اے خاصۂ خاصان اس وقت دعا ہے!

حفیظ نعمانی

سپریم کورٹ میں طلاق ثلاثہ پر بحث ختم ہوگئی اور عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا یعنی فیصلہ اب اطمینان سے کسی وقت سنا دیا جائے گا۔ پوری کارروائی سے اندازہ ہوتاہے کہ بات نکاح نامہ پر آکر رُک گئی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے بورڈ سے معلوم کیا ہے کہ کیا وہ قاضیوں کو پابند کرسکتا ہے کہ وہ نکاح نامہ میں یہ شرط شامل کرلیں کہ تین طلاق کا قبول کرنا نہ کرنا لڑکی کے اختیار میں ہو۔ یعنی اس کی رائے کو بھی شامل کیا جائے؟

ہمیں مقدمہ کی کارروائی سے ہٹ کر چند باتیں عرض کرنا ہیں ۔ اسلام میں نکاح کے لئے مستند اور رجسٹرڈ قاضی اور نکاح نامہ کی شرط نہیں ہے۔ ہمارے والد مولانا محمد منظور نعمانی بیشک بہت بڑے عالم تھے۔ لیکن وہ نہ قاضی تھے نہ مفتی تھے۔ ہمارا نکاح انہوں نے اس طرح پڑھایا کہ سنبھل کی ایک مسجد میں جمعہ کی نماز کے بعد انہوں نے ہی اعلان کردیا کہ نماز کے بعد آپ حضرات تشریف رکھیں میرے دو بیٹوں کا نکاح ہے اور مجھے آپ سے کچھ باتیں بھی کرنا ہیں ۔

نماز سے فارغ ہونے کے بعد انہوں نے نکاح پڑھایا دعا کرائی اور زکوٰۃ اور کاروبار میں خریدنے اور فروخت کرنے کے باٹ الگ الگ رکھنے کے موضوع پر تقریر کی۔ ہمارے محلہ میں دیوبندی مسلک کا ایک مدرسہ مدینۃ العلوم ہے اس میں ایک رجسٹر رہتا ہے جس کے تین ورق ہوتے ہیں اسے بھرکر ایک لڑکے کو ایک لڑکی کو اور ایک مدرسہ میں رہتا ہے اس پر نکاح کی تاریخ قاضی کا نام مہر گواہ اور وکیل کا نام درج ہوتا ہے اور ہمارے نکاح کے وقت وہ بھی نہیں تھا۔

شادی جس گھر میں ہوتی ہے اس میں کچھ لوگ ہوتے ہیں جو شادیاں کراتے رہتے ہیں اور ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں کوئی تجربہ نہیں ہوتا کہ نکاح نامہ لڑکے والا لائے گا یا لڑکی والے منگوائیں گے۔ اور بورڈ کو بنے ہوئے 40  برس ہوگئے اور نکاح نامہ کا بھی بار بار ذکر آیا اور نکاح نامہ تیار کیا بھی گیا لیکن اس کی یہ اہمیت کہ اگر وہ نکاح نامہ نہیں تو نکاح نہیں ۔ اس پر عمل نہ ہوا ہے نہ ہوسکتا ہے۔ اور یہ صرف اس وقت ہی ہوسکتا ہے کہ جبکہ ہر شہر میں کم از کم 50  قاضی ہوں اور نکاح نامہ صرف ان کے پاس ہو جس کی حیثیت سرکاری کاغذ کی ہو اور ان کی فیس مقرر ہو اور وہ قاضی اپنے دفتر میں نکاح پڑھائیں ۔

ہم اپنے دوستوں کے بچوں کی شادی میں بار بار شریک ہوئے ہیں ان کے یہاں یہ نہیں ہے کہ کوئی بھی ہندو شادی کرادے۔ ان کی شادی میں ہر کام کے الگ ذمہ دار ہوتے ہیں ۔ اس کے بعد یہ مسئلہ پیدا ہوگا کہ قاضی کے لئے کہاں تربیت کرائی جائے اور اس کی فیس کیا ہو؟ اس وقت تو دیندار مسلمان یہ چاہتے ہیں کہ وہ جسے اپنا پیر یا بڑا عالم مانتے ہیں وہ نکاح پڑھا دے۔ بعض مسجدوں کے امام بھی نکاح کا رجسٹر رکھتے ہیں اور یہ بھی ضروری نہیں کہ عدالت حکومت اور بورڈ جن باتوں پر متفق ہوجائیں انہیں سب مان لیں ؟ مسلم پرسنل لاء بورڈ میں دو بڑے شیعہ عالم ہیں لیکن شیعہ پرسنل لاء بورڈ بالکل الگ ہے۔ سُنیوں میں بریلوی عالم بھی ہیں لیکن نہ جانے کتنے ہیں جو بورڈ کو نہیں مانتے۔ نہ جانے کتنے عارف محمد خاں جیسے ہیں جنہوں نے قرآن میں ’’اطلاق مر تان‘‘ پڑھ لیا ہے وہ بغل میں دبائے گھومتے ہیں اور کہتے ہیں قرآن میں طلاق دو مرتبہ ہیں ۔ کچھ صحافی ہیں جن کا کہنا ہے کہ انہوں نے سورئہ طلاق کا ترجمہ پڑھا ہے۔ جمعیۃ العلماء آدھی بورڈ میں شامل ہے آدھی باہرہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ یہ جو کچھ بھی ہورہا ہے صرف ان چند لوگوں کے لئے ہورہا ہے جو جب شادی کرتے ہیں تو ان سے اچھا اس وقت کوئی نہیں ہوتا اور جب ذراسی بات پر طلاق دے دیتے ہیں تو ان سے برا کوئی نہیں ہوتا۔ حکومت اور عدالت جو کچھ کرنا چاہ رہی ہیں اس کی حیثیت صحتمند کے لئے پرہیز کی ہے اور سب جانتے ہیں کہ صحتمند کو چاہے جس طرح بتایا جائے کہ اگر ایسا کھانا اور ایسا پانی پیوگے تو بیمار ہوجائو گے لیکن اسے کوئی نہیں مانے گا۔ اور خدا نخواستہ بیمار پڑگئے تو پھر ہر پرہیز اور ہر دوا کھالی جائے گی۔

مسلم پرسنل لاء بورڈ اس پر تیار ہے کہ وہ قاضیوں کو ہدایات جاری کرے۔ لیکن قاضی کون ہے؟ ہمارے ایک رشتہ کے بھتیجے ہیں وہ ندوی ہیں ایک دن اچانک معلوم ہوا کہ وہ فلاں کا نکاح پڑھانے گئے ہیں اور بعد میں معلوم ہوا کہ ایک تین ورق والا رجسٹر انہوں نے چھپوا لیا ہے اور انگوٹھا لگانے کا پیڈ بھی ان کے پاس رہتا ہے لیجئے وہ قاضی ہوگئے۔

کروڑوں مسلمان گائوں میں ہیں وہاں سب سے بڑے قاضی مسجد کے امام ہیں دور گائوں میں مسجد نہیں ہے تو دوسرے گائوں سے بلائے جاتے ہیں ۔ ایک عزیز کا نکاح ایک چھوٹے قصبہ میں ہونا تھا اپنے ہی ایک عزیز جو عالم بھی تھے اور حدیث کے استاذ تھے وہ ساتھ تھے انہوں نے نکاح پڑھایا۔ وہاں کی مسجد کے امام نے نکاح کے بعد احتجاج کیا کہ ہمارے گائوں میں ہمارے ہوتے کون نکاح پڑھا سکتا ہے؟ انہیں جب 50  روپئے دیئے تو وہ خاموش ہوئے۔ ان سطروں کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہندوستان میں ایک ملک کی آبادی سے زیادہ مسلمان ہیں انہیں سیکڑوں سال تک آزاد رکھنے کے بعد اب پابند بنانے کی کوشش کیا کامیاب ہوجائے گی۔ مجھے یا موجودہ مسائل سے زیادہ بڑے مسائل پیدا ہوجائیں گے؟ رہی تو ایک شیعہ پرسنل لاء بورڈ ہے ایک شائستہ عنبر بورڈ ہے سائرہ بانو کے وکیل اور سلمان خورشید نے طلاق کو گناہ قرار دے دیا اور عدالت کے فیصلے اور بورڈ کے تسلیم کرنے کے بعد کیا ہوگا۔ ایسا نہ ہو کہ یہ کہنا پڑے

؎  ہر شاخ پر اُلو بیٹھا ہے انجام گلستاں کیا ہوگا

ہم نے جن ہندو بھائیوں کا ذکر کیا وہ اعلیٰ طبقہ اور اوسط طبقہ کے ہندو تھے اور جو نچلا طبقہ ہے اس میں ایسے ایسے طریقہ ہیں جنہیں طریقہ بھی نہیں کہا جاسکتا اور ان کا لکھنا مناسب نہیں ہے۔ لیکن مسلمانوں میں اعلیٰ ہو، اوسط ہو یا ادنیٰ وہ نکاح ہی کرائے گا چاہے جو پڑھائے اور جیسا پڑھائے؟ اور علیحدگی بھی طلاق سے ہی ہوگی چاہے اس کی شکل کچھ بھی ہو۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ کو سو فیصدی مسلمانوں کا نمائندہ نہیں کہا جاسکتا اور اب سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد اس کے مخالفوں کی تعداد بھی بڑھ جائے گی۔ خدا کرے کہ بات بننے کے بجائے اور زیادہ نہ بگڑ جائے۔ اس لئے کہ بقول علامہ شبلی

’مسلمانوں میں امام زیادہ ہیں مقتدی کم‘۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔