خشک ہو جائے ہر اک بحرِ بیاں ممکن ہے

افتخار راغبؔ

 خشک ہو جائے ہر اک بحرِ بیاں ممکن ہے

خامشی کی تری تفہیم کہاں ممکن ہے

میں تو کہتا تھا کنارے نہیں ملنے والے

کس طرح تم نے کہا تھا مری جاں ممکن ہے

ملنے آ جاؤ مروّت میں کہ دل رہ جائے

اور دل کو ہو محبت کا گماں ممکن ہے

آتشِ عشق میں اے مجھ کو جلانے والے

جل بجھوں اور نہ دکھائی دے دھواں ممکن ہے

رام ہونا ترا ممکن نہیں اِس کل جُگ میں

دل میں اک آس کا کہنا ہے کہ ہاں ممکن ہے

کوچ کرنے کا کریں قصد وہ دل سے راغبؔ

اور گریزاں ہو مرے جسم سے جاں ممکن ہے

تبصرے بند ہیں۔