معاشی تحریک: وقت کی اہم ضرورت

رفیق شیخ

گذشتہ دنوں   وطن عزیز میں   جو تبدیلیاں   رونما ہوئی ہیں ، اس کے اسباب میں   سے ملک کی ترقی کا نعرہ، بڑھتی مہنگائی بہت نمایاں   ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ مہنگائی پر قابو پانا موجودہ حکومت کی ترجیحات میں   سے ہے۔ لیکن صنعت و تجارت و ملکی وسائل پر قابض لوگوں   کی مادہ پرستانہ سوچ اور منافع خوری کے مزاج کے سبب یہ صرف ایک خواب ہی ثابت ہو سکتا ہے۔

ملک کی آزادی کے رہنمائوں   نے بھی ملک کی تعمیروترقی کا خواب دیکھا تھا، لیکن متوازن ترقی نہ ہو پائی۔ ہندوستانی سماج کا ایک بڑا حصہ محرومی، غربت و افلاس کی زندگی جینے پر مجبور ہے۔

گذشتہ حکومتوں   نے ’’غریبی ہٹائو ‘‘کا نعرہ دیا۔ لیکن نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ حالیہ حکومت نے بھی ایک نعرہ دیا ہے، ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘۔ اس کی عملی تعبیر اسی وقت ممکن ہے جب ہندوستانی سماج کے تمام ہی افراد کو بلا تفریق مذہب و ملت ترقی کے یکساں   مواقع حاصل ہوں  اور ہر فرد و معاشرہ ملک کی تعمیرو ترقی میں   اپنا فعال رول ادا کر سکے۔

امت مسلمہ اس ملک کی دوسری  اکثریت یا سب سے بڑی اقلیت ہے لیکن آزادی کے بعد سے یہ کمیونٹی تعلیمی، معاشی و سماجی اعتبار سے انتہائی پسماندہ قوم بن چکی ہے۔ سچر کمیشن رپورٹ کے اعداد و شمار اس کا بین ثبوت ہیں ۔

اس پسماندگی کے کئی داخلی و خارجی اسباب ہیں ۔ ملت کی تعلیمی و سماجی ترقی کے لیے افراد و تنظیموں   نے بہترین کوششیں   کی ہیں ۔ تعلیمی تحریکات چلائیں ۔ لیکن ملت کی معاشی ترقی کے لئے کوئی منظم جدوجہد نظر نہیں   آتی جبکہ شہروں  یا علاقوں   میں   برادران ملت صنعتی و معاشی اعتبار سے ترقی پذیر تھے یا اپنی میراث پدری سے وابستہ تھے، اکثر وہیں   فرقہ وارانہ فسادات رونما ہوئے اور ان کی معاشی کمر توڑی گئی۔

معاشی ترقی اور تعلیمی ترقی ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں ۔ اسلام معاش کو اللہ کے فضل اور خیر سے تعبیر کرتا ہے۔ محنت‘کسب حلال اور معاشی جدوجہد کو عبادت قرار دیتا ہے۔ مال و دولت کو مرتکز ہونے سے روک کر عوام میں  گردش کو پسندیدہ قرار دیتا ہے۔ پیداواری سرگرمیوں   کو قدر و استحسان کی نگاہ سے دیکھتا ہے‘ ملت اسلامیہ  ہند نے اس جانب منظم و منصوبہ بند کوششوں   کے تئیں   غفلت برتی۔

امت مسلمہ کے سنجیدہ اور دانشمند ‘دردمند افراد کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملت کے معاشی استقلال و استحکام کے لیئے تحریک چلائیں ۔ اس ملک کی تعمیر و ترقی میں   امت مسلمہ کو اپنا رول ادا کرنا ضروری ہے۔ یہاں   کی صنعت و تجارت بڑے پیمانے پر مادہ پرست افراد کے ہاتھوں   میں   ہے۔ یہاں   کی عوام اشیائے ضروریہ حتیٰ کہ ادویات مہنگے داموں  پرخریدنے کے لئے مجبور ہیں ۔ ملت کے افراد و خواتین بالخصوص نوجوانان کو چاہئے کہ وہ تن آسانی کو ترک کرکے اپنے اندر مہم جوئی اور کارآفرینی کا جذبہ پیدا کریں ۔

شاعر مشرق علامہ اقبال رح کے مطابق؎

ترے صوفے ہیں   افرنگی‘ترے قالین ہیں   ایرانی

لہو مجھ کو  رلاتی ہے    جوانوں   کی   تن  آسانی

نوجوان مرد و با پردہ خواتین صنعت حرفت و تجارت کے میدانوں  میں   آئیں  ‘اپنی صلاحیت‘صالحیت اور سخت محنت کے ذریعہ معیاری مصنوعات و خدمات  سستے  مناسب داموں   میں   فراہم کریں ۔ تاریخ شاہد ہے مالابار کے ساحل پر مسلم تاجروں   نے اخلاقی اقدار کا مظاہرہ کیا۔ کم نفع پر معیاری اشیاء کی فراہمی ‘عیب بتا کر فروخت کرنا‘مناسب تولنا‘گاہک سے محبت شفقت  و عزت سے پیش آنا یعنی اسلامی تعلیمات کے مطابق تجارت کے ذریعہ برادران وطن متاثر ہوئے اور بڑی تعداد مشرف بہ اسلام ہوئی۔

آج ملک کے اقتصادی‘مالی وسائل انسانوں   کے لئے نفع بخش افراد کے ہاتھوں  میں   آنا وقت کی ضرورت ہے۔ لہٰذا ملت کے نوجوانوں   کو چاہئے کہ وہ اپنے اندر خود اعتمادی‘مثبت نقطئہ نظر ‘تخلیقیت ‘ندرت  انتظامی و تکنیکی مہارتیں   ‘  کمیونکیشن کی مہارت ‘Calculated Risk  لینے  کا مزاج ‘آنے والے مسائل کو حل کرنے کی صلاحیتیں  Entrepreneurial Skills  پیدا کریں ۔ ملازمتوں    کے سنہری جال و بندشوں   پر آزادی کے تھپیڑوں   والی تجارت کو ترجیح دیں ۔ نوجوان ابتداء ً  اپنی مقامی ضروریات کے  پیش نظر (سائنٹفک طریقہ سے طلب ورسد Demand & Supplyکے فرق کے سروے کی بنیاد پر )گھریلو سطح کی و چھوٹے پیمانے کی صنعتیں   قائم کر کے اپنے پاس مسلم و غیر مسلم افراد کو روزگار فراہم کر سکتے ہیں ۔ انہیں   چاہئے کہ وہ نئی نئی تکنیکیں   سیکھتے رہیں   اور’’موزوں  تکنالوجی ppropriateTechnology ‘‘کا استعمال کریں   جس سے کہ زیادہ سے زیادہ Employment Generation روزگار پیداہو سکے۔ اور کم قیمت پر بہترین کوالٹی کی مصنوعات فراہم کریں ۔

ملت میں  جو افراد پہلے سے کامیابی کے ساتھ صنعت و تجارت میں   ہیں  وہ نوواردین کی رہنمائی کریں ۔ یعنی باہمی اخوّت اورNetworkingکا ایک نظم قائم ہو۔ میمن، بوہرہ برادری و دیگر سے استفادہ کی راہیں   نکالنی چاہیے۔ Entrepreneurshipانٹرپرینرشپ‘خود روزگار کو فروغ دینے کے لئے مادری زبان میں   بہترین لٹریچرتیار کیا جائے۔ مہاراشٹر کے MITCON,MCEDکی طرز پر کوئی ادارہ قائم کیا جا سکتا ہے۔

عوام کو بھی بیدار کرناضروری ہے کہ وہ برانڈڈ اشیاء Brandedپر مقامی سطح پر تیار مصنوعات کی خریدی کو ترجیح دیں ۔ صنعت و تجارت کے قیام کے لیے سرمایہ کی کمی بڑا مسئلہ ہوتا ہے۔ حکومتی اسکیمات سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اسکیماتی قرضہ جات کے تئیں   بنکوں   کا رویہ نو واردین کے لیے یا معاشی اعتبار سے پسماندہ افراد کے لیے حوصلہ شکن ہی نظر آتا ہے۔ مثبت انداز سے پیشکشی ‘نقائص سے پاک پروجیکٹ رپورٹ، ادائیگی قرض کی یقین دہانی اور مستقل فالو اپ کے ذریعہ سے بنکوں   کو بھی آمادہ کیا جا سکتا ہے۔ ساتھ ہی اسلامی بنکنگ اور کو۔ آپریٹیوسوسائیٹیزکا قیام و فروغ مسئلہ کا بہترین حل ہے جس کے ذریعہ سرمایہ بلا سودی اور نفع و نقصا ن میں   شرکت کی بنیاد پر حاصل ہوتا ہے۔ جو پیداواری‘ کاروباری سرگرمیوں   کو تیزی سے ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتا ہے۔ اس میں   اللہ تعالیٰ کی مدد بھی شامل حال ہوتی ہے۔ اوقاف کی جائیداد کی بازیابی و بحالی اور اس سے استفادہ کی صورتیں   پیدا کی جا سکتی ہیں ۔

Export Oriented Unitsکے قیام کے جانب بھی توجہ دینی چاہیے۔ اس سے ملک کی Exports اکسپورٹ میں   اضافہ ہوگا۔ غیر ملکی زرِمبادلہ ملک میں   آئے گا۔ Export کے لیے بہترین مواقع موجود ہیں ۔

Entrepreneurship Devolepmentکے لیے ملک میں   ریاستی و قومی سطح کے کئی سرکاری و غیر سرکاری ادارے و ایجنسیاں   سرگرم ہیں ۔ وہاں   سے مناسب رہنمائی ‘تربیت و تعاون حاصل کیا جاسکتا ہے۔

جن میں   ضلعی صنعتی مراکز ‘مہاراشٹر سینٹر فار انٹرپرینرشپ ڈیولپمنٹ‘کھادی اینڈ ولیج انڈسٹریز کارپوریشن‘مہاراشٹر انڈسٹریل ڈیولپمنٹ کارپوریشن‘مہاراشٹر انڈسٹریل ٹریننگ اینڈ کنسلٹنسی‘مہاراشٹر اسٹیٹ فائنانشل کارپوریشن‘نیشنل اسمال انڈسٹریز کارپوریشن‘مائکرو اسمال اینڈ میڈیم انٹر پرائزس‘اسمال انڈسٹریز ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن‘مہیلا آرتھک وکاس مہا منڈل‘نیشنل مائنارٹیزڈیولپمنٹ اینڈ فائنانشل کارپوریشن‘مولانا آزاد اقلیتی مالیاتی کارپوریشن‘ مختلف ایکسپورٹ پروموشن کائونسلزExport Promotion Councilsوغیرہ قابل ذکر ہیں ۔

جماعت اسلامی ہند کے حلقہ ء مہاراشٹر نے  شعبہ خدمت خلق کے تحت صنعت و تجارت سیل قائم کیا ہے۔ اسی طرح رفاہ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری واسلامک چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری انڈیا‘آل انڈیا کونسل آف مسلم اکنامک اپلفٹمنٹ سوسائٹی ‘تقویٰ ایڈوائزری اینڈشریعہ انوسٹمنٹ سولیوشنس جیسے ادارے اور رسالہ جات میں   کلکتہ سے شائع ہونے والے ماہنامہ’’ رہبر صنعت و تجارت‘ ‘، آن لائن رسالہ’’معیشت‘‘ کی بھی اس میدان میں   بڑی خدمات ہیں ۔ ان اداروں   و رسالوں  سے استفادہ اور ان کی ترقی کی کوشش ضروری ہے۔

مہاراشٹر میں   MCEDکی جانب سے شائع ہونے والا مراٹھی میگزین (اٌدیوجک)، (اٌدّیوگ سماچار)، NIIRکی جانب سے شائع ہونے والا Entrepreneur India‘قابل ذکر ہیں ۔

اور انٹرنیٹ پر ایسی کئی ویب سائٹس اور یو ٹیوب چینلز موجود ہیں   جن سے Project Report کے نمونے ‘ Businees Ideas وغیرہ حاصل کیے جا سکتے ہیں ۔ ملک کی موجودہ حکومت کی صنعتی پالیسیوں   Industrial Policiesکے تحت صنعت و تجارت کے لیے انڈسٹریل  کوریڈور(Industrial Corridor)‘اسکِل ڈیولپمنٹ مشن(Skill Development Mission)‘اسٹارٹ اپ انڈیا ((Start Up India‘اسٹینڈ اَپ انڈیا(Stand Up (India‘میک اِن انڈیا(Make In India)‘مدرا یوجنا MUDRA Yojnaجیسی اسکیمات سے بھرپور استفادہ کے لئے منظم انفرادی اور اجتماعی کوششیں   کرنی چاہئے امید ہے کہ اس سے امکانات بھی پیدا ہوں   گے۔ ملت کے اہل دانش و درد مند افراد کو چاہیے کہ ایک وسیع تر منصوبہ بند معاشی تحریک برپا کریں   کہ امت مسلمہ پسماندگی و درماندگی کے دلدل سے نکل کر خوشحال زندگی گزارے۔ ملک کی تعمیر و ترقی میں   بھرپور حصہ لے تاکہ ملک سپر پاور (مہا ستّا)بن جائے۔ نتیجتاًہماری شبیہ Imageبرادران وطن میں   ملک کے خیر خواہ اور Assetاثاثہ کی بن جائے گی۔ وہ اسلام سے بھی قریب ہوں   گے۔ کیونکہ دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہوتا ہے۔

اب  وہ منزل  آگئی ہے  اے  رفیقان ِسفر

اب جو ہم ٹھہرے تو گرد کارواں   ہو جائیں   گے

ہم نے  رخ  بادِ  مخالف  کا  اگر موڑا  نہیں

ایسا بکھریں   گے کہ بے نام و نشاں   ہو جائیں   گے

(عامر عثمانی)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔