کنہیا کمار کی کتاب ’’بہار سے تہاڑ جیل تک‘‘

سیاست کیسی ہونی چاہئے؟

ترجمہ: عبدالعزیز

(اس وقت پورے ہندوستان کی جو تصویر کشی جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے طلبہ لیڈر کنہیا کمار اپنی تقریروں اور تحریروں کے ذریعہ کر رہے ہیں نہ صرف سچی اور صاف ستھری تصویر ہے بلکہ دوسروں کے مقابلے میں پُر اثر اور پُر مغز ہے۔ یو ٹیوب (You Tub) کے ذریعہ طالب علموں اور جوانوں کو خاص طور پر سننا چاہئے اور کنہیا کمار کی تحریک کا ساتھ بھی دینا چاہئے کیونکہ کنہیا کمار ہندوستان کو جو چند امیروں اور خاندانوں کے ہاتھ میں ہے اس کو بدلنا چاہتے ہیں، تاکہ وہ سب کا ہوجائے اور سب اس کے ہوجائیں اور وہ سب کیلئے ہوجائے۔ حکومت بھی امیروں کی نہ ہو، امیروں کے ذریعہ نہ ہو اور امیروں کا اس پر تسلط نہ ہو۔ بقول کنہیا کمار یہ ایک لمبی لڑائی ہے۔ جو لوگ ہندوستان کو امیروں اور ظالموں کے چنگل سے چھڑانا چاہتے ہیں انہیں آگے آنا ہوگا۔
29سالہ کنہیا کمار فروری 2016ء میں جے این یو (جواہر لال نہرو یونیورسٹی) طلبہ تنظیم کے صدر کی حیثیت سے گرفتار ہونے کے بعد قومی شہرت کی شخصیتوں میں شمار ہونے لگے اس وقت سے ملک کے تمام شہریوں کے یکساں حقوق کیلئے سراپا احتجاج بن گئے اور ایسی عوامی شخصیت بن کر ابھرے کہ ہر کوئی یہاں تک کہ اس کے دشمن بھی اس کی تقریر سننے کیلئے مشتاق رہتے ہیں۔ سی پی آئی کی طلبہ تنظیم اے ایس ایف (ASF) کے ممبر کنہیا کمار بہار کے ضلع بیگو سرائے کے ایک گاؤں کے انتہائی غریب خاندان کے چشم و چراغ ہیں جن کی ماں کی ماہانہ آمدنی تین ہزار روپئے ہے۔ کنہیا کمار کو سب سے پہلے پٹنہ کالج میں طلبہ سیاست میں حصہ لینے کا موقع ملا جہاں سے جغرافیہ میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔ جے این یو میں بین الاقوامی مطالعات میں داخلہ لیا اور ٹاپ کیا۔ اس وقت پی اے ساؤتھ افریقہ کے موضوع پر پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ اسی ہفتہ ان کی کتاب ’’بہار سے تہاڑ جیل ‘‘ ریلیز ہوئی ہے جس کی قیمت 250 روپئے ہے۔ ع-ع)
کتاب کا پیش لفظ
پیارے قارئین! یہ مارچ 2016 کا مہینہ تھا جب میں چند دنوں کے بعد جیل سے باہر ہوا جس نے میری زندگی کو بالکل بدل گئی۔ اب تک میں 300 انٹرویو دے چکا ہوں اور کچھ لوگ اپنی باری کے انتظار میں ہیں۔ سوالات تقریباً سب کے یکساں ہیں مگر میرے جوابوں کی تعبیر و تشریح یقینا مختلف ہے۔ ان میں سے کچھ ادب لطیف کی چاشنی لئے ہوئے ہیں اور کچھ میں تنقید و تنقیح ہے جو اہم رول ادا کرتے ہیں جو کچھ آپ ایک دوسرے سے کہنا یا بتانا پسند کرتے ہیں۔ ملک کے مختلف علاقوں کے لوگ میرے سیاسی سفر سے دلچسپی رکھتے ہیں۔ یہ جو کچھ لکھا گیا ہے اسے میں نے بڑے غور و فکر اور سوچ سمجھ کر لکھا ہے تاکہ میڈیا کو بھی سمجھ میں آئے۔ اس کہانی اور حکایت کو میں نے دوسرے ڈھنگ اور طور طریقے سے بھی پیش کیا ہے۔ اس سے بعض Confused ہوسکتے ہیں اور بعض جان بوجھ کر Confusoin پیدا کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔
ایک سہانی شام میں جو میری زندگی کے مثالی لمحات کہنا چاہئے میرے دوست ادریس نے مجھے مشورہ دیا کہ میں ایک کتاب تصنیف کروں۔ اس سے صرف یہ نہیں ہوگا کہ لوگ میرے صحیح پیغام اور مقصد زندگی سے واقف ہوں گے بلکہ اس سے مجھے اور میرے خاندان کو مالی سپورٹ بھی ملے گا۔ مجھے یاد آتا ہے کہ جب میں جیل میں تھا تو میں نے جیلر سے قلم اور کاغذ مانگا۔ جیلر نے ایک ڈائری دی اور میں نے جیل میں ڈائری لکھنا شروع کر دیا۔ مجھے یہ بھی احساس ہوا کہ جیل میں رہنے کے دوران میں نے کیا کچھ کیا بلکہ زیادہ اہم یہ ہے کہ جیل نے کیا کچھ ہمیں دیا۔ جواب یہ تھا کہ میرا سیاسی نظریہ، میرا عزم اور اراہ ہر قسم کے امتیازات اور استحصالات کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنا ہے ۔ مجھے یاد ہے کہ میں ایک طالب علم تھا اور میرے ارد گرد جو کچھ ہورہا تھا اسے میں نظر انداز کرتا تھا اور میں کلاس روم میں مقید ہوگیا تھا اور کسی اور چیز سے دلچسپی نہیں رکھتا تھا۔
لیکن میں اظہارِ افسوس نہیں کروں گا کیونکہ میں نے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ میں نہ مظلومیت برداشت کروں گا اور نہ خاموشی اختیار کروں گا۔ میں نے سماجی کارکن (Activist) بننے کا فیصلہ کر لیا تھا جو ہر قسم کی نا انصافی اور ہر طرح کے جبر و ظلم جو حکومت اور یونیورسٹی کی انتظامیہ کی طرف سے ہوگا اس کی مزاحمت اور مخالفت میں آواز بلند کروں گا۔
سچائی یہ ہے کہ میں کتاب لکھنے کے بارے میں کبھی سوچا نہیں تھا۔ میں نے مقالہ اور تھیسیس لکھنے کیلئے ضرور سوچا۔ کتاب لکھنے کی بات میرے ذہن میں نہیں آئی۔ میرے بہت سے واقعات کی مطابقت نے مجھے اس کی طرف رہنمائی کی۔ میں آپ کو ایک کہانی جو میری زندگی سے تعلق رکھتی ہے میری جدوجہد اور جذبات سے متعلق ہے، سناتا ہوں۔ ایک حقیقت کو جو میں نے سمجھا وہ یہ ہے کہ جب میں غور و فکر کروں اور لکھوں تو جو ہماری زندگی کا حصہ ہیں، دوست، حمایتی یہاں تک کہ مخالف انھیں نظر انداز نہ کروں۔ ہر ایک ہماری زندگی میں یکساں کردا ادا کرتے ہیں۔ ان سے رابطہ کو کبھی توڑنا نہیں چاہئے۔ بسا اوقات گفت و شنید سے مسئلہ کا حل نکل آتا ہے۔ جب اپنی زندگی پر دوبارہ غور وخوض کرتے ہیں تو اپنی معمولی غلطیوں کا اعتراف ہوتا ہے اور طاقت اور کمزوری کا پتہ چلتا ہے۔ جب میں نے لکھنا شروع کیا تو مجھے ایسے لوگوں سے ضرورت آن پڑی جس سے میں نے کیمپس (جے این یو) میں کبھی بات کرنے کی ضرورت محسو نہیں کی جبکہ وہ برسوں یونیورسٹی میں رہے۔ آج وہ میرے دوست ہیں اور مجھے زندگی کی اہمیت کا احساس ہوا۔
یہ کتاب ہندوستان کے دیہی علاقہ کے نوجوان طلبہ سے تعلق رکھتا ہے۔ آپ کا سماجی اور اقتصادی پس منظر ایک بڑا رول ادا کرتا ہے۔ جو چیز مواقع پر فیصلہ کرنے سے آپ حاصل کرنا یا چھوڑ دینا پسند کرتے ہیں اور وہ نظریہ یا آئیڈولوجی جس پر آپ کا یقین و ایمان ہوتا ہے۔ میں ایک معمولی درجہ کا طالب علم تھا جس کا ایک معمولی گاؤں سے تعلق تھا جسے اسکول میں ذلیل و خوار کیا جاتا تھا جو اپنے کیریئر کے انتخاب کو بدلتا رہتا تھا کیونکہ وہ ان Courses (نصاب تعلیم) کے مطالعہ کو Afford(برداشت) کرنے سے قاصر تھا جسے پڑھنے کیلئے ٹیوشن لینے کی ضرورت پڑتی ہے اور جسے اپنی ضروریات زندگی کو بھی پوری کرنی پڑتی ہے۔ اسے ذات پات، مذہب، تفریق جنس کی بنیاد پر سوسائٹی میں نابرابری کی وجہ سے زندگی کے ہر مرحلہ میں سابقہ پڑتا ہے۔ مسائل سے دو چار ایسا ہی ایک طالب علم ہندوستان کی نامور اور لبرل یونیورسٹی کی طلبہ تنظیم کا صدر منتخب ہوا جس نے یہ سوچنا شروع کیا کہ جب سیاست آپ کی زندگی کی ہر چیز میں مؤثر رول ادا کرتی ہے تو یہ فیصلہ ضروری ہے کہ آپ کی سیاست کا محور اور مرکز کیا ہونا چاہئے۔
میں ایک معمولی درجہ کا شہری ہوں جو ملک کے دستور اور آئین پر بھروسہ رکھتا ہے لیکن میں ایسے لوگوں کے خلاف بولتا ہوں جو غریب طالب علموں، دلتوں اور اقلیتوں کے مفاد کے خلاف حکومت کے اندر یا باہر سے سیاست کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مجھے غدار قوم (anti- national) کہا گیا اور مجھے ایسے جرم پر گرفتار کیا جس کا ارتکاب میں نے کبھی نہیں کیا جو ہمیشہ ترقی پسند طبقہ کے ساتھ جدوجہد کرتا ہے، مارچ کرتا ہے، اسے سوشل میڈیا کے دوستوں نے گالی سے نوازا، اس کے برعکس دنیا کی 400 یونیورسٹیوں کے طلبہ نے خط لکھ کر مجھے ہر طرح کا سپورٹ پیش کرنے کی بات کہی۔ میری رہائی کے بعد بہت سے پبلشر نے مجھ سے اور میرے دوستوں سے رابطہ کرنا شروع کیا کہ میں ان سے ایک کتاب لکھنے کا معاہدہ کروں۔ میں نے جگر نوٹ (Juggernaut) کو پسند کیا کیونکہ اس نے جس ٹیم کو لکھنے اور ایڈیٹنگ کی پیش کش کی وہ جے این یو کے طلبہ پر مشتمل تھی یہ سب میری مصیبت کی گھڑی میں میرے ساتھ جدوجہد کے وقت کھڑے تھے اور وہ میرے سیاسی اپروچ کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔
یہ کتاب میری زندگی کی کہانی پر مشتمل ہے مگر یہ اجتماعی کوشش اور جدوجہد کا نتیجہ ہے، یہاں تک کہ کتاب کا سرورق بھی میرے ایک دوست نے ڈیزائن کیا ہے جو باصلاحیت کارٹونسٹ ہے۔ رات بھر میرے دوستوں میں بحث و مباحثہ جاری رہا کہ مجھے کیا ڈرافٹ میں شامل کرنا ہے کیا نہیں شامل کرنا ہے۔ میں میٹنگ، انٹرویو، احتجاجی تحریک کیلئے گوناگوں مصروفیات رکھتا ہوں اور مجھے سفر پر بھی بہت جانا پڑ رہا ہے۔ میں ڈیبیٹ کے دوران بہت ہی کم سوتا ہوں اور وہ میرے موڈ پر منحصر ہوتا ہے، یا تو وہ لوگ خاموشی سے چلے جاتے ہیں یا مجھ پر تکیہ پھینکنا شروع کر دیتے ہیں۔ کبھی جذبات سے لبریز ہوکر میری کہانی سنتے ہیں اور میرے ساتھ اپنے تجربات و مشاہدات شیئر کرتے ہیں اور کبھی کبھار میرا مذاق اڑاتے ہیں کہ میں کس قدر بیوقوف واقع ہوا ہوں۔
میں اس موضوع پر بھی بحث و مباحثہ کرتا ہوں کہ میں اپنی آپ بیتی لکھوں اور اس کے پیچھے کیا مقاصد ہوں۔ کتاب یہ پیغام دیتی ہے کہ میں کیسے ایک سماجی کارکن یا لیڈر بنا اور کیسے بہار سے تہاڑ جیل تک اپنے سیاسی سفر کو گزارا۔ یہ میری کتاب میرے سفر زندگی کا اختتام نہیں ہے ۔ حقیقت میں اس نے میری زندگی کے ایک باب کا آغاز کیا ہے۔ میں سیاست میں تھا اور ہوں اور رہوں گا مگر سیاست کا مطلب صرف یہی نہیں ہے کہ الیکشن لڑا جائے۔ انتخابی سیاست سیاست کا ایک جز یا حصہ ہے۔ جب لوگ مجھ سے دریافت کرتے ہیں کہ کیا میں الیکشن میں کھڑا ہوں گا تو یہ سوال میرے لئے ایسا ہے جیسے کہ کوئی سوال کرے کہ کیا میں ایک کتاب لکھوں گا۔ اگر میں ضرورت محسوس کروں گا تو یقینا انتخابی سیاست میں حصہ لوں گا۔ قسمت ہی میرا تعاقب کرے گی کہ کب اور کہاں اور کیسے مجھے الیکشن میںحصہ لینا ہے ۔ اگر کوئی منطق ہے الیکشن میں حصہ لینے میں جب ہی میں اس طرف قدم بڑھاؤں گا۔ میں ایک طالب علم ہوں اور میں پیشہ کے لحاظ سے ایک معلم بننا پسند کرتا ہوں۔
مجھے ایماندارانہ طور پر یہ کہنے دیجئے کہ میں لکھنے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں رکھتا۔ میں بات کرنے کا عادی ہوں۔ آپ مجھ سے بات کرسکتے ہیں جب تک پسند کریں۔ میں لکھنے میں سست رفتار ہوں اور اسے ایڈٹ کرنا اور بھی میرے لئے دشوار گزار ہوتا ہے اس میں دماغی و ذہنی الجھن ہوجاتی ہے۔ میں اپنے فطری انداز سے اظہار خیال کے راستہ پر گامزن رہنا چاہتا ہوں۔ میں اس راستہ سے اچھی طرح واقف ہوں اور اس راستہ پر چل کر لوگوں کو اپنے ساتھ جوڑ سکتا ہوں۔ میں تقریر میں ایک اسٹائل رکھتا ہوں اور وہی اسٹائل تحریر کا بھی ہوتا ہے۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ تعلیم حاصل کرنے پر اخراجات نہیں ہونا چاہئے ۔ میرا کہنا ہے کہ حکومت یا ریاست ہر ایک شہری کو عمدہ سے عمدہ اور معیاری تعلیم دلانے کی ہر ممکن کوشش کرے۔ جب لوگ یہ کہتے ہیں کہ ٹیکس سبسیڈی سے میں تعلیم حاصل کرتا ہوں تو مجھے ایسے لوگوں پر حیرت ہوتی ہے کہ وہ کیسے غریب اور مفلس بچوں کی تعلیمی ترقی کیلئے جو میرا نقطہ نظر ہے اسے سپورٹ کریں گے۔ وہ تو چاہیں گے کہ ایسے غریب بچے ڈھابے پر کام کریں۔ کیا اس کی وجہ سے کہ جو سبسیڈی پر تعلیم حاصل کر رہے ہیں وہ امتیازی سلوک کے خلاف آواز بلند نہیں کریں گے؟ کوئی نہیں جانتا ہے کہ نا انصافی کے خلاف مزاحمت کرنا بھی شہریوں کے فرائض میں داخل ہے۔ بہر حال مجھے اس کتاب کے لکھنے پر خوشی اور مسرت ہے کہ میں بھی اپنے ملک کے ٹیکس ادا کرنے والوں میں شامل ہوگیا۔

تبصرے بند ہیں۔