اسٹیفن ہاکنگ کے نظریات کا تنقیدی جائزہ (قسط 1)

پروفیسر محمد رفعت

سائنس سے وابستہ بعض شخصیات ایسی ہیں جو سائنسی دنیا کے باہربھی مشہور ہوئیں۔ ایسی شخصیات میں اسٹیفن ہاکنگ (Stephen Hawking) کا بھی شمار ہوتا ہے۔ اسٹیفن ہاکنگ کی پیدائش 1942ء میں ہوئی اور 2018ء میں اس کا انتقال ہوا۔ اس کا تعلق انگلینڈ سے تھا۔ اپنی علمی اور تحقیقی خدمات اس نے کیمبرج یونی ورسٹی میں انجام دیں۔ اگر ہم اس سوال پر غور کریں کہ سائنس اوراس کی شاخ فزکس میں ہاکنگ نے کیا کارنامہ انجام دیا تو چند عنوانات ہماری توجہ مبذول کراتے ہیں:

شہرت کا سبب

ہاکنگ نے جن موضوعات پر کام کیا ان میں سب سے اہم بلیک ہول (قعر اسود) کا موضوع ہے۔ اس نے اس مسئلے کی تحقیق کے لیے بیسویں صدی کے سائنسی نظریات کا استعمال کیا۔ اس سے اتنی بات واضح ہے کہ اس کی گرفت سائنس اور طبیعیات کے تصورات پر بہت مضبوط تھی۔ سائنس کے نظریات کو سمجھنے میں اس کی تحقیقی کاوشوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔البتہ جب ہم یہ سوچتے ہیں کہ اس کی شہرت کی اصل وجہ کیا ہے؟ تو یہ اس کا سائنسی کارنامہ نہیں معلوم ہوتی۔ واقعہ یہ ہے کہ بیسویں صدی عیسوی میں سائنس کی دنیامیں ہاکنگ سے کہیں زیادہ اہم کام کرنے والی دوسری شخصیتیں موجود تھیں۔ اگر کوئی فہرست تیار کی جائے کہ اس صدی میں کن اہل تحقیق کا کام فزکس کی دنیا میں نمایاں اہمیت رکھتا ہے تو ہاکنگ کا نام پہلے یا دوسرے نمبر کے بجائے شاید بیسویں نمبر پر آئے گا، لیکن اس کے باوجود اس کو بڑی شہرت حاصل ہوئی۔

اس دنیا میں شہرت کسے حاصل ہوتی ہے، یہ ہم نہیں جانتے۔ اللہ تعالیٰ کی مشیت ہی طے کرتی ہے کہ کون مشہور ہوگا اور کون گم نام؟ تاہم اگرغور کیا جائے کہ اسٹیفن ہاکنگ کی شہرت کی کیا وجہ تھی؟ تو چند باتیں سمجھ میں آتی ہیں:

زندگی کے درمیانی دور میں، جب کہ ہاکنگ کی جوانی کا دور ابھی ختم نہیں ہوا تھا، اس پر فالج کا حملہ ہوا اور جسم کا بڑا حصہ کام کرنے کے لائق نہیں رہا۔ پھر اس کیفیت کا اثر جسم کے باقی حصوں پر بھی پڑا۔ یہاں تک کہ آہستہ آہستہ بولنے کی طاقت بھی ختم ہو گئی، لیکن انگلیوں اور آنکھوں کی حرکت کی مددسے اس کے لیے کمپیوٹر کا استعمال ممکن رہا۔ کمپیوٹر کو اس طریقے سے ترتیب دیا گیا کہ وہ ہاکنگ کی انگلیوں اور آنکھوں کی حرکت کے ذریعہ کام کرتا تھا۔ اس طرح اس نے کتابیں بھی لکھیں اورعلمی تحقیق بھی کی، نتائج تحقیق دنیا کے سامنے بیان کیے اور سائنس کے موضوعات کا عام فہم تعارف بھی کرایا۔

چنانچہ بظاہر شہرت کا سبب ہاکنگ کی غیر معمولی زندگی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک شخص کی جسمانی طاقت بہت کم تھی، فالج کی وجہ سے وہ بولنے اور لکھنے کا کام   براہ راست نہیں کر سکتا تھا۔اسے کمپیوٹر کی مدد لینی پڑی۔ ان غیر معمولی مشکلات کے باوجود اس نے اول درجے کی تحقیق کی اور اپنے خیالات اورتحقیقات کا عام فہم تعارف بھی کرایا۔یہ سب امور کشش کا باعث ہیں۔ اس کی غیر معمولی محنت، عزم، ارادہ اور تسلسل کے ساتھ کام، جسمانی صلاحیت اسی قدر متاثر ہو جانے کے باوجود اس کی سر گرم زندگی میں ہمارے لیے سبق موجود ہے۔ سبق یہ ہے کہ ہم زندگی کی مشکلات سے نہ گھبرائیں، بلکہ عزم اور ارداے کے ساتھ مشکلات پر قابو پائیں۔

ہاکنگ کی مقبول کتاب

علمی دنیا میں ایسی موو (Asimov )کا نام معروف ہے، جس نے سائنس کے تصورات کا سہارا لے کر مستقبل کی دنیا کی تصویر، سائنسی کہانیوں کی شکل میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ Asimov نے سائنس فکشن یعنی سائنسی کہانیاں لکھنے کے میدان میں شہرت حاصل ہے۔ اس کی کہانیوں میں مشینی دماغ یعنی روبوٹ سے متعلق کہانیاں بھی موجود ہیں۔ ان داستانوں میں ایسی دنیا کا تصورپیش کیا گیا ہے جس میں مفلوج افراد، جن کی جسمانی صلاحتیں کم زور ہوں یا ختم ہو گئی ہوں، روبوٹ کا سہارا لے کر اپنے کام کر سکتے ہیں۔ گویا روبوٹ ان کی جسمانی کمی پوری کر دیتا ہے۔ یہ تو کہانی کی بات ہے، لیکن ہاکنگ کی زندگی میں یہ افسانہ حقیقت کی شکل میں نظر آتا ہے۔

ہاکنگ کے علمی اور تحقیقی کام کا تعلق ایک خاص سائنسی موضوع سے ہے۔ جس کو بلیک ہول(قعر اسود) کہا جاتا ہے۔(اس کا ذکر آگے آئے گا) اس کے علاوہ اس نے دیگر سائنسی موضوعات پر بھی اظہار خیال کیا اور تحقیقات کیں۔ اس نے سائنس کے تصورات اور تحقیقات کا عام فہم اورمقبول عام تعارف کرانے کی کوشش کی۔ اس سلسلے میں اس کی ایک کتاب زیادہ مشہور ہوئی، جس کا نام ہے A Brief History of Time۔ یعنی وقت کے تصور کی مختصر تاریخ۔ یہ کتاب 1988ء میں شائع ہوئی اور اپنے زمانے میں اسے  best seller (سب سے زیادہ فروخت ہونے والی) کی حیثیت حاصل ہوئی۔ کتاب کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوا اور بڑے پیمانے پرخریدی اور پڑھی گئی۔

اس کتاب کی اشاعت کے چند سال بعد اس نے اسی کتاب کا خلاصہ ’تصور وقت کی مختصر تر تاریخ‘ کے نام سے لکھا، جس میں سائنسی تصورات کی عام فہم تفہیم کی کوشش کی۔ یہ تحریریں ہاکنگ کے نمایاں کاموں میں شامل ہیں۔ اس نے کائنات کی ابتدا، خدا کے تصور اور خدا اور کائنات کے تعلق جیسے موضوعات پر بھی اظہار خیال کیا ہے۔ یہ موضوعات عام انسان کی دل چسپی کے موضوعات ہیں، چاہے وہ سائنس نہ جانتا ہو۔ ہر شخص بہر حال کائنات اور خدا کے بارے میں سوچتا ہے۔ہاکنگ کی تحریروں کے پڑھنے والوں نے خدا اور کائنات کے بارے میں اس کے خیالات پر بھی توجہ دی۔

غالباً بیسویں صدی میں صرف آئنس ٹائن(Einstein ) ایسی دوسری شخصیت ہے جس کو اتنی زیادہ شہرت حاصل ہوئی ہے۔ بیسویں صدی سائنس اور فزکس کی دنیا میں بعض انقلابی تبدیلیوں کی حامل صدی تھی۔ سائنس کے تصورات میں تبدیلیاں تو ہمیشہ ہوتی رہی ہیں، لیکن بسا اوقات یہ تبدیلیاں بڑی ہمہ گیر نوعیت کی ہوتی ہیں، جن کاعلمی دنیا پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ تحقیق طلب سوالات، انداز گفتگو اور انداز بیان سب بدل جاتے ہیں۔ اگرہم غور کریں کہ بیسوی صدی کی فزکس اورسائنس میں ہونے والی خاص تبدیلیاں کیاہیں تو دو قابل ذکر تغیرات سامنے آتے ہیں:

بیسویں صدی کی اہم سائنسی تبدیلیاں

ایک تبدیلی تو وہ ہے جسے Relativity کا نظریہ کہا جاتا ہے، یعنی نظریۂ اضافیت۔ اس کو ابتدائی اور مربوط شکل میں آئنس ٹائن نے 1905ء میں پیش کیا۔آئنس ٹائن کا تعلق جرمنی سے تھا۔ جب جنگ عظیم کے بعد جرمنی میں یہودیوں کا رہنا مشکل  ہو گیا تو وہ امریکہ میں جا بسا۔ 1905ء میں آئنس ٹائن نے اپنا نظریۂ اضافیت پیش کیا، جس کو Special Theory of Relativity کہا جاتا ہے، یعنی آئنس ٹائن کے اضافیت کے نظریہ کا خاص پہلو۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ تصور اضافیت کا ایک پہلو۔ اس کے دس سال بعد 1915ء میں آئنس ٹائن ہی نے General Theory of Relativity، یعنی عام(یا جامع) نظریۂ اضافیت پیش کیا، جو سابق نظریے کے مقابلے میں زیادہ وسیع ہے۔ نظریہ اضافیت کی تشریح کرنے، اس کو سمجھنے اور اس کو بیان کرنے میں بہت سے لوگوں نے حصہ لیا ہے۔ایسے شارحین کی تعداد مختصر نہیں، بلکہ سینکڑوں میں ہے، لیکن اصل تحقیقی کام اوربنیادی تصوارات آئنس ٹائن کے پیش کردہ ہیں۔ بیسویں صدی کی فزکس میں یہ ایک نمایاں اور انقلابی تبدیلی تھی جو واقع ہوئی، یعنی نظریۂ اضافیت کی تخلیق۔

دوسری نمایاں تبدیلی وہ ہے جسے کوانٹم نظریہ یا کوانٹم تھیوری (Quantum Theory)کہا جاتا ہے۔ اردو میں اسے نظریۂ مقادیری کہتے ہیں۔ ہماراخیال ہے کہ لفظ ’کوانٹم‘ صوتی اعتبار سے ایسا ہے کہ اردو اس کو قبول کر سکتی ہے، اس لیے اس کا ترجمہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ اس نظریے کو پیش کرنے والا ’پلینک‘ نامی شخص تھا۔ 1900ء میں ایک صدی ختم ہو رہی تھی اور بیسویں صدی شروع ہو رہی تھی۔اس وقت پلینک نے اپنے نظریات ابتدائی شکل میں پیش کیے۔ اس کے ایک چوتھائی صدی بعد تین اہم شخصیات نے اس نظریے کی مربوط تشریح کی، اس میں اہم اضافے کیے اور اس کی تفصیل بیان کی۔ یہ تین شخصیات ہیں Schrodinger (شروڈنگر)، ہازن برگ (Heisenberg)  اور ڈراک(Dirac)۔

اضافیت اور تصور کوانٹم دو نظریات ہیں، جنھوں نے بیسویں صدی کی فزکس اور سائنس پر انقلابی اثرات ڈالے اورسائنسی طرز فکر میں نمایاں تبدیلیاں کیں، جن کا اثر انسانوں کے عام فلسفیانہ تصورات پر بھی پڑا۔ وہ تبدیلیاں کیا ہیں؟ یہ جاننے کے لیے بیسویں صدی سے پہلے سائنس کی دنیا میں رائج تصوارت کا جائزہ لینا ضروری ہے، تاکہ پس منظر سامنے رہے۔مظاہرکائنات کو سمجھنے کے لیے بیسویں صدی سے پہلے مقبول سائنسی تصورات وہ تھے جو اصلاً نیوٹن نے پیش کیے تھے۔نیوٹن کادور آج سے 300 سال قبل کاہے۔ نیوٹن کی مشہور کتاب 1687ء میں (یعنی تین سوسال سے کچھ زیادہ عرصہ قبل)شائع ہوئی۔ نیوٹن کا تعلق انگلینڈ سے تھا۔ اس کتاب کا مختصر نام پرنسپیا (Principia) ہے، جو ریاضی اور فزکس سے متعلق نیوٹن کی تحقیقات پر مشتمل ہے۔ یہ دقیق کتاب ہے۔آج بھی اس کو پڑھنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ (جاری ہے)

2 تبصرے
  1. افتخار راغب کہتے ہیں

    استاد محترم کی بہت عمدہ تحریر

  2. شاداب عظیم کہتے ہیں

    عمدہ تحریر

    کیااسٹیفن ہاکنگ کی کتابیں اردو میں دستیاب ہیں؟

تبصرے بند ہیں۔