اسکو لوں کا انتخاب، ایمان و عقیدہ کی فکر کے ساتھ کریں!

مفتی محمد صادق حسین قاسمی

 مئی کا مہینہ عصری اسکولوں کی سالانہ چھٹیوں کا ہوتا ہے اور تقریبا دیڑھ ماہ کی تعطیلات کے بعد جون میں اسکولوں کا آغاز ہوتا ہے اور تعلیمی سال کی شروعات ہوتی ہے ،لیکن جون کے آنے سے قبل ہی ماں باپ اپنی اولاد کی بہتر تعلیم کے لئے اچھے سے اچھے اسکول کے انتخاب کی فکر میں رہتے ہیں ، بچے تو اپنی چھٹیوں کو گزارنے میں مصروف رہتے ہیں مگر والدین بہت ہی فکر مند ہوتے ہیں کہ اپنے بچوں کو کن اسکولوں میں داخل کروائیں اور آگے تعلیمی مرحلے کو بڑھانے کے لئے کس طرح کے اداروں کا انتخاب کریں ؟

موجودہ دور میں تعلیم نے جب سے تجارت کی صورت اختیا ر کی اور تعلیمی ادارے تجارت کی منڈیوں میں بدل چکے تو اشتہارات اور اعلانات کی بھر مار شروع ہوگئی ،ہر ادارہ خود کو بہتر اور لائق ثابت کروانے کے لئے ہرممکن کوشش میں لگا ہوا ہے ، دل کو لبھانے والے ،اور پرکشش اشتہارات سے سرپرستوں کو مائل کرنے کی تدبیریں کی جاتی ہیں ،اخبارات کے صفحات کے صفحات ان ہی کی نذر ہو رہے ہیں ،سڑکوں ،گلیوں ،بلند و بالا عمارتوں اور ہر جگہ اسکولوں کے بورڈ اور اشتہارات آویزاں نظر آرہے ہیں ۔سہولیا ت اور معیار ِ تعلیم کے بلند بانگ دعوؤں اور پرسکون و قابل اعتماد نظم و ضبط کے چرچے ہر ایک کے پاس ہیں ۔اس گرم بازی میں بلاشبہ والدین کے لئے انتخا ب ایک اہم مسئلہ بن کر کھڑا ہو جا تا ہے کہ ان حالات میں کیا کریں ؟بلا شبہ موجودہ دور میں تعلیمی معیار کا فی بڑھ چکا ہے ،نت نئی ایجادات نے اور سائنس و ٹکنالوجی کی ترقی نے تعلیم کو معیاری اور آسان بنانے اور تمام تر سہولتوں کے ساتھ زیور ِ علم سے آراستہ ہونے کی راہوں کو ہموار کر دیا ہے ،اور اب تعلیمی میدان میں عجیب مسابقت کا ماحول چھا گیا ہے ،خوب سے خوب تر کی فکریں ،اور اعلی سے اعلی کے خواب ہر ماں باپ کے ہیں ،اور پھر تعلیمی ادارے بھی ایسے وجود میں آچکے ہیں جو ان کے خوابوں کی تعبیر فراہم کرنے میں کوشاں ہیں ۔اس کے لئے والدین پیسوں کی پرواہ کئے بغیر اوراخراجات کو خاطر میں لائے بنا اپنی اولاد کے لئے سب قربان کررہے ہیں ۔

  لیکن ان تمام ترقیوں اور تعلیمی بلندیوں کے باوجود ہمیں یہ نہیں فراموش کرنا چاہیے کہ موجود ہ نظام ِ تعلیم کو کن اصولوں پر ڈھا ل کر تیار کیا گیا اور ان کے پیچھے کیا عزائم کارفرما ہیں ؟آج اگر چہ تعلیم کی ظاہری روشنی سے دیہات کی تاریک فضاؤں میں بھی روشنی پھیل چکی اور غریب کے گھر میں بھی اجالا چھا چکا مگرباطن بد اخلاقیوں سے تیرہ  وتار ہورہا ہے ،اخلاق و کردار ، انسانی ہمدردی و خیر خواہی کے جذبے مفاد کی تہہ میں دبے جارہے ہیں اورتہذیب و ثقافت پامال ہورہی ہے اور سب سے بڑھ کر ایک مسلمان کا ایمان و عقیدہ متزلزل ہورہا ہے اور دین و تعلیمات ِ اسلام میں شکوک و شبہات نظر آرہے ہیں ،اسلاف واکابر کی قربانیاں بے کار دکھا ئی دے رہی ہیں ، ان کے کارنامے اور اسلام کے تحفظ و دین کی اشاعت کے لئے ان کی محنتیں بے سود معلوم ہورہی ہے ،یہ در اصل موجودہ نظام ِتعلیم اور اسلام کے خلاف منصوبہ بند ذہن رکھنے والے افراد کی کوششیں ہیں جو آج پوری کامیابی کے ساتھ اپنے مقاصد کو حاصل کررہی ہیں ،بقول مفکر اسلام حضرت مولانا ابو الحسن علی ندوی ؒ کہ:ایک طویل المیعاد منصوبہ بندی ہے ، ذرا دیر لگے لگی ،تیس برس چالیس برس میں خود ایک ایسی نسل تیا ر ہوجائے گی جس کے نزدیک کفر وایمان کا فرق ،توحید و شرک کا فرق ، عقائد و مذاہب کا فرق سب بے معنی باتیں ہوجائیں گی ،کچھ کرنا نہیں پڑے گا۔( آئندہ نسلوں کے اسلام کی ضمانت اور ایمان کی حفا ظت کی ذمہ داری :14)

ہندوستان میں عصری نظام ِ تعلیم کا نقشہ تیار کرنے والا مشہور انگریز لارڈ میکالے نے نظام ِتعلیم کی غرض و غایت بتاتے ہوئے ہوش ربا رپورٹ پیش کی تھی کہ:ہم فی الحال اپنے محدود ذرائع کے ساتھ سب لوگوں کے تعلیم کا بند وبست نہیں کرسکتے ۔ہمیں اس وقت ایک بس ایک طبقہ کو پیدا کرنے کی سعی کرنی چاہیے جو ہمارے اور ان کروڑوں انسانوں کے مابین ترجمانی کے فرائض سر انجام دے سکے جن پر ہم اس وقت حکمراں ہیں ۔ایک ایسا طبقہ جو خون اور رنگ کے اعتبار سے ہندوستانی ہو مگر طرز فکر ،اخلاق اور فہم و فراست کے نقطہ ٔ نظر سے انگریز ۔۔۔۔(ہمارا تعلیمی نظام :50)انگریزوں نے جس دور اندیشی کے ساتھ تعلیمی نظام کو بدلنے کی کوشش کی اس سے جو تباہ کن نتائج ظاہر ہوں گے اس کا اظہار معروف نو مسلم مغربی مصنف محمد اسد نے خو د کیا کہ:یعنی مسلم نوجوانوں کی مغربی تعلیم ان کو رسول اللہ ﷺ کے پیغام پر ایمان و یقین رکھنے اور اپنے آپ کو مخصوص الہی تہذیب و تمدن کا نمائندہ سمجھنے کے قابل نہ رکھے گی جو اسلام لے کر آیا ہے ۔( عصری تعلیم کے خطرناک نتائج:7)نہایت باریکی اور دور اندیشی کے ساتھ ہمارے عصری نظام کو بدلا گیا اور ہماری سوچ و فکر کے انداز میں تبدیلی لائی گئی ،ان کی برتری اور عظمت کے نقوش دلوں پر بٹھاکر اپنی تقلید کا شیدائی بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔

     اگر ہم موجودہ نظام تعلیم کی بے اعتدالیوں کو دیکھنا چاہیں اور اس کی بتا ہی کا مشاہدہ کرنا چاہیں تو ہمیں کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں ،بلکہ خود اپنے گرد و پیش کا جائزہ لیں تویہ حقیقت آشکارا ہوجائی گی کہ اس وقت جو کچھ اخلاقی اور دینی تباہی نوجوانوں اور بالخصوص افراد امت میں چھائی ہوئی ہے وہ انہیں اداروں کی دین ہیں جو بالکل بھی اخلاقی تربیت اور انسانی عظمت سے خالی ہیں ،جہاں صرف الفا ظ تو سیکھائے جارہے ہیں لیکن جو ہر انسانیت جن سے چمکتا ہے اور انسان کا باطن جس نے منور ہوتا وہ آداب و اخلاق ،تہذیب و ثقافت ، روایتی اقدار کی اہمیت سب کچھ حرص و ہوس کی نذر ہوچکے ہیں ۔مذہب بیزاری کا بڑھتا ہو ارجحان،شرم حیا ء اور پاکیزگی کی پامالی ،حسن اخلاق ،معاشرتی اصول آداب کی رعایت ،خیر خواہی کے جذبات ،ملک و معاشرہ کو اخلاقی قدروں پر تعمیر کرنے سے لاپرواہی ،اور خدا فراموشی کا میلان کہا ں سے مل رہا ہے ؟علم تو انسا ن کو اخلاق و کردار سے آراستہ کرتا ہے ،شرافت و تہذیب کی تعلیم دیتا ہے ،حدود و قیود سے آگا ہ کرتا ہے ،نفع و نقصان ،خیر و شر کی تمیز پیدا کرتا ہے ،اپنے ساتھ ساری انسانیت کی بھلا ئی کے جذبے کو پروان چڑھاتا ہے ،ادب و احترام اور حقوق و فرائض سے آگہی بخشتا ہے ، اور مذہب سے رشتہ کو استوار کرتا ہے لیکن آج کے تعلیم یافتہ ان تما م چیزوں سے نابلد و نا آشنا ہو کر میدان عمل میں آرہے ہیں اور اس کے نتیجہ میں جو تباہی ملک و عالم میں برپا ہے وہ ہماری نگا ہوں کے سامنے ہیں ۔

قتل و غارت گری ،فحاشی و بدکاری ،دھوکہ دہی اورلوٹ کھسوٹ میں یہ کسی سے کم نہیں ہیں ۔عیسا ئیت جس کی اسلام دشمنی ڈھکی چھپی نہیں ،اسلام سے مسلمانوں سے برگشتہ کی ان کی سازشیں پرانی بھی اور نت نئی بھی ،اسلام کے خلاف ان لوگوں نے ہر منصوبہ اختیار کیا جس سے وہ مسلمانوں کو اسلام سے دور کر سکیں چناچہ ان کے اس مشن کو کامیاب بنانے والی چیزوں میں ایک مشنری اسکولوں کا قیام بھی ہے ،اعلی تعلیمی نظام ،نہایت خوشنماعنوان ،اور بہترین سے بہترین سہولتوں کا انتظام اور پھر معیاری تعلیم کی فراہمی ان کے ایجنڈو ں ہے ۔جس کی بناء پر ان عیسائی اداروں میں تعلیم دلوانے کی آرزو رکھنے والے مسلمانوں کی بھی کمی نہیں ،وہ اس حقیقت کو نظر انداز کردیتے ہیں کہ عیسائی اسکولس و کالجس اگرچہ تعلیم تو دیتے ہیں لیکن ایمان کو چھین لیتے ہیں اور عقیدہ ٔ ایمان کو نوچ لیتے ہیں ان کی ان ہی سازشوں پر گہری نظر رکھنے والے اور خود ان کے مکر وفریب کو بہت قریب سے مشاہد ہ کرنے والے دور اندیش مدبر شاعر ِاسلام علامہ اقبا لؒ نے کہا تھا کہ :

 اور     یہ    اہل ِ   کلیسا   کا    نظام  ِ  تعلیم

ایک سازش ہے  فقط  دین ِ  مروت  کے  خلاف

اور ایک موقع پر فرمایا کہ:

 ہم  سمجھتے  تھے  کہ  لائی  گی  فراغت  تعلیم

 کیا خبر  تھی کہ  چلا  آئے  گا  الحاد  بھی  ساتھ

عیسائیت کی تبلیغ و ترویج کے لئے ان کے مؤثر ہتھیاروں میں اسکولس و کالجس بھی داخل ہیں چنانچہ اس کا اظہار ’’مسلمانوں میں تبلیغی کام کے طریقے ‘‘میں لکھا ہے کہ:جاہل ( غیر تعلیم یافتہ )مسلمانوں میں گھسنے کا بہتر ذریعہ اسکول ہیں ۔پہلے ا ن کو تعلیم دی جائے اسکولوں کے ذریعہ مشنری کا رکن مسلمانوں کے گھروں میں داخل ہو سکتے ہیں اور یسوع مسیح کا پیغام پہنچاسکتے ہیں ۔( دنیا عیسائیت کی زد میں :27)مولانا انور بن اختر صاحب لکھتے ہیں کہ:مسیحی اسکولوں کی تعلیم خو بصورت زہریلے سانپ کی مانند ہے کو دیکھنے میں آنکھوں کو مرغوب اور د ل کو مرعوب کرنے والی ہے مگر در پردہ ایمان اور اسلام کے لئے لا علاج زہر کی حیثیت رکھتی ہے ۔( حوالہ ٔ سابق:264)ان مشنری اسکولوں میں پڑھانے کے جو مفاسد پیدا ہورہے ہیں اس کی طرف مسلمان والدین توجہ نہیں دے رہے ہیں ورنہ اس فتنہ کا احساس ہوجاتا اور اس کے ذریعہ پھیلاجانی والی تباہی کا اندازہ بھی کرپاتے ۔چناچہ معروف عالم دین ،صاحب قلم فقیہ مفتی شعیب اللہ خان صاحب مفتاحی (بنگلور)ایک چشم کشا واقعہ تحریر فرماتے ہیں کہ :اس جگہ ایک واقعہ ذکر کرتا چلوں کہ ایک خاتون جن سے ہمارے خاندانی مراسم ہیں ،وہ میرے گھر اپنے بچوں کو قرآن پاک اور دینیا ت کی تعلیم کے لئے لایا کرتی تھی،ایک دن آئیں تو روتے ہوئے ،جب رونے کی وجہ پوچھی گئی تو بتایا کہ ابھی آتے ہوئے راستہ میں اچانک میرے دونوں بچے نظر نہ آئے تو میں نے اِدھر اُدھر نظریں دوڑاتی رہی،اچانک میری نظر راستہ میں بنے ہوئے مریم  ؑکے ایک بت پر پڑی،تو وہاں میرے دونوں بچے بت کے سامنے گھٹنے ٹیک کر ہاتھ جوڑے ہوئے ہیں ،یہ دیکھ کر میں وہاں گئی اور ان کو مار کر لے آئی،اس پر بچے کہتے ہیں کہ ہم نے یہ کیا بُرا کیا ہے ؟یہ کام تو ہم اسکول میں روزانہ کرتے ہیں ۔وہ خاتون کہنے لگی کہ اس پر مجھے رونا آرہا ہے ،میں نے کہا کہ قصور بچوں کا نہیں آپ والدین کا ہے کو محض دنیا کے لئے دین سے بے فکر ہوجاتے ہیں ۔( جواہر ِ شریعت :2/27)

ناجانے ایسے کتنے واقعے پیش آرہے ہیں اور معصوم بچے نادانی میں ان کاموں کو انجام دیتے دیتے جب شعور کی منزل کو پہنچ جاتے ہیں تو پھر اس کی قباحت اور برائی بھی ختم ہوجاتی ہے اور ایک گونہ دل میں اس سے انسیت و الفت بھی بیٹھ جاتی ہے ۔اسی طرح آج کل غیر مسلم انتظامیہ کے تحت چلنے والے اسکولوں کی فتنہ سامانیاں بھی کچھ کم نہیں ہے،مشرکانہ رسومات کا باضابطہ ایک سلسلہ اسکولوں میں بھی شروع ہوچکا ہے ،ان کی مذہبی تہواروں پر پورے جوش و خروش کے ساتھ اس کا اہتما م کیا جارہا ہے اور تمام طلبا ء کو اس میں شریک کیا جارہاہے ،مختلف اسلام مخالف تعلیمات کو پوری شد ومد کے ساتھ عام کیا جارہا ہے ۔یہ ایک حقیقت ہے کہ تعلیم سب بہتر ذریعہ  بچوں کی ذہن سازی کاکوئی اور نہیں ہو سکتا ،یہ عمر ہر اچھی بری چیز کو فوری جذب کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور پھر اس عمر میں جولوحِ دل پر نقش ہو جا تا ہے وہ تاحیات مٹ تا نہیں بلکہ بعض مرتبہ گزرتے وقت کے ساتھ وہ چیزیں مضبوط ہوجاتی ہیں ۔

موجودہ دور میں بچوں کو صرف قابل بنادینا کافی نہیں ہے بلکہ ان کو قابل بنانے کی فکر کے ساتھ ایمان دار رکھنے کی فکر اور صراط مستقیم پر جما رکھنے کی تڑپ رکھنا ضروری ہے ،تعلیم کے لئے تو آج گلی گلی ایک سے بڑھ کر ایک ادارے اور اسکول و کالج کھلے ہوئے ہیں ،لیکن تعلیم کے ساتھ ان کے اخلاق و کردا راور ایمان و عقیدہ کی حفا ظت کے لئے پھر اچھے اسکولوں کی تلاش کرنا اور ان کا انتخاب کرنا یہ اصل فریضہ ٔ منصبی ہے ،اس میں کوتا ہی ہوگی تو اولاد تعلیم یافتہ تو ہوجائے گی لیکن وہ نہ صرف ماں باپ کے لئے ذہنی اذیتوں کا باعث ہو گی بلکہ پورے معاشرے کے لئے ایک رسوائی و بدنامی سبب ہوگی ۔مفکر اسلام حضرت مولانا ابو الحسن علی ندوی ؒ نے بڑے سوز درد کے ساتھ فرمایاتھاکہ:اس وقت دنیا میں وہ طریقے نہیں ہیں جو نسل کُشی کے پرانے طریقے تھے اور جس کے لئے اس زمانہ کے مطلق العنا ن فرماں روا بدنام ہیں اور جس کے بارے میں لسان العصر اکبر الہ آ بادی نے کہا تھا کہ :

  یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنا م نہ ہوتا

 افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی

۔۔۔ اس تعلیمی انقلاب اور معنوی نسل کُشی سے ملت اپنے ماضی ہی سے نہیں ،وہ اپنے دین سے ،اپنی دینی شخصیت سے ،اپنے دینی حقائق وعقائد سے نہ صرف یہ کہ بیگانہ ہوگی بلکہ بے زار ہو گی ،اپنے اسلاف سے نہ صرف ناواقف ہوگی بلکہ ان کے نام پر شرم ماتی ہوگی اور ان کو حقارت کی نظر سے دیکھتی ہوگی ۔۔۔(آئندہ نسلوں کے اسلام کی ضمانت اور ایمان کی حفا ظت کی ذمہ داری :25)

 اس لئے موجودہ دور میں اس کا تقا ضا شدت سے بڑھ گیا ہے کہ خود مسلمان دینی فکرو ں سے آراستہ ہو کر اور اپنی سوچ و فکر میں دین کی عظمت کو پیوست کرکے بڑے پیمانے پر عصری اسکولوں کا جال بچھائیں ،الحمد للہ اس جانب اب توجہ کی جارہی ہے اور مسلم انتظامیہ کے تحت اسکولوں کا آغاز ہو رہا ہے ، بلکہ علمائے کرام کی راست نگرانی میں بھی اسکولوں کا قیام عمل میں آرہا ہے ،ان اسکولوں کی قدر افرائی کرنا اور ان سے ہمارے بچوں کو وابستہ کرنا ضروری ہے تاکہ وہ تعلیم کے ساتھ اخلاق وکردارسے مزین ہوسکے اورعقائد و افکار کی سلامتی کے ساتھ پروان چڑھ سکے ،اس سلسلہ میں عام طور پر بچوں کے سرپرستوں کو شکایت ہوتی ہے کہ مسلم انتظامیہ کے تحت چلنے والے ادارے مطلوبہ سہولیات فراہم نہیں کرتے اور معیاری تعلیم پر توجہ نہیں دیتے ۔

اس بارے میں ذمہ داران اسکول کو بھی بھر پورتوجہ دینی ضروری ہے اور اسکول کے نظام تعلیم کو بہتر سے بہتر اور اعلی سے اعلی بنانے میں کسی قسم کی کسر باقی نہیں رکھنی چاہیے تاکہ افراد ِملت پورے اطمینان کے ساتھ اپنی اولاد کو تعلیم دلواسکیں ۔انشاء اللہ پھر وہ دن دور نہیں ہوں گے کہ انہیں عصری اداروں اور تعلیم گاہوں سے تربیت پاکر نکلنے والے ملک و ملت کی نیک نامی اور عزت کا سبب بھی بنیں گے اور اپنی اصل پہنچان’’ اسلام‘‘ کے ساتھ ترقیوں کی منزلوں کو طے کرتے ہوئے اسلام کی سربلندی کا

 ذریعہ بھی ہوں گے،ان کے ایک ہاتھ میں اگر دنیاوی تعلیم کی ڈگریاں ہوں گی تو دوسرے ہاتھ قرآن وسنت کی تعلیمات کا چراغ ہو گا۔

تبصرے بند ہیں۔