دستورِ مدینہ کے تحت عدلیہ

ترتیب: عبدالعزیز
(تیسری قسط)
تعدادِ دفعات
دستور میں پچاس دفعات ہیں۔ مستشرقین نے ویل ہاؤزن کی پیروی میں انھیں سینتالیس گِنا ہے۔ بعض دفعات کو دوسری دفعات کا حصہ پڑھا گیا ہے، حالانکہ وہ بالکل وہ جدا گانہ اور علاحدہ ہیں، اس لئے انھیں الگ شمار کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر محمد حمید اللہ نے باون شقیں شمار کی ہیں مگر یورپی مصنّفین کے ساتھ مطابقت کی خاطر انھوں نے بعض شقوں کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے اور ا و ب سے ان کی نشاندہی کی ہے۔
مندرجہ بالا تعداد سے غیر مطمئن ہونے کے سبب ہم نے دستاویز کے بغور مطالعہ کے بعد اس کی پچاس دفعات شمار کی ہیں۔ ان میں سے بعض کو جدید دستور سازی اور قانونی ضابطوں کے مطابق پیروں میں تقسیم کر دیا ہے۔ اس طریق کار کو اپنانے کی وجود مندرجہ ذیل ہیں:
دستور کی سب سے پہلی شِق ’’یہ ایک دستور ہے‘‘ کو دفعہ نمبر ایک شمار کیا گیا ہے جبکہ منٹگمری واٹ نے اس کو کوئی نمبر دیئے بغیر چھوڑ دیا ہے۔ بظاہر وہ اسے ابتدائیہ کا حصہ تصور کرتا ہے؛ حالانکہ یہ ایسا نہیں ہے کیونکہ دستور کے اجزاء دستاویز کا ناگزیر حصہ ہیں۔
دستور کی شق ’’کوئی مومن کسی دوسرے مومن کے آزاد کردہ غلام کو اس کے خلاف اپنا حلیف نہیں بنائے گا۔۔۔‘‘ دفعہ نمبر 13ہے کیونکہ یہ ایک مکمل دفعہ ہے۔ ڈاکٹر محمد حمید اللہ مستشرقین کی بھی گنتی کے خلاف اسے دفعہ 12 کا جزو شمار کرتے ہیں۔
دستور کی شق ’’مومنین، متّفقین احسن اور اقوم ہدایت پر ہیں‘‘ دفعہ 20 کا پیرا (2) ہے کیونکہ اس کے اصل موضوع مومنین کا ذکر اسی دفعہ کے پیرا (1) میں موجود ہے۔ واٹ نے بھی اسے یونہی پڑھا ہے مگر ڈاکٹر محمد حمیداللہ نے اسے اگلی جداگانہ دفعہ کو اس کا پیرا (ب) شمار کرتے ہوئے ایک الگ دفعہ شمار کیا ہے۔ دستور کی شق ’’اگر کوئی شخص خونریزی کرے گا تو وہ اپنے آپ کو ۔۔۔‘‘ دفعہ 38 ہے۔ حمید اللہ اور واٹ نے اسے قبل ازیں دفعہ کے حصہ کے طور پر پڑھا ہے؛ حالانکہ یہ ایک مکمل دفعہ ہے جوکسی ایسے قاتل سے متعلق ہے جو کسی کی لاعلمی میں خونریزی کرے۔ دستور کی شق ’’اللہ اس (دستور) کے صحیح ترین مشمولات کا محافظ ہے‘‘ اسی دفعہ نمبر 38 کا ایک حصہ ہے۔ دستور میں بعض دیگر دفعات بھی اسی طرح بیان ہوئی ہیں۔
قبل ازیں تمام مصنّفین ’’البر‘‘ کو خدا کی صفت تصور کرتے رہے ہیں جبکہ ہمارے نزدیک یہ دستاویز کے مشمولات کی صفت ہے جیسا کہ متن میں اس کے ترجمہ سے ظاہر ہے۔ دستور کی شق ’’ہر گز وہ اپنے حصے کا ذمہ دار ہوگا جو اس کی جانب ہوگا‘‘ دفعہ نمبر 48 ہے، یہ ایک الگ دفعہ ہے کیونکہ یہ اپنی جگہ بالذات اور مکمل ہے۔ اس کو اس سے پہلی دفعہ کا حصہ شمار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ وہ تمام فریقین کے ایک صلح نامہ میں شرکت کا ذکر کرتی ہے۔
یہودی قبائل: بعض مصنّفین نے خیال ظاہر کیا ہے کہ یہود کے تین بڑے قبیلے بنو قینقاع، بنو نضیر اور بنو قریظہ کا ذکر دستور میں نہیں اس لئے وہ دستور کی ترتیب میں شامل نہیں تھے۔ اول تو مندرجہ بالا واضح تاریخی شواہد اس نظریہ کا کھلم کھلا ابطال کرتے ہیں۔ بنو قینقاع کا واضح طور پر ذکر موجود ہے کہ انھوں نے اس دستور کو مان کر سب سے پہلے اس سے غداری کی۔ اسلامی تاریخ کے نامور اور چوٹی کے محدثین اور مورخین نے اسے روایت کیا ہے۔ اگر وہ دستور میں شامل نہ ہوتے تو ان کی غداری کا حوالے بے معنی ہوتا۔ ہم اس موضوع پر گزشتہ اوراق میں تفصیل سے بحث کرچکے ہیں، یہودی قبائل کی دستور میں شرکت و شمولیت کا دوسرا بڑا ثبوت یہ ہے کہ یہ قبائل عربوں کے علاقوں اور محلوں کی نسبت سے معروف تھے۔ دستور سازی کے وقت جن مختلف مسلم اور غیر مسلم گروہوں کا ذکر ہوا ان میں مہاجرین، انصار کے مختلف قبائل پھر ان کے موالی اور حلیف مذکور ہیں۔ اس طرز پر دستور میں یہود کا بحیثیت مجموعی ذکر کرکے ان کے قبائل کا تفصیلی ذکر انصار کے مختلف قبائل کی ذیل میں کیا گیا ہے کیونکہ یہ یہودی قبائل انصار کے بڑے قبیلوں اوس اور خزرج کے حلیف تھے جس کا ثبوت یہ ہے کہ جب یہود کے ایک قبیلہ بنو قینقاع نے دستور کے ساتھ غداری کی تو خزرجیوں کے سردار عبداللہ بن اُبی نے ثالثی کے فرائض انجام دیئے اور جب دوسرے یہودی قبیلہ بنو قریظہ نے غداری کی تو بنو او س کے سردار حضرت سعد بن معاذ نے ثالثی کے فرائض سر انجام دیئے۔ دستور کی ان باریکیوں کو سامنے رکھا جائے تو یہودیوں کے تینوں بڑے قبیلوں کی شرکت و شمولیت واضح ہوجاتی ہے۔ بنو نضیر اور بنو قریظہ کا ذکر بنو اوس اور ثعلبہ کے یہودیوں کے طور پر آیا ہے کیونکہ وہ اوسلہ اور ثعلبہ بن عمرو بن عوف کے درمیان رہتے تھے (دفعات 31، 32)۔ بنو قینقاع بنو خزرج میں سے بنو حارث کے حلیف تھے۔ لہٰذا وہ دفعہ 28 کے تحت مذکور ہیں۔
یعقوبی نے ایک بیان قلمبند کیا ہے جس کے مطابق بنو نضیر اور بنو قریظہ اپنی اصل میں یہودی نہیں تھے۔ وہ عربوں کی ایک شام جذم میں سے تھے جنھوں نے بعد میں یہودیت اختیار کرلی تھی۔ المسعودی نے بھی اس حقیقت کا ذکر کیا ہے۔ اس باب میں آئندہ صفحات پر ایک مقدمہ بیان ہوا جس میں عربوں میں سے یہودیت قبول کرنے والوں کا ذکر ہے وہ مزید ثبوت ہے۔ اس بنا پر یہ زیادہ قرینِ حقیقت ہے کہ مدینہ کے تین بڑے یہودی قبیلوں کو مدینہ کے عرب خاندانوں کے ساتھ حلف اور نسب کے تعلق کی بنا پر گروہ بند کرلیا گیا تھا اور دستور کی تدوین کے وقت مدینہ کی اس معاشرتی حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے انھیں عرب قبیلوں کی ذیل میں بیان کر دیا گیا۔
اسلامی ریاست کا وفاق: دستورِ مدینہ قرار دیتا ہے کہ مومنین، مہاجرین قریش اور مسلمان و انصارِ مدینہ، ان کے پیروکار اور سیاسی حلیف سب مل کر ایک امت ہیں (امت واحدہ)۔ مدینہ کے دوسرے باشندے جیسے یہودی، ان کے پیروکار اور حلیف جو دستور کو تسلیم کریں وہ یکساں برتاؤ اور مساوی حقوق کے مستحق ہوں گے (النصرہ والاسوہ)۔ وہ مومنین کے ساتھ مل کر ایک سیاسی امہ قرار دیئے گئے تھے (امہ مع المومنین)۔ دستور یہ بھی قرار دیتا ہے کہ مدینہ اور اس کے گرد و نواح کے مشرک بھی اگر دستور کی پابندی کریں تو وہ بھی دستور کے مطابق ریاست مدینہ مدینہ کے شہری ہوں گے اور انھیں مساوی شہری حقوق حاصل ہوں گے۔ پس مدینہ اور اس کے گرد و نواح کی تمام آبادی مہاجرین و انصار، مسلم و غیر مسلم، مومن و غیر مومن، یہود اور مشرکین سب ریاست مدینہ کے وفاق تھے اور دستور کے مطابق برابر کے شہری تھے۔ ان سب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری اپیل کی عدالت تسلیم کرلیا۔
مذہبی اور سماجی خود مختاری: سیاسی طور پر اسلامی ریاست مدینہ کی پوری آبادی پر مشتمل تھی۔ دستوری طور پر ریاست کے تمام وفاقی عناصر کو مذہبی آزادی اور داخلی خود مختاری حاصل تھی۔ دو بڑے وفاقی عناصر مہاجر اور انصار دیت اور قیدیوں کے فدیہ جیسے معاملات میں اپنے اپنے قبل از اسلام کے رواج پر چلنے میں خود مختار تھے۔ یہودیوں کو مذہبی آزادی کی ضمانت دی گئی تھی۔ وہ دیت اور قیدیوں کے زرِ فدیہ کے معاملہ میں بھی اپنے دستور ر چلنے میں آزاد تھے۔
رسول اللہ ﷺ کا منصب سربراہِ ریاست: دستورِ مدینہ کی دفعہ 44 میں قرار دیا گیا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ریاست کے سربراہ ہوں گے۔ دستور کی سب وفاقی وحدتوں کو پابند بنایا گیا ہے کہ وہ تمام اختلافات، انتظامی تنازعے اور سیاسی مسائل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کریں۔ اس دستوری دفعہ کے تحت امن و امان کے تمام اندرونی مقدمات اور بیرونی مسائل حرب و صلح آپ کے پاس پیش ہونا ضروری ہیں۔
سپہ سالار: دستور کی دفعہ 37 میں قرار دیا گیا ہے کہ ریاست کے شہری انفرادی اور اجتماعی طور پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت کے بغیر جنگ پر جانے کے مجاز نہیں۔ جنگ کے معاملہ میں آپؐ مختارِ کل ہوں گے۔ کسی بھی شخص کے خلاف آپؐ کی اجازت کے بغیر جنگ میں شریک ہونے پر کارروائی کی جاسکے گی۔
چیف جسٹس: دستور کی دفعہ 24 اور 44 کے تحت تمام قانونی تنازعے، عدالت معاملات اور مقدمات محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش ہوں گے۔ عربی میں ’’مہما اخلفتہ فیہ من شئی‘‘ (دفعہ 24) اور ’’اشتجار‘‘ (دفعہ 44)جامع قانونی اصطلاحات ہیں۔ ان کا اطلاق تمام قسم کے قانونی، عدالتی، انتظامی، معاشرتی اور سیاسی جھگڑوں اور تنازعوں پر ہوتا ہے۔ ان دفعات کی رو سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کی ریاست کے چیف جسٹس قرار پائے۔ دستور نے حکام اور شہریوں کے حقوق اور فرائض کا تعین کر دیا۔ دستوری دفعات کی پابندی حاکم ریاست پر بھی مساوی طور پر لازمی تھی۔ تاریخ میں ایسے مقدمات محفوظ ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف دائر ہوئے تھے۔
دستورِ مدینہ میں سربراہِ ریاست، سپہ سالار اور چیف جسٹس کی حیثیت سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو اختیارات حاصل ہوئے ان کی مثال قبل از اسلام عربوں میں نہیں ملتی۔ بعض علاقوں کے عرب بادشاہوں، مختلف قبائل کے شیوخ مکہ کی شہری ریاست کے ملاء کو جو اختیارات حاصل ہوئے ان کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دستوری اختیارات سے کوئی تقابل نہ تھا۔ فطری طور پر مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دستوری حیثیت سے وفاق کی تمام وحدتوں میں سے سب سے زیادہ مطمئن وحدت تھے۔ انصارِ مدینہ اپنی قبل از اسلام کی خانہ جنگیوں، خاندانی رقابتوں، خونریز لڑائیوں اور طویل جھگڑوں سے عاجز آچکے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دستوری حیثیت کو مان کر وہ خوش تھے کہ ان کے باہمی تنازعے اور جھگڑے چکانے کیلئے اب ان میں ایک مرکزی شخصیت موجود ہے۔
یہ امر بہت دلچسپ ہے کہ مدینہ کے یہودیوں اور مشرکین نے آپؐ کو رسول مانے بغیر آپ کو متذکرہ بالا آئینی حیثیت کو تسلیم کرلیا اور دستور میں آپؐ کی رسالت کے ذکر پر کوئی اعتراض نہ کیا۔ اس بات کی اہمیت اس لئے بڑھ جاتی ہے کہ دستورِ مدینہ کی تدوین کے چھ سال بعد صلح حدیبیہ کے معاہدہ کی تحریر کے وقت قریش مکہ نے آپؐ کی رسالت کا ذکر قبول نہیں کیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ آمد کے بعد عرب قبائلی سرداروں نے اپنے افرادِ قبیلہ کے ساتھ اسلام قبول کرلیا تھا۔ اس واقعہ نے قدیم معاشرتی اور سیاسی عرب معاشرت پر جو قبیلہ کی بنیاد پر استوار تھی کاری ضرب لگائی۔ قبائلی تنظیم کے درہم بوہم ہونے سے مسلمانوں کے غیر مسلم اور مشرک رشتہ داروں نے خود کو اپنے تنازعوں کے فیصلے کیلئے سخت مشکل میں پایا۔ نئے دستور نے واضح طور پر قرار دیا تھا کہ وہ مرکزی نظام عدل اور مرکزی حکومت کے تحت تحفظ حاصل کرسکتے ہیں بشرطیکہ وہ ریاست کے سیاسی معاملات کے عمل میں رکاوٹ پیدا نہ کریں۔ انھیں اس بات کا بھی پابند بنایا گیا تھا کہ وہ قریش سے کوئی تعلق نہ رکھیں۔
ریاست مدینہ کی وحدتوں نے متفقہ طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ریاست کا سربراہ، چیف جسٹس اور سپہ سالار تسلیم کیا تھا۔ دستور کے نفاذ کے ساتھ قبائلی افراتفری اور طوائف الملوکی کا خاتمہ ہوگیا۔ یہ ایک انقلابی تبدیلی تھی۔ عوا م کو اطمینان نصیب ہوا کہ وہ اپنے باہمی اور قبائلی جھگڑے ذاتی قوت یا قبائلی طاقت سے طے کرنے کے بجائے ایک مرکزی ادارۂ انصاف کی طرف سے عدل کی سہولت حاصل کرسکیں گے۔ مرکزی دستوری حکومت نے ایک بہت منظم اور مربوط ریاست کو جنم دیا جو تھوڑے ہی عرصہ میں پرانی دنیا کے تین بر اعظموں کو اپنے زیر نگیں لے آئی۔
(جاری)

تبصرے بند ہیں۔