سپاہی امن کا بے کل رہا ہے
جمال کاکوی
سپاہی امن کا بے کل رہا ہے
شہر جیسے کہ جنگل جل رہا ہے
…
وہ اچھا ہے وہی انسان اچھا
تشدد جس کہ من کو کھل رہا ہے
…
اُسی درپن کی بس چاہت ہے دل کو
کہ چتون جس میں بس اُجول رہا ہے
…
فقیروں کی پسند ادنی نہ اعلی
کہ پیوند ٹاٹ پہ مخمل رہا ہے
…
نیوالہ پاک اس کی، پاک روٹی
پسینہ جس کا گنگا جل رہا ہے
…
غریبوں کاجوحصہ دے برابر
ہمیشہ اس کا دھن ِنرمل رہا ہے
…
ہو ِپنجڑا بند یا آزاد پنچھی
جودل چنچل تھاوہ چنچل رہاہے
…
میں کھاؤں گا اُسے سسرال جاکر
میری خاطر جو مرغا پل رہا ہے
…
یہ رسی کیا کوئ ایٹھن نہ ہوگی
کسی کا بھی کوئ کس بل رہا ہے
…
جمال صبر میں چِنتا نہیں ہے
ہمارا من بڑا شِیتل رہا ہے
تبصرے بند ہیں۔