امیر حمزہ اعظمی: زلف اردو کا مشاطہ گر

دانش اثری

اردو کی مدونہ تاریخ کی ابتداء امیر خسروؔ دہلوی کے اشعار ؎
زحال مسکیں مکن تغافل دورائے نیناں بنائے بتیاں
کہ تاب ہجراں نہ دارم اے جاں نہ لیہو کاہے لگائے چھتیاں
سے ہوتی ہے، اور پھر ولی کے ’’عشق حقیقی و مجازی‘‘ سے ہوتی ہوئی، میرؔ و غالب کے دروازے پر آٹھہرتی ہے۔ اردو شاعری کی اس طویل ترین تاریخ میں مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ شاعری کے رنگ و آہنگ بدلتے رہے، مضامین میں تبدیلیاں ہوتی رہیں، کچھ موضوعات کو ہمیشہ کے لئے شاعری سے الگ کردیا گیا تو بہت ساری مجالات کے لئے دروازے بھی کھلے ۔ وہی شاعری جو کبھی برقؔ و تاباںؔ کے دور میں ؎
سن فصل گل خوشی ہو گلشن میں آئیاں ہیں
کیا بلبلوں نے دیکھو دھومیں مچائیاں ہیں
تک محدود رہی تھی،بعد میں کافی کشادہ ہوتی گئی۔ ترقی پسند تحریک،رومانویت اور پھر جدیدیت اور مابعد جدیدیت جیسی تحریکوں نے اردو شاعری کے منظرنامے کو بہت تبدیل کیا، مضامین بھی بدلے اور ہیئتوں میں بھی زبردست تبدیلیاں واقع ہوئیں، اب اس وقت اردو شاعری کا انداز ہی جداگانہ ہے اور ہر طرف ایک شور ہے کہ ؎
بھوک کے احساس کو شعر و سخن تک لے چلو
یا ادب کو مفلسوں کی انجمن تک لے چلو
جو غزل محبوب کے جلوؤں سے واقف ہوچکی
اس کو اب بیوہ کے ماتھے کی شکن تک لے چلو
غزل تصورات کے پردے سے نکل کر حقائق کی ترجمان بن چکی ہے اور اس کے دامن کو بہت زیادہ وسعت و کشادگی مل چکی ہے اور اب اس کے بساط پر دنیا کے تمام مضامین اپنے اپنے قدم جما کر بیٹھ چکے ہیں، اور زور و شور سے شاعری کا فن اپنے عروج کی طرف رواں دواں ہے۔
مشاعروں کے منظرنامے سے الگ تھلگ بہت سارے شعراء زلف اردو کی مشاطہ گری میں مصروف ہیں، کچھ ایسے ہیں جنہیں کسی نہ کسی وسیلے سے دنیا نے پہچان لیا اور کچھ ایسے بھی ہیں جنہیں دنیا آج تک نہیں پہچان سکی، کیونکہ انہوں نے خود اپنا تعارف نہیں کرایا اور شہرت طلبی کی خواہش کبھی ان کے دل میں نہیں رہی۔ قطع نظر اس بات کے کہ انہیں حصول شہرت کی حرص و ہوس تھی یا نہیں ، ایک بات قابل ذکر ضرور ہے، ان کے پردہ خفا میں رہ جانے سے کم از کم وہ لوگ جو ان کی ذات سے مستفید ہونے کی خواہش رکھتے تھے، نہ ہو سکے۔ اسی طرح ان کے پیغامات سے بھی ایک جہاں ناواقف رہ گیا۔
ایک ایسی ہی شخصیت کا نام امیر حمزہ اعظمی ہے، بنکروں کے شہر مئو ناتھ بھنجن کے محلہ مغل پورہ میں 1962ء؁ میں پیدا ہونے والے امیرحمزہ اعظمی آج راشٹریہ سہارا (اردو)کے مئو ضلع کے بیورو انچیف ہیں، لیکن بچپن سے لے کر ایک پختہ کار صحافی، ادیب، شاعر، کالم نگار کے مرتبے تک پہنچنے والا یہ حساس انسان نہ جانے مشکلوں سے گذرتا ہوا یہاں تک پہنچا ہے، اس سے اہل جہاں آج بھی ناواقف ہیں۔اگر ان کی زندگی کے چند نقوش کو کریدنے کی کوشش کی جائے تو کچھ ایسا منظر نامہ ہمارے سامنے موجود ہوگا ۔
موصوف نے ابتدائی تعلیم مدرسہ مفتاح العلوم، مئو اور مدرسہ دارالعلوم ، مئو میں حاصل کی، لیکن بچپن میں ماں کا انتقال ہوجانے کے بعد گھریلو کشمکش کا شکاریہ طالب علم اپنے شہر میں اپنی تعلیم مکمل نہ کرسکا اور کانپور جا پہنچا، وہاں جامع العلوم، پٹکا پور میں داخلہ لیا، لیکن وہاں کی فضا بھی راس نہ آسکی۔ مدرسہ سے ترک تعلیم کے بعد ’’پیغام‘‘ کے نیوز ریڈر کا عہدہ سنبھالا، شعر و ادب سے دلچسپی کچھ زیادہ ہوئی، خان محبوب طرازی وغیرہ کا حلقہ نصیب ہوا اور رفتہ رفتہ شعور ادب جِلا پانے لگا۔ امیر حمزہ نے ایک موقع سے کہا کہ’ ’ایک روز یوں ہی باتوں ہی باتوں میں’پیغام‘ کے مدیر وجیہہ الدین صاحب نے میری نئی عمر اور اردو ادب وصحافت کے ذوق و شوق کو دیکھ کر مجھ سے کہہ ہی دیا ’’میاں !سنو سچ یہ ہے کہ اردوصحافت ہمیں دوتحفے عطاکرتی ہے۔ قرض اورتپ دق‘‘۔
لیکن ایک روز ایسا اتفاق ہوا کہ مستقل پان کھانے کی عادت سے مجبور ہوکر ایک پان فروش کی دوکان پر پہنچے تو پنواری نے پان کے ساتھ اخبار یہ کہہ کر بڑھادیا کہ ’’فلاں خبر ذرا پڑھ کر سنادو‘‘، امیر حمزہ نے پوچھا: کیا آپ اردو نہیں پڑھ سکتے؟ پنواری کا جواب تھا کہ ’’نہیں‘‘۔ لازمی طور سے دوسرا سوال ہونا تھا ’’پھراردو اخبار خریدتے کیوں ہو‘‘، جواب ملا کہ ’’اپنی زبان ہے، پڑھی نہیں ہے تو کیا ہوا ، عشق تو ہے‘‘۔ پان فروش کی اس ہمت افزا گفتگو سے حوصلہ پاکر آج تک اسی کوچہ میں مصروف عمل ہیں۔
کچھ دنوں کے بعد کانپور سے بنارس پہنچے اور ’’قومی مورچہ‘‘ میں اشعرؔ رام نگری کے ساتھ صحافت کا تجربہ حاصل کرتے رہے۔ اسی دوران کتابت بھی سیکھی اور نیوز ریڈنگ کے ساتھ ساتھ اخبار کی کتابت بھی سنبھال لی۔1980 میں پاؤں میں بیڑی پڑی،حسرت ؔ کی چکی کی مشقت تو یاد آہی گئی ، لیکن اس کے باوجود فنکار کی رفتار میں فرق نہیں آیا، وارانسی چھوڑ کر ممبئی پہنچے ، بلٹز اور ہندوستان میں وہی پرانی ذمہ داریاں نبھاتے رہے، آخرکار وہاں سے بھی طبیعت اچاٹ ہوگئی۔ لکھنؤ پہنچے اور’’قومی آواز‘‘ کی گلوریاں لکھنا شروع کیا، ’’عزائم ‘‘ میں چٹکیاں کالم لکھا، ‘‘اخبار نو‘‘ دہلی کے کالم ’’حاشیے‘‘ لکھتے رہے، ’’نور بریلی‘‘ کے کالم ’’ذائقے‘‘ کا ذائقہ بڑھاتے رہے،لکھنؤ اوربارہ بنکی سے ایک ساتھ شائع ہونے والے’’روزنامہ وارث اودھ‘‘ کی نیوز ریڈنگ بھی کی۔ مشتاق پردیسی،جمیل مہدی، عشرت علی صدیقی،وغیرہ کتنی ہی علمی وادبی شخصیات کے ساتھ کام کرتے رہے۔ شاعری کا شوق عین عالم شباب میں تھا ، مشاعرے بھی پڑھے جارہے تھے۔خمارؔ بارہ بنکوی جیسے شعراء کا ساتھ رہا اور خمارؔ بارہ بنکوی جیسی قد آور شخصیتوں نے آپ کی نظامت میں مشاعرے پڑھے، لیکن ایک وقت آیا کہ گھر کی یاد ستانے لگی، بچوں کا چہرہ نگاہوں میں گھومنے ، آخر کار لکھنؤ سے بھی دل اچاٹ ہوگیا اور اسے بھی الوداع کہا۔
بقول شاعر ؎ ’’پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا‘‘، مئو ناتھ بھنجن آئے۔ آپ نے اس مراجعت کے بارے میں ایک مرتبہ لکھا تھا کہ ’’آئے تو تھے کہ ’بانگ مشرق‘ کی لو تیز کریں گے مگرجب وہ تیز ہونے کے بجائے مدھم ہوگئی اور دھیرے دھیرے بجھ ہی گئی تو سہارا کو سہارا دیا اور راشٹریہ سہارا کی نامہ نگاری سنبھال لی‘‘۔ فی الحال مئو ہی میں راشٹریہ سہارا کے بیورو انچیف ہیں اور بزم شعروادب کی سرپرستی آپ کے ذمہ ہے۔ وادی انوار بلڈنگ جس میں آپ کا آفس ہے، وہیں شام کو محفل سجتی ہے تو شاگردوں کی غزلوں کی اصلاح، اشعار پہ تبصرے، بوقت فرصت کی بورڈ اور ماؤس سنبھالے کچھ مزاحیہ مضامین اور اسی جیسی مختلف مشغولیات میں مصروف رہتے ہیں۔ خاص الخاص بات یہ ہے کہ آپ کے مضامین کبھی کاغذات پہ تحریر نہیں ہوتے بلکہ دماغ سے سیدھے کمپیوٹر کی اسکرین پہ منتقل ہوتے ہیں جہاں سے اگلے روز اخبار کی زینت بن کر قارئین کی عدالت میں پہنچ جاتے ہیں۔
انتہائی خوش مزاج، ہر بات کو ہنس کر کہنے کے عادی، سینہ کدورت و عناد سے پاک و صاف، ہر ایک سے رسم و راہ، نہ تو تو نہ میں میں، خاکساری اور تواضع کا وہ عالم کہ بچے بھی راہ چلتے دیکھیں تو حمزہ بھائی حمزہ بھائی کہہ کر پکار اٹھیں۔ کبھی شاگردوں کو سخت الفاظ میں تنبیہ نہیں کی ہمیشہ محبت سے جو کچھ بھی غلطیاں اور خامیاں ہوتی ہیں سمجھاتے ہیں۔ خوش مزاجی کا یہ عالم ہے کہ ایک روز شام میں ’’وادی انوار‘‘ میں نشست جمی ہوئی تھی، موضوع بحث خاکسار تھا، حضرت نے مزاحاً فرمایا کہ ’’دانش جب ہمارے قافلہ میں شامل ہوا تو مجھے ایسا لگا کہ مجھے کہیں سے الہ دین کا کوئی چراغ مل گیا، اسے میں نے زمین پر رگڑا اور دانش نکل آیا‘‘، لیکن ان مزاحیہ باتوں سے کبھی جب وہ سنجیدہ ہوتے ہیں تو مخاطب سوچنے کے لئے مجبور ہوجاتا ہے۔اگر ان سے منسلک واقعات کو حیطہ تحریر میں لایا جائے تو ایک دفتر درکار ہوگا، مختصر ایں کہ انہیں ساری خوش مزاجیوں اور مصروفیتوں کے ساتھ آج بھی یہ فنکار اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔چونکہ ساری تحریریں عموما کمپیوٹر ہی پر تحریر ہوتی ہے اور پھر ان کا کوئی باضابطہ ریکارڈ نہیں رکھا جاتا، اسی لئے اکثر تحریریں ضائع بھی ہوچکی ہیں۔ تصنیفات میں ’’وارث اور محبت‘‘ اور ’’مٹھی بھر سچ؟‘‘ قارئین سے داد و تحسین وصول کرچکیں۔ ’’کچی فصلیں‘‘ (مجموعہ کلام) طباعت کے مراحل سے گزار کر قارئین کے ہاتھوں میں پہنچا اور عوام نے اسے شرف قبولیت بخشا۔ جبکہ ’’آخری کنکر‘‘ (افسانوی مجموعہ) زیر ترتیب ہے، عنقریب قارئین کی خدمت میں پہنچ جائے گا۔
اگر بات کی جائے شعر و ادب کی تو آج کے شعری منظر نامے پر سماجی نابرابری، ظلم و ستم کے خلاف احتجاج، مزاحمت، صدائے انقلاب کی جلوہ افروزی نظر آتی ہے، امیر حمزہ ؔ کی شاعری بھی انہیں متنوع مضامین پر محیط ہے، جہاں آدمیت کا درد بھی ہے اور رسم پارینہ سے بغاوت کے جذبات بھی، جلوۂ خوباں بھی ہے اور بتخانہ دل کی ویرانی کا تماشہ بھی۔
کسی کو میرا ، کسی کا ہے انتظار مجھے
نہ اعتبار اسے ہے ، نہ اعتبار مجھے
نڈھال کر گئی ساون تری پھوار مجھے
بہت عزیز تھا پیراہن شرار مجھے
امیر حمزہ ؔ ایک ایسی شخصیت کا نام ہے جس نے زندگی کو انتہائی قریب سے دیکھا ہے اور اسے ویسے ہی محسوس کرنے کی کوشش کی ہے جیسا کہ وہ اصلا تھی ، شاید زندگی کو اس قدر قریب سے دیکھنا ہی ان کے جنون کی بنیاد بن گیا اور ان کے قلم خونچکاں سے کچھ اس طرح کے اشعار نکلنے لگے کہ ؎
مرے اعزہ مجھے بٹوریں کہ میں بھی
یکمشت مر کے دیکھوں
کہ وقفے وقفے سے تھوڑا تھوڑا،
بہت سی قسطوں میں مرگیا ہوں
امیر حمزہؔ اعظمی کے نزدیک ایک اچھا سخنور وہی ہوسکتا ہے جو ایک عدد حساس دل اپنے سینے میں رکھتا ہو اور جو دوسروں کا درد محسوس کرنے کی پوری پوری صلاحیت رکھتا ہو، انہوں نے ہمیشہ کہا ہے کہ ایک اچھا سخنور ہونے کے لئے سب سے پہلے فنکار کا ایک اچھا انسان ہونا ضروری ہے، سخت دلی اور انا پروری ان کے نزدیک کوئی معنی نہیں رکھتی، جیسا کہ وہ خود کہتے ہیں ؎
ہے یہ احقر کا نظریہ ، ہے یہ احقر کا مزاج
اچھا ہونا چاہئے اچھے سخنور کا مزاج
یہ ان کی حساسیت ہی ہے کہ وہ نئی نسل کی بے راہروی سے غمزدہ رہتے ہیں ، نئی نسل کے رجحانات سے وہ خائف ہیں، وہ چاہتے تو ہیں کہ کل کی نصف دنیا پر حکومت کرنے والی قوم بیدار ہوجائے اور اپنے آپ کو پہچان لے، لیکن وہ اس نسل کی اصلاح سے خوفزدہ بھی ہیں، نئی نسل کی بدزبانیاں ان کی ہمتوں کو توڑ دیتی ہے جب وہ کسی سے کچھ کہنے ، یا سننے کا ارادہ کرتے ہیں تو ایک انجانا خوف دامن گیر ہوتا ہے اور زبان کچھ بولنے سے انکار کردیتی ہے ؎
کون انہیں اچھا بنائے ، کون کھائے گالیاں
ہے بڑا گندہ نئی نسلوں میں اکثر کا مزاج
زندگی کے مصائب سے الجھتے ہوئے زندگی کے شب و روز کو انتہائی جوانمردی کے ساتھ طے کرتے جانا، اور ہر حال میں جبینِ نیاز کو سلوٹوں سے پاک و صاف رکھنا اور خود کو مطمئن و مسرور ظاہر کرنا امیر حمزہؔ اعظمی کی وہ خصوصیات ہیں جسے زمانے میں شاید ہی کوئی پا سکے،محترم خود ہی فرماتے ہیں ؎
یہ اعتماد وہ چرخ کبود زندہ باد
ہے زخم زخم ہمارا وجود زندہ باد
جو زندہ ہو کے بھی مردہ ہیں ایسے لوگوں میں
ہے بحثِ مسئلہ ہست وبود زندہ باد
یہ الجھنیں، یہ مصائب، یہ مسئلوں کے ہجوم
حسین شعروں کا پھر بھی ورود زندہ باد
کبھی کبھی نہ جانے وہ کس عالم وجدانی میں پہنچ جاتے ہیں کہ ان کے لہجے میں ایک عجیب سی متانت بھی آجاتی ہے لیکن اس متانت میں بھی شوخی کی آمیزش ہوتی ہے ؎
آپ کے رند کہاں حافظ و خیام کہاں
ظرف کو دیکھ کے اے قبلہ نما دینا تھا
لیکن ان مسائل سے الجھتے الجھتے ، کہیں کہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کے اندر کچھ ٹوٹ ٹوٹ کر بکھر رہا ہے، وہ اپنے کو سنبھالنے کی کوشش تو کرتے ہیں مگر اپنے تلخ ہوتے ہوئے لہجے کو دبا نہیں پاتے اور بالآخر غیر محسوس انداز میں وہ تلخی باہر آہی جاتی ہے جسے وہ بڑی سختی سے اندر ہی روکے رکھنے کی کوشش کررہے ہوتے ہیں ؎
تمہیں کیا؟ اس کو پوجوں یا پھر اپنے پیٹ پر باندھوں
بس اتنا جانتا ہوں مجھ کو پتھر کی ضرورت ہے
مری پہلی غزل یا یہ بیاض فکر و فن میری
وہ تمہید تمنا تھی یہ ارمانوں کی میت ہے
دستور زمانہ سے اکتایا ہوا انسان کبھی انتہائی جھنجھلاہٹ میں طنز کے تیر چلانے سے بھی نہیں چوکتا کہ ؎
کچھ ہی دیدیجے اسے سب کے برابر نہ سہی
ہے تو دیوانہ مگر قرض چکا دیتا ہے
لیکن ان سب کے باوجود ایک فنکار ، ایک شاعر، ایک ادیب کسی بھی قوم کی امانت اور اس کا بیش بہا سرمایہ ہوتا ہے، وہ کس قدر خلوص سے اپنی قوم کی خدمت کرنا چاہتا ہے، قوم نے اسے کسی قابل سمجھا ہو یا نہ سمجھاہو، اس کا اندازہ اس کے کلام کے ایک ایک شعر سے قارئین کو ہوتا رہتا ہے بشرطیکہ خلوص سے اسے پڑھا جائے اور اس کے درد کو سمجھنے کی کوشش کی جائے ،ورنہ ؎
مرا شعور و شعار و اشعار سب حد لاشعور میں ہیں
بساط نقد و نظر کے سر سے مثال صر صر گذر گیا ہوں

تبصرے بند ہیں۔