اس سے تسلیم بس یونہی سی ہے

عرفان وحید

اس سے تسلیم بس یونہی سی ہے

برف احساس کی جمی سی ہے

چلیے، احباب کو تو جان گئے

یہ مصیبت تو عارضی سی ہے

کچھ تو چارہ گری کرے کوئی

آج کچھ درد میں کمی سی ہے

آج چپکے سے کس کی یاد آئی

دل کے آنگن میں چاندنی سی ہے

کس نے ترک وفا کیا پہلے؟

یہ شکایت بھی باہمی سی ہے

حسرتو، اب تو ہو چلو خاموش

نبض بیمار کی تھمی سی ہے

عمر گزری جسے بیاں کرتے

وہ کتھا اب بھی ان کہی سی ہے

تبصرے بند ہیں۔