امکانات کا آہنگ – طارق قمر

حقانی القاسمی

طارق قمر کی سب سے بڑی تخلیقی قوت معنیاتی انسلاکات اور لفظی تلازمات کی سطح پر وہ کیفیت نمو ہے جو مختلف زمانی و مکانی دائروں کا سفر کرتے ہوئے ایک غیرمرئی ’مقام مد و جزر‘ سے اپنا رشتہ جوڑ لیتی ہے اور اپنی وسعتوں کے نئے امکانات تلاش کرتی رہتی ہے۔
آفاق جہاں کی تلاش کے اسی عمل نے طارق کی تخلیق کو تازگی اور تحیر سے ہمکنار کیا ہے۔ غیرمرئیت اور لازمانیت کے اظہار سے ہی تخلیق کو ابدیت اور آفاقیت کی منزل نصیب ہوتی ہے۔ اس کے لیے آگ کا وہ دریا بھی عبور کرنا پڑتا ہے جس کی لہروں کا لمس کسی اور کو نصیب نہ ہوا ہو۔
طارق قمر کی شاعری میں غیرمرئیت اور لازمانیت بھی ہے اور آگ کا وہ دریا بھی رواں دواں ہے جس کی ہر تازہ لہر کا رشتہ طارق کی تخلیق سے جڑا ہوا ہے۔
طارق کا ارتکاز منجمد منظروں پہ نہیں بلکہ ان متحرک مناظر پہ ہے جو ہر ساعت اپنے تغیر سے ارتقا کی نئی سمتوں کا اشارہ دیتے ہیں۔ یہی ارتقائی رو طارق کی شاعری کی روح ہے۔ ان کی کائنات شعر میں وہی صبحیں اور شامیں آباد ہیں جو انسان کے بدلتے ذہنی موسموں اور جذبوں کی گواہ رہی ہیں اور اسی میں وہ رات بھی شامل ہے جس کا رشتہ میرتقی میر کے عہد کی رات سے جڑ جاتا ہے۔ یہ رات کربلا اور آج کے آشوب کی صورت میں ان کی شاعری کا ایک لاینفک حصہ ہے۔
طارق کی غزلیہ شاعری میں شبنمی صبح، سرمئی شام اور بھیانک کالی رات کا جو منظرنامہ ہے وہ معاشرہ کے شب و روز سے گہرے رشتے کے علاوہ ان کے تجربات اور مشاہدات کی وسعتوں کا بھی ثبوت ہے۔ ان ہی ساعتوں سے طارق کی شاعری ترتیب پاتی ہے اور انسانی وجود کے تمام جذبوں کا اظہار بن جاتی ہے۔ ان سے ہی انسانی مقدرات کا بھی بہت گہرا رشتہ ہے۔ ملک و قوم، معاشرہ اور افراد کی تقدیر میں کبھیصبح، کبھی شام، کبھی رات آتی ہی رہتی ہے۔ وقت کے اس جبر اور قوت کا احساس طارق کو بھی ہے:
وقت ہمارے نقش مٹاتا رہتا ہے
لیکن ہم تصویر بناتے رہتے ہیں
طارق یہ دل بھی ہے خط تقدیر کی طرح
ہم خود بدل گئے اسے بدلا نہ جاسکا
تغیرپذیر روز و شب کا یہی سلسلہ انسانی جذبے کی تعمیر و تشکیل بھی کرتا ہے۔ طارق کے یہاں ان تمام بدلتے جذبوں کا شور نہیں بلکہ گہرا شعور ہے اسی لیے وہ بڑی شائستگی اور خوش سلیقگی کے ساتھ اپنے داخلی ارتعاشات کی ترسیل کرتے ہیں اور ترسیل خیال کا یہ عمل کہیں بھی ابہام کا شکار نہیں ہوتا ہے۔ان کے ہاں احساس کی شدت میں بھی شائستگی ہے اور طنز و احتجاج میں بھی سلیقہ ہے:
فقیہ شہر اپنی داستانِ جرم پر چپ ہے
مگر تردید سارے حاشیہ بردار کرتے ہیں
رعونتیں چلی آئیں گھروں سے قبروں تک
یہاں بھی نام کے پتھر لگائے جاتے ہیں
ہماری پیاس کو مجبوریوں کا نام نہ دو
ہم اپنے پاؤں سے چشمے نکال لیتے ہیں
امیر شہر کے طاقوں میں جلنے والے چراغ
اجالے کتنے گھروں کے سمیٹ لاتے ہیں
ذہن پر بوجھ رہا دل بھی پریشان رہا
ان بڑے لوگوں سے مل کر بڑا نقصان ہوا
گھنا سایہ بھرم رکھے ہے ورنہ
شجر اندر سے بالکل کھوکھلا ہے
طارق کے ان شعروں میں کچھ لوگوں کو عرفان صدیقی یا اسعد بدایونی کی بازگشت سنائی دے سکتی ہے مگر ایسا ہے نہیں، طارق کا غزلیہ لہجہ بہت سے حصاروں کو توڑ کر باہر آیا ہے اور درد نوشی ان کی روش بھی نہیں کہ طارق تو ہر ساعت ایک دشت امکاں کی سیاحت کرتے ہیں اور تازہ سلسلہ خیال سے اپنا رشتہ جوڑتے ہیں۔ ان کی شاعری سے نئے سوچ دروازے اور خواب دریچے وا ہوتے ہیں۔ طارق کا لہجہ بالکل مختلف اور منفرد ہے۔ یہ ایک ایسا لہجہ ہے جسے ’امکانات کا آہنگ‘ کہہ سکتے ہیں۔ بہت ممکن ہے کہ مستقبل کی تکنالوجی بھی اسی آہنگ کو اعتبار عطا کرے کہ یہ عکس فردا سے ہم آہنگ ہے۔
ندرتِ بیان سے معمور یہ تازہ کار اشعار امکانات کے اسی آہنگ کی گواہی دیتے ہیں:
حیرت ہے نادانی پر
ریت کا گھر اور پانی پر
کاغذ کی ایک ناؤ اگر پار ہوگئی
اس میں سمندروں کی کہاں ہار ہوگئی
چاہتا ہے وہ پیاس کی تقسیم
پانیوں پر لکیر کھینچتا ہے
بھٹک رہے ہیں اب آنکھوں پہ ہاتھ رکھے ہوئے
یہ لوگ وہ ہیں جو سورج بجھانے نکلے تھے
انھیں خبر ہی نہیں سر نہیں ہیں شانوں پر
جو اپنے ہاتھوں میں دستار ہیں سنبھالے ہوئے
کشتیاں شور مچاتی ہیں کناروں کے قریب
اور یہی شور سمندر کو برا لگتا ہے
تیز ہوا بے روک گزرتی رہتی ہے
سوکھے پتے شور مچاتے رتے ہیں
سچ بولیں تو گھر میں پتھر آتے ہیں
جھوٹ کہیں تو خود پتھر بن جاتے ہیں
زندگی روز کسی خواب کا خوں کرتی ہے
خواہشیں روز کوئی خواب دکھا دیتی ہیں
یہ لہجہ یا آہنگ بڑی تپسیا کے بعد نصیب ہوتا ہے۔ طارق کا حقیقی جوہر آہنگ اور لہجے میں ہی سامنے آتا ہے۔ کتنا سادہ مگر پرکار لہجہ ہے اس میں ایک تیر نیم کش کی سی کیفیت ہے۔ طارق قمر کا پھول سا لہجہ ہے مگر یہی لہجہ کبھی تلوار بھی بن جاتا ہے:
ہمیں بھی پھول سے لہجے کی چاہت کم نہیں لیکن
جہاں لازم ہو لہجہ ہم وہیں تلوار کرتے ہیں
اسی پیرایہ اظہار نے طارق کو انبوہ میں بھی اعتبار عطا کیا ہے۔ موضوعات کے تنوع اور کائناتی مسائل کے ادراک و عرفان اور اس کے تخلیقی اظہار سے شاعری عظیم نہیں بنتی بلکہ فنی اظہار اور شیوۂ بیاں سے ہی شاعری کو عظمت ملتی ہے اور طارق کے ہاں فنی اظہار کی جو صورتیں اور استعارے ہیں وہ ان کی تخلیقیت کی ہمالیائی بلندی کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔
طارق قمر احساس کی ان راہوں سے گزرے ہیں جن پہ پہلے بھی کئی قافلے گزر چکے ہیں مگر طارق نے ان راہوں کی دھند میں جو روشنی تلاش کی ہے وہ ان کے تخلیقی جنون، کا ثمر ہے اور اسی جنون سے انھوں نے شعور کا کام لیا ہے جو ان کی شاعری کی رنگوں میں متحرک ہے۔ انھوں نے روایت کی دہلیز پہبھی جدت کے چراغ جلائے ہیں اور خیمہ خوف میں بھی خوابوں کے پرچم بلند کیے ہیں۔ غزل کے کلاسیکی جمالیاتی اقدار سے رشتہ رکھتے ہوئے اپنی غزلیہ شاعری کو عصریت سے جوڑا ہے اور عصری شاعری کے انبوہ میں اپنے لہجہ اور آہنگ کے تشخص کو گم نہیں ہونے دیا ہے۔ یہ طارق قمر کی بڑی کامیابی ہے جو ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتی۔

تبصرے بند ہیں۔