امریکہ کے نئے وزیر دفاع جنرل ’’میڈ ڈاگ‘‘

نہال صغیر
ٹرمپ اپنے نام کی ہی طرح ٹرمپ کا پتہ ثابت ہو رہے ہیں ۔دو روز قبل انہوں نے اچانک پاکستانی حکومت اور عوام کی تعریفوں کے پل باندھ دیئے جس سے ہندوستان میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ۔کیوں کہ انتخابی تقاریر میں پاکستان کے خلاف بیان دیتے رہے نیز مسلمانوں کو بھی سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا جس کے سبب ہندوستان میں مسلم دشمن طبقہ اتنا خوش ہوا کہ ان کی جیت کے لئے یہاں ہون تک کیا گیا اور ان کی یوم پیدائش پر کیک بھی کاٹے گئے ۔پاکستانیوں میں سے  %72 فیصد کا ماننا ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ کے دور صدارت میں امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں بہتری کے آثار نہیں ہیں۔انتخاب سے قبل کا ٹرمپ کا ایک بیان ہے کہ ’’پاکستان کبھی بھی امریکہ کا دوست نہیں ہو سکتا ۔ہم نے آج تک اسے اربوں ڈالرس دیئے ۔اس کے بدلے میں امریکہ کو کیا ملا ؟صرف اعتماد شکنی!‘‘ حالانکہ ڈونالڈ ٹرمپ نے امریکہ کی پاکستان کو جس امداد کی بات کی تھی وہ امریکہ کے اپنے مفاد تھے ۔امریکہ کو اس علاقے میں اپنا ایک حلیف چاہئے جو کہ اس کے مفاد کی حفاظت کرسکے اور وہ کام پاکستان نے خوب کیا ۔اس پر دوپہر کا سامنا ہندی روزنامہ اپنے اداریہ میں لکھتا ہے ’’امریکہ کا پاکستان کے تئیں نرم رویہ آج تک کبھی بھی کسی سے پوشیدہ نہیں رہا ‘‘۔ہر سربراہ ملک اپنے اپنے مفاد کے لئے کسی سے ملتے ہیں کسی کی حمایت یا مخالفت کرتے ہیں۔چنانچہ کئی بار امریکی سربراہوں نے ہندوستان میں پاکستان کو تنبیہ کی لیکن جیسے ہی وہ پاکستان پہنچے انہوں نے پاکستان سے اپنے اٹوٹ رشتے کی توضیح کی ۔
ملک کے مختلف لیڈروں میں مختلف خصلتیں پائی جاتی ہیں ۔سب کے پالیسی نافذ کرنے کے انداز بھی الگ الگ ہوتے ہیں ۔اوبامہ جہاں نرم خوئی سے امریکہ کو اس دلدل سے نکالنا چاہتے تھے جس میں ان کے پیش روؤں نے ملک کو دھکیل دیا تھا ۔ امریکہ کے نئے صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنے نئے وزیر دفاع کا اعلان کردیا ہے ۔یہ ہیں عراق اور افغانستان میں امریکی فوج کی سربراہی کرنے والے جنرل ماٹس جو کہ 2013 میں فوجی خدمات سے ریٹائرڈ ہو چکے ہیں ۔جنرل ماٹس کو ’’میڈ ڈاگ ‘‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔کثیر رخی کمانڈر جنہوں نے میڈ ڈاگ کا خطاب حاصل کیا اپنی بد زبانی اور جنگی اکڑ کے لئے بھی جانے جاتے ہیں ۔ان کا مشہور قول ہے کہ شائستگی اختیار کرو ،پیشہ ور رہو لیکن تمہارے پاس سامنے والے کو مارنے کا ایک منصوبہ ہونا چاہئے۔میڈ ڈاگ کو اردو میں کیا کہیں گے یہ بتانے کی قطعی ضرورت نہیں ۔یہ پہلی اور دوسری جماعت کا طالب علم بھی بتا سکتا ہے ۔جنرل ماٹس کو ’جنگجو راہب ‘ کے نام سے بھی پکارتے ہیں ۔مذکورہ جنرل نے جارج واکر بش اور جونیئر بش کے جنگی جنون کا ساتھ دیتے ہوئے عراق اور بھی افغانستان میں بے گناہوں پر بم برساکر اور مذہبی شخصیات کو پابند سلاسل کرکے انہیں گوانتا نامو جیسے اذیت خانوں میں بھیجنے میں اہم کردار ادا کیا ۔یہی سبب ہے کہ ٹرمپ کو بھی ایسا جنگجو چاہئے جو امریکہ کو دوبارہ دہشت گردی کے نام نہاد جنگ میں دھکیل کر دنیا بھر میں امریکہ اور امریکی عوام کو نفرت کا نشان بنا دے ۔نو منتخب امریکی صدر رائے دہندہ کی شکر گزاری کے دورہ پر ہیں جہاں انہوں نے اوہائیو میں نئے وزیر دفاع کے نام کا اعلان کیا ۔ حالانکہ انہیں جنرل میڈ ڈاگ کو وزیر دفاع بنانے میں کافی مشقت کرنا ہوگا ۔انہیں ریٹارڈ ہوئے صرف تین سال ہوئے ہیں جبکہ امریکی قانون کے مطابق کسی جنرل کو وزیر دفاع بنانے کے لئے ضروری ہے کہ اس نے سات سال ریٹائرمنٹ کی حیثیت سے گزارے ہوں۔بہر حال جب ٹرمپ نے جنرل میڈ ڈاگ کے نام کا اعلان کر ہی دیا ہے تو ان کا وزیر دفاع بننا طے ہے ۔قومی سلامتی کے نام پر کہیں بھی قانون میں تبدیلی کوئی مشکل امر نہیں ہے ۔قومی سلامتی اور وطن پرستی دنیا کی فاشسٹ قوتوں کی آخری پناہ گاہ ہے ۔
جنرل ماٹس یا میڈ ڈاگ اوبامہ کی نرم پالیسی، جس نے امریکہ کو کئی طوفانوں میں پھنسنے سے روکے رکھا ،کے سخت نقاد ہیں خاص طور سے اوبامہ کی ایران پالیسی کو انہوں نے اپنی سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔حالانکہ اکیسویں صدی کی ابتدا میں اوبامہ وہ امریکی صدر ہیں جنہوں نے امریکہ کو جنگی جنون کی تباہی سے نکال کر اسے دیوالیہ ہونے سے بچالیا ۔اوبامہ کی یہ کوشش تھی کہ ٹکراؤ سے زیادہ افہام و تفہیم سے مسائل حل کئے جائیں ۔انہوں نے افغانستان اور عراق سے افواج کے واپس بلانے کا وعدہ بھی پورا کیا ۔ہاں ایک وعدہ جس پر انہوں نے افسوس کا اظہار بھی کیا تھا اور وہ تھا گوانتا نامو کے اذیت خانوں کو بند کرنے کا ۔ماہرین بتاتے ہیں کہ اگراوبامہ امریکہ کے صدر نہ بنتے تو امریکہ بھی انہی حالات سے گذرتا جس سے روس دوچار ہو کر بکھر چکا ہے ۔امریکہ کی اقتصادی حالت خلیج اور افغانستان کی جنگوں نے پتلی کردی تھی ۔کسی بھی ملک کی اقتصادی حالت ہی اس ملک کی ترقی اور یکجہتی کی ضامن ہوا کرتی ہے۔جمہوری ممالک میں گرچہ سربراہ مملکت ہی سب کچھ ہوتا ہے لیکن جب تک اس کے خفیہ ادارے کسی پالیسی کے نفاذ کے لئے گرین سگنل نہ دیدیں اس وقت تک کوئی بھی سربراہ اپنے قدم آگے نہیں بڑھا سکتا ۔ہاں زبان وہ چاہے جتنی چلا لے ۔ڈونالڈ ٹرمپ نے نئے وزیر دفاع کے نام کا اعلان کرکے اشارہ دیدیا ہے کہ انہوں نے الیکشن کے دوران مسلمانوں ، اسلام اور مسلم ملکوں کے تعلق سے جو کچھ بیان دیا تھا وہ اس پر قائم ہیں ۔ ہمارے یہاں مسئلہ یہ ہے کہ صرف مذہب ہی نہیں بلکہ مسلک کی بنیاد پر بھی کسی کی حمایت یا مخالفت کی جاتی ہے ۔یعنی اور کچھ نہیں تو بغض معاویہ ہی سہی۔چنانچہ امریکہ کے صدارتی انتخاب سے قبل جب ڈونالڈ ٹرمپ نے گرم گرم اور جوشیلے یا اشتعال انگیز بیان دینے شروع کئے تو ایک طبقہ مسلمانوں میں بھی کافی خوش تھا اور ٹرمپ کی جیت کے بعد ایک کارٹون نظر سے گزرا جس میں عرب شیوخ کو دکھایا گیا تھا اس پر لکھا تھاکہ بھاگو ٹرمپ آرہا ہے لیکن ایران کے ایٹمی سمجھوتہ کو منسوخ کرنے کے بیان سے یقیناًایسے افراد کو مایوسی ہو ئی ہو گی ۔ آخر ہم جانے کب امت کی حیثیت سے سوچیں گے اور اپنے مشترکہ دشمن کو پہچانیں گے ۔ بہر حال ڈونالڈ ٹرمپ جب باضابطہ طور پر عہدہ صدارت پر متمکن ہوں گے اور اپنی ذہنیت کے مطابق پالیسی کے نفاذ کی کوشش کریں گے تب ہی امریکہ کے مستقبل کے بارے میں صحیح پیش گوئی کی جاسکتی ہے ۔ابھی تک تو صرف اتنا ہی کہا جاسکتا ہے امریکہ پھر بش سینئر اور بش جونیئر کے دور میں واپس جانے کو تیار ہے جہاں مسلم ملکوں اور مسلمانوں کے لئے کوئی اچھی خبر نہیں ہے یعنی امت کے لئے نئے ابتلاء و آزمائش کے دور کا آغاز ہو سکتا ہے۔ممکن ہے کہ عراق و شام میں آئسس کو ختم کرنے کے نام پر امریکہ پھر وہاں کود پڑے جہاں اس نے بہت احتیاط اور پھونک پھونک کر قدم رکھا تھا ۔یہ صرف اوبامہ کی حکمت تھی ورنہ اوبامہ بھی ٹرمپ کی طرح ذہنیت رکھتے اور ان کا وزیر دفاع بھی جنرل میڈ ڈاگ جیسا کوئی حکمت سے خالی فرد ہوتا تو آج امریکہ عراق کے جہنم کا نوالہ بن چکا ہوتا۔ہمارا عقیدہہے کہ اس کائنات کا نظام کسی ڈونالڈ ٹرپ کے ہاتھوں میں نہیں ہے بلکہ اس کو وہ احکم الحاکمین چلا رہا ہے جس نے فرعون ،نمرود اور شداد کو ان کی بے پناہ قوت کے باوجود قیامت تک کے لئے عبرت کا نشان بنا دیا ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔