اقلیتوں کیلئے حکومت کی تعلیمی اسکیموں کاجائزہ

عبدالرشید

سابق ڈپٹی سیکریٹری رنگاناتھ مشراکمیشن

2001ء کی مردم شماری کے مطابق ملک میں مسلمانوں کی شرح خواندگی 59%تھی جبکہ پورے ملک کی شرح خواندگی 65%تھی۔ ان اعداد شمار کے مطابق رنگاناتھ مشراکمیشن کی رپورٹ میں یہ پایا گیا کہ مسلمانوں کی تعلیمی سطح مڈل یعنی آٹھویں کلاس میں صرف 15.14%تھی جبکہ ملک کی عام تعلیمی سطح 16.09%تھی۔ لیکن اس کے بعد سیکنڈری میں یہ تعلیمی سطح گھٹ کر 10.96%پر آگئی جبکہ عام تعلیمی سطح 14.13%تھی اور گریجویشن لیول پر یہ صرف 3.06%تک آگئی جبکہ عام تعلیمی سطح 6.72%تھی۔ 2011ء کی مردم شماری میں مسلمانوں کی شرح خواندگی میں کچھ اضافہ ضرور ہوا اور یہ بڑھ کر 68.53%تک پہنچی لیکن جب تک عام ہندوستانی کی شرح خواندگی 72.98%تک پہنچ چکی تھی۔ حال ہی میں مختلف رپورٹوں سے پتہ چلتاہے کہ مڈل، سیکنڈری اورگریجویشن کی سطح پر مسلمانوں کی تعلیمی سطح میں کوئی خاص فرق نہیں پڑاہے اورپچھلے سال TOIکی ایک رپورٹ کے مطابق 2011ء میں مسلمانوں کا گریجویشن لیول صرف 2.85%تھا جبکہ پورے ملک کی سطح 5.6%تھی اور آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ جین کمیونٹی کا گریجویشن لیول 25%تھا۔

اس صورت حال کے پیش نظر 2012-13میں آل انڈیا ایجوکیشنل موومینٹ نے امان اللہ خاں صاحب قیادت میں حکومت ہند کی تعلیمی اسکیموں کا جائزہ لینے کیلئے ایک Monitring Cellقائم کی تھی تاکہ پتہ لگایا جاسکے کہ مسلمانوں کو ان اسکیموں سے کتنافائدہ پہنچ رہاہے۔ اس سیل سے RTIکے ذریعہ حکومت سے ضروری معلومات حاصل کیں اور ایک مختصر رپورٹ تیار کی جس کو بہاررابطہ کمیٹی کے ساتھ شئر کیا گیا تھا اور اس وقت کے وزیر برائے اقلیتی امور کو ایک تفصیلی مکتوب مارچ 2013ء میں بھیجا تھا جس کا ذکر بعد میں آئے گا۔ پہلے میں اقلیتوں کی تعلیمی فلاح وبہبود کیلئے جو اسکیمیں زیرعمل ہیں ان کا ذکر کرنا چاہوں گا۔

وزارت اقلیتی امور کی تعلیمی وہنر سے متعلق اسکیمیں

پری میٹرک، پوسٹ میٹرک اور میرٹ کم مینس اسکالرشپ اسکیمیں  :

ان اسکالرشپس کیلئے عام طور پر جولائی اگست میں ان اقلیتی طلبا سے آن لائن درخواستیں طلب کی جاتی ہیں جنہوں نے پچھلے سال کے امتحان میں کم سے کم 50%نمبر حاصل کئے ہوں اور ان کے ماں باپ کی سالانہ آمدنی پری میٹرک کیلئے ایک لاکھ، پوسٹ میٹرک کیلئے دولاکھ اورمیرٹ کم مینس کیلئے 2.50لاکھ روپیہ سے زیادہ نہ ہو۔ طلبا کو اپنی درخواستوں کے ساتھ آمدنی،رہائش اوراقلیتی طبقہ سے ہونے کا ثبوت یا حلف نامہ دینا ضروری ہے۔ 30%اسکالرشپ لڑکیوں کیلئے مخصوص ہیں اور وظیفہ کی رقم طالب علم کے اکاؤنٹ میں جاتی ہے۔

 مولانا آزاد نیشنل اسکالرشپ یوجی سی اسکیم  :

یہ اسکالر شپ Ph.D.یا M.Philکرنے کیلئے یوجی سی قواعد کے مطابق ان کے فیلوشب کے برابرہی ملتی ہے لیکن اس کے لئے نیٹ پاس کرنا ضروری نہیں ہے۔اس کیلئے سالانہ آمدنی کی لمٹ 2-50لاکھ ہے اور 30%وظیفے لڑکیوں کیلئے ہیں۔

نیا سویرا فری کوچنگ اسکیم  :

اس اسکیم کے تحت سول سروسس کی تیاری کیلئے وزارت کے ذریعہ منظور شدہ تعلیمی اداروں میں کوچنگ کیلئے تعلیمی اداروں کو سالانہ اورطلباء کو ہر ماہ مالی امداد دی جاتی ہے تاکہ ان کی تعلیمی صلاحیتوں اورعام معلومات میں اضافہ کیا جاسکے۔ اس کے لئے ماں باپ کی آمدنی کی حدتین لاکھ تک ہے۔ اسی طرح کی ایک دوسری اسکیم نئی اڑان حال ہلی میں شروع کی گئی ہے جس کے تحت ان امیدواروں کو جویوپی ایس سی، SSCیا صوبائی پبلک سروس کمیشن کے ابتدائی امتحانات پاس کرچکے ہیں۔ gazattedپوسٹوں کی تیاری کیلئے 50,000اور Non-gazattedکیلئے 25,000کی مالی امدادی دی جاتی ہے۔

لڑکیوں کیلئے مولانا آزاداسکالرشپ اسکیم  :

یہ اسکیم ان اقلیتی طالبات کیلئے ہے جنہوں نے 10ویں کلاس میں کم سے کم 55%نمبر حاصل کئے ہیں اورجن کے ماں باپ کی آمدنی ایک لاکھ تک ہے۔ یہ اسکالر شپ 11ویں اور12ویں کلاس کی طالبات کو مولانا آزادایجوکیشنل فائونڈیشن کی طرف سے 6000/-سالانہ دی جاتی ہے۔ یہ فائونڈیشن منظور شدہ تعلیمی اداروں کو انفراسٹرکچرڈولیپمنٹ کے لئے بھی خاص کر ہوسٹل کمپیوٹرلیب اور اضافی کلاس روح کیلئے مالی امدادفراہم کرتاہے۔

اسکالرشپ اسکیموں کے عمل درآمد میں دشواریاں  :

جیسا کہ میں نے کہا آل انڈیا ایجوکیشنل موومینٹ نے مندرجہ بالا اسکیموں پر اپنی رپورٹ کی بنیاد پر اس وقت کے وزیراقلیتی امور جناب کے رحمن خاں صاحب کو 4مارچ 2013ء کو خط لکھا تھا جس میں بینک اکاؤنٹ کھولنے، آمدنی کی لمٹ اوراقلیتی طبقے سے ہونے کا ثبوت اورپچھلے کلاس میں کم سے کم 50%نمبروں جیسی شرطوں کی وجہ سے بہت سے اقلیتی طلباء اسکیم کا فائدہ نہیں اٹھاپارہے تھے۔ ان ہی دشواریوں کی وجہ سے جناب ابوصالح شریف نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں 14جنوری 2013ء کے TOIمیں ذکرکیا تھا کہ وزارت کے 20%فنڈ استعمال نہیں ہوپاتے اوراسکالرشپ اسکیم مشکل سے 50%مسلم طلباء کو ہی مل پاتی ہے۔ ان حقائق کی روشنی میں وزیرموصوف سے شرائط کو نرم کرنے اور سالانہ آمدنی کی حد کو بڑھانے کی درخواست کی گئی تھی لیکن اس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکل سکا۔بہرحال اگرہمارے NGOsمسلسل کوشش کریں تو موجودہ شرائط کے باوجود غریب اورپسماندہ مسلمان اسکیم کا فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ ہمارا ایک وفد دسمبر2014ء میں جنوبی ہند کے تعلیمی اداروں کے دورے پر گیا تھا وہاں بنگلور میں ریٹائرڈ IASافسر ضمیرپاشا صاحب نے بتایا تھا کہ ان کی مستقل کوششوں کے نتیجہ میں صوبہ کے اقلیتی طلباء کیلئے ایک سو کروڑ روپیہ تعلیمی وظیفوں کیلئے ملے تھے۔

وزارت اقلیتی امور کی مندرجہ بالا اسکیموں کے علاوہ دہلی حکومت کی اسکیم کے تحت پبلک اسکولوں میں پڑھنے والے طلباء کو ٹیوشن فیس کا reimbursementبھی ملتاہے جس کے لئے ماں باپ کی آمدنی کی حد دولاکھ روپیہ ہے۔ مزید جامعہ ملیہ اسلامیہ، ہمدرد، جے این یو، دہلی یونیورسٹی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بھی اسکالرشپ کی بہت سی اسکیمیں ہیں جن سے فائدہ اٹھا یاجاسکتاہے۔

پڑھو پردیس  :

اس اسکیم کا مقصد ان طلباء کو موجودہ تعلیمی لون اسکیم پر Interest Subsidyمہیاکرانا ہے تاکہ وہ ملک سے باہر اچھی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کیلئے بہترتعلیمی اداروں میں، ماسٹر، M.Phil اور Ph.D.کی تعلیم حاصل کرسکیں۔ اسکے لئے وہ طلباء بھی فائدہ اُٹھا سکتے ہیں جن کے ماں باپ کی سالانہ آمدنی 6لاکھ روپیہ تک ہے۔

استاداسکیم:

اس اسکیم کے تحت اقلیتی طبقہ کے ماہردستکاروں Craftmanاورنئی پیڑھی کو متعلقہ ہنر کی ٹریننگ دی جاتی ہے تاکہ ان کے روزگار اورروٹی روزی کے مواقعوں میں اضافہ ہوسکے۔ اسکیم کے تحت خاندانی پیشہ ورانہ ہنر کی بہتری کی تعلیم کیلئے مالی امداد، تحقیق اورترقی کیلئے فیلوشپ کرافٹ میوزم کیلئے مالی امداد اوردستکاروں کے مال کی فروخت کیلئے NMDFCکے ذریعہ مالی امداد دی جاتی ہے۔

مولانا آزاد نیشنل اکیڈمی فاراسکل :

اسکے تحت وزارت نے اقلیتی مالیاتی کارپوریشن کے تعاون سے نیشنل اکیڈمی فاراسکل کا شعبہ قائم کیاہے تاکہ پسماندہ مسلمانوں کو تعلیم کے ساتھ ہنر اور تربیت دے کر اپنے پیروں پر کھڑا کیاجاسکے۔ اسکے علاوہ غریب نواز اسکیم کے تحت اسکل ڈیولپمنٹ سینٹر کھولنے کی شروعات بھی ہوگئی ہے۔

نئی منزل:

اس اسکیم کا مقصد غریب اور کم پڑھے لکھے اقلیتی طلباء کو تعلیم اورہنر کے ذریعہ روزگار سے جوڑنا ہے۔ اسکیم کے تحت ڈراپ آؤٹ ہونے والے ایک لاکھ طلبا کو اگلے 5سالوں میں آٹھویں اوردسویں کلاس NIOSکے ذریعہ کرو اکر روزگارفراہم کراناہے۔ اس میں 9سے 12 مہینہ کا کیپسول کو دس مرتب کیا جائے گا جس میں تین مہینے ہنر سکھایاجائے گا۔کورس مکمل ہونے پر NIOSکی طرف سے سند دی جائے گی۔ ہنر اور ٹریننگ کیلئے NSQFکے مطابق متعلقہ اسکل ڈیولپمنٹ کونسل سے منظور ہوگا جس کے بعد پاس ہونے والے طلباء میں سے 70%کو روزگار مہیا کرایا جائے گا۔

بجٹ :

یہ بات اطمینان بخش ہے کہ مرکزی حکومت میں تبدیلی کے بعد بھی اقلیتوں کی فلاح وبہبود اورتعلیم سے متعلق بجٹ میں کوئی کٹوتی نہیں ہوئی ہے۔ جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ 2015-16میں 3632کروڑ کے خرچ کے مقابلہ میں 2016-17میں وزارت اقلیتی امور کا بجٹ 3827کروڑ تھا جس میں 1949کروڑ تعلیمی اسکیموں کیلئے تھے جبکہ 2017-18میں یہ بڑھ کر 4195.48کروڑ ہوگیا یعنی 368کروڑ کا اضافہ کیا گیا۔بجٹ کا 70%تعلیمی اسکیموں کیلئے مختص ہے۔ستمبر 2017ء کو اپنی وزارت کی کارکردگی بتاتے ہوئے وزیربرائے اقلیتی امور جناب مختارعباس نقوی نے کہا کہ پڑھو پردیس اسکیم کے تحت قریب دوہزارطلباء اورطالبات کو غیرممالک میں اعلیٰ تعلیم کا موقع دیا گیاہے، فری کوچنگ کافائدہ قریب 34ہزارطلبہ کو ملاہے اور نئی اُڑان اسکیم کے تحت تین ہزار سے زیادہ نوجوانوں کو سول سروسس اوردوسری سرکاری نوکریوں کیلئے اقتصادی امداددی گئی ہے۔

HRDوزارت کی اسکیمیں :

اس وزارت کی اقلیتی تعلیمی اداروں کیلئے دواسکیمیں ہیں۔ پہلی اسکیم کے تحت اقلیتی تعلیمی اداروں میں انفرااسٹرکچر ڈیولپمنٹ کیلئے مالی امداد دی جاتی ہے جس کا مقصد اقلیتی اداروں میں معیاری تعلیم کی فراہمی ہے۔ یہ امداد ایسے تعلیمی اداروں کو دی جاتی ہے جو 20%ّْسے زیادہ اقلیتی آبادی والے علاقوں میں کام کررہے ہیں جس سے پچھڑے علاقوں میں تعلیم اورخاص کر لڑکیوں کی تعلیم کوفروغ دیا جاسکے۔ اس کے تحت ضرورت کا ہ75%یا 50لاکھ تک کا تعاون اضافی کلاس دوم اورکمپیوٹرلیب وغیرہ کیلئے دیا جاتاہے۔

دوسری اسکیم مدرسوں میں معیاری تعلیم کی بہتری کیلئے ہے جس کا مقصد مدرسوں کے تعلیمی معیارکو عام اسکولوں کے مضامین کے تعلیمی معیار کے برابر لاناہے جس کے تحت مدرسوں میں سائنس، ریاضی، زبان اور سوشل اسٹڈیز پڑھانے کیلئے ٹیچرس کو مناسب تنخواہ دی جاتی ہے اور ٹریننگ بھی دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ سائنس، کمپیوٹرلیب اورلائبریری کے قیام کیلئے بھی مالی امداد کا پروویزن ہے۔ ایسے مدارس کو NIOSسے جوڑ کر 8ویں 10ویں اور 12ویں کی امتحان دلواکر سنددی جاتی ہے جس میں رجسٹریشن اورامتحان کی فیس بھی شامل ہے۔

NIOSامتحان کے بعد ووکیشنل تعلیم بھی مہیا کی جاسکتی ہے تاکہ مدرسوں کے بچوں کو روزگار سے جوڑا جاسکے۔ صوبائی مدرسہ بورڈ کو بھی امتحان منعقد کرنے کے لئے مالی امداد دی جاتی ہے۔

اسی وزارت کی ایک اور اسکیم کستوربا بالکاودھیالیہ پچھڑے علاقوں میں رہائشی اسکول قائم کرنے کی ہے جن میں اقلیتو ں، SC,STاور پسماندہ طبقوں کی بچیوں کو تعلیم دی جاتی ہے۔ 28ریاستوں میں اب تک 427اسکول مسلم اکثریت والے بلاکوں میں کھولے گئے ہیں جن میں 75%سیٹیں SC,STاور اقلیتوں کے لئے ہیں۔

مندرجہ بالااسکیموں کے علاوہ وزارت اقلیتی امور نے اس سال مدرسوں کیلئے ٹیچر،ٹفن اورٹوائلٹ کے نام سے نیا پروگرام شروع کیاہے جس کے تحت مدرسوں میں ایک لاکھ ٹوائلٹ بنائے جائیں گے۔ یہ اُن مدرسوں کے لئے ہے جہاں دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ ان مدرسوں کو بااختیاربنانے کے لئے مڈڈے میل اوردوسری سہولیات بشمول وظائف دینے کا ارادہ ہے۔

ایک اورخوش آئند بات افضل امان اللہ صاحب کی صدارت میں ایک اعلیٰ اختیار والی کمیٹی کی رپور ٹ ہے جس میں سینٹرل اسکولوں کی طرز پر 211نئے اسکول اقلیتی علاقوں میں قائم کرناہے جس میں ہر اسکول پر 20کروڑروپے کے خرچ کا تخمینہ ہے۔ اقلیتوں کے غلبہ والے اضلاع میں 25کمیونٹی کالج بھی کھولنے کی سفارش ہے جس میں ڈراپ آؤٹ طلباء کیلئے اسکل ڈیولپمنٹ اور اعلیٰ تعلیم کا انتظام ہوگا۔ اس کے علاوہ ملک میں قومی سطح کے 5نئے Instituteکھولے جائیں گے جس میں سائنس، ٹیکنالوجی اورصحت سے متعلق اعلیٰ تعلیم دی جائے گی۔

مندرجہ بالا گذارشات کا مقصدیہ بتاناہے کہ مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی دور کرنے کے لئے جہاں ہماری تنظیمیں اورتعلیمی ادارے کام کررہے ہیں وہیں ہماری ذمہ داری ہے کہ حکومت کی تعلیمی اور فلاحی اسکیموں کابھرپور فائدہ اُٹھائیں اور اُن کی تشہیر بھی کریں۔ میں سمجھتا ہوں AIEMبھی اس میں اہم رول اداکرسکتاہے۔

تبصرے بند ہیں۔