خشک ہو جائے ہر اک بحرِ بیاں ممکن ہے
افتخار راغبؔ
خشک ہو جائے ہر اک بحرِ بیاں ممکن ہے
خامشی کی تری تفہیم کہاں ممکن ہے
…
میں تو کہتا تھا کنارے نہیں ملنے والے
کس طرح تم نے کہا تھا مری جاں ممکن ہے
…
ملنے آ جاؤ مروّت میں کہ دل رہ جائے
اور دل کو ہو محبت کا گماں ممکن ہے
…
آتشِ عشق میں اے مجھ کو جلانے والے
جل بجھوں اور نہ دکھائی دے دھواں ممکن ہے
…
رام ہونا ترا ممکن نہیں اِس کل جُگ میں
دل میں اک آس کا کہنا ہے کہ ہاں ممکن ہے
…
کوچ کرنے کا کریں قصد وہ دل سے راغبؔ
اور گریزاں ہو مرے جسم سے جاں ممکن ہے
تبصرے بند ہیں۔