اعتدال پسند اسلام یا اسلام پسند اعتدال؟               

مولوی محمد یٰسین پٹیل فلاحیؔ        

 نقطہ کے ہیر پھیر سے ’خدا‘ کو ’جدا‘ ہوتے سب نے دیکھا ہے ، لیکن حیرت کی بات ہے کہ الفاظ اور جملوں کے ہیر پھیر سے پیدا ہونے والے فرق کو بڑے بڑے اہل نظر نظر انداز کرجاتے ہیں۔بلکہ آج کل تو یہ فیشن بن گیاہے کہ الفاظ کے ہیر پھیر سے معانی میں تغیر و تبدل کرکے یہ دھوکہ دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ میاں دیکھو الفاظ تو وہی ہیں محض تقدیم و تاخیر ہی تو کی گئی ہے۔ کتاب الہی میں تحریف کا یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر یہود و نصاری نے کتاب اللہ کا حلیہ بگاڑ دیا یہاں تک کہ قرآن نے اپنے پیروکاروں کو الفاظ کی ترتیب اور ان کے مخارج تک کے اہتمام کی تلقین فرمائی۔ لا تقولوا راعنا و قولوا انظرنا۔۔۔۔(البقرۃ:104) اسی کی مثال ہے۔ اعتدال پسندی ایک محبوب و مطلوب صفت ہے اور دیگر اچھی صفات کی طرح اسلام میں اعتدال بھی پایا جا تاہے۔ مگر زبان کی لچک کا بے جا استعمال کرکے اس کو یوں پیش کیا جاتا ہے کہ اسلام میں اعتدال پسندی مرغوب ہے۔۔۔بلکہ اعتدال پسندی اسلام کا اہم حصہ ہے۔۔۔ بلکہ دیکھا جائے تو اعتدال پسندی اسلام کا دوسرا نام ہے ۔ لیجیے صاحب کسی آیت، حدیث، اثر کے بغیر ہی صرف زبان کی لوچ سے پہلے جو دین کا حصہ تھا وہ اب عین دین بن گیا۔ یہی وہ غلو ہے جسکی طرف اشارہ کرکے قرآن میں یہود کوتنبیہ کی گئی کہ لا تغلوا فی دینکم۔۔۔(النساء :171، المائدہ:77) یعنی دین میں جس چیز کی جتنی اہمیت ہے اسی قدر اس کو اہمیت دو۔ اس میں کمی بیشی نہ کرو کہ یہ غلو ہے۔ مثلاً اللہ اپنے بندوں پر بہت رحم کرتا ہے۔ اب اگر اس سے کوئی یہ نتیجہ نکالے کہ اسی رحم کا تقاضہ ہے کہ اللہ تعالی اپنے کسی بندے کو آگ میں نہ ڈالے گا ،تو یہ کہناسرار گمراہی ہوگی۔ یہ کوئی فرضی مثال نہیں ہے بلکہ راقم نے خود ایک بڑی یونیورسٹی کے دینیات کے ڈین کو ایک مشترکہ محفل میں کہتے ہوئے سنا ہے۔ حالانکہ خاطیوں اور مجرموں کو جہنم میں ڈالنا عین تقاضائے رحمت ایزدی ہے۔ چنانچہ حضرت ابراہیمؑ نے اپنے باپ سے کہا یا ابتی انی اخاف ان یمسک عذاب من الرحمان۔۔۔(مریم :45)مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں رحمان کا عذاب آپ کو پکڑ نہ لے۔

یہاں صفت رحمت بصیغۂ مبالغہ ہونے کے باوجود اس کے ساتھ عذاب کو جوڑ دیا گیا۔ گویا رحمت کی شدت یہ ہے کہ ظالم کو بخشا نہ جائے۔ اسی طرح اسلام کی اعتدال پسندی کا معاملہ یہ ہے کہ وہ غیر معتدل مفسدین اور طواغیت کے خلاف جنگ چھیڑنے پر باقاعدہ ابھارتا ہے۔ کیونکہ اعتدال کا مادہ عدل ہے اور عدل کا بدیہی تقاضہ ہے کہ ظالموں ا ور بے دینوں سے جنگ کی جائے۔ وقاتلواھم حتی لا تکون فتنۃ ویکون الدین للہ (البقرۃ: 193، الانفال:39)۔مگر موجودہ ماحول میں مراعات یافتہ ایک طبقہ سارا زور اس پر صرف کررہا ہے کہ اعتدال پسندی تشدد (جہاد) اور زور زبردستی(تبدیلئ مذہب)کی ضد ہے۔ اور چونکہ اعتدال پسندی ہی اسلام ہے اس لیے اسلام میں تشدد کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔  یہ لوگ اعتدال کو اسلام کے چشمہ سے دیکھنے کے بجائے اسلام کو اعتدال کے چشمہ سے دیکھتے ہیں۔ اسلام ایک متعین دین ہے جبکہ اعتدال پسندی ایک مبہم و موہوم اصطلاح ہے جس کا ہرایک کے نزدیک ایک الگ مفہوم ہو سکتا ہے۔ ان فکری شتر مرغوں کے نزدیک اعتدال پسندی کا خود ساختہ نظریہ جس اسلام کی تائید کرے وہ عین اسلام ہے خواہ وہ قرآن و سنت کے خلاف ہی کیوں نہ ہو اور اعتدال پسندی جس اسلام کی نفی کرے وہ خارج از اسلام قرار پائے خواہ قرآن و سنت میں اس کی زبردست تائید کیوں نہ ہو۔اسکی کچھ مثالیں ڈاکٹرمولانا وارث مظہری القاسمی صاحب کے ایک محاضرہ ’اسلام اور اعتدال پسندی؛ چند فکری و عملی مباحث‘ میں ملتی ہے۔ یہ محاضرہ بعد میں ترجمان دارالعلوم جنوری تا مارچ2014ء ؁ میں شائع ہوا جس کے خود ڈاکٹر صاحب مدیر ہیں۔ چنانچہ رقم طراز ہیں: بعض دوسرے نظری و فکری مسائل وہ ہیں جن کا تعلق مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان تعقات سے ہے۔ یہ وہ مسائل ہیں جن کے حوالے سے غیر مسلم ذہنوں میں اسلام اور مسلمانوں سے متعلق غلط فہمیاں پیدا ہورہی ہیں۔ ان میں سے ایک موالات یا غیر مسلموں کے ساتھ دوستی کا معاملہ ہے۔ اس تعلق سے ہمارے بعض علماء اس فکر کے حامل رہے ہیں کہ غیر مسلموں سے قلبی دوستی جائز نہیں ہے۔ وہ اس خصوص میں موالات سے متعلق قرآنی آیات سے استدلال کرتے ہیں۔

مولانا تھانویؒ نے ’بیان القرآن‘ میں اور مفتی شفیعؒ نے ’معارف القرآن‘ میں لکھا ہے کہ : غیر مسلموں کے ساتھ تعقات کی چار شکلیں ہیں: مواسات، مدارات، معاملات اور چوتھی قسم موالات کی ہے جس کے معنی غیر مسلموں کے ساتھ دلی دوستی کے ہیں۔ پہلی تین شکلیں جائز جب کہ آخری شکل ناجائز ہے۔ اس موقف پر سب سے بڑا اعتراض یہ واقع ہوتا ہے کہ اسلام میں اہل کتاب عورتوں سے شادی کی اجازت دی گئی ہے تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ ایک مسلمان اپنی بیوی یا ماں سے دلی دوستی نہ کرے۔ اسلام اس فطری رویہ پر کس طرح بندش عائد کر سکتا ہے؟ حالاں کہ وہ دین فطرت ہے۔ یہ کہنا کہ اسلام غیر مسلموں کے ساتھ دلی دوستی سے روکتا ہے ایک ایسی بات ہے جو پوری دنیا میں مسلم اقلیتوں کے لیے مسائل پید کرنے والی ہے۔‘‘  صاف دیکھ لیجیے…یہ وہی ترتیب ہے۔ اسلام دین فطرت ہے… کتابیہ مسلمان کی بیوی بن سکتی ہے…فطری رویہ بیوی سے محبت ہے…اہل کتاب بیوی سے محبت فطری تقاضہ ہے… پھر بیوی سے دلی محبت کے ساتھ اسکے خاندان اور قوم سے محبت عین فطرت ہے… اور اسلام تو ہے ہی دین فطرت!! یہ ہے غلو فی الدین کی اعلی مثال۔ متعدد آیات قرآنی کے ذریعہ موالات و بطانۂ کفار(کافروں کو ہم راز بنانے) سے روکا گیا ہے اور جمہور علماء اسلام کی تائید اس فکرکو حاصل ہے(ڈاکٹر صاحب کا بعض علماء کہناخلاف واقعہ ہے) لیکن ڈاکٹر صاحب نے فقط ایک تخیلاتی دلیل سے اس کی دھجیاں اڑا دیں۔ حالانکہ ڈاکٹر صاحب نے شوق موالات مشرکین میں ایک ایسی پوچ دلیل دے ڈالی جو چند قدم بھی نہیں چل سکتی۔ ڈاکٹر صاحب کی کتابیہ والی دلیل اور مدلول علیہ کو تسلیم بھی کرلیا جائے تو اس زمرے میں مشرکین اور مشرکات کیسے شامل ہو سکیں گے جن سے رشتۂ مناکحت کو خود قرآن مجید نے حرام قرار دیا ہے۔ خصوصاً ہندوستان میں جہاں اہل کتاب معدودے چند ہیں جبکہ مشرکین کی اکثریت ہے۔قرآن مجیدنے نہ صرف کتابیہ تک رشتۂ مناکحت کو محدود رکھا ہے اور کتابی مرد سے شادی کو حرام رکھا ہے بلکہ اسی سورہ (المائدہ) میں آگے چل کر اہل کتاب سے موالات کو حرام قرار دیا ہے۔ بلکہ اس عدم موالات کی مخالفت کرنے والے کو خارج از اسلام قرار دیا ہے۔ یا ایھا الذین آمنو لا تتخذوا الیھود و النصاری اولیاء بعضھم اولیاء بعض ومن یتولھم منکم فانہ منھم اے ایمان والو ! تم یہود و نصاری کو اپنا دوست مت بناؤ۔ وہ آپس میں ایک دوسرے کے چٹے بٹے ہیں۔تم میں سے جو بھی ان سے موالات کرے گا وہ انہیں میں کا ایک ہو جائے گا۔(المائدۃ: 51) اس آیت نے تو ڈاکٹر صاحب کی ریت کی دیوار کو بھرابھرا کر گراہی دیا۔ کتابیہ بیوی کی بات تو چھوڑیے، ایمان و جہاد کی راہ میں مومنہ بیوی بھی آئے تو اللہ نے اسے دشمن قرار دیا ہے۔ ان من ازواجکم و اولادکم عدوا لکم(التغابن :14)۔تمہاری بیویوں اور بچوں میں سے بعضے تمہارے دشمن ہیں تو ان سے بچ کر رہنا۔ ایسے میں ایک فرد سے تعلق کو ایک قوم سے تعلق کی بنیاد کیسے بنایا جا سکتا ہے! حالانکہ کتابیہ سے شادی کی حکمت کو اجاگر کرکے ڈاکٹر صاحب اسے ایک دعوتی ایشو بنا سکتے تھے کہ دیکھو اسلام کی رواداری کہ شرک اور مشرکین سے برأت اور ان سے موالات کی ممانعت کے باوجود اگر اہل کتاب میں سے کوئی نیک سیرت عورت مل جائے تو اس سے شادی تک کی جا سکتی ہے۔ جبکہ دیگر مذاہب اس طرح کی مدارات سے نہ صرف خالی ہیں بلکہ غیر مذہب کے لیے اور بسااوقات اپنے ہم مذہب سے بھی بے اعتنائی کے صریح احکامات کے حامل ہیں۔

اسلام تو چار میں سے تین تعلقات یعنی مواسات، مدارات اور معاملات کی اجازت اور حکم دیتا ہے اور موالات سے بھی کسی تعصب کی بنا پر نہیں بلکہ اصولی بنیاد پر روکتا ہے۔ جبکہ دیگر مذاہب تو اپنوں کے لیے اچھوت اور غیروں کے لیے ملیچھ تک کی اصطلاحات اور عملی اقدامات سے پر ہیں۔ یہ کون سا دعوتی ذہن ہے جو دین کی بنیادوں کو ہلا کر دین کو دوسروں کے لیے ’سہل‘ بنانے پر اتارو ہے؟!!! غالباً یہ گمان کرکے کہ ان کی اس تیر بہدف دلیل سے ’خونخوار مومنین‘ مرغ بسمل ہوگئے ہیں، ڈاکٹر صاحب مزید جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’یہ کہنا کہ اسلام غیر مسلموں سے دلی دوستی سے روکتا ہے ایک ایسی بات ہے جو پوری دنیا میں اقلیتوں کے لیے مسائل پیدا کرنے والی ہے۔‘‘  یہاں بھی وارث مظہری صاحب نے قرآن و سنت والے اسلام سے دریافت کرنے کے بجائے ’فطری دین‘ کی بنیاد پر یہ اصول بنا لیا کہ جو چیز پوری دنیا میں مسلم اقلیتوں کے لیے مسائل پیدا کرنے والی ہو وہ دین فطرت میں کیسے جگہ پاسکتی ہے۔ کاش کہ یہ سنہری اصول مکی دور میں رسول اللہﷺ اور ان کے ساتھیوںؓ کو بھی معلوم ہو جاتا تو ممکن ہے وہ بہت سارے مسائل سے بچ جاتے۔ اللہ کے رسول ﷺ فداہ أبی و أمی کو یہ پیش گوئی بھی نہ کرنی پڑتی کہ بدأ الاسلام غریباً و سیعود غریباً کما بدأ فطوبی للغربی۔(اسلام کی ابتداء اجنبیت سے ہوئی اور وہ پھر اجنبی ہو جائے گا تو بشارت ہے اجنبیوں کے لیے) نہ ہی یہ کہنا پڑتا کہ ’’ اگر مجھ سے دعوۂ محبت ہے تو تیار ہوجاؤکیونکہ مجھ سے محبت کرنے والے کی طرف آزمائشیں (مسائل) اس سے بھی زیادہ تیزی سے آتی ہیں جتنی تیزی سے ڈھلان پر پانی بہتا ہے‘‘۔ اوکماقال۔۔۔ اسی طرح مسائل پیدا ہونے سے خبردار کرنے والی آیت کی بھی ضرورت باقی نہیں رہتی جس میں کہا گیا ہے کہ ولنبلونکم بشیء من الخوف…الخ ہم تمہیں ضرور آزمائیں گے(البقرۃ:155) کیونکہ دین فطرت مسائل پیدا کرنے تھوڑے ہی اترا ہے، اس کا تو کام ہی مسائل حل کرنا ہے!!! مسائل سے بچنے کے لیے out of wayجا کر بھی مشرکین سے پینگیں بڑھانے کی کوشش کرنے والوں اور دستور و قانون کے سائے میں تلاش امن کے متوالوں سے پوچھنے کو دل چاہتا ہے کہ کیا پرامن حالات کی تعبیر یہی ہے کہ نہ مساجد محفوظ ہیں، نہ قرآن، نہ ذاتِ گرامی ﷺکو بخشا گیا ہے، نہ کھانے پینے کی آزادی برقرار رہ پائی ہے، گھروں کی بربادی لازم ہے، بے گناہ قید ہیں، معصوم بچوں تک کو نہیں بخشا جارہا، خواتین کی عصمتیں پامال ہورہی ہیں۔ پوری پوری قوم کو تین تین ماہ سے گھروں میں پوری قوت ، ڈھٹائی اور بے شرمی سے قید کردیا گیا ہے، مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف تحقیقات کرنے والے کمیشن خودمسلمانوں ہی کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔ ذرا ان سے بھی پوچھ لیں کہ وہ دلی دوستی تو دور ،برابری کا درجہ دینے کو بھی تیار ہیں؟دستوری دفعات کے خلافِ اسلام ہونے کا معیار اسی سے پرکھ لیجیے کہ خود مشرکین میں سے کمزور لوگوں کو دستور اس وقت تک ہی مراعات کا حق دار قرار دیتا ہے جب تک وہ اسلام قبول نہ کریں۔ اگر انہوں نے اسلام قبول کرلیا تو اپنی کمزوری و پس ماندگی کے باوجود دستوری طور سے وہ ہرطرح کی مراعات سے محروم قرار دیے جائیں گے اور اس کے خلاف کسی طرح کی چارہ جوئی کی بھی گنجائش نہ ہوگی۔ کیا اسی اظہار یک جہتی پر ڈاکٹر وارث مظہری صاحب اس قدر فدا ہیں کہ اس کی خاطر شریعت مطہرہ کی نئی تعبیر و تشریح پر اتارو ہیں۔بایں عقل ودانش بباید گریست  اب ڈاکٹر صاحب کے لیے بڑادرد سر وہ آیات ہیں جن میں مشرکین کی دلی کیفیات کو مبرہن کرکے مسلمانوں کو ان سے موالات ، بطانہ وغیرہ سے روکا گیا ہے اور یہاں تک کہا گیا کہ ’’اے ایمان والو! تم اگر کافروں کی باتوں میں آگئے تو الٹے پاؤں تمہیں (کفرمیں) لوٹا لے جائیں گے پھر تمہارے ہاتھ خسارے کے علاوہ کچھ بھی نہ آئے گا۔‘‘(آل عمران:150)اسی طرح کی آیات کی ذہن سازی کا نتیجہ ہے کہ تقریباً دس صدیوں کے اختلاط کے باوجود برہمنی نظام ہندوستان میں اسلام کاانضمام و انہضام Assimilateنہیں کرسکا۔ ڈاکٹر صاحب نے اس کا حل یہ نکالا کہ مشرکین عرب (حضور پاکﷺ کے مخاطب اول) اور مشرکین ہند میں فرق کرکے ان آیات کا انطباق اُس دور تک محدود کردیا جائے اور مشرکین ہند کے لیے کوئی نئی categoryپیدا کی جائے۔چنانچہ فرماتے ہیں:  غوروفکر کا ایک اہم موضوع یہ ہے کہ مشرکین عرب جن کا ذکر قرآن میں باربار آیا ہے اور جو رسول اللہ کے براہ راست مخاطبین میں شامل تھے، بکثرت اصحاب علم کی طرف سے ان کا اطلاق مشرکین غیر عرب مثلاً ہندوستان کے ہندوؤں پر کر دیا جاتا ہے اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ قرآن کے مطابق یہود اور ہنود مسلمانوں کے کٹر دشمن ہیں۔ (اشدھم عداوۃ للذین آمنوا الیھود والذین اشرکوا) بظاہر یہ رویہ درست معلوم نہیں ہوتا۔ اگر ہندو موحدین نہیں ہیں تو انہیں قرآن میں مذکو رمشرکین کے ذیل میں بھی نہیں رکھا جا سکتا۔ میرا خیال ہے ہندوستان کے مشرکین اورمشرکین عرب میں فرق کیا جانا چاہیے۔ فقہاء نے غیر مسلموں سے جزیہ لینے کے حوالہ سے ان کے درمیان فرق کیا ہے۔ چنانچہ مثلاً ابو حنیفہ کے نزدیک مشرکین عرب سے تو جزیہ نہیں لیا جا سکتا اور اس طرح انہیں اہل کتا ب کی طرح اسلامی ریاست کے شہری ہونے کا حق نہیں دیاجا سکتا تاہم غیرعرب مشرکین کو امام صاحب کے نزدیک یہ حق حاصل ہے۔علماء ہند کو اس تعلق سے ایک متفقہ موقف اختیار کرنا چاہیے تاکہ اس تعلق سے پایا جانے والا کنفیوژن ختم ہو۔‘‘  اس پیراگراف پر تبصرہ کرتے ہوئے ہاتھ لرز رہے ہیں کہ ایک عالم دین اس قدر جسارت کا مظاہرہ بھی کر سکتاہے۔صریح آیات اور بکثرت اصحاب علم کی رائے ہونے کے باوجود ڈاکٹر وارث مظہری صاحب بغیر کسی دلیل کے مشرکین ہند کو مشرکین عرب سے الگ کرنا چاہتے ہیں۔ خود ان کے پاس اس کی کوئی ٹھوس تجویز نہیں ہے کہ ہنود کو کس زمرے میں رکھا جائے، اس کے باوجود علماء ہند سے کسی متفقہ موقف پر جمع ہوکر کنفیوژن ختم کرنے کی اپیل ہے۔ ڈاکٹر صاحب خود ازہر ہند سے فارغ التحصیل ہیں اور جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اسلامیات کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں اس لیے میں ان سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا ہنود یا دیگر غیر عرب مشرکین اس آیت(التوبہ:28) کے عمو م سے خارج ہیں انما المشرکون نجس فلا یقربواالمسجد الحرام بعد عامھم ھذا۔ (التوبۃ:28) اے ایمان والو!تمام مشرکین نجس ہیں سو وہ اس سال کے بعد مسجد حرام کے پاس بھی پھٹکنے نہ پائیں۔

حدود حرمین میں چودہ سو سال سے بلا لحاظ حکومت و خاندان یہ حکم نافذہے۔ کیا ہنود اس سے مستثنی ہیں؟ اسی طرح مشرکین عرب کی یہ نجاست ان کے عقیدے کی وجہ سے تھی یا ان کے رہن سہن کی وجہ سے؟ اسی طرح کیا ہنود آیت (البقرۃ:221)کے عموم سے خارج ہیں؟ ولاتنکحواالمشرکات…مشرک عورتوں سے شادی مت کرو جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں….ولا تنکحو ا المشرکین….اور (اپنی بہنوں، بیٹیوں کو) مشرک کے نکاح میں مت دو جب تک کہ وہ ایمان نہ لائیں(البقرۃ:221)۔اسی طرح قرآن کے اس بیان سے کہ تم ایمان والوں سے دشمنی میں سب سے زیادہ سخت یہود اور شرک کرنے والوں کو پاؤگے، اس دشمنی کے ضمن میں ہنود کی تاریخ کیا قرآنی بیان کی نفی کررہی کہ جس کی وجہ سے آپ ان کو نیا زمرہ دینا چاہتے ہیں۔ڈاکٹر صاحب کو وضاحت کرنی چاہیے کہ آخر وہ ہنود کو یا غیر عرب مشرکین کو کس زمرے میں رکھنا چاہتے ہیں اور اس میں قرآن و حدیث اور تاریخ کا کوئی رول ہوگا یا سارا دارومدار ’فطری دین‘ (دین الہی) پر ہوگا۔ رہی اس باب میں فقہاء کی رائے تو ڈاکٹر صاحب نے اس کو بیان کرنے میں انصاف سے کام نہیں لیا۔ حجاز مقدس کے مشرکین اور غیرحجازی مشرکین میں فرق صرف یہ کیا گیا ہے کہ مشرکین حجاز خواہ وہاں کے باشندے ہوں انہیں وہاں رہنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ اور جیسا کہ سورہ توبہ میں مذکور ہے انہیں وہاں سے نکالا جائے گا اور کفر پر جمے رہ کر وہاں رہنے پر اصرار پر انہیں قید؍ قتل کردیا جائے گا۔ اب جبکہ انہیں اس علاقہ میں اقامت کی اجاز ت ہی نہیں تو پھر ان سے ذمہ کس بات کالیا جائے گا۔ یہ قانون آج بھی ایسے ہی نافذ ہے۔ اس بات کو مشرکین کے شرک اور زمرے میں فرق کی بنیاد بنانا آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔ رہی بات انصاف پسند مشرکین کے ساتھ مواسات، مدارات اور معاملات کی تو ہمارے نزدیک سورہ ممتحنہ کی روشنی میں اس کا انطباق بھی ہر دور کے مشرکین پر ہوگا۔  موالات کے ضمن میں یہ پوچھنا چاہوں گا کہ تہوار ہر مذہب اور تہذیب کا ایک اہم حصہ ہیں اور وہ اپنے ہم مذہب لوگوں سے قربت کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔ قوم ہنود کے سارے تہوار ان کے مشرکانہ عقائد کے غماز ہیں۔ مثلاً ہولی، دیوالی، گنیش چترتھی،درگا پوجا، دشہرا وغیرہ وغیرہ نہ جانے کتنے تہوار ہیں۔ ان سب میں سب سے اہم حصہ پوجا کا ہوتا ہے۔ کیا ڈاکٹر صاحب ان تہواروں میں ہندو بھائیوں کے ساتھ مسلمانوں کی شرکت جائز سمجھتے ہیں؟کیاہندوؤں کو بغیر کلمہ پڑھے ہوئے ہم اپنے تہواروں عید الاضحی اور عید الفطر کی نماز میں شرکت کو گوارہ کریں گے؟ جب شادی بیاہ نہیں ہو سکتا، تہواروں میں شرکت نہیں ہوسکتی، لباس و تہذیب میںیکسانیت بلکہ تشبہ بھی جائز نہیں ہو سکتا تو پھر موالات تو اس سے بھی آگے کی چیز ہے۔

دراصل میرے نزدیک ڈاکٹر صاحب ایک سراب کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔جہاں انہیں پانی تو ملنے سے رہا البتہ اگر اس کے پیچھے بھاگتے رہے تو جان(ایمان) سے ہاتھ دھونا پڑ سکتا ہے۔ غیرمسلموں کے ذہن سے مزعومہ غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوششوں کا سلسلہ دراز کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب ایک اور پہلو کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں: اس تعلق سے فکری بے اعتدالی کا ایک مظہر اظہار دین کے تصور سے تعلق رکھتا ہے۔ بعض اصحاب فکر جن میں مولانا مودودی سر فہرست ہیں، قرآن کی اظہار دین سے تعلق رکھنے والی آیات سے عالمی سطح پر اسلام کے سیاسی غلبہ کا مفہوم اخذ کرتے ہیں اور اس کو بحیثیت مجموعی امت کا عالمی ایجنڈا قرار دیتے ہیں۔ اس نے اسلام مخالف طبقات کو اس پروپیگنڈے کا موقع دیا کہ اسلام اور اسلام کا سیاسی نظام دنیا کے دیگر سیاسی نظاموں کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔ یہ موقف صحیح محسوس نہیں ہوتا۔‘‘  ڈاکٹر صاحب نے اظہار دین کے مودودیہ تصور پر اسلام مخالف طبقات کو پروپیگنڈے کا موقعہ فراہم کرنے کا جو الزام لگایا ہے وہی درحقیقت قرآن کا حقیقی سیاسی و دینی تصور ہے۔ اظہار دین(غلبۂ دین) کی مذکورہ آیات قرآن میں تین مقامات پر آئی ہیں۔سورہ توبہ آیت نمبر33، سورہ فتح آیت نمبر28 اور سورہ صف آیت نمبر۹۔ تینوں جگہ سلسلہ کلام کے دو جز ہیں۔ پہلے جز میں یہ بتایا گیا ہے کہ کافر چاہتے ہیں کہ اپنی سازشوں سے اسلام کے دیے کو بجھا دیں لیکن اللہ اپنے نور کا اتمام کرکے رہے گا خواہ یہ بات کفار کو کتنی ہی ناگوار کیوں نہ ہو۔ اور دوسرے جز میں ارشاد ہوا ہے کہ اس نے اپنے رسول کوہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ وہ اسے باقی ادیان پر غالب کردے۔ خواہ یہ بات مشرکین کو کتنی ہی ناگوار کیوں نہ ہو۔ تین میں سے دو جگہ یہ بات ہے اور ایک جگہ یہ ہے کہ اس بات پر اللہ کی گواہی کافی ہے۔ اب دین کا دیگر ادیان پر سوار ہوجانا یا غالب ہوجانا آپ معنوی طور پر مرادلیں یاسیاسی طور پر، آیات کی داخلی شہادت اس بات پر متفق ہے کہ اظہار دین کا یہ عمل کفار ومشرکین کی خواہش کے علی الرغم ہوگا۔ اظہار دین کفار و مشرکین کے نزدیک باعث کراہت ہے اور اپنا پورا زور لگاکر اسے روکیں گے۔ پھر اس کا الزام مولانا مودودیؒ پر کیوں ڈالا جارہا ہے۔ خود آیات کہہ رہی ہیں کہ ولو کرہ الکافرون، ولو کرہ المشرکون، وکفی باللہ شھیدا۔دراصل قرآن پر نقد کرکے ایمان ہی نہیں بچے گا اس لیے ڈاکٹر صاحب راست قرآنی تصور پر نقد کرنے کی سوچ بھی نہیں سکتے۔ جبکہ مودودیؒ پر کیچڑ اچھالنا تو اب فیشن ہوگیا ہے بلکہ ایسے افراد کی عزت افزائی اب خود ’مودودیے ‘کررہے ہیں چنانچہ ڈاکٹر وارث مظہری صاحب مولانا سید ابوالاعلی مودودیؒ نوراللہ مرقدہ کے ذریعہ قائم کردہ جماعت کی طلبہ ونگ کے مہمان خصوصی ہیں۔  رہا غلبہ کا فکری یا سیاسی ہونا تو اس کو سمجھنے کے لیے بھی بارہ علوم کی ضرورت نہیں۔ تینوں آیات جہاد کے ضمن میں آئی ہیں۔ اور جہاد معنوی اور فکری غلبہ کے لیے نہیں سیاسی اور عملی غلبہ کے لیے ہی کیا جاتا ہے۔ معنوی اور فکری غلبہ کے لیے تو تقریریں ، مقالات، سمپوزیم اور سیمینار کافی ہیں۔ اسی طرح مولانا پر یہ تہمت لگانا کہ ان کی وجہ سے اسلام دوسروں کے لیے چیلنج بن گیا ہے خود اسلام کی توہین ہے۔ آج کی مشرکانہ تہذیب جس نے حلال و حرام کے خدائی اختیارات خود انسان کو دے دیے ہیں، معاشی نظام سود و قماربازی پر منحصر ہے، اباحیت ، شراب نوشی، جنسی بے راہ روی، قتل اولاد، قتل نفس بغیر نفس اس تہذیب کی گھٹی میں پڑا ہے خواہ وہ امریکی جمہوریت ہو یا ہندوستانی ،چینی سوشلزم ہو یا روسی سامراجیت سب کے تانے بانے خدا فراموشی، شراب ، شباب،قمار اور اکثریتی جبر پر منحصر ہے جبکہ اسلام ان سب کو حرام قرار دیتا ہے اور ان کے خلاف علی الاعلان جہاد کا بگل بجاتا ہے۔ یہی اسلامی تہذیب آج کے سیاسی فراعنہ کے لیے چیلنج ہے۔ اگر مولانا مودودیؒ نے اس کو اجاگر کیا ہے تو یہ ان کی سعادت ہے نہ کی ان کی اختراع۔ ڈاکٹر صاحب یہ تو خیال کرتے کہ موقعہ پاکر ایک سیاسی حریف کو چت کرنے کے چکر میں وہ شریعت مطہرہ کی ہی تذلیل کر بیٹھے ہیں۔ مولانا وارث مظہری القاسمی صاحب کو ان گزارشات پر ٹھنڈے دل سے غور کرنا چاہیے اور اپنا لائحۂ دنیوی اور اخروی مفاد کے پیش نظر ترتیب دینا چاہیے۔کہیں ایسا نہ ہو کہ ع نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔