انسانی تاریخ کے عروج و زوال میں بنت حوا کاکردار

عمر فراہی

مصر میں جمہوری طریقے سے منتخب صدر ڈاکٹر مرسی کے خلاف فوجی بغاوت اور ان کی حمایت میں سڑکوں پر اتری بھیڑ پر جس طرح رمضان کے مہینے میں گولیاں برسائی گئیں یہ حادثہ خود اپنے آپ میں کسی ظلم عظیم سے کم نہیں تھا۔ لیکن اس کے بعد نہ صرف ڈاکٹر مرسی کے ساتھ نہتے مظاہرین کو بھی پابند سلاسل کیا گیابلکہ مجھے یاد نہیں ہے کہ مغلیہ سلطنت اور سلطنت عثمانیہ کے آخری دور تک اسلام کی تیرہ سو سالہ سیاسی تاریخ میں کسی مسلم حکومت میں کبھی بنت حوا کو بھی وہ چاہے کسی بھی مذہب اور قوم سے تعلق رکھتی ہوں ہتکڑیاں لگا کر پابند سلاسل کیا گیا ہو۔ لیکن اکیسویں صدی میں یہ کارنامہ مصر کے یہود نواز فوجی ڈکٹیٹر السیسی نے انجام دیا اور اس ظلم کی حمایت عرب کے دیگر موجودہ فرعونوں نے بھی کیا اور ابھی تک مسلسل کیا جارہا ہے۔

اکیسویں صدی کی اس فرعونیت سے پہلے یہ کارنامہ اسی مصر میں جمال ناصر اور شام میں حافظ الوحشی کے ذریعےانجام دیا گیا۔ مشہورو معروف سماجی خدمت گار زینب الغزالی کو نو سال اور شام کے ایک کالج میں زیر تعلیم ایک مسلم دوشیزہ مریم دباغ کو پانچ سال تک سلاخوں کے پیچھے جس خوفناک اذیت اور تشدد سے گذارا گیا یہ پوری داستان انہیں کی زبانی ان کی تصنیف "زنداں کے شب وروز” اور "صرف پانچ منٹ” میں پڑھا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ امریکی اور ایرانی حکومتوں میں عافیہ صدیقی اور ریحانہ جبار کے ساتھ جو ہورہا ہے اور جو ہوچکا ہے موجودہ مہذب جمہوری تاریخ سے پہلے قرآن میں فرعون کا تذکرہ آتا ہے جس نے ایک پوری قوم کی عورتوں کو قیدی بنا کر ان کی اولادوں کو اس لئےقتل کرنا شروع کردیاتھا کیونکہ اس کے نجومیوں کی پیشن گوئی تھی کہ بنی اسرائیل کا ایک نوجوان اس کی سلطنت کو تباہ کرنے کیلئے پیدا ہونے والا ہے۔ اس کے برعکس خلفائے راشدین کے بعد سلسلہ ملوکیت میں بھی مسلم حکمرانوں کی اتنی غیرت زندہ تھی کہ انہوں نے بنت حوا کی عفت و عصمت پر کبھی کوئی آنچ نہیں آنے دی۔

حجاز بن یوسف کو مسلم دور حکومت میں ایک ظالم اور جابر حکمراں کے طور پر جانا جاتا ہے لیکن پھر بھی اس نےہندوستان کی سرحد میں ایک عرب قافلے کو قیدی بنا لیےجانے پر اپنی فوج کو کوچ کرنے کا حکم دے دیا اور پھر محمد بن قاسم کی قیادت میں راجہ داہر سے جو معرکہ آرائی ہوئی اس واقعے کوتاریخ کےسنہرے باب میں شمار کیا جاتا ہے۔ تاریخ میں معتصم با اللہ کے اُس واقعے کو تمام مورخین نے نقل کیا ہے کہ اس نے اپنی سرحد کے باہر ایک عرب لڑکی کے اغوا کر لیے جانے اور اس کی اس چیخ وپکار پر کہ یا معتصم باللہ مجھے بچاؤ اپنی فوج کو اسی وقت کوچ کرنے کاحکم دیااور اس وقت تک بھوکا اور پیاسا اپنی فوج کو لیکر سفر کرتا رہا جب تک کہ اس نے لڑکی کو آزاد نہیں کروا لیا۔ ایک واقعہ اسی صدی میں طالبان کے دور کا ہے جب برطانیہ کی ایک خاتون جرنلسٹ ایون ریڈلی چوری چھُپے طالبان کی جاسوسی کرنے کیلئے ان کی سرحد میں داخل ہوگئی اور گرفتار ہوگئیں۔  طالبان نے نہ صرف ان کی عزت وعصمت کی حفاظت کی بلکہ انہیں بعد میں رہا بھی کردیا اور ایون ریڈلی نے رہائی کے بعد برطانیہ پہنچ کر اپنے اسلام میں داخل ہونے کا اعلان بھی کردیا۔ داعش جسے ایک خونخوار دہشت گرد تنظیم کہا جاتا ہے اور اس کی دہشت گردی کے تعلق سے تحریکی، سلفی ،دیوبندی اور شیعہ سبھی متفق ہیں جب انہوں نے 2013 میں موصل پر قبضہ کیا تو ان کے قبضے میں تقریباً چالیس ہندوستان کی نرسیں بھی آئیں اور انہیں یہ خوف لاحق ہوگیا کہ شاید اب ان کی عزت آبرو محفوظ نہ رہ پائے، اسپتال کے تہ خانوں میں چھپ گئیں۔

 کسی ذرائع سے داعش کے لوگوں سے رابطہ کرکے ہمارے ملک نے جب ان کی واپسی کا نظم کیا اور داعش کے لوگوں نے تہ خانوں میں چھپی نرسوں کو باہر آنے کیلئے کہا تو وہ ساری نرسیں خوف سے لرز رہی تھیں اور بیشتر تہ خانے سے آنے کو بھی آمادہ نہیں تھیں ، مگر جب انہوں نے دھمکی دی کہ اگر وہ باہر نہیں آتی ہیں تو پوری عمارت کو بارود سے اڑا دیا جائے گا ،نرسوں کو مجبوراً باہر آنا پڑا۔ داعش کے فوجیوں نے اپنی حفاظت میں ان تمام نرسوں کوایرپورٹ پر کھڑے ہندوستانی جہاز تک پہنچایا اور اس دوران راستے میں یقین بھی دلایا کہ آپ فکر نہ کریں آپ لوگ ہماری بہن جیسی ہیں آپ کو کچھ نہیں ہوگا۔  نرسوں کو اس بات پرمکمل یقین اس وقت ہوا جب وہ جہاز میں سوار ہوگئیں اور جہاز نے ان کے ملک کیلئے پرواز شروع کردی۔ یہ باتیں نرسوں نے خود ہندوستان پہنچ کر میڈیا کے سامنے بیان کیں۔

بہادر قوموں کی تاریخ بھی رہی ہے کہ نہ تو انہوں نے کسی قوم کی عورتوں کی عزت و آبرو پر حملہ کیا ہے اور نہ ہی اپنی عورتوں کی غیرت پر آنچ آنے دیا ہے۔ مگر جب وہ اپنی اس غیرت اور حمیت سے محروم ہوئیں توایسی قومیں صفحہءِ ہستی سے مٹا دی گئی ہیں۔ اسپین میں طارق بن زیاد کو اگر غلبہ حاصل ہوا اور مقامی عیسائی حکمراں اقتدار سے محروم ہوئے تو اس لئے کہ انہوں نے اپنے ہی ملک کی خوبصورت لڑکیوں کو جبراً اپنے حرم کی زینت بنانا شروع کردیا تھا۔ ہندوستان میں محمد بن قاسم اور محمود غزنوی کی آمد سے پہلے تک غریب اور پسماندہ قسم کے ہندو خاندان کی عورتوں کیلئے لازم تھا کہ وہ مندروں میں داسی کا کردار ادا کرتے ہوئے رقص وسرود کی محفلیں سجائیں۔  بہت سے غریب خاندان اپنی بہنوں اور بیٹیوں کے ساتھ ہورہے اس ظلم کو دیکھنے کے بعد بھی مہنتوں اور پجاریوں کے سامنے زبان نہیں کھول سکتے تھے کیونکہ یہی لوگ حکمراں طبقات کے ناظم اور امور مالیات کے اصل نگراں تھے یہی وجہ تھی کہ جب مسلم فوجیں ہندوستان کے علاقوں میں داخل ہوئیں تو یہاں کی آبادی نے کوئی مزاحمت نہیں کی -بعد میں مغلیہ سلطنت کے زوال کی وجہ بھی یہی تھی کہ بادشاہ شریف ماؤں کی بجائے لونڈیوں سے جنے جانے لگے۔

یہ واقعہ میری نظر سے تو نہیں گذرا لیکن پڑھائی کےدوران اپنے استاد سے سنا تھا کہ جب نادر شاہ درانی نے دلی پر حملہ کیا تو دلی کے شہزادے اپنی بیگمات کو محل میں تنہا چھوڑ کر بھاگ گئے۔  نادر شاہ جب دلی کے محل میں داخل ہوا تو اس نے محل میں موجود شہزادیوں کو اپنے اہل کاروں سےگنگھرو بھیجوائے اور حکم دیا کہ ان سے کہوکہ وہ فلاں کمرے میں آئیں اور رقص کریں۔  نادر شاہ درانی یہ حکم دیکر خود کمرے میں نیم برہنہ ہوکرگہری نیند میں ہونے کا بہانہ کرکے سو گیا اور ایک تلوار کمرے کے دروازے پر میز پر رکھ دی۔ ڈری سہمی شہزادیاں گھنگھرو پہن کر کمرے میں داخل ہوئیں اور رقص کرنے لگیں۔ کچھ وقفے کے بعد نادر شاہ درانی اٹھ کر بیٹھ گیا اور شہزادیوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ کیا تم وقت کے شاہوں کی بیویاں اور شہزادیاں ہو۔ اگر تمہارے اندر ذرہ برابر بھی غیرت اور شرم ہوتی تو تم رقص کرنے سے انکار کردیتیں اور پھر جب تم نے یہ دیکھا کہ وہ شخص جس نے تمہیں رقص کرنے کا حکم دیا ہے گہری نیند سو رہا ہے اور ممکن ہے کہ اس کے بعد تمہاری عزت و آبرو سے بھی کھلواڑ کرتا کیا تم میں سے کسی میں اتنی غیرت نہیں تھی کہ وہ سامنے رکھی ہوئی تلوار اٹھاتی اور مجھے قتل کردیتی۔ میرا مقصد تم سے رقص کروانا نہیں تھا بلکہ یہی دیکھنا تھا کہ آخر دلی کے شہنشاہوں کی شکست کی وجہ کیا تھی۔  اس نے ایک تاریخی جملہ ادا کیا کہ جب کسی قوم کی مائیں اور بیٹیاں بے غیرت ہوجائیں تو اس قوم سےبہادر نہیں بزدل پیدا ہوتے ہیں۔ وہ شہزادے جو اپنی جان بچا کر محل سے بھاگے ہیں اگر وہ بہادر ماؤں کی اولادیں ہوتیں تو سب سے پہلے تو وہ شکست ہی نہ کھاتے اور اگر ایسا ممکن بھی ہوتا تو یہ لوگ فرار ہوتے وقت اپنی بیویوں بہنوں اور بیٹیوں کو بھی ساتھ لے جاتے یا پھر تمہاری حفاظت کرتے ہوئے اپنی جان دے دیتے۔

یہ بات بھی سچ ہے کہ جو قوم اپنی ماؤں بہنوں بیویوں اور بیٹیوں کی حفاظت نہ کر سکے یا ان پر ظلم کی مرتکب ہو تو وہ کسی ریاست پر حکومت کرنے کا بھی حق کھو دیتی ہے۔ یقیناً قدرت نے ایسی قوموں سے اقتدار بھی چھین لیا ہے۔ لیکن تاریخ میں جب حضرت سمیہ حضرت عائشہ صدیقہ اور زینب جیسی ماؤں نے اپنی غیرت اور بہادری کا مظاہرہ کیا ہے تو اس قوم سے صرف اور صرف بادشاہ پیدا ہوئے ہیں اور پھر دنیا نے دیکھا کہ کس طرح وہی مشرکین جو اپنی بیٹیوں کا قتل کردیتے تھے جب اسلام میں داخل ہوئےتو عرب سے افریقہ یوروپ اور روس تک دوسری قوموں پر غالب آتے چلے گئے- اسلامی تاریخ کے عروج میں حضرت ہاجرہ ، مریم ،آسیہ اور حضرت خدیجتہ الکبریٰ اور فاطمہ کے کردار کو کون بھول سکتا ہے، جنھوں نے ایک ماں بیٹی اور بیوی کے کردار میں اسمٰعیل عیسیٰ، موسٰی کلیم اور وقت کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد علی اور حسین جیسے کردار کی پرورش اور خدمت کی۔

آج امریکہ ،مصر شام اور عراق کی جیلوں میں نو عمر مسلم دوشیزائوں کی چیخیں کسی بھی عرب مسلم حکمراں کو سنائی نہیں دیتیں۔  تاریخ کہتی ہے کہ سیتا کو اغوا کرنے والے اورراون اوردروپدی کی بے عزتی کرنے والے یدھشٹر کی عظیم سلطنت کا نام ونشان مٹ گیا تو پھرایک ایسے وقت میں جب کہ مصر کی عائشہ زینب سمیہ اور ہاجراؤں  نےاپنے ہاتھوں سےمہندی چھڑا کر ہتکڑیاں پہن ہی لی ہیں تو کیا عرب کے فرعون ان کی اولادوں کے عتاب سے بچ سکیں گے۔ شاید عرب کے حکمراں قذافی زین العابدین اور حسنی مبارک اور عبداللہ صالح سے کوئی سبق لینے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ تاریخ کے اسی بھولے ہوئے سبق کو یاد دلاتے ہوئے اقبال نے کہا تھا؎

  کھول کرآنکھیں مری آئینہ ءِ گفتار میں۔ ۔

آنے والے دور کی دھندھلی سی اک تصویر دیکھ

تبصرے بند ہیں۔