انسانی تمدن و تہذیب کیلئے پردہ کیوں ضروری ہے؟ (دوسری قسط)

ترتیب:عبدالعزیز

میلان صنفی کی تعدیل:

سب سے اہم اور مقدم سوال خود اس صنفی کشش اور میلان کا ہے کہ اس کو طرح قابو میں رکھا جائے۔ پہلے اوپر بیان کیا جاچکا ہے کہ انسان کے اندر یہ میلان تمام حیوانات سے زیادہ طاقتور ہے۔ نہ صرف یہ کہ انسانی جسم کے اندر صنفی تحریک پیدا کرنے والی قوتیں زیادہ شدید ہیں بلکہ باہر بھی اس وسیع کائنات میں ہر طرف بے شمار صنفی محرکات پھیلے ہوئے ہیں ۔ یہ چیز جس کیلئے فطرت نے خود ہی اتنے انتظامات کر رکھے ہیں ۔ اگر انسان بھی اپنی توجہ اور قوتِ ایجاد سے کام لے کر اس کو بڑھانے اور ترقی دینے کے اسباب مہیا کرنے لگے اور ایسا طرز تمدن اختیار کرے جس میں اس کی صنفی پیاس بڑھتی چلی جائے اور پھر اس پیاس کو بجھانے کی آسانیاں بھی پیدا کی جاتی رہیں تو ظاہر ہے کہ اس صورت میں یہ حد مطلوب سے بہت زیادہ متجاوز ہوجائے گی۔ انسان کا حیوانی عنصر اس کے انسانی عنصر پر پوری طرح غالب ہوجائے گا اور یہ حیوانیت اس کی انسانیت اور اس کے تمدن دونوں کو کھاجائے گی۔

 صنفی تعلق اور اس کے مبادی اور محرکات میں سے ایک ایک چیز کو فطرت نے لذیز بنایا ہے مگر جیسا کہ ہم پہلے اشارہ کرچکے ہیں ، فطرت نے یہ لذت کی چاٹ محض اپنے مقصد یعنی تعمیر تمدن کیلئے لگائی ہے۔ اس چاٹ کا حد سے بڑھ جانا اور اسی میں انسان کا منہمک ہوجانا نہ صرف تمدن بلکہ خود انسان کی بھی تخریب و ہلاکت کا موجب ہوسکتا ہے، ہورہا ہے اور بارہا ہوچکا ہے۔

 جو قومیں تباہ ہوچکی ہیں ان کے آثار اور ان کی تاریخ کو دیکھئے، شہوانیت ان میں سے حد سے متجاوز ہوچکی تھی۔ ان کے لٹریچر اسی قسم کے ہیجان انگیز مضامین سے لبریز پائے جاتے ہیں ۔ ان کے تخیلات، ان کے افسانے، ان کے اشعار، ان کی تصویریں ، ان کے مجسّمے، ان کے عبادت خانے، ان کے محلات، سب کے سب اس پر شاہد ہیں ۔ جو قومیں اب تباہی کی طرف جارہی ہیں ان کے حالات بھی دیکھ لیجئے۔ وہ اپنی شہوانیت کو آرٹ اور ادبِ لطیف اور ذوقِ جمال اور ایسے کتنے ہی خوشنما اور معصوم ناموں سے موسوم کرلیں مگر تعبیر کے بدل جانے سے حقیقت نہیں بدلتی۔ یہ کیا چیز ہے کہ سوسائٹی میں عورت کو عورتوں سے زیادہ مرد کی صحبت اور مرد کو مردوں سے زیادہ عورتوں کی معیت مرغوب ہے؟ یہ کیوں ہے کہ عورتوں اور مردوں میں تزئین و آرائش کا ذوق بڑھتا چلا جارہا ہے؟ اس کی کیا وجہ ہے کہ مخلوط سوسائٹی میں عورت کا جسم لباس سے باہر نکلا پڑتا ہے؟ وہ کون سی شئے ہے جس کے سبب عورت اپنے جسم کے ایک ایک حصہ کو کھول کھول کر پیش کر رہی ہے اور مردوں کی طرف سے ہَلْ مِنْ مَزِیْد (دل مانگے مور) کا تقاضا ہے؟ اس کی کیا علت ہے کہ برہنہ تصویریں ، ننگے مجسّمے اور عریاں ناچ سب سے زیادہ پسند کئے جاتے ہیں ؟ اس کا کیا سبب ہے کہ سنیما میں اس وقت تک لطف ہی نہیں آتا، جب تک عشق و محبت کی چاشنی نہ ہو اور اس پر صنفی تعلقات کے بہت سے قولی اور فعلی مبادی کا اضافہ نہ کیا جائے؟

  یہ اور ایسے ہی بہت سے مظاہر اگر شہوانیت کے مظاہر نہیں تو کس چیز کے ہیں ؟ جس تمدن میں ایسا غیر معتدل شہوانی ماحول پیدا ہوجائے اس کا انجام تباہی کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے۔

  ایسے ماحول میں صنفی میلان کی شدت اور پیہم ہیجان اور مسلسل تحریک کی وجہ سے ناگزیر ہے کہ نسلیں کمزور ہوجائیں ، جسمانی اور عقلی قوتوں کا نشو و نما بگڑ جائے، قوائے ذہنی پراگندہ ہوجائیں ۔ فواحش کی کثرت ہو، امراض خبیثہ کی وبائیں پھیلیں ۔ منع حمل اور اسقاط حمل اور قتل اطفال جیسی تحریکیں وجود میں آئیں ، مرد اور عورت بہائم کی طرح ملنے لگیں بلکہ فطرت نے ان کے اندر جو صنفی میلان تمام حیوانات سے بڑھ کر رکھا ہے، اس کو وہ مقاصد فطرت کے خلاف استعمال کریں اور اپنی بہیمیت میں تمام حیوانات سے بازی لے جائیں ، حتیٰ کہ بندروں اور بکروں کوبھی مات کردیں ۔ لامحالہ ایسی شدید حیوانیت انسانی تمدن و تہذیب بلکہ خود انسانیت کو بھی غارت کر دے گی اور جو لوگ اس میں مبتلا ہوں گے ان کا اخلاقی انحطاط ان کو ایسی پستی میں گرائے گا جہاں سے وہ پھر کبھی نہ اٹھ سکیں گے۔

ایسا ہی انجام اس تمدن کا بھی ہوگا جو تفریط کا پہلو اختیار کرے گا، جس طرح صنفی میلان کا حد اعتدال سے بڑھ جانا مضر ہے۔ اسی طرح اس کو حد سے زیادہ دبانا اور کچل دینا بھی مضر ہے۔ جو نظام تمدن انسان کو سنیاس اور برہمچریہ اور رہبانیت کی طرف لے جانا چاہتا ہے، وہ فطرت سے لڑتا ہے اور فطرت اپنے مد مقابل سے کبھی شکست نہیں کھاتی بلکہ خود اسی کو توڑ کر رکھ دیتی ہے، خالص رہبانیت کا تصور تو ظاہر ہے کہ کسی تمدن کی بنیاد بن ہی نہیں سکتا، کیونکہ وہ در اصل تمدن و تہذیب کی نفی ہے؛ البتہ راہبانہ تصورات کو دلوں میں راسخ کرکے نظام تمدن میں ایک ایسا غیر صنفی ماحول ضرور پیدا کیا جاسکتا ہے جس میں صنفی تعلق کو بذات خود ایک ذلیل، قابل نفرت اور گھناؤنی چیز سمجھا جائے۔ اس سے پرہیز کرنے کو معیار اخلاق قرار دیا جائے اور ہر ممکن طریقے سے اس میلان کو دبانے کی کوشش کی جائے مگر صنفی میلان کا دبنا در اصل انسانیت کا دبنا ہے۔ وہ اکیلا نہیں دبے گا بلکہ اپنے ساتھ انسان کی ذہانت اور قوت عمل اور عقلی استعداد اور حوصلہ و عزم اور ہمت و شجاعت سب کو لے کر دب جائے گا، اس کے دبنے سے انسان کی ساری قوتیں ٹھٹھر کر رہ جائیں گی، اس کا خون سرد اور منجمد ہوکر رہ جائے گا۔ اس میں ابھرنے کی کوئی صلاحیت باقی نہ رہے گی، کیونکہ انسان کی سب سے بڑی محرک طاقت یہی صنفی طاقت ہے۔

 پس صنفی میلان کو افراط و تفریط سے روک کر توسط و اعتدال کی حالت پر لانا اور اسے ایک مناسب ضابطے سے منضبط (Regulate) کرنا ایک صالح تمدن کا اولین فریضہ ہے۔ اجتماعی زندگی کا نظام ایسا ہونا چاہئے کہ وہ ایک طرف غیر معتدل (Abnormal) ہیجان و تحریک کے ان تمام اسباب کو روک دے جن کو انسان خود اپنے ارادے اور اپنی لذت پرستی سے پیدا کرتا ہے اور دوسری طرف فطری (Normal) ہیجانات کی تسکین و تشفی کیلئے ایسا راستہ کھول دے جو خود منشائے فطرت کے مطابق ہو۔

 خاندان کی تاسیس:

اب یہ سوال خود بخود ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ فطرت کا منشاء کیا ہے؟ کیا اس معاملہ میں ہم کو بالکل تاریکی میں چھوڑ دیا گیا ہے کہ آنکھیں بند کرکے ہم جس چیز پر چاہیں ہاتھ رکھ دیں اور وہی فطرت کا منشاء قرار پاجائے؟ یا نوامیس فطرت پر غور کرنے سے ہم منشاء فطرت تک پہنچ سکتے ہیں ؟ شاید بہت سے لوگ صورت اول ہی کے قائل ہیں اور اسی لئے وہ نوامیس فطرت پر نظر کئے بغیر ہی کیف ما اتفق جس چیز کو چاہتے ہیں ، منشاء فطرت کہہ دیتے ہیں ، لیکن ایک محقق جب حقیقت کی جستجو کیلئے نکلتا ہے تو چند ہی قدم چل کر اسے یوں معلوم ہونے لگتا ہے کہ گویا فطرت آپ ہی اپنے منشاء کی طرف صاف انگلی اٹھاکر اشارہ کر رہی ہے۔

 یہ تو معلوم ہے کہ تمام انواع حیوانی کی طرح انسان کی بھی زوجین یعنی دو صنفوں کی صورت میں پیدا کرنے اور ان کے درمیان صنفی کشش کی تخلیق کرنے سے فطرت کا اولین مقصد بقائے نوع ہے، لیکن انسان سے فطرت کا مطالبہ صرف اتنا ہی نہیں ہے بلکہ وہ اس سے بڑھ کر کچھ دوسرے مطالبات بھی کرتی ہے اور ادنیٰ ہمیں معلوم ہوسکتا ہے کہ وہ مطالبات کیا ہیں اور کس نوعیت کے ہیں۔

  سب سے پہلے جس چیز پر ہماری نظر پڑتی ہے وہ یہ ہے کہ تمام حیوانات کے برعکس انسان کا بچہ نگہداشت اور پرورش کیلئے بہت زیادہ وقت، محنت اور توجہ مانگتا ہے، اگر اس کو مجرد ایک حیوانی وجودہی کی حیثیت سے لے لیا جائے۔ تب بھی ہم دیکھتے ہیں کہ اپنی حیوانی ضروریات کو پوری کرنے، یعنی غذا حاصل  کرنے اور اپنے نفس کی مدافعت کرنے کے قابل ہوتے ہوتے وہ کئی سال لے لیتا ہے اور ابتدائی دو تین سال تک تو وہ اتنابے بس ہوتاہے کہ ماں کی پیہم توجہ کے بغیر زندہ ہی نہیں رہ سکتا۔

 لیکن یہ ظاہر ہے کہ انسان خواہ وحشت کے کتنے ہی ابتدائی درجہ میں ہو، بہر حال نرا حیوان نہیں ہے، کسی نہ کسی مرتبہ کی مدنیت بہر حا؛ل اس کی زندگی کیلئے ناگزیر ہے اور اس مدنیت کی وجہ سے پرورش اولاد کے فطری تقاضے پر لامحالہ دو اور تقاضوں کا اضافہ ہوجاتا ہے۔ ایک یہ بچہ کی پرورش میں ان تمام تمدنی وسائل سے کام لیا جائے جو اس کے پرورش کرنے والے کو بہم پہنچ سکیں۔ دوسرے یہ کہ بچے کو ایسی تربیت دی جائے کہ جس تمدنی ماحول میں وہ پیدا ہوا ہے وہاں تمدن کے کارخانے کو چلانے اور سابق کارکنوں کی جگہ لینے کیلئے وہ تیار ہوسکے۔

 پھر تمدن جتنا زیادہ ترقی یافتہ اور اعلیٰ درجہ کا ہوتا جاتا ہے یہ دونوں تقاضے بھی اتنے ہی زیادہ بھاری اور بوجھل ہوتے چلے جاتے ہیں ۔ ایک طرف پرورشِ اولاد کے ضروری وسائل و لوازم بڑھتے جاتے ہیں اور دوسری طرف تمدن نہ صرف اپنے قیام و بقا کیلئے اپنے مرتبے کے مطابق اچھے تعلیم و تربیت یافتہ کارکن مانگتا ہے بلکہ اپنے نشو و ارتقاء کیلئے یہ بھی مطالبہ کرتا ہے کہ ہر نسل پہلی نسل سے بہتر اٹھے یعنی دوسرے الفاظ میں ہر بچے کا نگہبان اس کو خود اپنے آپ سے بہتر بنانے کی کوشش کرے۔ انتہا درجہ کا ایثار جو انسان سے جذبۂ خود پسندی تک کی قربانی مانگتا ہے۔

 یہ فطرت انسانی کے مطالبات اور ان مطالبات کی اوّلین مخاطب عورت ہے۔ مرد ایک ساعت کیلئے عورت سے مل کر ہمیشہ کیلئے اس سے اور اس ملاقات کی ذمہ داری سے الگ ہوسکتا ہے، لیکن عورت کو تو اس ملاقات کا قدرتی نتیجہ برسوں کیلئے بلکہ عمر بھر کیلئے پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے۔ حمل قرار پاجانے کے بعد سے کم از کم پانچ برس تک تو یہ نتیجہ اس کا پیچھا کسی طرح چھوڑتا ہی نہیں ۔ اور اگر تمدن کے پورے مطالبات ادا کرنے ہوں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ مزید پندرہ سال تک وہ عورت جس نے ایک ساعت کیلئے مرد کی معیت کا لطف اٹھایا تھا، اس کی ذمہ داریوں کا بار سنبھالتی رہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک مشترک فعل کی ذمہ داری قبول کرنے کیلئے تنہا ایک فریق کس طرح آمادہ ہوسکتا ہے؟ جب تک عورت کو اپنے شریک کار کی بے وفائی کے خوف سے نجات نہ ملے، جب تک اسے اپنے بچے کی پرورش کا پورا اطمینان نہ ہوجائے گا ، جب تک اسے خود اپنی ضروریاتِ زندگی فراہم کرنے کے کام سے بھی ایک بڑی حد تک سبکدوش نہ کر دیا جائے وہ اتنے بھاری کام کا بوجھ اٹھانے پر کیسے آمادہ ہوجائے گی؟ جس عورت کا کوئی قوام (Protector, Provider) نہ ہو اس کیلئے تو حمل یقینا ایک ھادثہ، ایک مصیبت بلکہ ایک خطرناک بلا ہے، جس سے چھٹکارا پانے کی خواہش اس میں طبیعی طور پر پیدا ہونی ہی چاہئے۔ آخر وہ اسے خوش آمدید کس طرح کہہ سکتی ہے؟

 لا محالہ یہ ضروری ہے۔ اگر نوع کا بقاء اور تمدن کا قیام و ارتقاء ضروری ہے کہ جو مرد جس عورت کو بار آور کرے وہی اس بار کو سنبھالنے میں اس کا شریک بھی ہو، مگر اس شرکت پر اسے راضی کیسے کیا جائے؟ وہ تو فطرتاً خود غرض واقع ہوا ہے، جہاں تک بقائے نوع کے طبعی فریضے کا تعلق ہے، اس کے حصے کا کام تو اسی ساعت پورا ہوجاتا ہے جبکہ وہ عورت کو بار آور کردیتا ہے۔ اس کے بعد وہ بار تنہا عورت کے ساتھ لگا رہتا ہے اور مرد سے وہ کسی طرح بھی چسپاں نہیں ہوتا۔ جہاں تک صنفی کشش کا تعلق ہے وہ بھی اسے مجبور نہیں کرتی کہ اسی عورت کے ساتھ وابستہ رہے۔ وہ چاہے تو اسے چھوڑ کر دوسری اور دوسری کو چھوڑ کر تیسری سے تعلق پیدا کرسکتا ہے اور ہر زمین میں بیج پھینکتا پھرسکتا ہے، لہٰذا اگر یہ معاملہ محض اس کی مرضی پر چھوڑ دیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ بخوشی اس بار کو سنبھالنے کیلئے آمادہ ہوجائے۔

آخر کون سی چیز اسے مجبور کرنے والی ہے کہ وہ اپنی محنتوں کا پھل اس عورت اور اس بچے پر صرف کرے؟ کیوں وہ ایک دوسری حسین دوشیزہ کو چھوڑ کر اس پیٹ پھولی عورت سے اپنا دل لگائے رکھے؟ کیوں وہ گوشت پوست کے ایک بیکار لوتھڑے کو خواہ مخواہ اپنے خرچ پر پالے؟ کیوں اس کی چیخوں سے اپنی نیند حرام کرے؟ کیوں اس چھوٹے سے شیطان کے ہاتھوں اپنا نقصان کرائے جو ہر چیز کو توڑتا پھوڑتا اور گھر بھر میں گندگی پھیلاتا پھرتا ہے اور کسی کی سن کر نہیں دیتا؟ (جاری)

1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    ایک صاحب اپناواقعہ بیان کرتےہوئےکہتےہیں کہ :
    کچھ دن پہلے ایک خاتون سے دوپہر کو ملاقات ہوئی جو جسم فروش تھیں رات کو چونکہ وہ روزی کمانے میں مصروف ہوتی ہیں اس وجہ سے دن میں ملاقات کرنی پڑی ویسے بھی ایک مسلمان کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ کسی کی روزی کمانے کے وقت اس کو مشکل میں ڈالے، انہوں نے بہت عزت کے ساتھ ڈرائنگ روم میں بٹھایا ، خاطر مدارت کی ، ان کا حال پوچھنے کے بعد میں نے سوال کیا کہ آپ اس بے لذت کام میں کیسے پھنس گئیں ؟ ایک لمحے کیلئےان کے چہرے پر اداسی چھلکی پھر مسکرا کربولیں کہ :
    عشق ہوگیا تھا اور محبت میں اندھی ہوکر گھر سے بھاگ نکلی کچھ دن محبوب نے چار دیواری میں میری چادر اتار کر دل و جان سے محبت کی اور اس کے بعد نہ سر ڈھانپنے کو دیوار رہی نہ چادر رہی جب واپسی کا سفر کرنے کا سوچا تو خیال آیا کہ بھاگنے کا فیصلہ تو میرا تھا اب اگر گھر گئی تو جو تھوڑی بہت والدین کی عزت بچی ہے وہ بھی لوگ تارتار کر دیں گے رہنے کو ایک جگہ ٹھکانا ملا جہاں مجھ جیسی لڑکیاں تھیں اور بس پھر جسم ہی روزی روٹی کا سبب بن گیا ،، سوال کیا کہ والدین تو معاف کر ہی دیتے ہیں ان کا نرم دل ہوتا ہے تو ایک بار چلی جاتیں ؟
    تو مسکرا کر بولیں کہ:
    معاف تو اللہ بھی کردیتا ہے لیکن لوگ معاف نہیں کرتے عورت کا منہ کالا ہو جائے تو پھر یہ دنیا والے کبھی گورا ہونے نہیں دیتے ، مرتے دم تک کالا ہی رہتا ہے، سوال کیا کہ :
    چلیں بھیک مانگ لیتیں کم سے کم جسم فروشی سے تو اچھا کام ہے ؟
    تو بولیں یہ سب کتابی باتیں ہیں کوئی کسی بھکارن کو کرائے کا کمرہ بھی نہیں دیتا جھونپڑی میں بھی نہیں رکھتا عزت بیچ کر کم سے کم عزت سے تو رہ لیتی ہوں ، اپنا گھر ہے اپنا بستر ہے اس دنیا میں اسی کی عزت ہے جس کے پاس پیسہ ہے یہ دنیا تو منافق لوگوں سے بھری پڑی ہے جو نیکی کا درس دیتے ہیں اور اندر سے شیطان ہیں، کسی مولوی کو کہیں کہ طوائف سے شادی کرے گا تو وہیں بولتی بند ہو جائے گی_
    سوال کیا کہ محبت کیا ہے؟
    تو کچھ لمحے خاموش رہنے کے بعدبولیں کہ :
    محبت بھی ایک دھندہ ہے، مرد اپنی رقم انویسٹ کرتا ہے اور پھر محبوبہ کے جسم سے کھیل کر سود سمیت واپس لیتا ہے اب وہ عورت اپنے محبوب کے رحم و کرم پر ہوتی ہے مرضی ہے شادی کرلے اور مرضی ہے چھوڑ دے جو لوگ سچ میں محبت کرتے ہیں وہ نکاح کا راستہ اختیار کرتے ہیں ، سوال کیا کہ کیاگناہ کرتے ہوئے تکلیف نہیں ہوتی؟ تو بولیں کہ:
    جب انسان گندگی کے ڈھیر میں رہنے لگ جائے تو پھر اسے بدبو نہیں آتی….!!

تبصرے بند ہیں۔