سپاہی امن کا بے کل رہا ہے

جمال کاکوی

سپاہی امن کا بے کل رہا ہے

شہر جیسے کہ جنگل جل رہا ہے

وہ اچھا ہے وہی انسان اچھا

تشدد جس کہ من کو کھل رہا ہے

اُسی درپن کی بس چاہت ہے دل کو

کہ چتون جس میں بس اُجول رہا ہے

فقیروں کی پسند ادنی نہ اعلی

کہ پیوند ٹاٹ پہ مخمل رہا ہے

نیوالہ پاک اس کی، پاک روٹی

پسینہ جس کا گنگا جل رہا ہے

غریبوں کاجوحصہ دے برابر

ہمیشہ اس کا دھن ِنرمل رہا ہے

ہو ِپنجڑا بند یا آزاد پنچھی

جودل چنچل تھاوہ چنچل رہاہے

میں کھاؤں گا اُسے سسرال جاکر

میری خاطر جو مرغا پل رہا ہے

یہ رسی کیا کوئ ایٹھن نہ ہوگی

کسی کا بھی کوئ کس بل رہا ہے

جمال صبر میں چِنتا نہیں ہے

ہمارا من بڑا شِیتل رہا ہے

تبصرے بند ہیں۔