اس نے کبھی جی بھر کے یوں دیکھا بھی نہیں ہے

مجاہد ہادؔی ایلولوی

 اس نے کبھی جی بھر کے یوں دیکھا بھی نہیں ہے
دعوے میں محبت کے وہ جھوٹا بھی نہیں ہے

دل یاد محمد سے سنوارا بھی نہیں ہے
بن اس کے زمانے میں گزارا بھی نہیں ہے

مظلوم کی جو میں نے حمایت کی ہے اب تک
پایا نہیں کچھ اس میں تو کھویا بھی نہیں ہے

ماں باپ کی خدمت کبھی جو کرتے نہیں ہیں
عقبٰی ہی نہیں، ان کی تو دنیا بھی نہیں ہے

خاموشی سے اس دل کی مجھے لگتا ہے اب ڈر
روتا بھی نہیں جو کبھی ہنستا بھی نہیں ہے

وعدوں کے پرا کرنے کی کیا بات کرو ہو
جو پہلے تھا اب یارو وہ لہجہ بھی نہیں ہے

کرنا ہے تجھے ظلم تو یہ بات  بھی سن لے
جو ظلم نہیں کرتا وہ سہتا  بھی نہیں ہے

کیوں کر ہو بھروسہ مجھے حاکم کی زباں پر
کیا میرا بنے گا وہ جو اپنا بھی نہیں ہے

طوفانوں کے سینے کو بھی جو چیر دے ہادؔی
نظروں میں مری ایسا سفینہ بھی نہیں ہے

تبصرے بند ہیں۔