اقبال کی شاعری کاموضوع انسان ہے!

عبدالعزیز

 اقبالؔ کی شاعری کاموضوع انسان ہے لیکن شروع میں اس نے نہ اس موضوع کو اپنایا اور نہ اپناسکتا تھا کیوں کہ مغرب کی تعلیم کی یہ خصوصیت رہی ہے کہ وہ اپنے طالب علموں کو زمان و مکان کی قید سے آزاد ہونے نہیں دیتی۔ اس اسکول نے رشتہ انسانیت کو مختلف خانوں میں بانٹ دیا ہے۔ آج جو انسانیت کی وحدت پارہ پارہ ہوگئی ہے وہ اسی کی کوششوں کانتیجہ ہے، ظاہر ہے کہ اقبال اسی اسکول کاایک طالب علم تھا۔ اس کے پاس جو نظریات وافکار آئے وہ اسی درس گاہ سے تعلق رکھتے تھے۔ نوجوان اقبال جب اس دروازے سے باہر آتا ہے تو قومیت اور وطینت کادرس دینے لگتا ہے۔ لیکن جب قریب سے مغرب کی تہذیب کاجائزہ لیتا ہے اور اس کی گہرائیوں میں اتر کر دیکھتا ہے تواس کے لئے ظاہری چمک دمک کی موت ہوجاتی ہے اوراس کے اندر کاانسان جاگ اٹھتا ہے اور معاًچیخ پڑتا ہے  ؎

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں

محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیاہوجائے گی

 پھر مغرب پرستوں سے مخاطب ہوکر کہتا ہے ’’اس سراب رنگ و بو کو گلستاں سمجھاہے تو آہ! اے ناداں فقس کو آشیاں سمجھا ہے تو‘‘ اتناہی پربس نہیں کرتا بلکہ آگے بڑھ کر نظریہ قومیت کی تردید کرتا ہے تاکہ اس کے گناہوں کاکفارہ بن سکے۔

ان تازہ خدائوں میں بڑا سب ہے وطن ہے

مذہب کاجو پیرہن ہے اس کا کفن ہے

 پھر اس کی نقصانات کی نشان دہی کرتا ہے۔

ہو قید مقامی تو نتیجہ ہے تباہی

ہو بحر میں آزاد وطن صورت ماہی

 آگے چل کر اس کے ہولناک اثرات کابھی ذکر کرتا ہے۔

اقوام جہاں میں ہے رقابت تو اسی سے

تسخیر ہے مقصود تجارت تو اسی سے

خالی ہے صداقت سے سیاست تو اسی ہے

کمزور کاگھر ہوتا ہے غارت تو اسی سے

  پھر وطن کی حقیقت پر گہری نظر ڈالتے ہوئے کہتا ہے ؎

گفتار سیاست میں وطن اور کچھ ہے

ارشاد نبوتؐ میں وطن اور کچھ ہے

 وطن کے تصورات بیان کرنے کے بعداقبال انسان کو گومگو میں نہیں چھوڑتا بلکہ مسئلہ کاحل پیش کرتے ہوئے بتاتا ہے کہ وطن سے کتنی محبت ہونی چاہیے اور نبوت کے نقطہ نظر سے جو لوگ وطن کی حقیقت کو پہچانتے تھے اور اس کی حیثیت متعین کرتے تھے آج وہ اپنے فرض سے روگردانی کررہے ہیں ۔ اگر وہ ایسا نہ کریں تو انسان جس کو خدا بناکر پوج رہا ہے ہر گز نہیں پوجتا بلکہ حق و صداقت کے لئے ان کی محبت کو بھی قربان کردیتا ۔ اب اقبالؔ جن انسانوں میں ذرا بھی اس قسم کا تصور پاتا ہے انہیں اس بت کو گراکر انسانیت کو پیش کرنے کی دعوت دیتا ہے۔

ہے ترک وطن سنت محبوب الٰہی

 دے تو بھی نبوت کی صداقت پر گواہی

بازو تراتوحید کی قوت سے قوی ہے

اسلام ترادیس ہے تو مصطفویؐ ہے

  اس ضمن میں مزید چند باتوں کااضافہ کرتے ہوئے توحید کاگیت گاتا ہے  ؎

شب گریزاں ہوگی آخر جلوۂ خورشید سے

یہ چمن معمور ہوگا ایک دن نغمہ توحید سے

 اس کے بعد توحید کاراز افشاں کرتا ہے۔

خودی سے اس طلسم و رنگ و بو کو توڑسکتے ہیں

یہی توحید تھی جس کو نہ تو سمجھانہ میں سمجھا

 اہل توحید کو توحید کی اہمیت سمجھانے کے بعدان سے انسانیت کادردبیان کرتا ہے تاکہ وہ اپنی حقیقت کو سمجھ کر پھر وہی راستہ اپنالیں جس سے انسانیت کا ٹوٹا ہوا رشتہ جڑگیا تھا۔

ہوس نے کردیاہے ٹکڑے ٹکڑے نوع انساں کو

اخوت کا بیاں ہوجامحبت کی زباں ہوجا

یہ ہندی، وخراسانی، یہ افغانی وہ تورانی

تو اے شرمندہ ساحل اچھل کر بیکراں ہوجا

  جب خدا کے سوئے ہوئے بندوں کے کان میں یہ آواز پہنچتی ہے تو وہ آنکھیں ملتے ہوئے اٹھتے ہیں لیکن دین و سیاست کی جدائی انہیں پھر سلادیتی ہے اقبال نے بھانپ لیاکہ اب یہ سیاست کی زبان سمجھ سکتے ہیں ۔

چین و عرب ہمارا ہندستان ہمارا

مسلم ہیں ہم وطن ہیں ساراجہاں ہمارا

توحید کی امانت سینو ں میں ہے ہمارے

آساں نہیں مٹانا نام و نشاں ہمارا

 جو لوگ کم فہم واقع ہوئے تھے انہوں نے یہ سنتے ہی اقبال کو فرقہ پرست شاعر کاخطاب دے دیا۔ اور ساری دنیا میں شور مچانے لگے کہ اقبال توشاعر ہی نہیں وہ تو اب مبلغ ہوگیا۔ اقبال میں اگرگیرائی اور گہرائی نہ ہوتی توشاید ان آوازوں کااثرنہیں ہوتا۔ لیکن اب تو وہ جام توحید نوش کرچکا تھا۔ کارواں نہیں رک سکتا تھا۔اقبال نے ان سے صاف کہا    ؎

خون دل و جگر سے ہے میری نوا کی پرورش

ہے رگ ساز میں رواں صاحب ساز کالہو

………………

تقش ہیں سب ناتمام کون جگر کے بغیر

نغمہ ہے سودائے خام خون جگر کے بغیر

 حقیقت میں اقبال اب نقالی کو شعر و نغمہ کہنے سے قاصر تھا اب وہ حقیقی معنوں میں حیات کی قیمت سمجھ چکا تھا۔ اسی وجہ سے اس نے دعویٰ کے ساتھ کہا ؎

اگر خودی کی حفاظت کریں تو عین حیات

نہ کرسکیں تو سراپافسوں وافسانہ

 اب اسے یہ کہنے میں ہر گز شرم نہیں محسوس ہو رہی تھی کہ ساراجہاں خدا کے مطیع اور فرمانبردار(مسلم) بندوں کاجہاں ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ نیابت الٰہی کااصلی مفہوم سمجھ گیا تھا اور یہ بھی سمجھ گیا تھا کہ سارے انسان آدم کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ۔لیکن قوم و ملک، رنگ خون، زبان و نسل کے نام پر رشتہ انسانیت سینکڑوں ٹکڑوں میں بکھر گئی ہے۔ اس کو جوڑنے کے لئے صرف توحید کانظریہ کارآمد ثابت ہوگا اور پھر یہی نظریہ قابل ذکر ہے۔

افسوس آتا ہے جب ایک فرد خدا کی دنیا کو اس کے صالح اور نیک بندوں کی دنیا کہتا ہے۔ تو کم نظر اپنی جہالت اور نادانی کی وجہ سے اس میں کیڑے نکالتے ہیں لیکن جب ایک ایسا شخص جو شراب کے نشے میں ڈوب کر سارے جہاں کو اپنا جہاں بتاتا ہے اور مقام کی قید سے بالاتر ہوکر کہتا ہے   ؎

جب میکدہ چھٹا تو پھر کیا جگہ کی قید

مسجد ہو، مدرسہ ہو، کوئی خانقاہ(غالبؔ)

تواس کی پیٹھ تھپتھپائی جاتی ہے۔

 آخر یہ کہاں کاانصاف ہے کہ مئے توحید کاپینے والا سارے جہاں کو اپنے جہاں نہیں بتاسکتا لیکن انگور کا رس پی کرآسانی سے ایک شخص کہہ سکتا ہے کہ وہ زمان و مکان کی قید سے آزاد ہے کیاصرف اس لئے کہ ایک عمل کے لئے ابھارتا ہے دوسرا بے عملی کی طرف اکساتا ہے۔

 عقل رکھنے والوں کا تو یہ فرض ہے کہ وہ اس حقیقت کی چھان بین کریں کہ اقبال نے جو توحید کا نظریہ پیش کیاہے اور جس کے ذریعہ سارے جہاں کو اہل توحید کاجہاں بتاتا ہے وہ آخر ہے کیا؟کیا یہ نظریہ آفاقی ہے؟ کیا وہ انسانیت کے لئے مفید ہوسکتا ہے؟ ہم اگر یہ کہیں کہ اقبال نے قرآن سے نظریہ توحید اخذ کیا ہے توشاید اس پر دورائے نہیں ہوسکتی خود اقبال اپنے ایک خط میں لکھتا ہے۔

’’اگرچہ یورپ نے مجھے بدعت کاچسکا ڈال دیا ہے۔ تاہم میرا مسلک وہی ہے جو قرآن کا ہے:(سید سلیمان ندوی کے نام خط:۱۹۳۲ء)

  پھر وہ کیسے اس نظریہ تک پہنچا اسے بھی معلوم کرناچاہیے۔ اس ضمن میں اقبال ہی کاقول پیش کیا جائے تو زیادہ اچھا ہوگا۔کیوں کہ ہر شخص اپنی زندگی کے بارے میں دوسروں سے زیادہ جانتا ہے۔ اقبال نے سرراس مسعود سے ایک بار مخاطب ہوکر کہاتھا۔

          I have benefited very little by my vast studies, eastern or western, but I have derived immerse benefit from invocation to our holly prophet, you rogations.

 بات صاف ہوگئی کہ توحید کی قرآنی فکر اقبال تک حامل قرآن کے ذریعہ پہنچتا ہے۔ اب اس قرآنی مسلک کی گہرائیوں تک وہی پہنچ سکتا ہے جو یہ براہ راست قرآن سے معلوم کرے کہ وہ انسان کو کس حیثیت سے پیش کرتا ہے اور کائنات میں اس کا کیا درجہ مقرر کرتا ہے۔صاحب قرآن،حامل قرآن کے ذریعہ انسانوں کومخاطب کرتا ہے۔آئو ہم اور تم ایک ایسی بات پر جمع ہوجائیں جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے وہ یہ ہے کہ ہم خدا کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں ۔ اور خدا وندی میں کسی کو خدا کا شریک بھی نہ ٹھہرائیں اور ہم میں سے کوئی کسی کو خدا کے بجائے امر ونہی کا مالک بھی نہ بنائے۔ ( آل عمران۔۶۴)

خدا یہاں مزدوروں یا کاشتکاروں یا کار خانہ داروں کو مخاطب نہیں کرتا بلکہ انسانوں کو پکارتا ہے۔ اس کا خطاب انسان سے بحیثیت انسان ہے وہ انسان کو اپناموضوع سمجھتا ہے اور انسان سے صرف یہ کہتا ہے کہ تم خدا کے سوا کسی کی غلامی کرتے ہو تو اسے چھوڑدو، کسی کی اطاعت و فرماں برداری میں زندگی بسر کرتے ہو تو اسے چھوڑدو،کسی کی اطاعت و فرماں برداری میں زندگی بسر کرتے ہو تو اسے بھی خیرباد کہہ دو۔ اور خدا نخواستہ خود تمہارے اندر خدا کا داعیہ ہے تو اسے بھی نکال باہر کرو۔ دوسروں کاسر اپنے سامنے جھکوانے کاحق کسی انسان کو نہیں پہنچتا۔ بلکہ ہر انسان کو ایک خدا کی بندگی اختیار کرنی چاہئے اور یہی بندگی ساری جھوٹی بندگیوں کی جڑ کاٹتی ہے پھر خدا انسانی تاریخ کاذکر کرتا ہے۔

  ’’ اور دیکھو یہ تمہاری امت فی الحقیقت ایک امت ہے اور میں تم سب کا پروردگارہوں ۔ پس میری عبودیت کی راہ میں تم سب ایک ہوجائو اور نافرمانی سے بچو‘‘۔

 غور فرمائیے خالق کائنات صاف طریقہ سے انسانون کو مخاطب کرکے کہتا ہے کہ تمہیں ایک ہی جامہ انسانیت دیاگیا لیکن تم نے طرح طرح کے بھیس اور نام اختیار کرلئے اور رشتہ انسانیت کی وحدت پارہ پارہ ہوگئی۔حقیقت یہ ہے کہ سارے جہاں کاایک خدا ہے اور ساری دنیا کے لئے سب سے مقدس اور سب سے اعلیٰ رشتہ خدا پرستی کاہے۔ آج اگر دنیامان لے کہ ہم سب کا پروردگار ایک ہے اور ہم سب اس کے بندے ہیں اور بندگی و نیا زکے لئے ایک معبود کی چوکھٹ ہے تو سارے ارضی اختلافات حرف غلط کی طرح مٹ جائیں اور پھر سے ٹوٹے ہوئے دل جڑ جائیں اور خدا کا ہر بندہ اقبال کی طرح محسوس کرنے لگے کہ تمام دنیا ہم انسانوں کا وطن ہے اور تمام نسل انسانی ہماراگھرانا ہے اور ساری دنیا رب العالمین کی عیال ہے۔

 قرآن کے اس وسیع نظریہ کو اگرکوئی جانتا ہے اور پھر قرآن کے اوراق میں اس کے مطیع و فرمانبردار کے متعلق اسی میں پڑھتا ہے کہ تم کو زمین کاوارث بنایاگیا ہے اور تم سارے انسانوں کے لئے بہترین گروہ ہو جو لوگوں کو نیکی طرف بلاتا ہے اور برائی سے روکتا ہے اور پھربھی اللہ اپنے بندۂ خاص(مسلم) کی خصوصیت بیان کرتا ہے۔

ہاتھ ہے اللہ کابندۂ مون کاہاتھ

غالب و کار آفریں ، کارکشا، کار ساز

خاکی ونوری نہاد بندۂ مولیٰ صفات

ہر دوجہاں سے غنی اس کا دل بے نیاز

پھر اللہ (اقبال کی زبان میں ) اس کی تعریف میں یہاں تک کہہ دیتا ہے۔

کوئی اندازہ کرسکتا ہے اس کے زوربازو کا

نگاہ مردمومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں

 جب کبھی اس کانیک بندہ مضمحل ہوجاتا ہے اور تھک کر سررراہ بیٹھنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے اللہ اس کا حوصلہ بڑھاتا ہے

مصاف زندگی میں سیرت فولاد پیدا کر

شبستان محبت میں حریروپرنیاں ہوجا

گزرجابن کے سیل تندروکوہ و بیاباں میں

گلستان راہ میں آئے تو جوئے نغمہ خواں ہوجا

 خدا اس انداز کو کہ ایک جگہ تو سارے انسانون کو ایک کرنے کے لئے پکارتا ہے اور دوسری جگہ اپنے اطاعت گذار بندے کی تعریف میں دریا بہادیتا ہے۔ کوئی نادان غلطی سے یہ سمجھ بیٹھے کہ معاذ اللہ خدا فرقہ پرست ہے۔ صرف ایک گروہ اور ایک فرقہ کو اپنی دنیا سونپنا چاہتا ہے تو یہ نادانی کے سوا اور کیا ہے۔

لیکن خدا کے اس اطاعت پسند بندے کو اس آواز میں   ؎

مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا

 تنگی نظرآئے گی۔ اس تنگی کاعلاج تو اسے مرنے کے ب عد ہی نظر آسکتا ہے موت سے پہلے نہیں ۔ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے نقادو شعراء اگر اقبال کی شاعری کاٹھنڈے دل سے مطالعہ کریں اور اپنی بے عملی اور کمزوروی کو ساری زندگیوں کی کمزوری اور بے عملی تصور نہ فرمائیں توانہیں ماننا پڑے گا کہ اقبال حق و صداقت کا ترجمان ہے۔ اس کی شاعری کاموخوع انسان ہے اعلیٰ شاعری کا یہ کام ہرگزنہیں ہوسکتا جو جھوٹ اور مبالغہ کے علاوہ گل و بلبل، نالاں و شیون، شکوہ و شکایت کے گرد چکر لگاتی ہے۔

  ایسی حالت میں اقبال کو وہی شخص تنگ نظرشاعر کہہ سکتاہے جو تنگ نظر کامفہوم نہیں سمجھتا ہے یا اقبال کو میرؔ و غالبؔ کے روپ میں دیکھنا پسند کرتا ہے۔لیکن اسے سوچنا چاہیے کہ جس کو آفاقی نظریہ مل گیا ہو اور جسے بامعنی اور بامقصد بنانے کی فکر ہو وہ کیسے آوارہ سخن ہوسکتا ہے۔ یہ تو وہی کرسکتا ہے جو اپنے نغمہ سے چمن کو افسردہ کرناچاہتا ہو۔ جو رات دن محبوب کی شکایت کے سوا کوئی اور کام نہ رکھتا ہو،جو صبح و شام کنگھی چوٹی، سرمہ و کاجل انگیااورموباق میں لپٹا ہوا رہتا ہو اورجب محبت پر زبان کھولتا ہو تو خدا بھی اس کے درمیان سے ہٹ جاتا ہو۔

تم جسے یاد کرو اسے کیایاد رہے

نہ خدائی کی ہو پروانہ خدایاد رہے

اور جب اپنے معشوق کے جوروستم کا قصہ بیان کرتا ہو تو ہلاکو اور چنگیز بھی شرم سے اپنی گردنیں جھکالیتے ہوں اور جب خیالی معشوق اپنے ہاتھ میں نہ آئے یا اپنا چہرہ نہ دکھائے تو جینے کی امید بھی کھوبیٹھتا ہے۔

کہتے ہو جیتے ہیں امید پر لوگ

ہم کوجینے کی بھی امید نہیں

  اور آہستہ آہستہ ناامیدی وہ رنگ دکھانے لگتی ہو کہ غم کے علاج کیلئے نسخہ موت تجویز کرتا ہو  ؎

غم ہستی کا اسد کس سے ہو جز مرگ علاج

قیدحیات و بندغم اصل میں دونوں ایک ہیں

موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں

  بخلاف اس کے اقبال زندگی میں ہی موت کو شکست خوردہ بنادیتا ہے اور جب موت اسے بلانے آتی ہے تو مسکراتے ہوئے اس کا خیر مقدم کرتا ہے کہ اب تو اس کی دلی مراد پوری ہونے والی ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ خود کو اوردوسروں کو زندگی سے لڑتے رہنے کی تعلیم دیتا ہے۔ نہ روتا ہوا نظرآتا ہے اور نہ ہی اپنی زندگی کے پاس ناامیدی اور مایوسی جیسی لعنتوں کو پھڑکنے کی اجازت دیتا ہے بلکہ زندگی کا گیت گاتا ہے۔

تو اسے پیمانہ امروزو فرد اسے نہ ناپ

جاوداں پیہم وداں ، ہردم روان سے زندگی

اپنی دنیا آپ پیدا کراگرزندوں میں ہے

آدم ہے ضمیر کن فکا ہے زندگی

زندگانی کی حقیقت کو ہکن کے دل سے پوچھ

جوئے شیروشیشہ سنگ گراں ہے زندگی

  اقبال کے موضوع کے ہر گوشہ کو جب تک الگ الگ پیش نہ کیاجائے، عام انسان اس کے پیغام کو نہیں سمجھ سکتا۔ اقبال ادب سے متعلق کیاخیال رکھتاہے؟ مملکت و تمدن کاکیانقشہ پیش کرتا ہے؟ نظام معیشت و نظام معاشری پرکیا رائے دیتا ہے؟ فرود جماعت کے توازن کو کس طرح برقرار رکھتا ہے؟ حیات اجتماعی کی کیا بنیادیں فراہم کرتا ہے؟ عشق و عقل کے مقابلے کس طرح کرتا ہے؟خودی اور مقاصد آفرینی پر کیانقطہ نظررکھتا ہے؟ عمل و اخلاق کی کیا سرحدیں پیش کرتا ہے؟ شاعرانہ مصوری پر کیااظہار خیال کرتا ہے؟عمل و اخلاق کی کیاسرحدیں بیان کرتا ہے؟  یہ سب عنوانات توحید کی کڑیاں ہیں ؟ ایک ایک کڑی جب تک کہ سامنے نہیں لائی جاتی توحید کا تصور دماغوں میں روشن نہیں ہوسکتا۔ اور نہ ہی ایک عامی لاالہٰ الاللہ کی طرف رخ کرسکتا ہے اور نہ ہی اس کے ذہن میں یہ بات آسکتی ہے کہ خدا کے اس آخری پیغام کو کون پھیلائے اور کس طرح پھیلائے؟

تبصرے بند ہیں۔