دیارِ عشق میں ہم مٹ کے جاوداں ہو جائیں

شازیب شہاب

دیارِ عشق میں ہم مٹ کے جاوداں ہو جائیں
کبھی مٹے نہ جہاں سے وہ داستاں ہوجائیں

نہ فکرِ وصل ہو ہم کو نہ خوفِ ہجر رہے
مکانِ  جسم سے نکلیں تو لامکاں ہوجائیں

کمالِ تابِ سحر میں کبھی دکھائی دیں
کبھی شفق پہ حسیں شام کا سماں ہوجائیں

جھلستے دن کو ملے ہم سے ابر کا سایہ
فسردہ شب کے لیے صبح کی اذاں ہو جائیں

چلو بنیں کبھی معصوم قمریوں کی زباں
گلوں کی طرح کبھی ہم بھی بے زباں ہوجائیں

کبھی بنیں کسی چشمِ حریمِ ناز کا کیف
کسی کے قلبِ تپاں کی کبھی فغاں ہو جائیں

نشاطِ جشنِ بہاراں میں ہوں کبھی شامل
کبھی شریکِ فغانِ  غمِ خزاں ہوں جائیں

چلو بنیں کبھی مسکان جلتی شمعوں کی
شہابؔ بجھتے دیوں کا کبھی دھواں ہو جائیں

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔