سورۃ الفیل کا تاریخی پس منظر

ہاتھی والے!!

 مولانا محمد الیاس گھمن

حبشہ کے بادشاہ نے ابرہہ کو یمن کا گورنر مقرر کیا، اس نے یمن کے دارالحکومت صنعاء میں ایک کلیسا (چرچ) الکلیس تعمیر کیا، عیسائی ہونے کے ناطے وہ چاہتا تھا کہ لوگ بیت اللہ کو مقدس مرکز ماننے کے بجائے اس کے تعمیر کردہ کلیسا کو مقدس مرکزیت کا درجہ دیں ،جب یہ ممکن نہ ہوا تو570ء میں ابرہہ نے مکہ پر حملہ کیا۔ اس کے لشکر میں سینکڑوں ہاتھی شامل تھے۔
مورخین نے لکھا ہے کہ بیت اللہ پر حملہ اس کا محض مذہبی جنون نہیں تھا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ بحیرہ احمر کی بحری گزر گاہ پر مکمل تسلط چاہتا تھا کیونکہ اس زمانے میں جس قوت کے ہاتھ میں بحری گزر گاہیں ہوا کرتی تھیں وہی قوت عالمی اقتصادیت پر حکمرانی کرتی تھی۔ اسلام سے قبل کعبہ چونکہ عربوں کا ثقافتی اور مذہبی مقدس مرکز ہونے کے ساتھ ساتھ ان کا اقتصادی مرکز بھی تھا۔
سورۃ الفیل کے تحت مفسرین نے لکھا ہے کہ جب اس کے حملے کی خبر عرب میں پھیلی تو سارا عرب مقابلہ کے لیے تیار ہو گیا۔ ذو نفر کی قیادت میں یمن میں آباد عربوں ابرہہ کے خلاف جنگ کی۔ مگر ابرہہ کی شکست نہ ہوسکی اور ذونفر کو قید کرلیا گیا۔
اس کے بعد ابرہہ خثعم کے مقام پر پہنچا تو اس قبیلہ کے سردار نفیل بن حبیب نے پورے قبیلہ کے ساتھ ابرہہ کا مقابلہ کیا مگر ابرہہ کے لشکر نے ان کو بھی شکست دیدی اور نفیل بن حبیب کو بھی قید کرلیاگیا۔
اس کے بعد ابرہہ کا لشکر طائف کے قریب پہنچا تو طائف کے باشندے پہلے سے قبیلہ ثقیف، ذونفر وغیرہ کے واقعات سن چکے تھے۔ طائف والوں نے "لات "نامی بت کے نام پر ایک عظیم الشان بت خانہ بنا رکھا ہے انہوں نے فیصلہ کیا کہ اگر ابرہہ اس کو نہ چھیڑے تو ہم اس کا مقابلہ نہیں کریں گے ، مزید انہوں نے ابرہہ کو یہ بھی پیش کش کی کہ ہم اپنا ایک سردار’ ابورغالـ‘ تمہارے ساتھ بطور رہنمابھیج دیتے ہیں۔
ٍٍ ابرہہ اس پر راضی ہوکر ابورغال کو ساتھ لے کر مکہ مکرمہ کے قریب ایک مقام مغمس پر پہنچ گیا جہاں قریش مکہ کے اونٹ چر رہے تھے، ابرہہ کے لشکر نیسب سے پہلے ان پر حملہ کرکے اونٹ گرفتار کرلیے جن میں دو سو اونٹ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جد امجدخواجہ عبدالمطلب کے بھی تھے۔ ابرہہ نے یہاں پہنچ کر اپنے ایک سفیر "حناطہ حمیری "کو مکہ میں بھیجا کہ وہ قریش کے سرداروں کو مطلع کرے کہ ہم تم سے جنگ کے لیے نہیں آئے، ہمارا مقصد فقط کعبہ کو ڈھانا ہے۔ اگر تم نے اس میں رکاوٹ نہ ڈالی تو تمہیں کوئی نقصان نہ پہنچے گا۔
حناطہ حمیری جب مکہ مکرمہ میں داخل ہوا تو سب لوگوں نے اس کو خواجہ عبدالمطلب کا پتہ دیا کہ وہ سب سے بڑے سردار قریش کے ہیں۔ حناطہ نے عبدالمطلب کے ساتھ کچھ دیر اس معاملے پر گفتگو کی۔ خواجہ عبدالمطلب نے جواب دیا کہ ہم بھی ابرہہ سے جنگ کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے، نہ ہمارے پاس اتنی طاقت ہے کہ اس کا مقابلہ کرسکیں۔باقی کعبہ اللہ کا گھر ہے اور اس کے خلیل ابراہیم علیہ السلام کا بنایا ہوا ہے، وہ خود اس کی حفاظت کا ذمہ دار ہے۔ حناطہ نے عبدالمطلب سے کہا کہ تو پھر آپ میرے ساتھ چلیں میں آپ کو ابرہہ سے ملاتا ہوں۔
ابرہہ نے جب عبدالمطلب کو دیکھا کہ بڑے وجاہت و جلالت والے شخص ہیں تو ان کو دیکھ کر اپنے تخت سے نیچے اترکر بیٹھ گیا اور عبدالمطلب کو اپنے برابر بٹھایا اور اپنے ترجمان سے کہا کہ عبدالمطلب سے پوچھے کہ وہ کس غرض سے آئے ہیں؟ عبدالمطلب نے کہا کہ میرے اونٹ جو آپ کے لشکر نے گرفتار کر لیے ہیں ان کو چھوڑ دو۔
ابرہہ نے کہا کہ جب میں نے آپ کو دیکھا تو میرے دل میں آپ کی بڑی وقعت و عزت پیدا ہوئی، مگر آپ کی گفتگو نے اس کو بالکل ختم کردیا کہ آپ مجھ سے صرف اپنے دو سو اونٹوں کی بات کر رہے ہیں۔ حالانکہ تجھے یہ بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ میں کعبہ کو ڈھانے کیلیے آیا ہوں اس بارے آپ نے کوئی گفتگو نہیں کی۔ عبدالمطلب نے جواب دیا کہ اونٹوں کا مالک تو میں ہوں مجھے ان کی فکر ہوئی، اور بیت اللہ کا مالک اللہ ہے وہ اپنے گھر کی حفاظت کرنا جانتا ہے۔ ابرہہ نے کہا کہ تمہارا خدا اس کو میرے ہاتھ سے نہ بچاسکے گا۔ عبدالمطلب نے کہا کہ پھر تمہیں اختیار ہے جو چاہو کرو۔
ابرہہ نے خواجہ عبدالمطلب کے اونٹ واپس کیے، آپ اپنے اونٹ لے کر واپس آئے اور بیت اللہ کو پکڑ کر دعاء میں مشغول ہوئے۔ قریش کی ایک بڑی جماعت ساتھ تھی، سب نے اللہ تعالیٰ سے دعائیں کیں کہ ابرہہ کے عظیم لشکر کا مقابلہ ہمارے تو بس میں نہیں، آپ ہی اپنے بیت کی حفاظت کا انتظام فرمادیں، دعا کرنے کے بعد عبدالمطلب مکہ مکرمہ کے دوسرے لوگوں کو ساتھ لے کر مختلف پہاڑوں پر پھیل گئے۔ ان کو یہ یقین تھا کہ اس لشکر پر اللہ کا عذاب آئے گا۔
دوسرے دن ابرہہ نے بیت اللہ پر چڑھائی کی تیاری کی اور اپنے محمود نامی ہاتھی پر سوار ہو، اسی دوران قبیلہ خثعم کے سردار نفیل بن حبیب …جن کو راستہ سے ابرہہ نے گرفتار کیا ….وہ آگے بڑھے اور ہاتھی کے کان میں کہا جہاں سے آیا ہے وہیں صحیح سالم لوٹ جا، کیونکہ ابرہہ کعبۃ اللہ کو ڈھانے جا رہا ہے، خدا کی قدرت کا کرشمہ یہ ظاہر ہوا کہ ہاتھی یہ سنتے ہی بیٹھ گیا، ہاتھی بانوں نے اس کو اٹھانے ہر طرح کی کوشش کی لیکن ناکام رہے یہاں تک کہ اس کو بڑے بڑے آہنی تیروں اور نیزوں سے مارا گیا، اس کی ناک میں لوہے کا آنکڑا ڈالالیکن ہاتھی پھر بھی وہ کھڑا نہ ہوا۔ لوگوں نے اس کو یمن کی طرف لوٹانا چاہا تو فوراً کھڑا ہوگیا، پھر شام کی طرف چلانا چاہا تو چلنے لگا، پھر مشرق کی طرف چلایا تو چلنے لگا، ان سب اطراف میں چلانے کے بعد پھر اس کو مکہ مکرمہ کی طرف چلانے لگے تو بیٹھ گیا۔
دوسری طرف دریا کی طرف سے کچھ پرندوں کی قطاریں آتی دکھائی دیں جن میں سے ہر ایک کے ساتھ تین کنکریاں چنے یا مسور کے برابر تھیں، ایک چونچ میں اور دوپنجوں میں۔ پرندے عجیب طرح کے تھے جو اس سے پہلے نہیں دیکھے گئے، جثہ میں کبوتر سے چھوٹے تھے ان کے پنجے سرخ تھے، ان کو ابابیل کہا جاتا ہے ہر پنجے میں ایک کنکر اور ایک چونچ میں لیے آتے دکھائی دیتے اور فوراً ہی ابرہہ کے لشکر کے اوپر چھا گئے، یہ کنکر جو ہرایک کے ساتھ تھیں ان کو ابرہہ کے لشکر پر گرایا۔ ایک ایک کنکر جس پر پڑتی اس کے بدن کو چیرتی ہوئی زمین میں گھس جاتی تھی۔یہ عذاب دیکھ کر ہاتھی سب بھاگ کھڑے ہوئے، صرف ایک ہاتھی رہ گیا تھا جو اس کنکری سے ہلاک ہوا اور لشکر کے سب آدمی اسی موقع پر ہلاک نہیں ہوئے بلکہ مختلف اطراف میں بھاگے ان سب کا یہ حال ہوا کہ راستہ میں مر مر کر گر گئے۔
ابرہہ کو چونکہ سخت سزا دینا تھی وہ فوراً ہلاک نہیں ہوا مگر اس کے جسم میں ایسا زہر سرایت کرگیا کہ اس کا ایک ایک جوڑ گل سڑ کر گرنے لگا۔ اسی حال میں اس کو واپس یمن لایا گیا، دارالحکومت صنعاء پہنچ کر اس کا سارا بدن ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا اور مرگیا۔ ابرہہ کے ہاتھی محمود کے ساتھ دو ہاتھی بان یہیں مکہ مکرمہ میں اندھے اور اپاہج ہو کر رہ گئے حضرت اسماء بنت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نے فرمایا کہ میں نے ان دونوں اپاہج اندھوں کو بھیک مانگتے ہوئے دیکھا ہے۔

تبصرے بند ہیں۔