اصلاح نفس سے غفلت کا انجام

عبدالکریم ندوی گنگولی

 ازل سے انسان کی فطری کمزوری رہی ہے کہ وہ خارجی خطرات اور ظاہری نقصانات کا یقین رکھتا ہے اور دشمنوں کی دشمنی اور ان کے تمام ترکام وکاج، تدبیرات وتحریکات سے خوف کرتے ہوئے اسی کو اہمیت دیتا ہے اور اسی کو اپنی پوری طاقت وتوانائی، ہمت وقربانی اور توجہات والتفات خرچ کرنے کا مرکز سمجھ کر اپنی پوری زندگی کے حسین لمحات بیکار کردیتا ہے، آخر ایسا کیوں ہے؟اس لئے کہ !خارجی وداخلی خطرات، دنیوی زندگی سے لاغر وناچاراور زندگی کے ہر موڑ پر مصیبتوں اور پریشانیوں کا شکار ہونا انسان کے اپنے برے اعمال وافعال، اصلاح نفس اور قلب وضمیر سے غفلت کا انجام ہے اور اللہ تعالیٰ کا قانون بھی اسی پر مبنی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’ظَھَرَالْفَسَادُ  فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ  اَیْدِی  النَّاسِ  لِیُذِیْقَھُمْ  بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْالَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْن‘‘(سورۃ الروم :۴۱)

خشکی اور تری میں لوگوں کی بداعمالیوں کے باعث فساد پھیل گیا اس لئے کہ انہیں ان کے بعض کرتوتوں کا پھل اللہ چکھا دے بہت ممکن ہے کہ وہ باز آجائیں۔

قرآن کریم نے اصلاح نفس سے غفلت اور قلب وضمیر سے کوتاہی ولاپرواہی کے متعدد لازوال انسانی نمونے پیش کئے ہیں اور اللہ کی نعمتوں کی ناشکری واحسان فراموشی کا انجام بھی واضح فرمایا ہے مثلاً اس کی مثال ایک ایسی بستی سے دیتا ہے جہاں کے باشندے غفلت شعاری و آرام طلبی میں ڈوب کر اللہ کی نعمتوں کو فراموش کرکے اپنی خوشحالی پر اترانے لگے تھے، ارشاد ربانی ہے:

’’وَضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلاً قَرْیَۃً کَانَتْ اٰمِنَۃً مُّطْمَئِنَّۃً یَّاْتِیْھَا رِزْقُھَا  رَغَدًا  مِّنْ کُلِّ مَکَانٍ فَکَفَرَتْ  بِاَنْعُمِ اللّٰہِ  فَاَذَاقَھَا اللّٰہُ لِبَاسَ الْجُوْعِ وَالْخَوْفِ بِمَا کَانُوْا یَصْنَعُوْن‘‘(سورۃ النحل:۱۱۲)

اور خدا ایک بستی کی مثال بیان فرماتا ہے (ہر طرح)امن وچین کی بستی تھی، ہر طرف سے رزق با فراغت چلا آتا تھا مگر ان لوگوں نے خدا کی نعمتوں کی ناشکری کی تو خدا نے ان کے اعمال کے سبب ان کو بھوک اور خوف کا لباس پہنا کر (ناشکری کا )مزہ چکھادیا۔

 جس وقت رسول ﷺ کی بعثت ہوئی اور اسلام چہار دانگ عالم میں پھیلنے اور پھولنے لگا تو مطالبہ صرف دعوت ایمانی اختیار کرنے، شرک سے توبہ اور کفر سے بچنے کا نہیں تھا بلکہ پوری ایک تہذیب وتمدن، طرززندگی، مقصد حیات بھی عطا کیا گیا جس پر خداکی رحمت، پسندیدگی وخوشنودی کا دارومدار ہے اور ساتھ ہی ساتھ راندۂ درگاہ اور مغضوب علیہم قوموں کا شعار اور طریقہ ٔ زندگی سے اجتناب کا بھی مطالبہ کیا گیااور مسلمانوں کو اس بات کا حکم دیا گیا کہ وہ قومیں عنداللہ معتوب ہیں تو تم بھی انہیں قابل نفرت سمجھو اور اس بات کی تنبیہ کی گئی کہ ان کا کلچر وتہذیب کا اختیار کرنا گویا اپنے آپ کو دوزخ کی آگ میں جلانے کے مانند ہے:

’’وَلَا  تَرْکَنُوْٓا اِلَی  الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّکُمُ النَّارُ وَمَا لَکُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ مِنْ اَوْلِیَآئَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ‘‘(سورۃ الھود:۱۱۳)

دیکھو ظالموں کی طرف ہرگز نہ جھکنا ورنہ تمہیں بھی (دوزخ کی)آگ لگ جائے گی اور اللہ کے سوا تمہارا اور کوئی مددگار نہ ہوگا اور نہ تم مدد کئے جاؤگے۔

 یہ بات بالکل صاف وشفاف آئینہ کی طرح واضح ہے کہ جو بھی انسان قرآنی آیات اور نبوی احادیث کو بالائے طاق رکھ کرنفس اور قلب وضمیر کی اصلاح سے بے بہرہ ہوکر اسلام پسند دشمنوں کے طور طریق، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال کے مطابق زندگی گذارتا ہے تو وہ خدا فراموشی کا شکار ہوجاتا ہے اور یہی خدا فراموشی انسان کی ہدایت اور من جانب اللہ رحمت کے تمام راستوں کے لئے سد راہ بن جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ خود فراموش بنادیا جاتا ہے اور تاریخ اس بات پر گواہ بھی ہے کہ جن لوگوں نے اللہ کے بتلائے ہوئے طریقہ کو چھوڑ کر زندگی بسر کی تو اللہ تعالیٰ نے بھی انہیں بھلادیا اور ان پر دوسروں کو غلبہ عطا کیا اور قرآن مجیدنے بھی امت مسلمہ کو اس بات کی تنبیہ فرمائی کہ تم ان لوگوں کی طرح مت ہوجاناجو خدا فراموش بن گئے کیوں کہ اس کا نتیجہ خود فراموشی ہے:

’’وَلَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ نَسُوااللّٰہَ فَاَنْسٰئھُمْ اَنْفُسَھُمْ، اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْن‘‘(سورۃ الحشر:۱۹)

اورتم ان لوگوں کی طرح مت ہوجاناجنہوں نے اللہ کو بھلادیا تو اللہ نے انہیں اپنی جانوں سے غافل کردیا اور ایسے ہی لوگ نافرمان فاسق ہیں۔

 آج کے اس پر فتن دورمیں امت مسلمہ کی اکثریت راحت طلبی، عیش کوشی، تن آسانی اور سکون پسندی کے گرداب میں پھنس کر اخروی عذابات اور میدان محشر کے مصائب ومشکلات کو بھلا بیٹھی ہے، نہ اپنی اصلاح کی فکر اور نہ ہی اہل خانہ کی بے ایمان زندگی کی تڑپ دامن گیر ہے بلکہ دنیا کی دلفر یبیوں ورعنائیوں میں اتنے  مست ہیں کہ انجام بد کی خبر نہیں !جب کہ قرآن مجید اپنے دامن حق میں چراغ ہدایت لے کر واضح انداز میں صراط مستقیم پر چلنے کا حکم دیتا ہے اور سب سے پہلے اپنی اصلاح اور پھر اہل خانہ کی اصلاح وتزکیہ کی طرف توجہ دلاتا ہے تاکہ جہنم کی اس آگ سے بچیں جس کا ایندھن انسان اور پتھر بنیں گے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’  ٰٓیاَیُّہَا  الَّذِیْنَ  اٰمَنُوْا  قُوْٓا  اَنْفُسَکُمْ  وَاَھْلِیْکُمْ  نَارًا وَّقُوْدُھَا  النَّاسُ  وَالْحِجَارَۃُ  عَلَیْھَا  مَلٰٓئِکَۃ’‘  غِلَاظ’‘  شِدَاد’‘  لَّا یَعْصُوْنَ  اللّٰہَ  مَآ اَمَرَھُمْ  وَیَفْعَلُوْنَ  مَا یُؤْمَرُوْنَ‘‘(سورۃ التحریم:۶)

اے ایمان والو!تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کاایندھن انسان اور پتھر ہیں ، جس پر سخت دل مضبوط فرشتے مقرر ہیں جنہیں جو حکم اللہ دیتا ہے اس کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ جو حکم دیا جائے بجالاتے ہیں۔

 دنیائے آب گیتی میں زندگی بسر کرنے والوں پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو ہر نفس ہر شخص خود سے زیادہ اوروں کی اصلاح وفلاح کی فکر میں سرگرداں رہتا ہے اور غیر شعوری طور پرخود کو نیک وپارسا، متقی وپرہیزگار، بااخلاق وباکردارتصورکرتے اور کراتے شیطانی حیلہ سازیوں اور دلفریبیوں کاشکار ہوکر اپنے زندگی کی اصلاح بھول جاتاہے، نتیجتاً ضلالت وگمراہی کے ایسے ٹھاٹے مارتا ہواسمندر میں غرق ہوجاتا ہے کہ پھر جس کے پرجوش وتلاطم خیز موجوں کا مقابلہ کرنے اور اپنی کشتیٔ حیات کو ساحل تک لے آنے کی طاقت نہیں رکھتا، بالآخر تھک ہار کر زندگی کے آخری ایام میں دنیا اور اہل دنیا کی نظروں سے اوجھل گمراہی کو مقدرسمجھ کر رحمت خداوندی سے لولگاتا ہے، ایسے نازک ترین حالات میں میں سوائے خالق کائنات کے اس کاکوئی مددگار ومعاون نہیں ، پھر وہی ہوتا ہے جو منظور خداہوتاہے۔

تبصرے بند ہیں۔