کو لیجا کر جس شہر میں رکھا اس پر آفات اور بلائیں نازل ہوئیں کہ سارا شہر ویران ہونے لگا- تب چاہا کہ اسے کھول کر دیکھیں کہ اس کے اندر کیا ہے- پس اسے کھولنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن کسی طور نہ کھول سکے- تب تنگ آ کر اسے آگ میں دھر کر جلانا  چاہا لیکن خدا کے فضل سے نہ جلا- تب اسے توڑنا چاہا تو نہ توڑ سکے- تب کہنے لگے کہ یہ تابوت بنی اسرائیل کے خدا کا ہے اس واسطے نہ کھلتا ہے نہ ٹوٹتا ہے اور نہ ہی آگ پر جلانے سے جلتا ہے- تب تابوت کو لیجا کر ناپاک جگہ پر رکھ دیا کہ اس پر غائط بول وغیرہ کریں- پس جو کوئی ناپاک ارادے سے جاتا کہ تابوت پر پیشاب وغیرہ کرے بواسیر اور ناسور میں مبتلا ہو کر مر جاتا- تب تنگ آ کر اسے اپنے بتوں کے نیچے جا کر رکھ دیا- تب تمامی بتوں نے اس کو دیکھ کر تعظیم و تکریم سے اپنا سر جھکا دیا- الغرض جب مردود اس سے ناچار ہو گئے تو اسے دو بیلوں پر لاد کر بیلوں کو ہانک دیا کہ اسے کسی طرف دور لیکر نکل جائیں- پس فرشتوں نے اسے بیلوں سمیت اٹھا لیا اور پھر جب طالوت بنی اسرائیل کا بادشاہ بنا تو ایک رات فرشتوں نے اس تابوت کو بیلوں سمیت طالوت کے گھر کے دروازے پر پنہچا دیا۔

تبصرے بند ہیں۔