اس سے بڑھ کر کس کی بات ہوسکتی ہےجو لوگوں کو اللہ کی طرف بلائے

عبدالعزیز

انتہائی بدترین حالات میں اور کافروں کی منہ زور مخالفت کے باوجود ان لوگوں کا رویہ یقینا انتہائی قابل تحسین ہے اور یقینا ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان کے ٹوٹے ہوئے دلوں اور زخم زخم جسموں پر تسکین و اطمینان کا مرہم رکھتے ہیں۔ جن لوگوں نے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کو اپنا رب بنایا، اس کے قانون کو اپنا قانون سمجھا، ا س کی اطاعت کو زندگی کا رویہ بنالیااور دنیا بھر کے مخالفین کی مخالفت کے باوجود استقامت کی تصویر بنے رہے۔ یہ وہ بات ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو تسکین دیتے ہوئے گزشتہ آیتوں میں فرمائی گئی ہے۔ اب ایک قدم آگے بڑھ کر یہ فرمایا جارہا ہے کہ بات صرف اقرار اور استقامت کی نہیں بلکہ جس اللہ کی اطاعت کا عہد کیا ہے اور جس اللہ کو اپنا رب ماننے کا اعلان کیا ہے بات اس کے دین کی دعوت کی بھی ہے۔ سب سے زیادہ قابل قدر اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا مستحق وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ کو رب ماننے اور ہر طرح کے حالات میں استقامت کی تصویر بن جانے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کے دین کی دعوت دیتا ہے، اپنے قول سے بھی اور اپنے عمل سے بھی؛ کیونکہ اسے یہ بات بتا دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا دین انفرادی تبدیلی کے ساتھ ساتھ اجتماعی تبدیلی کیلئے آیا ہے، وہ ایک ہمہ گیر انقلاب ہے۔ اس میں صرف اپنے ضمیر کو روشن کرنا کافی نہیں بلکہ اس روشنی کو عام کرنا بھی ضروری ہے۔ اس کی مشعل صرف اپنے گھر میں جلتی رہنے سے اس کا وہ حقیقی مقصد پورا نہیں ہوتا جب تک وہ مشعل ہر گھر میں نہیں پہنچتی اور اس کی روشنی سے ماحول منور نہیں ہوجاتا۔ اس لئے سب سے بہتر بات اس شخص کی ہے جو اللہ تعالیٰ کے دین کی دعوت دیتا ہے، اپنے قول سے بھی اور اپنے عمل سے بھی، کہ اللہ تعالیٰ نے جو بنیادی عقائد اس دین کی بنیاد بنائے ہیں اور جن چیزوں کو ضروریاتِ دین قرار دیا گیا ہے وہ ہر شخص کے سامنے ان میں سے ایک ایک بات کی وضاحت کرتا ہے اور ان کے دلوں کو ان بنیادی صداقتوں پر مطمئن کرنے اور دماغوں کے شک و ارتیاب کے کانٹے چننے کی کوشش کرتا ہے۔ اور اگر اسلام کے مخالفین اس کے قول و عمل کے سامنے رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں اور ان کی مخالفت بعض دفعہ انتہائی خطرناک صورت اختیار کرجاتی ہے، تو وہ بجائے منقارِ زیر پر ہونے کے پوری جرأت سے اپنے مسلمان ہونے اور اپنے فرماں بردار ہونے کا اعلان کرتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ وہ ماحول جو کفر اور انکار کے کہر میں ڈوب گیا ہے اور جہاں اللہ تعالیٰ کے دین کی بات کہنا موت کی دعوت دینے کے مترادف ہوگیا ہے میں اس ماحول کو اپنی جرأت و استقامت اور اپنے عمل کی قوت سے اگر تار تار نہ کرسکا تو ایک چراغ جلاکر آنے والوں کو روشنی مہیا کرنے کی کوشش ضرور کروں گا تاکہ تاریکیاں ان پر حملہ آور ہوکر ان کی منزل کھوٹی کرنے کی کوشش نہ کریں۔
’’اور نیکی اور بدی برابر نہیں، بدی کو اس نیکی سے ہٹاؤ جو بہترین ہو، پھر تم دیکھو گے کہ تمہارے ساتھ جس کی دشمنی تھی گویا کہ وہ جگری دوست بن گیا ہے‘‘۔ (حٓمٓ السجدۃ:34)
مخالفانہ ماحول میں ایک داعی کا رویہ: اس آیت کریمہ میں انتہائی مخالفانہ ماحول کو بدلنے کی ترکیب بتائی گئی ہے۔ سب سے پہلی بات یہ فرمائی گئی ہے کہ مسلمانوں کو اس بات کا ادراک ہونا چاہئے کہ تم نے جو شمع جلا رکھی ہے جسے کافر ہر ممکن طریقے سے بجھا دینا چاہتے ہیں وہ نیکی کی شمع ہے اور کافروں کی کوششیں اس کے مقابلے میں ایک برائی اور بدی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ نیکی کے سلسلے میں دو باتیں ہمیشہ ذہن میں رہنی چاہئیں۔ ایک تو یہ کہ نیکی کو قبول کرنے کیلئے بہت سی نفسانی خواہشات کی قربانی دینی پڑتی ہے، بگڑے ہوئے ماحول کا چلن اسے آگے بڑھنے کی اجازت نہیں دیتا ۔ اس لئے جو شخص بھی اس نیکی کا مبلغ بن کر اٹھتا ہے اسے اچھی طرح یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ میں ایک طوفان سے لڑنے کیلئے اٹھا ہوں۔ مخالف ہوائیں مجھے آگے بڑھنے کی اجازت نہیں دیں گی، لیکن میں چونکہ نیکی کا مبلغ ہوں اس لئے اس کی ضرورت اور اہمیت کا تقاضا یہ ہے کہ میں اس کی قیمت ادا کرنے کی کوشش کروں اور وہ قیمت یہ ہے کہ برائی میرا راستہ روکنے کیلئے کیسی بھی سر توڑ کوشش کرے میں اس تصور کو کبھی نہ بھولوں کہ نیکی اور بدی برابر نہیں۔ نیکی کو پھیلانے اور عام کرنے کیلئے ان تمام تکالیف کا سامنا کرنا اس راستے کی وہ سنت ہے جو کبھی نہیں بدلتی۔ اور دوسری یہ بات کہ میں جن لوگوں کو اپنا مخاطب سمجھتا ہوں اور نیکی کی روشنی ان کے دل و دماغ میں اتارنا چاہتا ہوں وہ نفسانی خواہشات، سفلی جذبات اور انفرادی اور اجتماعی مفادات کے بندے اور رسیا لوگ ہیں۔ وہ میری بات کو آسانی سے قبول نہیں کریں گے، مجھے ان کے رویے پر ہر حال میں صبر کرنا ہے۔ مجھے دلیل کی قوت اور اپنے عمل کی صداقت سے ان پر حق واضح کرنا ہے۔ یہ کام چونکہ بہت مشکل ہے اس لئے مجھے اس راستے میں آنے والی مشکلات سے دل گرفتہ نہیں ہونا چاہئے۔
مخالفانہ ماحول کو بدلنے کیلئے دوسری بات یہ فرمائی گئی ہے کہ دین کے دشمن اور اللہ تعالیٰ کے رسول کی دعوت کو روکنے والے کسی قاعدہ اور قانون کے پابند نہیں ہوتے۔ وہ نہ انسانی شرافتوں کو مانتے ہیں اور نہ اخلاقی قدروں کو۔ اللہ تعالیٰ کے دین کا راستہ روکنے کیلئے گھٹیا سے گھٹیا حرکت کو بھی اپنے لئے جائز سمجھتے ہیں۔ تم ان کے اس رویے کو کبھی دشمنی پر محمول نہ کرنا۔ ان کی یہ حرکتیں ایسے لوگوں کی حرکتیں ہیں جو دماغی توازن کھوچکے ہوں اور قلبی احساسات سے محروم ہوچکے ہوں۔ ان کے پیش نظر صرف دین کی دعوت کو روکنا ہے اور تمہارے پیش نظر ایک فرض کی انجام دہی اور اس کیلئے ہر ممکن قربانی دینا ہے۔ اس لئے اگر وہ مخالفت میں تمہیں گالی دیں یا تمہارا گریبان پھاڑ دیں یا اس سے بھی قدم آگے بڑھاتے ہوئے کوئی نامناسب حرکت کریں تو تمہیں نہ صرف اسے برداشت کرنا ہے بلکہ اس پر دعا دینی ہے۔ اور اگر کبھی موقع ہاتھ آئے تو ان کی زیادتیوں کے جواب میں ان پر احسان کرنا ہے۔
جیسے سیدنا حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ایک دفعہ جب وہ اپنے مہمانوں کے پاس بیٹھے تھے اور ان کا غلام کھانا لا رہا تھا، وہ گرم شوربے کا لبریز پیالہ لے کر آیا، اس کا پاؤں الجھا توپیالہ اچھل کر سیدنا حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی کمر پر جاگرا۔ گرم گرم شوربے نے ان کی کھال ادھیڑ ڈالی۔ انھوں نے نہایت غضب ناک ہوکر اپنے غلام کی طرف دیکھا۔ وہ بھی چونکہ خاندانِ نبوت میں پلا بڑھا تھا، فوراً اس نے قرآن کریم کی ایک آیت کا ایک جملہ پڑھا وَالْکَاضِمِیْنَ الْغَیْظَ ’’اللہ کے نیک بندے غصے کو پی جایا کرتے ہیں‘‘۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے فوراً آنکھیں جھکالیں، پھر اس نے اگلا جملہ پڑھا وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاس ’’وہ لوگوں کو معاف کر دیا کرتے ہیں‘‘۔ تو آپؓ نے کہا ’’جا میں نے تجھے معاف کیا‘‘۔ پھر اس نے تیسرا جملہ پڑھا وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْن ’’اور اللہ احسان کرنے والوںکو پسند کرتا ہے‘‘۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا ’’جا میں نے تجھے آزاد کیا‘‘۔
اندازہ فرمائیے کہ غلام سے ایک غلطی ہوئی تو آپؓ نے نہ صرف اس کی غلطی معاف فرمائی بلکہ اس پر احسان کرتے ہوئے اسے آزاد فرمادیا۔ یہاں بھی فرمایا گیا ہے کہ آپ مخالفین کی اذیتوں کے مقابلے میں ان پر احسان کریں، مشکلات میں ان کے کام آئیں، کوئی ضرورت پیدا ہو تو ان کی مدد کریں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ لوگ جو آج آپ کے بدترین دشمن ہیں، ایک وقت آئے گا کہ وہ آپ کے جگری دوست بن جائیں گے؛ کیونکہ بالعموم جس انسان میں انسانیت مر نہیں گئی وہ نیکی اور برائی کے فرق کو سمجھتا ہے۔ وہ نیکی کا راستہ روکتا ہے لیکن دل ہی دل میں شرمندہ بھی ہوتا ہے۔ اور اگر اس کی اذیتوں کے مقابلے میں نیکی کرنے والا بدی یا ظلم کا بدلہ لینے کے بجائے احسان و مروت سے کام لے تو کم ہی ایسے بدفطرت لوگ ہوتے ہیں جو اس کے بعد بھی اپنی مخالفت پر جمے رہیں۔
’’اور یہ بات نہیں ملتی مگر ان لوگوں کو جو صبر کرتے ہیں اور یہ دولت ہاتھ نہیں آتی مگر ان لوگوں کو جو بڑے نصیبے والے ہیں‘‘۔ (حٓمٓ السجدۃ:35)
(جاری)

تبصرے بند ہیں۔