اسلام کی شہزادی، آخر تجھے کیا ہوا؟

شیخ فاطمہ بشیر

اے میری لاڈلی بیٹی!

میں جب جب اس دنیا پر ایک نگاہ ڈالتی ہوں، ہر روز تمہیں ایک بگڑی ہوئی حالت میں پاتی ہوں۔ ترقی کے نام پر نت نئے انداز تمہارا مشغلہ بن چکا ہے۔ مساواتِ مردوزن کے لئے مغربی عورتوں کی صفوں میں تم بھی کھڑی دکھائی دیتی ہو، لیکن اس معاشرے کی زبوں حالی سے تم ناواقف ہو۔۔ حقوق پانے کی جدوجہد میں وہاں خاندانی نظام بکھر چکا ہے۔ زناکاری، منشیات کی لت، عصمت دری، خودکشی، ذہنی امن و سکون سے بربادی، اسقاط حمل، خراب اخلاق، ناپاک فضا، ذہنی دباؤ، کینسر، خطرناک امراض، غیر شادی شدہ عورتوں کی بڑھتی تعداد، برباد ہوتی نسلیں، بنا ماں باپ کی اولادیں، قتلِ اطفال، تکبر، خود پسندی جیسی بیماریاں اس سماج میں اپنا ڈیرہ بسا چکی ہیں۔ تحریکِ نسواں کے تحت وہ خود کفیل تو ہوگئیں، لیکن سماج میں مرد کے برابر درجہ حاصل نہ کرسکیں۔ جس نے انھیں جسمانی، ذہنی اور نفسیاتی مریض بنا دیا۔ جب وہ فطرت سے جنگ کر بیٹھیں تو بربادی ان کا مقدر بن گئی۔ اور تم مغرب کی ان چکاچوند کے پیچھے اندھا دھند بھاگنے لگی۔

اے دخترِ اسلام!

 تمہیں تو مریم، طاہرہ، صدیقہ اور زہرا کی پیروی کرنی تھی، لیکن تم نے بھی تہذیب اور اسلامی شعار کو اتار پھینکا۔ برقع تم پر ایک بوجھ بن گیا۔ شوہر کی اطاعت و فرمانبرداری دقیانوسیت لگنے لگی۔ ملازمت کا نشہ ایسا چڑھا کہ پیسوں کے سامنے رحم کے رشتے ہیچ لگنے لگے۔ اولاد کی اسلامی نہج پر پرورش سر درد محسوس ہونے لگی۔ بدکرداری و بداخلاقی جیسی صفات کی تم اعلیٰ خوگر بن گئ۔ فحاشی و عریانیت کے نام پر بازاروں میں ملنے والے عریاں لباس فیشن کے طور پر اپنانا تمہاری پسند بن گئی۔

جو بیٹی دنیا کی عورتوں کے لیے بہترین مثال تھی، آج وہی مغرب اور مغربی عورتوں کو اپنا نمونہ بنا بیٹھی۔ جو دنیا کو اچھائی و پاکدامنی اور سلامتی کا درس دیتی تھی، غیروں کی نقالی میں مصروف ہوگئیں۔ جس کی تہذیب و ثقافت اور اعلیٰ کردار کو دنیا قدر کی نگاہ سے دیکھتی تھی، اُس نے اپنی میراث کو پاؤں سے ٹھوکر ماردی۔ مغرب کے حقوق نسواں کے نعرے خوشنما لگنے لگے اور اسلامی تہذیب قدیم محسوس ہونے لگی۔ اور پھر زوال شروع ہوا اور اس زوال نے اسلامی معاشرے کو درہم برہم کر دیا۔ اسلامی تعلیمات میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی لیکن دنیا نے مسلمان عورتوں پر مظلوم، لاچار، کمزور اور بے بس جیسے الفاظ ہمدردی کے لیے استعمال کیے۔ اسلام پر عورت کے حقوق سے متعلق کئی اعتراضات کھڑے کئے۔ لیکن۔۔۔ حوّا کی بیٹی افسوس ہے تجھ پر کہ ان اعتراضات کے جوابات اپنی زندگی سے دینے کی بجائے تو بھی اس تحریک کے تیز منجھدار میں  بہتی چلی گئی۔

آہ میری بیٹی!

تمہیں تو اسلام کا چلتا پھرتا نمونہ بن کر دکھانا تھا۔ انہیں بتانا تھا کہ اسلام کے سائے میں ہی عورت کو حقیقی وقار، عزت، احترام، تکریم اور مقام حاصل ہوا۔ جس نے عورت کو روزِ اوّل سے مذہبی، سماجی، معاشرتی، قانونی، آئینی، سیاسی اور انتظامی حقوق دئیے اور ان کی ضمانت بھی فراہم کی۔ ماضی کی غلامی، ذلت اور ظلم و استحصال کے بندھنوں سے آزاد کیا۔ عورت کے وقار کے منافی تمام قبیح رسومات کا خاتمہ کیا۔ سماج کے سب سے کمزور طبقے کو ایک مقام و مرتبہ دیا۔ فطرت کے مطابق ذمہ داریاں سونپیں۔ جس نے معاشرے کو ارتقاء کی اعلیٰ منازل کی طرف گامزن کرنے میں اپنا فعال کردار پیش کیا۔

میری پیاری بیٹی!

 اس عظیم ترین افتخار و اعزاز کو اپنے ہاتھ سے نہ گنوانا۔ اپنی زندگی اسلام کے سانچے میں ڈھال لو اور اسے "تحریکِ نسواں”، "وقارِ نسواں”، "آزادئ نسواں” اور "حقوق نسواں” کے لیے اٹھنے والوں کے سامنے ایک مضبوط عملی دلیل بنا کر پیش کرو۔ اپنی حیثیت کو پہچانو جو دینِ فطرت نے تمہیں عطا کیا۔ اور ماں، بہن، بیٹی، بیوی، بہو، ساس، پڑوسی، رشتہ دار غرض ہر روپ میں دنیا کو یہ باور کرا دو کہ اسلام کے دامنِ رحمت میں تمام حقوق بنا کسی نعروں، تحریکوں، محنتوں اور قربانیوں سے حاصل ہیں، تم بھی اس کے دامن میں پناہ لے کر خوش و خرم زندگی بسر کر سکتی ہو۔

جنت سے تمہاری ایک غیور ماں!

تبصرے بند ہیں۔